الواقعۃ شمارہ ١، ٢
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
قسط ١ اور ٢
الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیأت اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ.
اما بعد ! واضح ہوکہ قرآن شریف کے جملہ احکام کی تعمیل مسلمانوں پر لازم ہے ۔ اسی لیے ضروری ہے کہ اسے سیکھیں ، تلاوت کرتے رہیں ، اور یہ نہ ہوسکے تو سن کر ہی اس پر عمل کریں ۔ پس بعض نمازوں میں جہراً بھی تلاوت واجب کی گئی اور مسلمانوں کے لیے حضوری جماعت لازم و متحتم ہوئی ، اور حضرت رسول اللہ ۖ کو ارشاد ہوا ( اور جو حکم کہ آپ کے لیے مخصوص نہ ہوا اس میں تمام مسلمان شامل ہیں ) :
( و ذکر فانّ الذکری تنفع المومنین ) [ الذاریات : ٥٥ ]
''آپ نصیحت کرتے رہیے اس لیے کہ وعظ و نصیحت مسلمانوں کو فائدہ بخش ہے ۔''
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ
'' انّما بعثت معلماً '' (١)
'' میں اسی لیے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ تم لوگوں کو دین کی باتیں سکھائوں ۔ ''
اس ارشاد کی تعمیل کی غرض سے ہفتہ میں ایک بار بطور تعلیم دین و عظ و نصیحت فرض ہوئی ، اور وہ دن جمعہ کا ہے اور وعظ و نصیحت یہی خطبہ ہے جو جمعہ کی نماز میں شرط ہے ۔ پھر نمازِ جمعہ کا یہ اہتمام کیا گیا کہ تمام کاروبارِ دنیا موقوف کرکے آنا ضروری ٹھہرایا گیا اور فرمایا:
( اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ) [الجمعة : ٩ ] یعنی "جب صلوٰة جمعہ کی اذان سنو تو اللہ کی یاد ( یعنی خطبہ ) کی طرف دوڑو اور بیچ کھونچ[خرید و فروخت ] موقوف کردو".
اور حدیث شریف میں آیا ہے :
عن أبی ھریرة و ابن عمر : '' انہما سمعا رسول اللّٰہ ۖ یقول علی اعواد منبرہ لینتہین اقوام عن ودعہم الجمعات او لیختمن اللّٰہ علی قلوبہم ثم لیکونن من الغافلین ۔''رواہ مسلم و ابن ماجة (٢)
حضرت ابو ہریرہ اور ابن عمر نے رسول اللہ ۖ کو منبر کے اوپر فرماتے سنا کہ '' لوگ جمعہ کی نماز کو ترک کرنے سے باز آئیں ، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دل پر مہر کردے گا پھر اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دین کی طرف سے لاپروائی کرنے والوں میں ہو جائیں گے ۔ ''
اور بلحاظِ شفقت اور آسانی کے صرف جمعہ کے دن ظہر میں سے دو رکعت کو کم کرکے ان کی جگہ دو خطبے مقرر کیے گئے اس لیے کہ اگر ہر روز ہوتا تو تکلیف ہوتی ۔ ماہوار یا سا ل بسال ہوتا تو بعد بعید ہوجاتا اور جمعہ کے دن چاروں رکعتیں بھی بحال رہتیں اور دو خطبے بھی تو حرج لازم آتا ۔
اور چونکہ نصیحت کے لیے استماع اور حضورِ قلب ضروری ہے ۔ خطبہ کے وقت سکوت اور سکون محض کی تاکید فرمائی
( فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا )[ الاعراف : ٢٠٤] "چپ چاپ سنتے رہو"
اور حدیث شریف میں آیا ہے :
'' عن ابی ھریرة ان النبی ۖ قال اذا قلت لصاحبک یوم الجمعة انصت و الامام یخطب فقد لغوت ۔ '' رواہ البخاری (٣)
[ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن خاموش رہنے کے لیے کہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے یقینا لغو کام کیا ۔]
اور نصیحت کے لیے بہترین کلام ، کلام اللہ ہے اس لیے فرمایا :
( فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ ) [ق : ٤٥] "آپ بذریعہ قرآن کے نصیحت فرمائیں ، اس کو جو میرے عذاب سے ڈرتا ہے ۔ ''
اور حدیث میں آیا ہے :
'' ان ھذا القرآن حبل اللّٰہ و النور المبین و الشفآء النافع ۔ '' رواہ الحاکم عن ابن مسعود (٤)''یہ قرآن اللہ کی ڈوری ہے ، اور جگمگاتا نور ہے اور دل کے روگ کی نافع شفا ہے ۔ ''
اس ارشاد کی تعمیل کی غرض سے رسول اللہ ۖ نے جمعہ کے دن سورئہ ق کا پڑھنا خطبہ میں اختیار فرمایا ۔
عن ام ھشام بنت حارثة بن النعمان قالت : ما أخذت ق والقرآن المجید الا علی لسان رسول اللّٰہ ۖ کان یقرأ بہا کل یوم جمعة علی المنبر اذا خطب الناس ۔'' رواہ احمد (٥)ام ہشام صحابیہ فرماتی ہیں کہ '' میں نے سورئہ ق حضرت ہی کے زبان مبارک سے سیکھ کر یاد کرلی آپ اس سورت کو منبر پر ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھا کرتے تھے ۔ ''
اس حدیث سے جمعہ کے خطبے میں اس سورہ کا پڑھنا مسنون ثابت ہوتا ہے ۔ اس کی تخصیص میں یہ بھید ہے کہ
( اوّل ) تذکیر اور وعظ کے لیے سب سے زیادہ مؤثر آلہ موت کی یاد دہانی ہے ، اور قیامت کا ہولناک واقعہ سنانا ، اللہ کے نافرمان بندوں کے دنیا دین میں رسوا ہونے کا بیان اور یہ سورہ باوجود اس قدر مختصر ہونے کے ان تمام بیانات کی جامع ہے ۔
( دوسرے ) ساری خوبیوں کی اصل اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب پر اور رسول پر ایمان لانا ہے اور یہ سورت بتمامہا اسی کے اثبات میں اتری ہے ۔
( تیسرے ) رسول اللہ ۖ کی اور مسلمانوں کی اس سورت میں نہایت تسلی فرمائی ہے اور صبر کا حکم دیا ہے پس ہر ہفتے اس کا اعادہ مجمع عام میں مسلمانوں کے پر زور اور غم دیدہ دل کی نہایت تشفی کا باعث ہے ۔
( چوتھے ) منکرین ہمیشہ آپ کی نبوت کے انکار میں نئے نئے عذر پیش کرتے ، کبھی شاعر کہتے ، کبھی کاہن ، کوئی مجنون بتلاتا ، تو کوئی معلم ، کوئی مفتری کہتا ، کوئی اساطیر اوّلین کا ناقل ، جس کے سبب سے ان کے تزلزل رائے کا بخوبی پتہ لگتا ہے ، اور جناب سیّد المرسلین رسول برحق کا ہمیشہ ایک دعوے کو مختلف دلائل سے ثابت کرتے رہنا اور بر ملا ہزاروں آدمیوں کے رُوبرو بار بار اپنے دعویٰ کا بڑے زور سے ظاہر کرتے رہنا دلیل ہے آپ کے استقلال اور آپ کے دعویٰ کے قوت کی ۔
( پانچویں ) قیامت کے دن شیطان اور کفار میں جھگڑا اور اس کے جواب میں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ( مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ ) [ق : ٢٩] "ہمارے یہاں ہر لحظہ ردّ و بدل نہیں ہوا کرتی ۔ '' اس میں مذکور ہے ۔ تو گویا ہر جمعہ میں ایک سورة التزام جس میں بار بار ایک ہی مضمون آتا رہتا ہے ۔ اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا اسی کیفیت کی یاددہانی اور اشارہ ہے ۔
نظر بریں وجوہات اس سورت کی تفسیر لکھنے کی میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ عام خلق خدا کو اس کے سمجھنے کا ثواب ملے اور اس پر عمل کی توفیق ہو اور اس صورت سے نبی ۖ کی ہر ہفتے میں جمعہ کے خطبہ میں اس کو اختیار کرنے سے جو غرض تھی ، وہ باقی رہے ۔ و اللّٰہ أسالہ ان یجعلہ خالصا لوجھہ الکریم و ینفعنی بہ اولا ثم کل من یرید ان یسلک الصراط المستقیم انہ تعالیٰ جواد کریم و صلّی اللّٰہ علیہ رسولہ محمد و الہ و صحبہ بالتسلیم ۔
{جاری ہے۔۔۔}
حواشی
(١) سنن الدارمی : کتاب المقدمة ، باب فی فضل العلم والعالم ۔ سنن ابن ماجہ : کتاب المقدمة ، باب فضل العلما والحث علی طلب العلم ۔علامہ سندھی اور شیخ البانی کے مطابق بہ لحاظ اسناد حدیث ضعیف ہے ۔
(٢) صحیح مسلم : کتاب الجمعة ، باب التغلیظ فی ترک الجمعة ۔ سنن ابن ماجہ : کتاب المساجد و الجماعات ، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعة ۔مسند أحمد : و من مسند بنی ہاشم ، بدایة مسند عبد اللّٰہ بن العباس ۔صحیح مسلم کے سوا بقیہ روایات میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جگہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام ہے ۔
(٣) صحیح بخاری : کتاب الجمعة ، باب الانصات یوم الجمعة والامام یخطب واذا قا ل لصاحبہ انصت۔صحیح مسلم : کتاب الجمعة ، باب فی الانصات یوم الجمعة فی الخطبة ۔ سنن ابن ماجہ : کتاب اقامة الصلاة و السنة فیھا ، باب ما جاء فی الاستماع للخطبة والانصات لہا۔
(٤) سنن الدارمی : کتاب فضائل القرآن ، باب فضل من قرأ القرآن ۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : کتاب فضائل القرآن ، باب اخبار فی فضائل القرآن جملة ۔ امام حاکم کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے تاہم امام شمس الدین الذہبی اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ۔
(٥) مسند احمد : مسند القبائل ، حدیث ام ہشام بن حارثہ بن النعمان رضی اللہ عنہا ۔ صحیح مسلم : کتاب الجمعة ، باب تخفیف الصلاة و الخطبة ۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، - جمادی الثانی 1433ھ / اپریل، مئی 2012- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
ذیل میں قسط نمر 2 پیش کی جارہی ہے:
( ق ) یہ حرف اور جو ایسے ایسے حروف سورتوں کے شروع میں مذکور ہیں ، ان کے معنوں کو سوائے اللہ اور رسول ۖ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہر دوست اپنے دوست کے لیے کچھ نہ کچھ اشارے رکھتا ہے جن کو اغیار نہیں سمجھ سکتے ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے مقام پر پر ٹھہرنا چاہیے ، اور آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرنی چاہیے جس قدر معلوم ہے ، اس پر شکر احسان ہے ، اور جو مخفی ہے اس پر ایمان ہے ۔
ایسی محترم چیز کی قسم کھا کر کفار سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ہماری طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں ، اور قیامت کے عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے کی غرض سے بھیجے گئے ہیں ۔
آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی تعجب خیز بات سنتا ہے ، تو اوّلاً اس کی صحت میں شک کرتا ہے ، مگر جب دیکھتا ہے کہ کہنے والا نہایت راست گو ، دیانتدار ہے ، اور بقسم بیان کرتا ہے ، تو اس کا شک دور ہوجاتا ہے اور ایسی حالت میں کم از کم اس قدر ضرور کہتا ہے کہ جب تمہارے جیسا دیانت دار اور سچا آدمی بڑے دعوے سے کہہ رہا ہے تو اگرچہ میری عقل میں نہیں آتی مگرسچ مان لیتا ہوں ۔ لیکن ان کفار کا ( آپ کی راستی کا کمال یقین رہتے ہوئے ) آپ کی نبوت کو نہ تسلیم کرنا بسبب ایک شبہ کے ہے جس سے وہ شک و تردد ہی کی حد تک نہ رہے ( بَلْ ) ''بلکہ" شک سے ترقی کرکے ایک جانب کا فیصلہ کرلیا کہ آپ نبی نہیں ہیں اور قیامت کا ہونا ہر گز صحیح نہیں اور آپ کو اس فیصلے کے خلاف دعویٰ پر اصرار کرتے دیکھ کر ( عَجِبُوْا ) ''تعجب کرنے لگے" ( اَنْ جَآئَ ھُمْ مُّنْذِر ) ''کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا" جو اپنے کو باوجود اوصاف بشریت کے اللہ کا بھیجا ہوا کہتا ہے ۔ اگر کوئی فرشتہ یا جن یہ دعویٰ کرتا تو چنداں جائے تعجب و انکار نہ ہوتا ، تعجب تو اس لیے ہے کہ وہ ڈرانے والا ( مِنْھُمْ ) ''انہیں میں کا ایک آدمی ہے" جو نہ من حیث بشریت کے لائقِ نبوت ہے نہ من حیث عزت و وجاہت کے نہ من حیث مال و دولت کے ( فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ) ''تو کہا نہیں ماننے والوں نے" ( ھٰذَا )''یہ" یعنی ہمیں لوگوں میں سے ایک شخص کا اس قدر بلند پایہ ہوجانا اور منصب نبوی تک پہنچ جانا اور بلا ستعانت مال و جاہ وغیرہ کے جو ترجیح استحقاق کے فی الجملہ باعث ہوسکتے ہیں ۔ سب پر فوقیت کا دعویٰ کرنا ( شَیْٔ عَجِیْب ) [٢] "عجیب چیز ہے". دوسرے جس مصیبت سے ڈراتے ہیں وہ اگر دنیا ہی میں آنے والی بتاتے تو خیر ، تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد جب قیامت کا دن آئے گا جس کو مدت دراز ہے تو ( ئَ اِذَا مِتْنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ) ''کیا جب ہم مر مٹیں گے اور سڑ گل کر مٹی ہوجائیں گے ۔'' بھلا ایسی حالت میں یہ عذاب کس طرح ہوگا ، کس پر ہوگا ، کون سہیگا ۔ تو خواہی نخواہی یا یہ بات ہی غلط ہے یا مانا جائے کہ مرمٹنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے پوری طرح پر آدمی کی ہستی لوٹائی جائے گی ، اور عذاب کیا جائے گا ۔
گو یہ بات مسلمان اور رسول قرین عقل سمجھیں مگر ( ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد ) [٣] ''وہ لوٹنا اور بار دوم ہستی کا واپس ملنا قیاس و عقل سے نہایت دور ہے ۔''
انسان میں ناری و ہوائی و آبی اجزا سب ہوا ہوجائیں گے خاکی اجزاء خاک میں مل جائیں گے ۔ اگر ڈوب کر دریا میں مرا تو کوسوں کی مچھلیوں اور دریائی جانوروں کا جزو بدن ہوگیا ۔ جل کر مرا تو خاک سیاہ ہوکر نیست و نابود ہوگیا ۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا تو مختلف جانوروں کے مختلف اجزا ہوکر وہ بھی یا کسی دوسرے حیوان کا جزو بدن بن جائے گا ، اور وہ تیسرے کا یا آخر کو خاک بن جائے گا ۔ پھر وہ خاک خدا جانے کہاں کہاں اڑتی پھرے گی ۔
پس اس قدر اجزاء کا پراگندگی کے بعد مجتمع ہوجانا ، اور جوڑ جوڑ کا از سر نو اسی حال پر آنا بالکل عقل کے خلاف ہے ۔
کفار کے یہی دو شبہے ایک بہ نسبت نبوت کے اور دوسرا بہ نسبت حشر و نشر کے جو ذکر کیے گئے ، ان کے لیے باعث تعجب تھے ان دونوں شبہوں کی تردید یہاں سے لے کر تا آخر سورت بیان فرمائی گئی ہے ۔
(١) متفرق اجزا کا بہم کرنا بعد مدت دراز ہر جوڑ بند کا پہلی حالت پر لے آنا اس کے نزدیک مشکل ہے ، جو خبر نہ رکھتا ہو کہ وہ اجزا کیا ہوئے اور کدھر گئے ۔ میرے نزدیک کیا مشکل ہے میری خبر داری کا یہ حال ہے کہ
گو زمین اپنی جذبی تاثیر سے جسم کو مٹی بنا ڈالتی ہے ، اور کچھ اجزائے جسم ہوا یا پانی ہوجاتے ہیں اور ترکیبِ نوعی بالکل بدل جاتی ہے ، اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں انقلابات ہوجاتے ہیں مگر یہ ساری حالتیں میرے علم میں موجود ہیں ، جس وقت چاہوں ہر جزو کو دوسرے سے الگ کر سکتا ہوں اور ایک جسم کے تمام اجزاء کا گو وہ کتنے ہی پراگندہ اور دوسرے جسم کی طرف مستحیل[شامل] ہوگئے ہوں پتا لگا کر بہم [جمع] کرسکتا ہوں ۔
اور میرے کارکنان قضا و قدر موکل فرشتے بھی بہت آسانی سے اس کو پتا لگا کر بہم [جمع] کرلیں گے ۔ ( وَ ) ''اور'' ( اس لیے کہ )
جس میں کارخانۂ عالم کے جزوی و کلی اجمالی و تفصیلی حالات مندرج ہیں ، کوئی واقعہ چھوٹا ہو یا بڑا اس سے باہر نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ فرمایا ہے
( یعنی جو ہوا ہے اور ہونے والا ہے وہ سب ہماری کتاب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ) اور اس میں نہ بسبب کہنگی کے تغیر ہوتا ہے ، اور نہ کوئی ایسا ہاتھ وہاں تک پہنچ سکتا ہے ، جو واقعات کو ردو بدل کر ڈالے ۔ اس لیے کہ وہ
اور سارے انقلابات اور حادثات کی حافظ ہے ۔ اب جو ان کی تسکین کے لیے کافی وا فی دلیل بیان کردی گئی ، تو مان ہی لینا تھا ، مگر پھر بھی نہ مانا
اب کوئی معقول وجہ انکار کی نہ رہی تو لگے واہی تباہی باتیں بنانے اور ہٹ دھرمی کرنے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ خدا اگر فرشتے کی معرفت کہلواتا تو مانتے ، بشر کی کبھی نہ مانیں گے۔
کوئی کہتا ہے کہ یہ ہوش ہی میں نہیں ، سب مالیخولیا ہے ۔ مجنونانہ خیالات ہیں ، دیوانے کی باتوں کا کیا ٹھکانا ، جس سے ہم آبائی دین کو چھوڑ دیں جیسا کہ فرمایا
اور فرمایا
کوئی کہتا ہے کہ یہ سب شاعرانہ نازک خیالیاں ہیں ان کو منجانب اللہ ہونے سے کیا علاقہ مگر جو خود شاعر ہیں جب وہ غور سے سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کجا شاعرانہ تُک بندیاں اور محض خیالات ، بے سروپا مضامین اور کجا یہ کلام معجز نظام بیشک ایسا نظم کلام طاقت بشری سے باہر ہے ۔
مگر یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کا ہی ارشاد ہو ، کوئی شیطان یا جن اسرارِ غیبی ملا ملا کر ان کو یہ باتیں سکھا جاتا ہے ، جیسا کہ اس کی تردید میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے
غرض کوئی شاعر ، کوئی مجنوں ، کوئی کاذب ، کوئی کاہن ، کوئی کچھ کوئی کچھ کہتا ہے ۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، - جمادی الثانی 1433ھ / اپریل، مئی 2012- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
ذیل میں قسط نمر 2 پیش کی جارہی ہے:
( ق ) یہ حرف اور جو ایسے ایسے حروف سورتوں کے شروع میں مذکور ہیں ، ان کے معنوں کو سوائے اللہ اور رسول ۖ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہر دوست اپنے دوست کے لیے کچھ نہ کچھ اشارے رکھتا ہے جن کو اغیار نہیں سمجھ سکتے ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے مقام پر پر ٹھہرنا چاہیے ، اور آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرنی چاہیے جس قدر معلوم ہے ، اس پر شکر احسان ہے ، اور جو مخفی ہے اس پر ایمان ہے ۔
( وَ القُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ )[١] "قسم ہے قرآن کی جو بزرگ ہے"اس لیے کہ اس کا اتارنے والا مجید اور پروردگار عالم اور جس پر اتارا گیا وہ سیّد اولادِ آدم ، جو فرشتہ اس کے لانے کے لیے انتخاب کیا گیا ، وہ تمام ملائکہ میں محترم ، جس شہر میں اوّل نازل ہوا یعنی مکہ وہ امّ القریٰ اور حرم ، جہاں کی ایک رکعت نماز کا ثواب دوسری جگہ کی لاکھ رکعت کے برابر ۔ جس ماہ میں اترا یعنی رمضان وہ تمام مہینوں سے بزرگی و برکات و فضل میں ممتاز ۔ جس شب میں نازل ہوا یعنی لیلة القدر اس کے فضائل بے انتہا ۔ جس امت کے لیے اترا وہ خیر الامم ۔ اس کے تلاوت کا ثواب نا محدود ۔ اس کے تفکر و تدبر سے حصول مقصود خود وہ مضامین جو اس کے مندرج ہیں ، پاکیزہ و بابرکت و پر زور جو جہاں بھر کے مختلف اقوام کے رہنمائی کے لیے قیامت تک کافی ۔ اس کے قصص پُر اثر اور نتیجہ خیز اس پر کذب و فحش سے پاک اس کی تمثیلیں ابلغ تمثیلات ہر ایک دعویٰ راست اور دلائل موصل الی المطلوب [مطلب تک پہنچانے والی].
ایسی محترم چیز کی قسم کھا کر کفار سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ہماری طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں ، اور قیامت کے عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے کی غرض سے بھیجے گئے ہیں ۔
آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی تعجب خیز بات سنتا ہے ، تو اوّلاً اس کی صحت میں شک کرتا ہے ، مگر جب دیکھتا ہے کہ کہنے والا نہایت راست گو ، دیانتدار ہے ، اور بقسم بیان کرتا ہے ، تو اس کا شک دور ہوجاتا ہے اور ایسی حالت میں کم از کم اس قدر ضرور کہتا ہے کہ جب تمہارے جیسا دیانت دار اور سچا آدمی بڑے دعوے سے کہہ رہا ہے تو اگرچہ میری عقل میں نہیں آتی مگرسچ مان لیتا ہوں ۔ لیکن ان کفار کا ( آپ کی راستی کا کمال یقین رہتے ہوئے ) آپ کی نبوت کو نہ تسلیم کرنا بسبب ایک شبہ کے ہے جس سے وہ شک و تردد ہی کی حد تک نہ رہے ( بَلْ ) ''بلکہ" شک سے ترقی کرکے ایک جانب کا فیصلہ کرلیا کہ آپ نبی نہیں ہیں اور قیامت کا ہونا ہر گز صحیح نہیں اور آپ کو اس فیصلے کے خلاف دعویٰ پر اصرار کرتے دیکھ کر ( عَجِبُوْا ) ''تعجب کرنے لگے" ( اَنْ جَآئَ ھُمْ مُّنْذِر ) ''کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا" جو اپنے کو باوجود اوصاف بشریت کے اللہ کا بھیجا ہوا کہتا ہے ۔ اگر کوئی فرشتہ یا جن یہ دعویٰ کرتا تو چنداں جائے تعجب و انکار نہ ہوتا ، تعجب تو اس لیے ہے کہ وہ ڈرانے والا ( مِنْھُمْ ) ''انہیں میں کا ایک آدمی ہے" جو نہ من حیث بشریت کے لائقِ نبوت ہے نہ من حیث عزت و وجاہت کے نہ من حیث مال و دولت کے ( فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ) ''تو کہا نہیں ماننے والوں نے" ( ھٰذَا )''یہ" یعنی ہمیں لوگوں میں سے ایک شخص کا اس قدر بلند پایہ ہوجانا اور منصب نبوی تک پہنچ جانا اور بلا ستعانت مال و جاہ وغیرہ کے جو ترجیح استحقاق کے فی الجملہ باعث ہوسکتے ہیں ۔ سب پر فوقیت کا دعویٰ کرنا ( شَیْٔ عَجِیْب ) [٢] "عجیب چیز ہے". دوسرے جس مصیبت سے ڈراتے ہیں وہ اگر دنیا ہی میں آنے والی بتاتے تو خیر ، تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد جب قیامت کا دن آئے گا جس کو مدت دراز ہے تو ( ئَ اِذَا مِتْنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ) ''کیا جب ہم مر مٹیں گے اور سڑ گل کر مٹی ہوجائیں گے ۔'' بھلا ایسی حالت میں یہ عذاب کس طرح ہوگا ، کس پر ہوگا ، کون سہیگا ۔ تو خواہی نخواہی یا یہ بات ہی غلط ہے یا مانا جائے کہ مرمٹنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے پوری طرح پر آدمی کی ہستی لوٹائی جائے گی ، اور عذاب کیا جائے گا ۔
گو یہ بات مسلمان اور رسول قرین عقل سمجھیں مگر ( ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد ) [٣] ''وہ لوٹنا اور بار دوم ہستی کا واپس ملنا قیاس و عقل سے نہایت دور ہے ۔''
انسان میں ناری و ہوائی و آبی اجزا سب ہوا ہوجائیں گے خاکی اجزاء خاک میں مل جائیں گے ۔ اگر ڈوب کر دریا میں مرا تو کوسوں کی مچھلیوں اور دریائی جانوروں کا جزو بدن ہوگیا ۔ جل کر مرا تو خاک سیاہ ہوکر نیست و نابود ہوگیا ۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا تو مختلف جانوروں کے مختلف اجزا ہوکر وہ بھی یا کسی دوسرے حیوان کا جزو بدن بن جائے گا ، اور وہ تیسرے کا یا آخر کو خاک بن جائے گا ۔ پھر وہ خاک خدا جانے کہاں کہاں اڑتی پھرے گی ۔
پس اس قدر اجزاء کا پراگندگی کے بعد مجتمع ہوجانا ، اور جوڑ جوڑ کا از سر نو اسی حال پر آنا بالکل عقل کے خلاف ہے ۔
کفار کے یہی دو شبہے ایک بہ نسبت نبوت کے اور دوسرا بہ نسبت حشر و نشر کے جو ذکر کیے گئے ، ان کے لیے باعث تعجب تھے ان دونوں شبہوں کی تردید یہاں سے لے کر تا آخر سورت بیان فرمائی گئی ہے ۔
(١) متفرق اجزا کا بہم کرنا بعد مدت دراز ہر جوڑ بند کا پہلی حالت پر لے آنا اس کے نزدیک مشکل ہے ، جو خبر نہ رکھتا ہو کہ وہ اجزا کیا ہوئے اور کدھر گئے ۔ میرے نزدیک کیا مشکل ہے میری خبر داری کا یہ حال ہے کہ
( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْھُمْ )"میں جان رہا ہوں جو کچھ ان میں سے زمین کم کرتی ہے".
گو زمین اپنی جذبی تاثیر سے جسم کو مٹی بنا ڈالتی ہے ، اور کچھ اجزائے جسم ہوا یا پانی ہوجاتے ہیں اور ترکیبِ نوعی بالکل بدل جاتی ہے ، اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں انقلابات ہوجاتے ہیں مگر یہ ساری حالتیں میرے علم میں موجود ہیں ، جس وقت چاہوں ہر جزو کو دوسرے سے الگ کر سکتا ہوں اور ایک جسم کے تمام اجزاء کا گو وہ کتنے ہی پراگندہ اور دوسرے جسم کی طرف مستحیل[شامل] ہوگئے ہوں پتا لگا کر بہم [جمع] کرسکتا ہوں ۔
اور میرے کارکنان قضا و قدر موکل فرشتے بھی بہت آسانی سے اس کو پتا لگا کر بہم [جمع] کرلیں گے ۔ ( وَ ) ''اور'' ( اس لیے کہ )
( عِنْدَنَا کِتَاب )"ہمارے پاس تو ایک عظیم الشان کتاب ہے"
جس میں کارخانۂ عالم کے جزوی و کلی اجمالی و تفصیلی حالات مندرج ہیں ، کوئی واقعہ چھوٹا ہو یا بڑا اس سے باہر نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ فرمایا ہے
( لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ )[الانعام : ٥٩]
"ہر تر و خشک کتاب مبین میں موجود ہے".
( یعنی جو ہوا ہے اور ہونے والا ہے وہ سب ہماری کتاب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ) اور اس میں نہ بسبب کہنگی کے تغیر ہوتا ہے ، اور نہ کوئی ایسا ہاتھ وہاں تک پہنچ سکتا ہے ، جو واقعات کو ردو بدل کر ڈالے ۔ اس لیے کہ وہ
( حَفِیْظ ) [٤] ''نہایت محفوظ ہے"
اور سارے انقلابات اور حادثات کی حافظ ہے ۔ اب جو ان کی تسکین کے لیے کافی وا فی دلیل بیان کردی گئی ، تو مان ہی لینا تھا ، مگر پھر بھی نہ مانا
( بَلْ کَذَّبُوْا بِا لْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ھُمْ )"بلکہ حق بات آتے ہی جھٹلا دی ۔ ''
اب کوئی معقول وجہ انکار کی نہ رہی تو لگے واہی تباہی باتیں بنانے اور ہٹ دھرمی کرنے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ خدا اگر فرشتے کی معرفت کہلواتا تو مانتے ، بشر کی کبھی نہ مانیں گے۔
( وَ قَالُوا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَک ۔ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ ) [الانعام : ٨]''اور کہا کفار نے کیوں نہ ان پر فرشتہ اتارا گیا ( تاکہ ہم کو یقین لانے کا عمدہ موقع ملتا مگر یہ نہ سمجھے ) کہ اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو فیصلہ ہی ہوجاتا پھر مہلت نہ دی جاتی ۔''
( وَ قَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط لَوْ لَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَہ نَذِیْرًا ۔ اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْز اَوْ تَکُوْنُ لَہ جَنَّة یَّاْکُلُ مِنْھَا ط وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا ) [الفرقان : ٧-٨]
''اور کہا منکروں نے اس رسول کو کیا ہے کھانا کھاتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ( ساری باتیں تو تمہاری سی ہیں اس پر رسالت و نبوت کا دعویٰ جو ان کے نزدیک آدمیت کی شان سے بالاتر تھا ) کیوں نہیں اس پر کوئی فرشتہ اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ ڈراتا رہتا ۔کیوں نہ اسے کوئی خزانہ دیا گیا یا کوئی باغ اس کے لیے ہوتا کہ اس میں سے کھاتا اور ظالموں نے کہا کہ تم تو جادو زدہ اور دیوانے کی اتباع کرتے ہو ( یعنی یہ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے تم اس کی کیوں سنتے ہو )۔''
( وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِکَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا ط لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا ) [الفرقان :٢١]''اور جن کو ہم سے ملنے اور جی کر زندہ ہونے کا یقین نہیں ہے انہوں نے کہا ( اگر یہ پیغمبر ہے تو ) کیوں نہ اس کے ساتھ فرشتے آئے یا ہم اپنے پروردگار کو دیکھتے بیشک ان منکروں نے اپنے جی میں تکبر کیا اور بہت سر اٹھایا ۔''
کوئی کہتا ہے کہ یہ ہوش ہی میں نہیں ، سب مالیخولیا ہے ۔ مجنونانہ خیالات ہیں ، دیوانے کی باتوں کا کیا ٹھکانا ، جس سے ہم آبائی دین کو چھوڑ دیں جیسا کہ فرمایا
( أَ ئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ) [الصآفات:٣٦]'' بھلا ہم لوگ اپنے معبودوں کو ایک شاعر دیوانے کی خاطر سے کبھی چھوڑنے والے ہیں ۔''
اور فرمایا
( ھَلْ نَدُلُّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزِّقٍ اِنَّکُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ۔ اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمْ بِہ جِنَّة )[سبا:٧-٨]'' کفار تمسخر کی راہ سے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ آئو تمہیں ایک آدمی کے پاس لے چلیں جو تمہیں یہ بتائے گا کہ جب تم سڑ گل کر بالکل ریزہ ریزہ ہوجائو گے تو پھر دوبارہ نئی طرح سے پیدا کیے جائو گے ۔ نہیں معلوم کہ خدا کی طرف جھوٹ جھوٹ ان باتوں کی نسبت کرتا ہے یا سڑی [جن زدہ] ہے ۔''
کوئی کہتا ہے کہ یہ سب شاعرانہ نازک خیالیاں ہیں ان کو منجانب اللہ ہونے سے کیا علاقہ مگر جو خود شاعر ہیں جب وہ غور سے سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کجا شاعرانہ تُک بندیاں اور محض خیالات ، بے سروپا مضامین اور کجا یہ کلام معجز نظام بیشک ایسا نظم کلام طاقت بشری سے باہر ہے ۔
مگر یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کا ہی ارشاد ہو ، کوئی شیطان یا جن اسرارِ غیبی ملا ملا کر ان کو یہ باتیں سکھا جاتا ہے ، جیسا کہ اس کی تردید میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے
( وَ لَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ) [الحاقة:٢٢]"یہ کسی کاہن کی بات نہیں ۔ تم لوگ سوچتے بہت کم ہو".
غرض کوئی شاعر ، کوئی مجنوں ، کوئی کاذب ، کوئی کاہن ، کوئی کچھ کوئی کچھ کہتا ہے ۔
( فَھُمْ فِیْ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ )[٥]"تو وہ لوگ آپ کی تنقیص اور انکار کے بارے میں نہایت مختلف القول اور مختلف الرائے ہو رہے ہیں ۔''
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
{جاری ہے۔۔۔}
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے