جمعرات، 23 اگست، 2012

کیا سعودی عرب کو تنہا کرنے کی سازش کی جارہی ہے ؟

الواقعۃ شمارہ ١ 

محمد آفتاب احمد


مملکت خادم حرمین و شریفین تاریخ کے ایک نازک اور اہم ترین موڑ سے گزررہا ہے ۔ ایسے میں کسی غیر معمولی واقعہ سے9/11 کی طرح پوری دنیا کی سمت کو بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔حالات کی سنگینی کا ادراک سعودی حکومت کے ١٢ مارچ٢٠١٢ء (١٦ربیع الثانی ١٤٣٣ھ)کے اقدام سے کیا جاسکتا ہے۔جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی حکومت نے دنیا بھر میں اپنے سفارتکاروں کو قومی لباس پہننے سے روک دیا(سعودی گزٹ)۔عربوں کی تاریخ میںخواہ وہ زمانہ جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کے بعد کا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کا لباس ہی ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ
سعودی حکومت کو انتہائی اقدام اٹھا نا پڑا؟اس کے پس پر دہ مقاصد کیا ہیں؟ریاض حکومت کو اس اقدام پر مجبور کرنے والے آخر کیا چاہتے ہیں؟معاملہ صرف سعودی باشندوں کا تحفظ ہے یاکچھ ؟

سعودی عرب کے خلاف سازشوں کا کھیل تو بہت پرانا ہے مگر چند عشروں کے دوران پیش آنے والے واقعات کا ایک سر سری جائزہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو سمجھنے کے لیے کافی ہوگا۔عرب اسرائیل جنگ کسے یاد نہیں ۔١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ نے ایمان و عقیدے کی روح سے عاری ملت کو ایسا کاری زخم لگایا کہ وہ آج تک مندمل نہ ہوسکا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اردن کے مشرقی کنارے کے ساتھ بیت المقدس کو جانے والی سڑک جہاں پر حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت ضرار بن آزد کے مزارات واقعہ ہیں، کے سامنے سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے وہ سارا علاقہ چھوڑ کر جارہے تھے جسے ان کے اسلاف نے بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔بیت المقدس اور اردن کا وہ سارا علاقہ جو آج اسرائیل کے قبضے میں ہے،نہایت گنجان آبادی سے بھرا پڑا اور سر سبز و شاداب علاقہ تھا۔بیت المقدس کی وجہ سے اردن حکومت کو سیاحت سے خاصی آمدنی بھی تھی۔اردن کی کمر ٹوٹ گئی۔سیاسی لحاظ سے بھی۔فوجی اعتبار سے بھی اوراقتصادی طور پر بھی۔ یہ مقامات مقدسہ بھی ہاتھ سے گئے ۔ یہاں کے آنے والے سیاحوں کی آمدنی بھی گئی۔ مسئلہ اسرائیل کو صرف عربوں کا مسئلہ بنادیاگیا۔شاہ فیصل شہید معاملے کی حقیقت سے آگاہ تھے۔انہوں نے کوشش کی کہ اسرائیل کو تنہا عربوں کا نہیں بلکہ امت محمدیہ کا مسئلہ بنایا جائے مگر قدرت کو ابھی اور امتحان مقصود تھاشاہ فیصل شہید کردیے گئے۔

عربوں اور ان کے مفادات پر دشمن جہاں ایک جانب براہ راست حملہ آور تھا وہیں انہیں دوسرے طریقوں سے بھی بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال او آئی سی ہے جو اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ بیشتر مواقعوں پر امت محمدیہ کے لیے مضرکردار ادا کیا۔ مگر او آئی سی کی ناکامی اور اس کے کرتوتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہی بآورکرایا گیا کہ مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ عربوں کا انتشار اور ان کا غیر مؤثر ہونا ہے۔

9/11کاواقعہ کسے یاد نہیں۔( دنیا کی اکثریت جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہی ہے آج بھی اسے عرب مسلمانوںکی کارروائی ہی سمجھتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خود امریکی ماہرین طبیعیات نے اپنی تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ امریکی معیشت کوکنٹرول کرنے والے ایک محدود طبقے کا کارنامہ ہے۔ آج تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ آخر اس مقصد کے لیے ٹوئن ٹاور کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟ اور اس کے لیے11ستمبر کی تاریخ کیوں متعین کی گئی؟)یہ واقعہ ایک استعارہ تھا جس کا مقصد دنیا بھر میں ابلیس کے گماشتوں کو یہ بتانا تھا کہ اب ان کی وفاداری ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا ہے ۔ سوچ کے زاویے بدل گئے۔ نظریات نے اپنی معنویت تبدیل کرلی۔ فلسفہ کا قبلہ بدل گیا۔معاشی اصول کے نئے معنی بنائے گئے۔ غریبوں کی مدد دہشت گردوں کی معاونت قرار پائی اور صرف او ر صرف دنیا کے ٢ مسلم ملکوں پاکستان اور سعودی عرب کو کسی نہ کسی طریقے سے ان معاملات میں ملوث کرکے ہدف تنقید بنایا گیا تاکہ مستقبل کی کارروائیوں کو سند جواز فراہم کیا جاسکے۔

موجود ہ دور میں ایک جانب جہاں پاکستان کو براہ راست ''حملوں'' کا نشانہ بنایا گیا وہیںبالواسطہ طور پر سعودی عرب پر بھی حملے کیے گئے۔ان حملوں میں جہاں سعودی عرب کے مفادات کو نشانہ بنایا گیا وہیں خود مسلم ملکوں میں عربوں میں اسے بے توقیر ثابت کرنے کے لیے کمزور اور مردہ قوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ۔اس کی تازہ مشال گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان، بنگلہ دیش اور یمن میںسعودی سفارتخانوں پر کیے جانے والے حملے ہیں۔ ١٦ مئی٢٠١١ء کو کراچی میں شہر کے ریڈ زون ڈیفنس خیابان شہباز میں سعودی قونصلر کی گاڑی پر سعودی سفارتکار حسن گابانی کو قتل کیا گیا۔انہیں گھر سے قونصل خانہ جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ واقعہ سے چند روز قبل سیکورٹی اداروں نے قونصل خانہ سے ایک سیکورٹی افسر کو مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار بھی کیا لیکن اس کے بعد پہلے سعودی قونصل خانہ پر دستی بم سے حملہ کیا گیااورچند روز بعد سفارتکار کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا(ڈان۔ عرب نیوز) ۔ قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ابھی اس واقعہ کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں خلف بن محمد سلیم العلی کوڈپلومیٹک انکلیو میں قتل کردیاگیا ۔ انہیں انتہائی قریب سے سینے میں گولی ماری گئی۔اس بارے میں بنگلہ دیش پولیس کے بیان میں تضاد پایا گیا۔ سفارتکار کے گھر19/B کے سیکورٹی گارڈ ذوالفقار علی اورمکان نمبر20/A کے سیکورٹی گارڈ ربیع الاسلام کا کہنا ہے کہ انہیں دن سوا بجے قتل کیا گیا جبکہ ڈھاکا کے اسسٹنٹ پولیس کمشنر نورالعالم کا کہنا ہے کہ خلف العلی کو علی الصبح نشانہ بنایا گیا(دی ڈیلی اسٹار) ۔ اس واقعہ پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ کویت ، بحرین، اردن اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ خلف العلی کا قتل دہشت گردی اور کھلی جنگ ہے (سعودی گزٹ۔ عرب نیوز) ۔ قاتلوں کی گرفتاری اور تفتیش میں مدد کے لیے سعودی عرب کی تحقیقاتی ٹیم ڈھا کا پہنچی مگر خلف العلی کے قاتل بھی تادم تحریر گرفتار نہ ہوسکے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ واردات کرنے والے کون تھے؟ان کے مقاصد کیا تھے؟دوسری جانب ٢٨ مارچ ٢٠١٢ء کو سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن کے شہر عدن سے سعودی قونصلر عبداللہ الخالدی کو اغوا کرلیا گیا۔انہیں المنصورہ کالونی میں گھر کے باہر موجود گاڑی سے صبح کے وقت اغو ا کیا گیا۔ 4ماہ قبل ان سے راستے میں روک کر گاڑی بھی چھین لی گئی تھی( العربیہ .نیٹ ) ۔ الخالدی کے بارے میں اب تک نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟ انہیں کس نے اغوا کیا؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟یہ سار ے عوامل کہیں اس امر کی نشاندہی تو نہیں کررہے کہ سعودی عرب کو عالم اسلام میں تنہا کیا جارہا ہے۔ 

پے در پے سعودی سفارتکاروں پر حملہ یہ واضح کرتا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف اس وقت کسی عالمی سازش کا کھیل جاری ہے ۔ یہ کھیل کھیلنے والے کسی بھی طرح مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے کیونکہ سعودیہ کے خلاف کھیلا جانے والا کھیل صرف وہیں تک محدود نہیں رہے گا بالآخر اس کا اثر پورے عالم اسلام پر پڑے گا ۔ 

اس امر کو بخوبی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ سعودی  عرب میں انتشار مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح سود مند نہیں ۔ سعودی عرب کی تنہائی محض سعودی عرب کی تنہائی نہیں بلکہ اسلام کی مرکزیت یعنی حجازِ مقدس سے مسلمانوں کو دور کردینے کی ناپاک کوشش ہے ۔ 

اس بات کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل اپنے قیام کے ساتھ ہی پاکستان اور سعودی عرب کا مخاف رہا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ ان دو اسلامی ممالک --جن کے تعلق مثالی نوعیت کے ہیں -- کے مابین اختلافات پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن گورین کا بیان ریکارڈ پر ہے ، جس میں اس نے پاکستان سے متعلق اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا ۔ 

اگر مفروضہ کو درست مان لیا جائے توایک یہودی سردار حاخام اکبر کا وہ بیان جو اس نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی قبضے کے بعداپنی تقریر میں کہا تھا کہ
'' مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلینے کے بعد یقنیاً ہمیں خوشی ہوئی ہے۔ لیکن ہماری یہ خوشی اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم مدینہ منورہ میں اپنے پرانے مکانوں اور قلعوں کو واپس نہ لے لیں اور جب تک ہم مدینہ کے ایک ایک باشندے کے ساتھ قتل و خون کا وہی معاملہ نہ کریں جو مسلمانوں نے ہمارے بڑوں بنی قرنیطہ،بنی قینقاع، بنو نضیر اور اہل خیبر کے ساتھ کیا تھا۔''


ان تمام کڑیوں کو ملائیے اور غور کیجئے کہ کہیں سعودی عرب کو تنہا کرنے کی سازش تو نہیں کی جارہی ؟


یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے ماخوذ ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے