ہفتہ، 25 اگست، 2012

تصوف میں غیر اسلامی ادیان کی آمیزش

الواقعۃ شمارہ  ٢

محمد عالمگیر 

مترجم : ابو عمارسلیم

قسط نمبر ٢  کا مطالعہ کیجئے قسط نمبر 3 کا مطالعہ کیجئے

قسط 1

یہ مختصر تجزیہ بطور خاص صرف مسلمانوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ ان مسلمانوں کے لیے جو مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، کسی کو اذیت نہیں دیتے ۔ ان مسلمانوں کے لیے جن کو یہ دلی اطمینان حاصل ہے کہ اسلام بذات خود ایک مکمل اور کامل دین ہے اور اس کو کسی دوسرے مذہب، دیو مالائی کہانیوں، فلسفہ اور ما بعدالطبیعیاتی نظریوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور ان مسلمانوں کے لیے جو نہ تو کسی دوسرے طریق زندگی کی سرپرستی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ پسند کرتے ہیں ان کی سرپرستی کی جائے۔

تصوف بطور احسان


اسلام سچائی کا دین ہے۔ خالق کائنات نے اس دین کو اپنے پیغام کے طور پر خود انسان کو عطا کیا ہے۔ اس پیغام کا ایک حصہ انسان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی ہدایت پر مبنی ہے، یعنی یہ انسان کو اس کے معاشرتی ، سیاسی اور معاشی معاملات میں حتمی اور سچی راہنمائی دیتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے اخلاقی اقدار کا داعی ہوتا ہے۔ اس پیغام کا دوسرا حصہ اس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مقام کے مقابلہ میں اس کی اپنی ذاتی حیثیت کا اتہ پتہ دیتا ہے۔ انسان اس علم کے تحت اپنی روحانی اہلیت اور قابلیت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح ایک قابل اور صاحب فہم انسان کے لیے اس پیغام میں انتہائی معمولی دنیاوی معاملات سے لے کر اعلیٰ ترین معاملات تک کے لیے ہدایات موجود ہیں ۔

خالق کائنات کا یہ پیغام ہر انسان کے لیے ہے۔ مگر جن لوگوں نے اس پیغام کو قبول کیا ہے، ان کی اکثریت اس پیغام کے بہت ہی قلیل چیزوں پرقانع ہے، جس کے بغیر گذارا نہیں ہو سکتا۔ یا پھر انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ اس پیغام میں کتنی خوبصورتی موجود ہے۔ جب اسلام کے اس پیغام کو سہ رخی جہت سے یعنی اسلام ، ایمان اور احسان کے رو سے دیکھا جائے تو اس خوبصور ت حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام متقاضی ہے کچھ بنیادی عقائد اور لازمی عمل کا۔ ایمان ان تمام عقائد کا جوہر اور اصل ہے جو یقین کامل تک پہنچا دیتا ہے۔ احسان وہ سچی پرستاری ہے جس پر عمل سے کاملیت اور فضیلت کے راستے کھلتے ہیں اور سرفرازی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس پیغام پر کاربند ہوکرجو سفر طے ہوتا ہے وہ انہی تینوں جہت کے تحت ہوتا ہے، یعنی اسلام سے ایمان اور اس سے آ گے احسان کے درجے تک پہنچاتاہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایمان بغیر اسلام کے قابل قبول نہیں ہے، اور ایسا احسان جس کی بنیاد اسلام اور ایمان کے اوپر نہ ہو صرف منافقت ہے ۔

(دیکھئے حدیثِ جبریل، جس میں احسان کے بارے میں نبیۖ نے فرمایا ہے:'' الاحسان ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔''یعنی '' اللہ کی عبادت اس طرح کرو، جیسے کے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ حالانکہ تم اسے دیکھ نہیں سکتے، لیکن وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔'' اسی کو احسان کہتے ہیں۔ تاریخ میںہم دیکھتے ہیں کہ احسان کے اس مرتبہ کو حاصل کرنے لیے ایک منظم ادارہ بنایا گیا، جس کو ہم تصوف اور طریقت کے نام سے پہچانتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں احسان کا لفظ اس معنی میں کم ہی استعمال ہوتا ہے ۔ )

اب اگر یہ سوال کریں کہ اللہ کا پیغام کیا ہے؟ یا یہ کہ اللہ کیا چاہتا ہے، کہ ہم کیا کریں؟ تو یہ شریعت یعنی قانون کو جنم دیتا ہے اور یہ سوال کہ اللہ کے پیغام پر عمل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ طریقت کو ہموار کر تا ہے۔ یہ دونوں تقسیم خالصتاً نظریاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان جو کام بھی کرنا چاہے اس میں کیا اور کیسے لازم و ملزوم ہوتے ہیں، ایک دوسرے میں گتھے ہوتے ہیں اور ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شریعت اور طریقت دونوں کے دستور مسلمان علاقوں میں الگ الگ وجود رکھتے تھے اور دونوں کے ماہرین اپنے اپنے معاملات میں سر گرم تھے ۔

اصولی طور پر وہ لوگ جو شریعت کے امور میں ماہر ہیں یعنی جنہیں ہم علما ء کہتے ہیں وہ یقیناً طریقت کے علوم سے بھی بخوبی واقف ہیں ، اور ان معاملات کے کیا اور کیسے کے تمام سوالات کا بخوبی جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی نظر اسلامی تعلیمات کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔  اور جب ہی توپیغمبر اسلام صادق الامین حضرت احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی ۖ نے فرمایا کہ میری امت کے علما ء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں(١)۔اور یہ بات تو مسلّم ہے کہ پیغمبروں نے نہ صرف اللہ کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ، بلکہ اس کی وضاحت بھی کر دی اور راستہ بھی دکھا دیا۔ اس لیے اسلام کے وہ علماء جو علماء کہلانے کے مستحق ہیں شریعت اور طریقت دونوں میں رہنمائی کرنے کے لیے بہترین لوگ ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں ان علماء کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے ترکی میں مولا، شمالی افریقہ میں مولایا یا مولے ، برصغیر میں مولانا اور عرب دنیا میں انہیں شیخ کہا کرتے ہیں ۔ 

مشاہدے میں آیا ہے کہ ان علماء میں سے کچھ اپنی ذاتی استعداد اور قابلیت کے اضافہ کے لیے اللہ کے پیغام کو اس کی تمام تر جزئیات سمیت سمجھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔  اس لیے کہ یہ لوگ اسلام اور ایمان کے تمام مراحل کو بحسن و خوبی طے کرکے احسان کی جہت میں داخل ہو جاتے ہیں،  اس لیے کہ ان کے پاس اس کی استطاعت ہوتی ہے۔ کچھ کچھ مسلم ممالک میں مشائخ کا لفظ صرف ایسے علماء کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہی لوگ طریقت کے ماہرین  سمجھے جاتے ہیں ۔ 

یہاں اس بات کی وضاحت ضر وری ہے کہ طریقت کے معاملات شریعت کے بغیر انفرادی طور پر نہیں چل سکتے۔ جو لوگ طریقت کے ماہرین ہیں ان پر شریعت کی پابندی اتنی ہی لازم ہے جتنی کسی دوسرے مسلمان پر۔ اگر ایسا ماہر ،  قانونِ شریعت کا علم نہ رکھتا ہو یاشریعت کو پس پشت ڈال دے یا اپنے ہی قوانین پیش کرنے لگے تو پھر وہ سچا ماہر کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ 

یہاں اس بات کی وضاحت ضر وری ہے کہ طریقت کے معاملات شریعت کے بغیر انفرادی طور پر نہیں چل سکتے۔ جو لوگ طریقت کے ماہرین ہیں ان پر شریعت کی پابندی اتنی ہی لازم ہے جتنی کسی دوسرے مسلمان پر۔ اگر ایسا ماہر ،  قانونِ شریعت کا علم نہ رکھتا ہو یاشریعت کو پس پشت ڈال دے یا اپنے ہی قوانین پیش کرنے لگے تو پھر وہ سچا ماہر کہلانے کا مستحق نہیں ہے ۔ 

تاریخ میں ایک ایسا بھی وقت آیا ہے جب طریقت اپنے انفرادی روپ میں ایسے ابھری کہ اس کے اپنے خدوخال تھے، اپنا قانون تھا، اپنا مطمح نظر تھااور اس کے اپنے ماننے والوں کا ایک گروہ تھا۔ اور پھر ایسے میں یوں بھی ہوا کہ جانے پہچانے اصولوں سے تجاوز بھی کیا گیا اور اس کے لیے باطنی علوم ، حد سے بڑھی ہوئی روحانیت اور فراست کا لبادہ اوڑھ لیا گیا۔ مگر اس کے باوجود ایسے بہت سے لوگ اٹھے جو اپنی ذات میں اسلام ، ایمان اور احسان کے راستوں کے کوہ گراں تھے۔ اسلام کے سچے شیدائی کی طرح ان کی راتیں رکوع اور سجود میں اور دن گھوڑے کی پیٹھ پر بسر ہوتے تھے۔  یعنی جب تخلیہ میں ہوتے تو اللہ سے رازونیاز کرتے اور لوگوں کے ساتھ ہوتے تو عدل و انصاف کرتے۔ (نوٹ: ایسے لوگوں میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی جو مغل حکمراں اکبر اور جہانگیر کے دور میں اٹھے، شاہ جلال اور خان جہاں علی بنگال کے مسلم دور میں، جبکہ سید احمد بریلوی شہید برطانوی راج میں منظر عام پر آئے ۔ )

دورِ حاضر کے صوفیا


ماضی میں اور آج کے دور میں بھی بہت سے ایسے صوفیا موجود ہیں جو دن کی روشنی میں چھپے رہتے ہیں اور را توں کو نفس پرستی میں گزارتے ہیں۔ وہ عدل و انصاف کی باتیں نہیں کرتے بلکہ فلسفہ میں الجھے رہتے ہیںاور ایسے باطنی اور چھپے ہوئے ذرائع ڈھونڈتے ہیں جن کے ذریعہ سے باطل تصورات کو قابل قبول بنایا جاسکے۔ ایسے لوگ اسلام کی سچائی کو اجاگر کرنے کی بجا ئے د وسرے مذاہب کی تعلیم کو اسلام میں داخل کرکے اسلام کی صحیح صورت بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ان کے پیروکاروں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے تمام جستجو میں اسلام کا انقلابی نقطہ نظر پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

پچھلے کچھ عرصہ کے دوران مغرب کی برتری نے اسلام کے خدوخال کو اور بھی مسخ کر دیا ہے۔Esoteric  یعنی مخفی یا باطنی اور  Exotericیعنی خارجی یا ظاہری کی اصطلاحات ان کی لغت کے حساب سے مخفی اور ظاہری مطالب سے کہیں دور کی چیز بن گئی ہے۔ مغرب سے مستعار لی ہوئی اصطلاحات اسلامی لٹریچر میں شدتِ استعمال کی وجہ سے اب ایک نئی شکل میں آگئی ہے، اور اس نے مسلمانوں کو دو مختلف قسم کے گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، یعنی نچلا طبقہ اور اونچا طبقہ ، یعنی عوام اور اشراف میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے اس گروہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے وہ در پردہ اپنے آپ کو ایک اعلیٰ درجہ کے فضیلت یافتہ لوگوں میں شمار کرنے لگتے ہیں  اور دوسروں پر نہ صرف یہ کہ حقارت کی نظر ڈالتے ہیں بلکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ کبھی ان کی حقیقت کو نہیں پا سکیں گے۔ اور پھر یہ گمان یافتہ لوگ دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہیںاور اسلام کا جو فلسفہِ جہادہے اس میں بالکل حصہ نہیں لیتے۔یہ لوگ گھات لگا کر نوجوان مسلمانوں کو قابو کر لیتے ہیں اور ذ ہنی طور پر ساکت و جامد کر دیتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی اسلامی احیاء کی کارروائی میں حصہ نہ لے سکیں۔ وہ عیارانہ حربوں سے اور الفاظ کے ہیرا پھیری سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم روایتی اسلام کا احیاء کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ اسلامی روایت کو پٹری سے اتار دیا جائے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ روایتی اسلام، اسلام کو اس طرح دیکھتا ہے جیسا کہ اسلام آج کے دور میں مختلف اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ فی الوقت اسلام میں جتنی غیر اسلامی روایات اور دوسرے مذاہب کی چیزیں در آئی ہیں یہ لوگ ان سب چیزوں کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لینا چاہتے ہیں۔ جب کہ در حقیقت اسلامی روایت کا مطلب وہ قاعدہ اور کلیہ ہے جس کے ذریعہ سے اسلام میں گھس آنے والی تمام چیزوں کو دیکھا جائے ، جانچا جائے اور ان خرابیوں کو دور کیا جائے۔ یہ لوگ حصولِ علم الٰہی کو اپنا وظیفۂِ خاص بتاتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو ان کو صحیح سمت سے ہٹا دیتی ہے۔  بجائے اس کے کہ وہ اپنے اسلام اور ایمان کو علم یقین کی زینت سے آراستہ کریں جو احسان کی ایک جہت ہے، اس کی بجائے وہ اللہ کی ذات اور اس کے وجود کے بارے میں بیکراں قیاسی کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ ایسے دلائل میں الجھ جاتے ہیںجو اسلام اور ایمان کی تعلیم کے عین مخالف ہوتی ہیں۔

سچا علم


اگلے سطروں میں ہم عقائد کی بحث کی طرف پھر واپس آئیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم پہلے علم کی حقیقت کو سمجھ لیں ۔علم حقیقی کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ پتہ چل جائے کہ اللہ کی مشیت کیا ہے۔ تخلیق کائنات اللہ کی مشیت ہے۔  جب اللہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کُن اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے اور جو چیز وجود میں آجاتی ہے وہ اللہ کی تخلیق ہے۔ مخلوق اللہ کے ارادے کی ظاہری حقیقت ہے۔ علم کی تمام شاخوں کو بروئے کار لاکر اللہ کی خلقت کو درست طریقہ سے سمجھ لینا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ کو سمجھ لینا ہے۔ کوئی شاعر اور فلسفی اگر تخلیق خداوندی کو اپنی عقل اور فہم کی بنیاد پر بیان کرے تو ایک عام آدمی جس کو حقیقت کا علم نہیں ہے اس کے زور بیان اور الفاظ کی خوبصورتی کی بدولت اس کی تعریف تو کرے گا مگر وہ بیان حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا ،کیونکہ جب تک اس کو اللہ کی مشیت اور ارادہ کا ادراک نہ ہو وہ حقیقت کو نہ پا سکے گا ، نہ بیان کر سکے گا۔ مختصراً ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کی حکمت اور مشیت کو قرآن کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے کہ کوئی بھی زبان زد عام حکمت اور علم کو ہم اس وقت تک حکمت نہیں کہیں گے جب تک کہ وہ قرآن کریم کی نازل شدہ حکمت سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔

اللہ کی تمام مخلوق میں انسان کو یہ منفرد شرف حاصل ہے کہ اس کو قوتِ ارادہ عطا ہوئی ہے اور اس قوتِ ارادہ کے عملی اظہار کے لیے انسان کو کسی حد تک آزادی بھی دی گئی ہے ، جو دوسروں کو نہیں ملی ہے اور پھر یہی آزادی اس کو مکلف بھی بنا دیتی ہے۔ اب اس کی اپنی یہ خواہش کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے، اللہ کی مشیت اور ارادہ کی تابع ہوگی۔ یعنی انسان کا ہر قابل قبول عمل لازماً قرآن مجید کے احکامات کے عین مطابق ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انسان کا ہر وہ عمل قابل تعریف ہوگا جو اللہ کی مشیت اور ارادہ کے مطابق ہوگا وگرنہ ناقابل ستائش اور قابل گرفت ہوگا۔ اب اس بحث کے بعد ہم واپس علم کی طرف لوٹیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر انسان کا عمل اللہ کی مشیت کی مطابقت میںہے تو یہ عمل علم پر مبنی ہے ، اس لیے کہ علم اللہ کی مشیت اور ارادہ کا دوسرا نام ہے۔ کسی جنگل یا صحرا میں ایک شخص ہو اور وہ اللہ کی مشیت اور ارادہ کا ادراک بھی رکھتا ہو اور اس کی پاسداری بھی کرتا ہو تو وہ شخص عالم کہلائے گاخواہ اس کے پاس کسی مدرسہ یا یونیورسیٹی کی کوئی سند بھی نہ ہو اور اگر اس کا عمل اللہ کی مشیت کے برخلاف ہوجائے تو وہ جاہل ہے چاہے اس نے کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ حاصل کر رکھی ہوں یا کتنی ہی ضخیم کتابوں کا مصنف ہو یا کتنے ہی لوگوں کو اس نے اپنی خوبصورت تقریروں اور پر اثر شخصیت کے سحر میں گرفتار کر رکھا ہو۔ (نوٹ:  اسلام کے ظہور سے قبل عرب کے معاشرتی دور ( بلکہ کل انسانی دور) کو دور جاہلیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس دور کے عرب نہ تو تجارت میں ، نہ سفارتکاری میں اور نہ شعر و ادب میں جاہل تھے ، اور نہ کسی دوسری قوم سے کسی طور بھی کم تر تھے۔ مگر ان کے پاس کمی تھی تو صرف اللہ کے علم کی۔)

انسان کو اللہ کی مشیت کے مطابق اپنی خواہش کو استوار کرنا چاہئے،جو قرآن مجید فرقان حمید میں بتفصیل موجود ہے۔ بیشک اس کو اس کے ان اعمال کی جزا ملے گی، یعنی جب اس کے ارادے اور اللہ کے ارادے یکساں ہو جائیں ۔ بہر صورت یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کے عمل سے وہی نتیجہ نکلے جو وہ چاہ رہا ہے خواہ اس کا وہ عمل قرآن و سنت کی حدود میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اس کی جا ئز خوا ہش سے مختلف ہو سکتی ہے ، اور پھر آخر کار ہوتا تو وہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہتے ہیں۔ اللہ کا حکم اور اس کی بیکراں آزادی،انسان کی خواہشات کا پابند نہیں ہے ۔ یعنی انسان کا عمل قرآن و سنت کے مطابق جائز بھی ہو پھر بھی نتیجہ عمل پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ دوسری جانب ایسا علم جو اللہ کی خواہش کا عکس ہو علم لَدُنّی کہلاتا ہے، جس کا ذکر سورة کہف میں آیا ہے۔ 

حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہ السلام 


اوپر دیئے ہوئے بیان کی شہادت میں حضرت خضر علیہ السلام کا، جو ایک بڑے عارف تھے، قرآن مجید میں دیا ہوا  واقعہ یہاں دہرایا جاسکتا ہے۔ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام اُن کے ہم سفر تھے جس کے دوران حضرت خضر نے ایک غریب آدمی کی کشتی میں سوراخ کردیا، آگے چل کر ایک نوجوان لڑکے کو مار دیا ، اور پھر ایک گرتی ہوئی دیوار کو اجرت لیے بغیر ٹھیک کردیا ، حالانکہ ان لوگوں کو کھانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، اور بستی والوں نے کھانا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو بتایا کہ میں نے چاہا کہ کشتی کو عیب دار بنا دوںتاکہ ظالم بادشاہ غریب آدمی کی کشتی پر قبضہ نہ کر لے۔ نوجوان جس کو مار دیا تھا وہ اپنے والدین کا نافرمان تھا اس کے لیے انہوں نے کہا ہم نے چاہا کہ اس کو ختم کرکے ایک نیک فرمانبردار لڑکا دے دیا جائے۔ اور اس گرتی ہوئی دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن تھا جو ایک صالح آدمی کا تھا اور  تمہارے رب نے چاہا کہ خزانے کو محفوظ کردیا جائے تاکہ اس کے لڑکے بڑے ہو کر اس کو حاصل کر لیں۔

جب حضرت خضر  نے کہا میں نے چاہا تو انہیں اللہ کی مشیت اور اس کی خواہش کا علم تھا اور وہ اس کی مشیت کے خلاف کوئی ارادہ نہیں کر سکتے تھے۔ جب انہوں نے کہا کہ ہم نے چاہا  تو انہیں اللہ کے مشیت کے الہام نے تحریک دی اور اس دنیاوی کام کو انہوں نے اللہ کی طرف سے سر انجام دیا۔  اور جب انہوں نے کہا کہ تمہارے رب نے چاہا تو ایک طرف تو انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ انہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوا ہے اور ساتھ ہی اللہ کی مشیت کی برتری ظاہر کی تاکہ ان کی خدائی کا دعویٰ نہ ہوجائے۔ ان تینوں واقعات میں حضرت خضر علیہ السلام کا ذاتی علم کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت کے۔ 

علم لدنّی کا تحفہ ان تمام علماء اور مشائخ کا اشتیاق ہے جو طریقت کے عالم ہیں اور احسان کے درجۂ کامل تک پہنچے ہوئے ہیں، اور اس کو مزید بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ حضرت خضر کا یہ واقعہ یقینا ان کے لیے امید کی کرن ہے، اس لیے کہ حضور نبی کریم صادق الامین ۖ  نے فرمایا کہ سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ ایسا خواب نہ تو قرآن اور نہ ہی شریعت کا جزو ہے اور نہ ہی یہ کہ جس کو یہ عطا ہو جائے وہ خدائی طاقت کا حامل ہو گیا، اور اب اس کی پرستش ہونے لگے۔ یقینا وہ لوگ جو اللہ کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لیتے ہیںاور اپنی خواہشات نفسانی کو اللہ کی خواہش کے تابع کر لیتے ہیں وہ اولیائَ اللہ ہوتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کے بارے میں نیک گمان کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ کے ولی ہیں مگر اصل ولی کون ہے اس کا علم صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی ہے۔ طریقت کے مرشدوں کو عموماً یہ درجہ دے دیا جاتا ہے لیکن یہ خیال ان لوگوں کو نظر انداز کرتا ہے جو بطور مرشدِ طریقت کے نہیں جانے جاتے ۔ یہاں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جو مرشدِ طریقت ہو وہ ہی ولی بن سکتا ہے، ا ور دیگر تمام لوگ رد کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان مرشدوں کے مریدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو مرید ہونے کی وجہ سے الہام الٰہی میں سے حصہ ملنے کا بہت واضح امکان ہے اس لیے کہ وہ دوسروں کی نسبت روحانی طور پر بہت آگے ہیں ، حالانکہ بسا اوقات دوسروں کے مقابلے میں یہی لوگ شریعت کی خلاف ورزی اور ایمان اور اسلام سے زیادہ روگردانی کرتے ہیں۔  

ذات و صفات 


قرآن کریم فرقان حمیدکی آ یات میں ایک تیسرا رخ خود اللہ ربّ العزت کی ذات و صفات سے متعلق ہے۔ وہ خود کو جانتا ہے، ہم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا علم وہاں تک ہی ہے جو اس نے خود ہمیں اپنے متعلق بتا یا ہے۔ہماری سوچ سے اس کا کوئی تعلق نہیںہے۔یہاں ضروری ہے کہ ہم اس کی ذات اور صفات کے درمیان فرق کو سمجھ لیں۔ انہوں نے ہمیں جو کچھ بھی بتایا ہے وہ ان کی کچھ صفات پر محیط ہے۔ انہوں نے ہماری توجہ اپنی تخلیق میں موجود نشانیوں (آیات ) کی طرف کرائی ہے جو ہمارے گردا گرد پھیلی ہوئی ہیںاور یہی نشانیاں ان کی صفات کو سمجھنے میں ہماری مدد گار ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس میں ان کی ذات کی کسی طرح سے بھی تشبیہ ہو۔ ہم جو زبان ان کی تخلیق کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ زبان ان کی ذات کے احاطہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہم جتنے بھی استفہامیہ الفاظ جیسے کیا، کیسے ، کیوں ، کہاں ، کب وغیرہ وغیرہ اس کی تخلیق کے تجزیہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اس خالق کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ علیُّ العظیم و کبیر الجلیل کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔

اب ہم واپس عقائد کی طرف لوٹتے ہیں، اس لیے کہ یہاں پہنچ کر کچھ مرشدوں یا علماء کی نظروں سے اسلام اور ایمان کا علم اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ قرآن مجید کے دیئے ہوئے علم سے کٹ جاتے ہیںاور گمراہی میں جا پڑ تے ہیں۔  وہ خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کا ادراک نہیں کرسکتے۔  وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مخلوق خالق ہی کا ایک روپ ہے، یا اس کا اظہار ہے ، یا پھر یہ کہ خالق بذات خود مخلوق میں موجود ہے۔  (نوٹ: بقول شیخ محی الدین ابن العربی جو وحدت الوجود کے فلسفہ کے بانی ہیں)۔ یا پھر یہ کہ مخلوق کی حقیقت صرف فریبِ نظر کی ہے۔ (نوٹ:  بقول ہندو دیو مالا میں مذکور مایا  اسی نظریہ کی ترجمانی کرتا ہے)، یعنی ا یسا لگتا ہے لیکن اصل میںکچھ بھی نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وجود سے مراد صرف وجودِ ِباری تعالیٰ ہے۔ بے شک اللہ کا وجود ایک حقیقت ہے جو اپنی ذات میں صمد ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ البدیع ہے اور اس نے کائنات کو لا شئے سے پیدا کیا ہے اور اس کو اس کی حقیقت عطا کی ہے جو کہ اسی سے مشتق ہے اور ماخوذ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کی موجودگی کا نظر یہِ تقابل ( یعنی ایک طرف اللہ یعنی خالق اور دوسری سمت مخلوق) نہ تو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور نہ ہی متحارب۔ قرآن حکیم نے کس قدر جامع اختصار کے ساتھ دونوں کو الگ الگ واضح کردیا ہے۔ جب قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ '' اس جیسا کوئی چیز نہیں اور کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے۔( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَئی )]سورة شعرائ:٤٢[ اور( لَمْ یَکُن لَّہ' کُفُواً اَحَد )]سورة اخلاص:١١٢[۔ اور یہی وہ سچ اور سچا علم ہے جو قرآن حکیم عطا کرتا ہے۔ کوئی فلسفہ، کوئی تشریح، کوئی نظریہ یا کوئی خیال جو اس سیدھی سادی زبان میں کی گئی بات کو توڑے مروڑے تو وہ سوائے خدا کی شان میں بے ادبی اور کفر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

شیخ ابوبکر سراج الدین کی تصنیف میں حلول کا تصور  


مارٹِن لِنگس ( Martin Lings ) عرف شیخ ابوبکر سراج الدین ( شاذلیہ  درقویہ علٰویہ طریقت کے مریمیہ شاخ کے ایک صوفی شیخ ) نے یہ لکھ کر دنیا کو چونکا دیا کہ انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان یہ فرق ہے کہ دوسری مخلوقات اللہ کی صفات کی مظہر ہیں جب کہ انسان اللہ کی ذات کا مظہرہے جس میں اس کی تمام صفات شامل ہیں۔( بحوالہ : Splendours of Qur'an Calligraphy and Illumination. Thesaurus Islamicus Foundation, 2004 )۔  وہ اس نتیجہ پر اس نظریہ کے تحت پہنچے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے۔  جو کہ سراسر یہود و نصاریٰ کے عقیدہ کا ایک نمونہ ہے۔ ہم نے ابھی اوپر دیکھا ہے کہ سچ یہ ہے کہ اللہ کی ذات کا مظہر نہ کوئی چیز ہے ، نہ کوئی چیز اس جیسی ہے اور نہ ہی اس کا عکس ہے۔

یہ بات بطور خاص دہرائی جارہی ہے کہ شریعت اور طریقت کی تقسیم خالصتاً من مانی ہے۔ شریعت اسلامی روایت کے ان تین درجات کی تفصیل دیتی ہے جو اسلام ، ایمان اور احسان  سے متعلق ہے۔ جب کہ طریقت ان ہی تین چیزوںکے اندر موجود جوہر کو اجاگر کرتی ہے، اور ان کو قابلِ عمل بناتی ہے۔ یعنی طریقت مسلمانوں کے اندر یقین کو بڑھاتی ہے۔ نہ طریقت شریعت سے پہلے وجود پاتی ہے اور نہ ہی طریقت شریعت کے بعد کی کوئی چیز ہے۔ قرآن کی اصطلاح شِرعة یعنی قانون، اور منہاج یعنی رستہ ، دونوں کی بہت موزوں تعریف پیش کرتاہے۔ اور اگر قرآن کریم کی اس تعریف کو اپنی زندگیوں میں داخل کر لیں تو طریقت سے متعلق بہت ساری لغویات سے نجات مل جائے گی۔

کسی بھی مرشد اور فاضل عالم کے لیے ا حسان کے دائرہ میں پہنچ جانے کے بعد جہاںشریعت ایک خصوصی لطف کا باعث ہو تی ہے تو وہیں طریقت اس درجہ میں آکر اس کو عین الیقین، حق الیقین اور معرفت کی تجلیوں سے منور کرتی ہے۔اور دونوں کے امتزاج سے ایک ایسا ہنر اس مرشد کے ہاتھ آجاتاہے جس کے ذریعہ وہ اسلام اور ایمان کی محافظت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس بات پر بضد رہیں کہ طریقت ایک بالکل الگ چیز ہے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اسلام کے بارے میں ایک جامع بصیرت عطا کرتی ہے۔ پھر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ بصیرت اس مرشد کو باہر کھینچ نکالے اور اس کو معاشرے کے ان تمام معاملات میں متحرک کردے جن میں اسلامی اصول و ضوابط کے لاگو ہونے کی ضرورت ہے۔ اس طرح معاشرہ کی بہتری اور اس کی خدمت کا عمل روپذیر ہوگا۔اسی چیز کو شیخ مصلح الدین سعدی السہروردی نے کس خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔

کسی بھی مرشد اور فاضل عالم کے لیے ا حسان کے دائرہ میں پہنچ جانے کے بعد جہاںشریعت ایک خصوصی لطف کا باعث ہو تی ہے تو وہیں طریقت اس درجہ میں آکر اس کو عین الیقین، حق الیقین اور معرفت کی تجلیوں سے منور کرتی ہے۔اور دونوں کے امتزاج سے ایک ایسا ہنر اس مرشد کے ہاتھ آجاتاہے جس کے ذریعہ وہ اسلام اور ایمان کی محافظت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس بات پر بضد رہیں کہ طریقت ایک بالکل الگ چیز ہے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اسلام کے بارے میں ایک جامع بصیرت عطا کرتی ہے۔ پھر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ بصیرت اس مرشد کو باہر کھینچ نکالے اور اس کو معاشرے کے ان تمام معاملات میں متحرک کردے جن میں اسلامی اصول و ضوابط کے لاگو ہونے کی ضرورت ہے۔ اس طرح معاشرہ کی بہتری اور اس کی خدمت کا عمل روپذیر ہوگا۔اسی چیز کو شیخ مصلح الدین سعدی السہروردی نے کس خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔

طریقت  بجز  خدمت  خلق  نیست 

بہ  تسبیح  و  سجادہ  و  دلق  نیست

یعنی طریقت صرف خلق خدا کی خدمت میں ہے ، نہ کہ تسبیح ، جائے نماز اور گدڑی میں ہے۔ شیخ سعدی یہاں یہ واضح کرنا چاہ رہے ہیں کہ طریقت کا ایک مرشد (شیخ) جو احسان کے درجہ کو پہنچ جائے وہ ایسی چھوٹی موٹی چیزوں سے بہت پرے جا پہنچتا ہے۔ اس کو اب ظاہری دنیاوی دکھاوے اور بناوٹی چیزوں سے نکل آنا چاہئے ، اس لیے کہ دنیائے اسلام کو اس کے خدمات کی ضرورت ہے۔ اس کو چاہئے کہ اپنے گرد لوگوں کا ایک حلقہ بنائے اور ان پر اپنی شفقتوں کا سایہ کیے رکھے اور نئے آنے والوں کو بھی اس حلقہ میں شامل کرتا رہے، اس لیے کہ اسلام کوئی پرائیویٹ کلب نہیں ہے۔  اور پھر شیخ کی ذاتی زندگی بالکل شفاف اور قابل اتباع ر ہنی چاہئے۔ اس کے گرد کوئی پراسراریت نہیں ہونی چاہئے۔  ایسے ہی شیخ کو حضور نبی کریم ۖ کی اس حدیث کا مصداق ہونا چاہئے جس کے تحت آپۖ نے فرمایا :'' اللہ کی رحمتیں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ایک گروہ میں ہو کر رہتے ہیں۔ '' ( یدُ اللّٰہِ فوق الجماعة )۔ اسلامی معاشرت کا یہ اصولِ اوّل (first principle)ہے۔ اب شیخ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دورہ کرے اور دیکھے کہ کوئی اکیلا تو نہیں رہ گیا اور بغیر کسی گروہ میں شامل ہوئے زندگی گزار رہا ہے۔

اسلامی روایت بمقابلہ روایتی اسلام 


اگر شیخ صاحب اسلامی روایات کو قابل عمل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اوپر درج شدہ تمام باتیں درست ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر وہ روایتی اسلام کو پراسرار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو سب کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں اور ان شیخ صاحب پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے۔ کیونکہ روایتی اسلام وہ ہیں جن کے تحت دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان اسلام کو سمجھتے رہے ہیں اور مختلف ادوار میں اس کے مطابق زندگی گزارتے رہے ہیں۔ مثبت بات اس میں یہ ہے کہ کچھ سمجھدار اور صاحب فہم شیوخ نے کچھ ایسے عمل شامل کر لیے جو لوگوں کو شریعت کی طرف مائل رکھنے میں مددگار ثابت ہوںمگر ان کی حیثیت زائد از ضرورت عمل یعنی نوافل سے زیادہ نہیںرہی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ نو وارد مسلمانوں کو اپنے پرانے مذہبی روایات کو چھوڑ کر اسلامی روایات کو اپنانے میں سہولت ہو جائے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ زائداز ضرورت چیزیں مسلمانوں کے اندر لازمی جزو کی حیثیت سے داخل ہو گئیں اور ان شیوخ کے گدی نشیں اُس سوچ کے حامل نہ تھے کہ مریدین کو اس سفر میں اُس مقام سے آگے لے کر جاتے، نتیجے کے طور پر ان لوگوں نے اُنہیں اس بھنور میں پھنسا ہوا چھوڑ دیااور بد قسمتی سے نو واردوں نے ان ہی زائد از ضرورت چیزوں کو اسلامی تعلیمات میں تبدیل کرلیا۔ اور لوگوں نے یہ گمان بھی کر لیا کہ ان کے شیخ بڑے بلند مرتبہ لوگ تھے اور ان کی تعلیمات سے انحراف کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ 

وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئی چیزیں ان کی معاشرت میں داخل ہو گئیں اور اسلام کی تعلیمات اور سنت رسول ۖ کے ہم پلہ ہو گئیں، یعنی یہی ان کے لیے صراط المستقیم بن گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے معاملات میں مسلمانوں کے اندر اختلاف رائے پیدا ہوئیںمگر ان میں درست اور غلط کا فیصلہ کرنا انتہائی دشوار معاملہ تھا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ان تمام اختلافات کا تعلق بدعت کے مسائل سے تھا۔  پھر ان میں سے کچھ کو بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت قرار دے کر برقرار رکھا گیا اور کچھ کو بدعت سئیہ یعنی بری بدعت قرار دیا گیا جو نا قابل قبول تھیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان تمام بدعات کو پرکھنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا، اس میں بھی تو کوئی شک نہیں کہ آخر بدعت حسنہ بھی تو ایک نئی چیز تھی جو دین میں داخل کر لی گئی۔ اگر اس کی کسی وجہ سے ضرورت تھی تو ایک خاص مدت اور مصلحت کے تحت اس کی اجازت ہو نی چاہئے تھی۔ اگر اس کو ایک مستقل حیثیت دے دی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام ایک مکمل دین نہیں تھا اور اس میں اس نئے عمل کی احتیاج باقی رہ گئی تھی۔ اس لیے بدعت حسنہ کے تمام مخالف حضور رسالت مآب ۖ کے اس انتباہ کی روشنی میںاپنی مخالفت میں درست تھے کہ تمام بدعت ضلالت کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی اس نظریہ کے زبردست حامی تھے، اور پھر سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ بھی یہ فرما چکے تھے کہ جب کوئی بدعت ہماری زندگی میں داخل ہوتی ہے ، تو ایک سنت رسول ۖ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ ( نوٹ: مجدد الف ثانی یا دوسرے ہزار سال کا مصلح،  کی اصطلاح شیخ احمد سرہندی کے لیے استعمال ہوئی۔ ابو دائود کی ایک حدیث مبارک کے تحت اللہ ہر سو سال کے اوپر ایک مصلح پیدا کرے گا جو اسلام کا احیاء کرے گا ۔ اپنے دور میں شیخ صاحب کو اسلام کے بچائو کے لیے تین اطراف میں جنگ کرنی پڑی۔ اکبر کے دور میںدین الٰہی کا جھوٹا گمراہ کن جھگڑا جو اس کے غیر اسلامی رتنوں کا شوشہ تھا، پھر جہانگیر کے دور میں شیعہ حضرات کا پھیلائے ہوئے زہر کے خلاف، اور آخر میں وحدت الوجود کے فلسفہ کے خلاف جو اس بات کا داعی تھا کہ اللہ کائنات کی ہر چیز میں بہ نفسہ موجود ہے۔ )  

اسلام کو اس کے صراط مستقیم سے ہٹانے کی مہم مسلسل جاری تھی اور دوسرے مذاہب اور کلچر سے خیالات اور تصورات کو مستقلاً اسلامی نظریات میں ملایا جارہا تھا۔ یہ کارروائی ان لوگوں کی جانب سے ہو رہی تھی جو منحرف مسلمان تھے یا پھر وہ جنہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات میں سب سے زیادہ نقصان دہ وہ فلسفہ تھا جس کی رو سے یہ کہا جا رہا تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب ایک ہی ہیں اور سب کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔  وحدت الوجود کے ماننے والے ایک صوفی شاعر نے اس بات کویوں بیان کیا کہ 

سب یار کا جلوہ ہے

کعبہ ہو یا بت خانہ 

[[ جاری ہے ]]


قسط نمبر ٢  کا مطالعہ کیجئے قسط نمبر ٣   کا مطالعہ کیجئے



جناب محمد عالمگیر صاحب ١٩٤٢ء میں کولکتہ میں پیدا ہوئے ۔تقسیم کے بعد کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل آپ نے کراچی سے ہی کی۔ ساٹھ کی دہائی میں کراچی کی ایک مشہور درسگاہ علیمیہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں زیر تعلیم رہے اور اپنے وقت کے مشہور عالم ڈاکٹر محمد فضل الرحمٰن انصاری اور ''منہاج القرآن'' کے مصنف ڈاکٹر برہان الدین احمد فاروقی کے زیر تربیت رہے اور ان سے کسب فیض کیا۔ محمد عالمگیر صاحب ١٩٧٤ء میں بغرض ملازمت آسٹریلیا روانہ ہوئے اور آج بھی سڈنی میں ہی مقیم ہیں۔ محمد عالمگیر صاحب علیمیہ انسٹیٹیوٹ میں شیخ عمران نذر حسین صاحب کے ہم مکتب رہے ہیں۔ آج وہ ملازمت سے ریٹائر ہوکر اپنا بیشتر وقت اپنے ہم جماعت اور دیرینہ دوست شیخ عمران نذر حسین صاحب کے کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ان کی تمام تحقیقات اور تحریروں میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔ ان کے بیرونی ممالک کے دوروں اور وہاں کے لکچروں کو پروگرام کرتے ہیں اور ان کا بندوبست کرتے ہیں۔
تصوف ایک ہَمہ جہت پہلوئوں کا حامل موضوع ہے ۔ اس کے کئی چہرے اور کئی رنگ ہیں ۔ اس پر بحث و تحقیق کرنے والے خواہ تائید میں ہوں یا تردید میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اس موضوع پر توازن اور اعتدال کے ساتھ خامہ فرسائی نہایت ضروری ہے ۔ محمد عالمگیر صاحب نے اس موضوع پر اعتدال کے ساتھ اپنے قلم کو اٹھانے کی سعی کی ہے ۔ اس سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور اختلاف بھی تاہم اگر کوئی صاحبِ علم اس موضوع پر دلائل کی رُو سے اپنے خیالات پیش کرنا چاہیں تو '' الواقعة '' کے صفحات اس کے لیے حاضر ہیں ۔ ( ادارہ )



یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے دوسرے شمارہ، - رجب المرجب 1433ھ / مئی، جون 2012 - سے  قسط وار شائع ہو رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے