جمعہ، 31 اگست، 2012

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط : (٣)


شمارہ نمبر ٣ 

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ

تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

(٢) ان کا باہم مختلف ہونا اور جلد جلد تبدل رائے کرتے رہنا اور آپ ( ۖ ) کا ابتداء سے انتہاء تک اپنے دعویٰ پر ثابت و قائم رہنا ، اور بَرملا اس کو ظاہر کرتے رہنا اور روز بروز عقلا اور اہلِ دانش کا قبول کرتے جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ کا دعویٰ حق ہے اور اب ان کا انکار کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ نری [صرف] ہٹ دھرمی اور حماقت ہے اگر اب بھی کفار اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی کو تسلیم نہ کریں اور اپنے اختلافِ باہمی سے بھی اپنے کو غلطی پر نہ مانیں ، تو تیسری دلیل پیش کیجئے ، اور لوحِ محفوظ میں وقائع  ]واقعات[ کا لکھا ہونا بھی دلیل ہے ، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو کیا علم کہ اللہ جلّ شانہ کے یہاں وقائع و حوادث کی کوئی کتاب لکھی ہوئی دھری ہے ، تو دلیل عقلی سے سمجھائیے ۔

بدھ، 29 اگست، 2012

اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھے گا، شاہ فیصل شہید

الواقعۃ شمارہ نمبر ٢ 

سعودی عرب کے شہید فرمانروا شاہ فیصل کا ایک تاریخی انٹرویو


سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید نے ستمبر١٩٧٠ء میں (جب اردن میں عرب بالخصوص فلسطینی مجاہدین کی نسل کشی کی جارہی تھی) امریکی رسالے'' رانٹر پلے'' کے نمائندے ٹام دمان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ'' مقبوضہ عرب علاقوں اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے اسرائیل کے خلاف جہاد کیا جائے۔ انہوں نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی، غرور اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنا پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک اسرائیلی جارحیت کی روک تھام اور اسے معقول رویہ اختیار کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی جائے گی ، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔شاہ فیصل نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا نے اسرائیل پر معقول رویہ اختیار کرنے اور دوسرے عرب علاقے خالی کرنے کے لیے دبائو نہ ڈالا تو عوام مجھے مجبور کردیں گے کہ میں دوسرے عرب سربراہوں کی طرح روس کی حمایت حاصل کروں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل اور مشکلات کی وجہ کمیونزم اور صہیونیت ہیں۔ شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بیت المقدس کے بارے میں کوئی سودے بازی قبول نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ شہر ان تمام لوگوں کے لیے صدیوں کھلا رہا جن کے مقامات مقدسہ وہاں واقع ہیں، اس لیے اب اسے بین الاقوامی شہر قرار دینے کا کوئی جواز نہیں۔ شاہ فیصل نے یہ بات اعلانیہ طو رپر کہی کہ ہم فلسطینی حریت پسندوں کی بھرپور حمایت اور مدد کرتے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں طاقت کے بل پر ان کے گھروں سے نکال پھینکا گیا ہے،اس ظلم کے خلاف ان کی جدوجہد جائز اور منصفانہ ہے۔''

(بحوالہ: روزنامہ ''جسارت'' کراچی مورخہ ٢ ستمبر١٩٧٠ء ) 

اتوار، 26 اگست، 2012

وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ


الواقعۃ شمارہ نمبر 2


 محمدجاویداقبال


وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ


وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ
اقبال کا یہ مصرع وطن عزیز کی صورتِحال دیکھ کر یاد آیا۔ جس ذہنی مرعوبیت اور نقالی کاذکر اکبر الہ آبادی نے کیا تھا اور جس کی مذمت اقبال تمام عمر کرتے رہے وہ اب ہمارے رگ و پے میںسرایت کرچکی ہے۔ اس لیے کہ نہ صرف ہمارا تعلیمی نصاب بلکہ میڈیا بھی سو فی صد مغرب کی عکاسی کررہا ہے۔ لہٰذا ہماری نئی نسل اور خواتین جو زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گذارتی ہیںایک سیلِ بے پناہ کی زد میں ہیں۔دور غلامی میںایک آدھ نواب یا رئیس کا بچہ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈجاتاتھا۔ آج پاکستانی بچے اس کثرت سے آکسفورڈ اور کیمبرج پڑھنے جارہے ہیں کہ برطانیہ کی قومی آمدنی کا ٣٨ فیصد پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم دینے سے آتا ہے۔ اگر یہ مدرسے ہم خود قائم کرتے تو ہمارے کتنے ٹیچرز کو روزگار ملتا اور ہم انھیں اپنے دین اور عقائد کے مطابق تعلیم دیتے۔ لیکن آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہماری ذہنی غلامی نہیں گئی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیںکہ وہاں و ہ جس بے راہ روی کے ماحول میںتعلیم حاصل کرتے ہیںوہ انہیں اسلامی اقدار سے بیگانہ کردیتی ہے۔ خود پاکستان میںجن اداروں میں برطانوی تعلیم دی جارہی ہے وہاں اسی طرح کو ایجوکیشن ہے اور وہی اخلاق باختہ ماحول ہے جہاں لڑکے لڑکیاںایک دوسرے کو ہگ کرتے ہیںاور کِس کرنے میں بھی تکلف نہیںکرتے۔

اِسی طرح ہمارا میڈیاخود ہمارے خرچ پر ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو بے غیرت بنارہا ہے۔ مثلا ً موبائل کا اشتہار ہی دیکھ لیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس سہولت کی بدولت ایک الکٹریشین یا پلمبرکو کام میںآسانی ہوئی ہو اور اس کا بزنس بڑھ گیا ہو۔ یا کسی سیلزمین کو زیاد ہ آڈر مل سکے ہوں۔ موبائل فون کا پہلا اور آخری کام یہ ہے کہ وہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو آپس میںدوستی کرنے میںبہترین معاون بن سکتاہے۔ ہر اشتہار کا زور اسی ایک سہولت پر ہے۔ آج پاکستان کے ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی فرد موبائل اٹھائے بات کرتا نظر آتا ہے۔ہم نے ضرورت سے کہیں زیادہ موبائل امپورٹ کرلیے ہیںاور نہ ان کی ٹکنولوجی حاصل کی ہے اور نہ مقامی مینوفیکچرنگ کے حقوق۔جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ اخلاق باختگی اور بے راہ روی ہے۔ نوجوانی کا زمانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ مگر جہاںصنفی اختلاط کو فروغ دیاجارہا ہووہاںپڑھنے کی فرصت کس کافر کو ہے؟ اقبال اور اکبر کو عرصہ ہوا تعلیم سے دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ پس کوئی نہیں ہے جو انہیںیاد دلاسکے:
کبھی اے جوانِ مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے پالا ہے اس قوم نے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا
لہٰذا ہمارا تعلیمی نظام اور میڈیا نہ صرف ہمیں حقائق سے بے خبر رکھ رہے ہیں بلکہ ہم سے ہماری اخلاقی اور روحانی اقدار بھی چھین رہے ہیں۔تاکہ ہم ایک روبوٹ کی طرح نیو ورلڈ آڈر پر عمل کرسکیں۔ لیکن میڈیا کی مضرتیں یہیں تک محدود نہیں ہیں۔امریکی محاور ہ ہے کہ ایک برا نام دو اور اسے آسانی سے ہلاک کردو۔ بین الاقوامی میڈیا اسی کام میںمحو ہے۔وہ ہر مسلمان کو بنیاد پرست، قرانِ کریم کو جنگ پر اکسانے والی کتاب اور رسول ِمقبول ۖ کو ایک جنگجو رسول بناکر پیش کررہے ہیں۔وہ دینی جماعتیں جو اسلامی نظام کااحیاء چاہتی ہیں بنیاد پرست ہیں۔ جو جماعتیں کشمیر میں رائے شماری اور اس کی آزادی کے لیے کام کررہی ہیںوہ انتہا پسند اور جنگجو جماعتیں ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں امریکہ نے جماعت الدعوة کے امیر پر وفیسر حافظ سعیدکے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔ بہت سے پاکستانی نہیںجانتے کہ دنیا کا ٩٦ فیصد میڈیاصرف ٦ یہودی میڈیا کمپنیز کی ملکیت ہے۔ جن کے ذمے یہ مشن ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کو فروغ دو۔ ہمارے کالم نگاروں، مدیروں اور اینکرز پرسنز نے جس سرعت سے امریکی نکتہ نظر کو اپنایا ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ محض چند ٹکڑوں کے لیے انھوں نے حب الوطنی اور خدا پرستی کو ترک کرکے امریکہ سے وفاداری اختیار کرلی اور اپنی روح شیطان کو فروخت کردی اور یہ ہمارا سب سے ذہین طبقہ تھا۔ ہمارے میڈیا کی یہی چالاکی ملاحظہ ہو کہ امریکہ ایک درجن سے زیادہ مسلم ممالک پر حملہ آور ہوچکا ہے اور فقط افغانستان اور عراق میںوہ تیس لاکھ کے قریب مرد و زن کو ہلاک اور لاکھوں کو معذور بنا چکا ہے۔ لیکن ہمارا میڈیا اسے اسلام کے خلاف جنگ کا نام نہیںدیتا۔ بلکہ اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی قرار دیتا ہے کہ کیوں خوامخوہ اپنی جانیںگنوا رہے ہیں اور چپکے سے ہتھیا ر ڈال کیوں نہیں دیتے۔

پس چہ باید کرد۔ اتنی تاخیرہوجانے کے بعد کیا کیا جاسکتا ہے؟میری ناچیز رائے میں ہمیںسب سے پہلے اپنامتبادل پریس قائم کرنا چاہیے۔ خواہ وہ فوٹو اسٹیٹ کیے جانے والے چند صفحات پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔انٹرنیٹ کی چند سائٹس اور بلاگز عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ صرف نوجوانوں کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھنا ہوگا۔ پھر وہ اپنا لائحہ عمل خود بنالیں گے۔ مگریہ کام فوراً سے پیش تر کرنا ہوگا۔اس لیے کہ وقت بالکل نہیں رہا ہے۔



یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رجب المرجب 1433ھ/ مئی، جون 2012- سے ماخوذ ہے۔

مولانا عبد الحلیم شرر اور ان کی کتبِ سیرت

الواقعۃ شمارہ نمبر 2

محمد ساجد صدیقی 


مولانا عبدالحلیم شرر ١٨٦٠ء میں مشہورادبی شہر لکھنؤ کے محلہ جھنوائی ٹولہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلہ نسب عباسی خلیفہ امین الرشید سے جا ملتا ہے ۔یعنی آپ ہاشمی و عباسی ہیں ۔ [تراجم علمائے حدیث ہنداز ابو یحیٰ امام خان نوشہری : ٥٢٢]۔ مختصر شجرہ نسب یوں ہے۔عبدالحلیم شرر بن تفضل حسن (عبدالرحیم ) بن مولوی محمد بن مولوی نظام الدین۔

غیر مسلم ممالک میں سکونت: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

الواقعۃ شمارہ نمبر ٢ 

ابو موحد عبید الرحمن


تاریخِ اسلامی کے اوراق اس فطری حقیقت پر شاہد ہیں کہ اس کے باسیوں نے بغرضِ معاش دیارِ اسلامی کو ترک کرکے دیارِ کفر میں کبھی دائمی سکونت اختیار نہیں کی ۔ لیکن عصرِ جدید کی جدت کے جہاں اور غیر فطری عجائب ہیں ، وہیں یہ عجوبہ بھی گاہے بگاہے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ تلاشِ معاش کے لیے لوگ اپنا خطہ چھوڑنے پربخوشی راضی ہیں ، جو کہ ایک غیر معمولی امرِ واقعہ ہے ۔ اس غیر معمولی امرِ واقعہ کا سبب ہمیں اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی '' فکری تغیر '' ملتا ہے اور یہ فکری تغیر اسلامی تصورِ علم کا مغربی تصورِ علم سے تبدیل ہوجانا ہے۔

حسینہ واجد کے نام ایک سینئر سعودی سفارتکار ڈاکٹر علی الغامدی کا کھلا خط

الواقعۃ شمارہ نمبر 2

قابل احترام!


پہلے میں اپنا تعارف کرادوں کہ بنگلہ دیش کی آزادی سے قبل میں بحیثیت سعودی ڈپلومیٹ ڈھاکا کا دورہ کرچکا ہوں۔١٩٦٠ ء میں عازمین حج کو ویزا کے اجرا کے لیے سعودی حکومت نے مجھے چٹاگانگ میں متعین کیا تھا۔ ١٩٨٠ء میں ، میں دارالحکومت ڈھاکا میں سعودی سفارتخانہ میں پورے اختیارات کے ساتھ واپس آیا۔

کون ہوتا ہے حریف مئے مردافگن عشق

الواقعۃ شمارہ نمبر 2

محمد آفتاب احمد

بنگلہ دیش کی ایک خصوصی عدالت ''وار کرائم ٹریبونل '' نے بالآخر چار ماہ بعد جماعت اسلامی کے سابق سربراہ پروفیسر غلام اعظم پر ١٩٧١ء کی جنگ کے دوران نسل کشی، انسانیت مخالف جرائم اور قتل کے الزامات میں فرد جرم عائد کر دی ۔ ٩٠سالہ پروفیسر غلام اعظم کو١٢جنوری٢٠١٢ء کو گرفتار کیا گیا ۔ گرفتاری اور فرد جرم عائد ہونے کے بیچ ان پر ظلم و ستم، میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی اور اہل خانہ کو حراساں کرنے کے واقعات ایک الگ داستان ہیں مگر ان سب کے باوجود عوامی لیگ حکومت پروفیسر غلام اعظم کو اپنے قدموں پر نہیں جھکا سکی۔

کیا وہابیت خارجیت کا نقشِ ثانی ہے ؟

الواقعۃ شمارہ نمبر 2

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر 

سب سے پہلے گب نے خارجیت کا تعلق وہابیت میں تلاش کیا ہے۔ اس حوالے سے اس کا تجزیہ ہے کہ خوارج مذہبی انتہاپسند تھے، جو صرف خود کو سچا اور حقیقی مسلم سمجھتے تھے دیگر مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے۔ ان کے اس اصول پر تلوار مستزاد تھی، جو انہوں نے مسلم امت کے خلاف اٹھائی اور خود کو امت سے جدا کرلیا، جو راسخ العقیدہ (Orthodox) سمجھی جاتی تھی۔ بعد میں خوارج کے متعلق اعتدال پسند علماء نے ایک ایسا نظام وضع کرلیا جس نے ان کو جنوبی الجیریا، عمان اور زنجبار میں چھوٹی چھوٹی آبادیوں کی شکل میں زندہ رکھا۔

اسلام کا سیاسی نظام

الواقعۃ شمارہ نمبر ٢

مولانا صفدر زبیر ندوی

اسلامک فقہ اکیڈمی ( انڈیا ) کے زیر اہتمام سیمینار کی رودادبمقام : علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ( علی گڑھ ) بتاریخ : ٢٨ -٢٩ اپریل ٢٠١٢ء



اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) جہاں ایک طرف امت مسلمہ ہندیہ کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے، وہیں مختلف تازہ موضوعات پر سمینار کر کے اور اس کے ذریعہ لوگوں تک معلومات منتقل کر کے انھیں غور وفکر کا رخ بھی بتا رہی ہے، اور انھیں ایک باشعور شہری بنانے میں مدد اور تعاون کرتی ہے، چنانچہ پوری دنیا خصوصا عرب دنیا میں آئی بیداری کے پس منظر میں اکیڈمی نے سب سے پہلے ''اسلام کا سیاسی نظام'' کے عنوان سے ایک سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا