اتوار، 26 اگست، 2012

وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ


الواقعۃ شمارہ نمبر 2


 محمدجاویداقبال


وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ


وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ
اقبال کا یہ مصرع وطن عزیز کی صورتِحال دیکھ کر یاد آیا۔ جس ذہنی مرعوبیت اور نقالی کاذکر اکبر الہ آبادی نے کیا تھا اور جس کی مذمت اقبال تمام عمر کرتے رہے وہ اب ہمارے رگ و پے میںسرایت کرچکی ہے۔ اس لیے کہ نہ صرف ہمارا تعلیمی نصاب بلکہ میڈیا بھی سو فی صد مغرب کی عکاسی کررہا ہے۔ لہٰذا ہماری نئی نسل اور خواتین جو زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گذارتی ہیںایک سیلِ بے پناہ کی زد میں ہیں۔دور غلامی میںایک آدھ نواب یا رئیس کا بچہ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈجاتاتھا۔ آج پاکستانی بچے اس کثرت سے آکسفورڈ اور کیمبرج پڑھنے جارہے ہیں کہ برطانیہ کی قومی آمدنی کا ٣٨ فیصد پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم دینے سے آتا ہے۔ اگر یہ مدرسے ہم خود قائم کرتے تو ہمارے کتنے ٹیچرز کو روزگار ملتا اور ہم انھیں اپنے دین اور عقائد کے مطابق تعلیم دیتے۔ لیکن آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہماری ذہنی غلامی نہیں گئی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیںکہ وہاں و ہ جس بے راہ روی کے ماحول میںتعلیم حاصل کرتے ہیںوہ انہیں اسلامی اقدار سے بیگانہ کردیتی ہے۔ خود پاکستان میںجن اداروں میں برطانوی تعلیم دی جارہی ہے وہاں اسی طرح کو ایجوکیشن ہے اور وہی اخلاق باختہ ماحول ہے جہاں لڑکے لڑکیاںایک دوسرے کو ہگ کرتے ہیںاور کِس کرنے میں بھی تکلف نہیںکرتے۔

اِسی طرح ہمارا میڈیاخود ہمارے خرچ پر ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو بے غیرت بنارہا ہے۔ مثلا ً موبائل کا اشتہار ہی دیکھ لیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس سہولت کی بدولت ایک الکٹریشین یا پلمبرکو کام میںآسانی ہوئی ہو اور اس کا بزنس بڑھ گیا ہو۔ یا کسی سیلزمین کو زیاد ہ آڈر مل سکے ہوں۔ موبائل فون کا پہلا اور آخری کام یہ ہے کہ وہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو آپس میںدوستی کرنے میںبہترین معاون بن سکتاہے۔ ہر اشتہار کا زور اسی ایک سہولت پر ہے۔ آج پاکستان کے ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی فرد موبائل اٹھائے بات کرتا نظر آتا ہے۔ہم نے ضرورت سے کہیں زیادہ موبائل امپورٹ کرلیے ہیںاور نہ ان کی ٹکنولوجی حاصل کی ہے اور نہ مقامی مینوفیکچرنگ کے حقوق۔جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ اخلاق باختگی اور بے راہ روی ہے۔ نوجوانی کا زمانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ مگر جہاںصنفی اختلاط کو فروغ دیاجارہا ہووہاںپڑھنے کی فرصت کس کافر کو ہے؟ اقبال اور اکبر کو عرصہ ہوا تعلیم سے دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ پس کوئی نہیں ہے جو انہیںیاد دلاسکے:
کبھی اے جوانِ مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے پالا ہے اس قوم نے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِدارا
لہٰذا ہمارا تعلیمی نظام اور میڈیا نہ صرف ہمیں حقائق سے بے خبر رکھ رہے ہیں بلکہ ہم سے ہماری اخلاقی اور روحانی اقدار بھی چھین رہے ہیں۔تاکہ ہم ایک روبوٹ کی طرح نیو ورلڈ آڈر پر عمل کرسکیں۔ لیکن میڈیا کی مضرتیں یہیں تک محدود نہیں ہیں۔امریکی محاور ہ ہے کہ ایک برا نام دو اور اسے آسانی سے ہلاک کردو۔ بین الاقوامی میڈیا اسی کام میںمحو ہے۔وہ ہر مسلمان کو بنیاد پرست، قرانِ کریم کو جنگ پر اکسانے والی کتاب اور رسول ِمقبول ۖ کو ایک جنگجو رسول بناکر پیش کررہے ہیں۔وہ دینی جماعتیں جو اسلامی نظام کااحیاء چاہتی ہیں بنیاد پرست ہیں۔ جو جماعتیں کشمیر میں رائے شماری اور اس کی آزادی کے لیے کام کررہی ہیںوہ انتہا پسند اور جنگجو جماعتیں ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں امریکہ نے جماعت الدعوة کے امیر پر وفیسر حافظ سعیدکے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔ بہت سے پاکستانی نہیںجانتے کہ دنیا کا ٩٦ فیصد میڈیاصرف ٦ یہودی میڈیا کمپنیز کی ملکیت ہے۔ جن کے ذمے یہ مشن ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کو فروغ دو۔ ہمارے کالم نگاروں، مدیروں اور اینکرز پرسنز نے جس سرعت سے امریکی نکتہ نظر کو اپنایا ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ محض چند ٹکڑوں کے لیے انھوں نے حب الوطنی اور خدا پرستی کو ترک کرکے امریکہ سے وفاداری اختیار کرلی اور اپنی روح شیطان کو فروخت کردی اور یہ ہمارا سب سے ذہین طبقہ تھا۔ ہمارے میڈیا کی یہی چالاکی ملاحظہ ہو کہ امریکہ ایک درجن سے زیادہ مسلم ممالک پر حملہ آور ہوچکا ہے اور فقط افغانستان اور عراق میںوہ تیس لاکھ کے قریب مرد و زن کو ہلاک اور لاکھوں کو معذور بنا چکا ہے۔ لیکن ہمارا میڈیا اسے اسلام کے خلاف جنگ کا نام نہیںدیتا۔ بلکہ اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی قرار دیتا ہے کہ کیوں خوامخوہ اپنی جانیںگنوا رہے ہیں اور چپکے سے ہتھیا ر ڈال کیوں نہیں دیتے۔

پس چہ باید کرد۔ اتنی تاخیرہوجانے کے بعد کیا کیا جاسکتا ہے؟میری ناچیز رائے میں ہمیںسب سے پہلے اپنامتبادل پریس قائم کرنا چاہیے۔ خواہ وہ فوٹو اسٹیٹ کیے جانے والے چند صفحات پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔انٹرنیٹ کی چند سائٹس اور بلاگز عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ صرف نوجوانوں کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھنا ہوگا۔ پھر وہ اپنا لائحہ عمل خود بنالیں گے۔ مگریہ کام فوراً سے پیش تر کرنا ہوگا۔اس لیے کہ وقت بالکل نہیں رہا ہے۔



یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رجب المرجب 1433ھ/ مئی، جون 2012- سے ماخوذ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے