جریدہ "الواقۃ"
کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/ ستمبر، اکتوبر
2012
امام محمد تاج فقیہ۔ بہار کے پہلے مسلم فاتح
محمد تنزیل
الصدیقی الحسینی
گو ارضِ بہار نہ امام
محمد تاج فقیہ کا مولد و مدفن ہے اور نہ ہی انہوں نے ا س سرزمین کو اپنی سکونت کے
لیے اختیار فرمایالیکن بہار کی اسلامی تاریخ امام محمد تاج فقیہ کے بغیرادھوری ہے
اور علومِ اسلامی کے ماہر علماء کے وجود کی ابتداء گویا آپ ہی کے حسنات میں سے
ہے۔بہار سے تعلق رکھنے والے مسلم اشراف کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جسے امام
محمد تاج فقیہ کی ذریّت نہ پہنچی ہو۔
امام محمد تاج فقیہ بن
ابو بکر بن ابو محمد معروف بہ ابو الفتح بن ابو القاسم بن ابو الصائم بن ابو سعید
معروف بہ ابو الدہر بن ابو الفتح بن ابو اللیث بن ابو ابواللیل بن ابو الدر بن ابو
سہمہ بن ابو الدین امام عالم بن ابو ذر عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ ) بن زبیر بن عبد
المطلب ۔نسباً زبیری الہاشمی تھے ۔ امام محمد تاج کے نسب میں مذکور تمام بزرگ اپنے
دور کے ائمہ و فقہا میں سے تھے ۔
امام محمد تاج کا تعلق
الخلیل سے تھا ۔ بعض نے مدینہ منورہ اور
بعض نے مکہ مکرمہ بھی لکھا ہے ۔تاہم بہار کے اکثر مورخین نے الخلیل ہی کو
امام محمد تاج فقیہ کا وطن قرار دیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ
سے بکثرت آمد و رفت رکھتے ہوں ۔ یہی مورخین کے لیے وجۂ التباس ہوا ہوگا ۔ شاہ
محمد نور کی قلمی بیاض کے مطابق امام محمد تاج اور امام غزالی ہم مکتب و ہم درس
تھے ۔ اپنے شیخ کے حکم سے اشاعتِ اسلام کی غرض سے مدینہ منورہ سے باہر نکلے ۔ شاہ
محمد نو رکے قلمی بیاض سے مولانا عبد الرحیم صادق پوری نقل کرتے ہیں :
“حضرت مولانا محمد تاج فقیہ قدس سرہ بوجہ تبحر در علم فقہ بمرتبۂ کمال امام محمد تاج الفقہا ملقب بودند آنحضرت و امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہما بحکم مرشد خود برائے اجرائے اسلام از مدینہ منورہ و ہم از محلہ قدس خلیل من محلات بیت المقدس تشریف میداشتند ( از آنجا امام غزالی بطرف ملک مغرب و از آنجا بطرف طوس تشریف بردند ) حضرت مولانا محمد تاج فقیہ بطرف ہندوستان صوبہ بہار تشریف ارزانی فرمودند ۔ " (الدر المنثور فی تراجم اہل الصادقفور : ١١)
مولانا محمد کبیر دانا
پوری نے اپنی کتاب “ تذکرة الکرام “ میں لکھا ہے کہ امام محمد تاج کے استاد ، شیخ
شہاب الدین سہروردی ہیں ۔
تاہم یہ روایات درایتاً
درست نہیں ۔ مستند تاریخی روایت کے مطابق امام محمد تاج نے منیر کو ٥٧٦ھ میں فتح
کیا ۔ ان کے ساتھ ان کے جوان بیٹے تھے ۔ یقینا ان کی عمر اس وقت ٥٠ برس سے متجاوز
ہوگی ۔جبکہ شیخ ابو حفص شہاب الدین سہروردی کی ولادت ٥٣٩ھ میں ہوئی اور ان کی وفات
٦٣٢ھ میں ہوئی ۔ تاہم یہ امکان ہے کہ امام محمد تاج کے استاد ، شیخ ابو نجیب عبد
القاہر سہروردی ہوں کیونکہ ان کی ولادت ٤٩٠ھ میں ہوئی اور وفات٥٦٣ھ میں ہوئی ۔ اسلامی
بہار کی قدیم تاریخ ویسے بھی اغلاط سے پُر ہے ۔ ممکن ہے کاتب کی مہربانی سے عبد
القاہر سہروردی کو شہاب الدین سہروردی سمجھ لیا گیا ہو ۔ اسی طرح یہ خیال کہ امام
غزالی ، امام محمد تاج کے ہم مکتب و ہم درس تھے ، درست نہیں ۔ امام غزالی کا
زمانۂ حیات تو اس سے قبل کا ہے ۔ ان کی ولادت ٤٥٠ھ میں ہوئی جبکہ وفات ٥٠٥ھ میں
ہوئی ۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ نہ شیخ شہاب الدین سہروردی امام محمد تاج کے شیخ
تھے اور نہ ہی امام غزالی ہم مکتب ۔ و اللہ اعلم بالصواب
امام محمد تاج ہندوستان
وارد ہوئے ۔ اس وقت اسلامی عملداری کی حدود اودھ تک پہنچی تھی ۔ اس زمانے میں
ہندوستان کے مشرقی صوبوں یوپی کے مشرقی اضلاع و بہار و بنگال میں طوائف الملوکی
تھی ۔ مختلف ہندو راجاؤں کی حکمرانی تھی ۔ اثنائے سفر امام صاحب بہار کے ایک مقام
منیر جا پہنچے ۔ وہاں صرف ایک ہی مسلمان گھر آباد تھا امام صاحب اسی کے گھر فروکش
ہوئے جب نماز کا وقت ہوا تو چاہا کہ اذان دیں اور نماز پڑھیں ۔ اس مسلمان نے اذان
دینے سے منع کیا اور کہا کہ اذان کی آواز سنتے ہی راجا کے آدمی آکر ہمیں مار دیں
گے یہاں اذان دینے کا حکم نہیں یہ سن کر امام صاحب کو بہت دکھ ہوا اور وہ وہیں سے
واپس ہوئے ۔ مدینہ منورہ پہنچے تاہم دل میں یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ کسی طرح
اس راجا سے لڑیں اور منیر کو اسلامی عملداری میں داخل کریں ۔ اسی اثنا میں ایک روز
مسجدِ نبوی ﷺ میں سو رہے تھے
کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی ۔ آپ ﷺ
نے حکم دیا کہ اس کافر سے جا کر لڑو اللہ کامیاب کرے گا ۔ جب بیدار ہوئے تو متحیر
ہوئے کہ تنِ تنہا کس طرح لڑیں ۔ اسی کشمکش میں چند دن مزید نکل گئے کہ دوبارہ
مسجدِ نبوی ﷺ ہی میں نبی کریم ﷺ
کی زیارت ہوئی اور وہی حکم صادر ہوا ۔ اس بار بھی وہی کیفیت ہوئی تاہم یہ خیال بھی
راسخ ہوا کہ جب حکم صادر ہوا ہے تو اسباب بھی مہیا ہوگا ۔ تآ نکہ تیسری بار بھی مسجدِ نبوی ﷺ
ہی میں زیارت ہوئی اور اس بار نبی کریم ﷺ
نے فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں اشخاص سے ملو وہ تمہاری اس امر میں مدد کریں گے ۔ جب
بیدار ہوئے تو ان ناموں کو اچھی طرح سے ذہن میں محفوظ کرلیا ۔ ان میں سے بعض افراد
تو مدینہ منورہ ہی میں مقیم تھے اور بعض دوسرے ممالک میں مقیم تھے ۔ مدینہ منورہ
میں جو افراد رہائش پذیر تھے وہ سنتے ساتھ ہی امام صاحب کی معیت میں عازم جہاد
ہوئے ۔امام صاحب بمع اہل و عیال ٣٠ /٣٥ افراد کے ساتھ مدینہ سے نکلے ۔ بخارا ،
کابل وغیرہا سے ہوتے ہوئے منیر پہنچے ۔ اس وقت تقریباً ساڑھے تین سو افراد ہمرکاب
تھے ۔ راجا منیر کو خبر ملی تو اپنے قلعے کی بلندی سے جب اس لشکرِ اسلامی پر نظر
ڈالی تو تعداد کی قلت سے بہت خوش ہوا اور مزید سرکشی پر آمادہ ہوا ۔ چنانچہ اس نے
جنگ کا آغاز کیا اللہ ربّ العزت نے لشکرِ اسلامی کو فتحیاب کیا ۔ امام صاحب ہی کے
نیزے سے راجا مارا گیا ۔ امام صاحب کو منیر اور اس کے اطراف میں مکمل تسلط حاصل
ہوا ۔ امام صاحب نے مکمل اسلامی نظام قائم کیا ۔بہار میں منیر کے مقام پر اس پہلی
اسلامی ریاست کا قیام بقول مولانا مراد اللہ منیری مصنف “ آثار منیر “ ٢٧ رجب ٥٧٦ھ
کو عمل میں آیا ۔ ان کے الفاظ ہیں :
“آج سے آٹھ نو سوسال پہلے اللہ کے بندے ، اس کے محبوب کی امت خاندان ہاشم کے جلیل القدر فرزند حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی قدس خلیلی رحمة اللہ علیہ حسبِ بشارت حضرت رسالتمآب ﷺ ہندوستان سے ہزاروں میل دور بیت المقدس سے صوبہ بہار کے مرکز عظیم یعنی سر زمین منیر شریف میں تشریف لائے اور پرچم اسلام نصب کرکے اس تیرہ و تار خطہ کو اپنی ضیائے ایمانی سے منور فرمایا ۔ ٢٧ رجب روز جمعہ ٥٧٦ ہجری کی وہ مبارک ساعت تھی جب آپ کے ہاتھ سے یہاں اسلام کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔ “ (آثار منیر : ٨ -٩)
جبکہ پروفیسر معین الدین
دردائی کے مطابق :
“حضرت مخدوم الملک (شیخ احمد منیری)کے پردادا حضرت امام محمد تاج فقیہ بقصدِ جہاد ٥٧٦ھ میں بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل سے ہندوستان تشریف لائے تھے اور صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ منیر شریف میں اقامت گزیں ہوئے ۔ منیر کا راجہ بہت ظالم اور سرکش تھا ۔ مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم توڑتا تھا ۔ یہ دیکھ کر حضرت امام محمد تاج فقیہ نے اپنے آنے کے چھٹے سال اس سے جہاد کیا اور منیر فتح کرلیا ۔ “ (تاریخ سلسلہ فردوسیہ:١٣٩)
تاہم بہاری محققین کے
نزدیک فتح منیر کی اوّل الذکر روایت ہی کو قبولیت عام حاصل ہے ۔ پروفیسر صاحب کی
روایت کو درست تسلیم نہیں کیا جاتا ۔
عام طور ہندوستانی مورخین
بختیار خلجی کو بہار کا پہلا مسلم فاتح قرار دیتے ہیں ۔ جس نے معروف روایت کے
مطابق ( مثلاً “ طبقات ناصری “) ٥٩٥ھ میں بہار فتح کیا تھا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ
بہار کے پہلے مسلم فاتح امام محمد تاج فقیہ تھے ۔ جنہوں نے بختیار خلجی کی آمد سے
١٩ برس قبل ہی بہار کے ایک خطے میں اسلامی ریاست قائم کرلی تھی ۔ یہ ایک تاریخی
حقیقت ہے کہ امام محمد تاج بہار کے پہلے مسلم فاتح ہیں ۔ اس پر بہار کی مستند تاریخی
روایات موجود ہیں اور اس حقیقت کو اب تاریخی طور پر تسلیم کیا جانا چاہئیے۔
امام صاحب کی اہلیہ مکرمہ
کا انتقال منیر ہی میں ہوا جس کے بعد امام محمد تاج نے اپنی اہلیہ کی چھوٹی ہمشیرہ
کو اپنے حبالۂ عقد میں لیا ۔ ان سے ایک صاحبزادے مخدوم عبد العزیز منیر ہی میں
پیدا ہوئے ۔ امام صاحب نے اہلیہ اولیٰ سے اپنے صاحبزادوں مخدوم اسرائیل اور مخدوم
اسماعیل کو یہیں چھوڑا اور خود امام صاحب اپنی محل ثانی ، چھوٹے صاحبزادے مخدوم
عبد العزیز اور چند مخلصین کے ہمراہ منیر سے الخلیل کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ الخلیل
بیت المقدس کا ایک محلہ ہے وہیں امام صاحب کی وفات ہوئی ۔ صاحبِ "الدر
المنثور“ مولانا عبد الرحیم صادق پوری کے مطابق امام تاج فقیہ منیر سے مدینہ منورہ
تشریف لے گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔ (الدر المنثور فی تراجم اہل
الصادقفور : ١٤)
امام تاج فقیہ کے چھوٹے
صاحبزادے مخدوم عبد العزیز جب سنِ شعور کو پہنچے تو انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے کا
شوق منیر کھینچ لایا اور انہوں نے بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ یہیں اقامت اختیار
کرلی ۔
مولانا سیّد ابو الحسن
علی ندوی لکھتے ہیں:
“مولانا محمد تاج فقیہ کی ذات سے منیر اور اس کے مضافات میں اسلام کی بہت اشاعت ہوئی ، کچھ عرصہ آپ نے منیر میں قیام کرکے وطن مراجعت فرمائی اور زندگی کا بقیہ حصہ خلیل ہی میں بسر کیا ۔ “(تاریخ دعوت و عزیمت : ٣ /١٧٨)
مولانا ابو البرکات عبد
الرؤف دانا پوری لکھتے ہیں :
“صوبہ بہار میں قصبہ منیر شریف قدیم اسلامی مرکز ہے حضرت امام محمد تاج فقیہ رحمة اللہ علیہ نے اس دیار میں سب سے پہلے منیر کو اپنا اسلامی مرکز بنایا ۔ آپ کی مجاہدانہ کوششوں سے اس دور دراز خطہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور کافی اشخاص نے راہ ہدایت اختیار کی ۔ “ (آثار منیر :٥)
امام محمد تاج فقیہ
سلطانِ ہند شہاب الدین محمد غوری ( م ٦٠٢ھ ) کے معاصر تھے ۔ امام محمد تاج کی سن
وفات سے متعلق بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔
پروفیسر محمد حسنین اپنے
مکتوبِ گرامی مرقومہ ٦ اکتوبر ١٩٩٩ء بنام سیّد قیام الدین نظامی لکھتے ہیں:
"میرے والد الحاج سیّدمحمد رشید مرحوم کے دادا سیّد صمصام الدین کی ایک سندی انگشتری میرے پاس محفوظ ہے ۔ سیّد صمصام الدین مرحوم کی پوتی ، رقیہ محمود شمسی کاکوی ( دختر فخر الدین منیری ) کے پاس جو خاندانی فاتحہ نامہ زیرِ مصرف رہا اسی کا عکسی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں ، شاید آپ کے کام آئے ۔ فاتحہ نامہ میں امام محمد تاج فقیہ کا سالِ وفات ٥٦٣ھ تحریر ہے ، جس کی شہادت تاریخِ کملاء سے بھی مل جاتی ہے ۔"
گزشتہ سطور میں مولانا
مراد اللہ کی کتاب “ آثار منیر “ کا اقتباس گزر چکا ہے کہ منیر کی فتح ٥٧٦ھ میں
ہوئی جس سے ٥٦٣ھ میں امام محمد تاج فقیہ کے سنِ وفات ہونے کی قطعاً نفی ہوتی ہے
۔اس ضمن میں راقم کا حاصلِ تحقیق حسبِ ذیل ہے :
اوّلاً : کسی مستند کتاب
میں امام محمد تاج فقیہ کی سن وفات مذکور نہیں ۔
ثانیاً : جن سنین وفات کا
ذکر ملتا ہے نہ وہ روایتاً درست ہیں اور نہ ہی درایتاً ۔
مختلف اور متعدد تاریخی
شخصیات ایسی ہیں جن کی سنینِ ولادت و وفات سے آگاہی نہیں ہوتی لیکن نہ اس سے ان کی
شخصیت مجروح ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے کارناموں پر زد پڑتی ہے ۔
بہار کے متعدد مشاہیر
مخدوم یحیٰ منیری ، شیخ شرف الدین احمد منیری ، مخدوم عزیز الدین پکھئی ، مولانا
محمد عارف ، شاہ دولت منیری ، مولانا محمد
سعید ( شہر گھاٹی ) ،مولانا ولایت علی صاد ق پوری،مولانا عنایت علی صادق پوری،
مولانا عبد الرحیم صادق پوری( اسیر کالاپانی )، شاہ محمد اکبر دانا پوری ، شاہ
امین احمد ثبات فرودسی ، شاہ محمد سلیمان پھلواروی وغیرہم امام محمد تاج سے براہِ
راست نسبی تعلق رکھتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے