جریدہ
"الواقۃ" کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/
ستمبر، اکتوبر 2012
نکسنیات سے
دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر ؟
محمد احمد
قسط نمبر 2 | قسط نمبر 1 |
اس جنگ کی شروعات سے قبل مارشل
اسٹالن نے روس کے باشندے مسلمانوں سے مذہبی اور سیاسی آزادی دینے کے بڑے وعدے کیے تھے
۔ مگر اپنی مطلب براری کے بعد سب کچھ طاقِ نسیاں ہوگیا اور حالات کا جبر اسی نہج پر
رہا ۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین فولادی پردون کے پیچھے روپوش رہتے ہوئے چور دروازوں
سے اشتراکی نظریات کے جراثیم برآمد کرتا رہا ۔ مسلم ممالک میں منافق ٹولہ ایسے اثرات
قبول کر لیتا ہے ۔ اس ٹولہ کو پہلے خفیہ طور سے اسلحہ کی کھیپ پہنچائی جاتی ہے ۔ اس
طریقۂ کار کو گن رننگ (Gunrunning)
سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔افغانستان میں کچھ تبدیلی کے بعد گن رننگ کروائی ۔ بعد میں ظاہر
شاہ (کی جائزحکومت ) '' کو '' (Coup) سے بدل دی ۔ اس سے بھی روسی ریچھ کا دل مطمئن نہ ہوا تو طوفانی فوجی
یلغار سے سارا نظامِ افغانستان تہہ و بالا ہوگیا۔ '' ماڈرن '' زمانہ میں سوویت یونین
نے اپنے اس اقدام کا نیا نام برزنیف حکمت عملی (Brezenev
Doctrine) رکھ دیا ۔
جیسا کہ پہلے ( پیرا نمبر ٧ ) بتایا جا چکا
ہے کہ عالم اسلام سے جوشیلے مسلمان نوجوان جمع ہونے لگے اور افغانستان میں عالمی اسلامی
جہاد کی بنیاد پڑ گئی ۔ لاکھوں لُٹے پٹے افغان مہاجرین ، جن میں عورتیں ، بچے اور بوڑھے
شامل تھے ، نے ہمسایہ ملک پاکستان میں پناہ لی۔ ان لاکھوں افراد کی برسہا برس پاکستان
نے اپنے وسائل سے مہمان نوازی کی ۔ بہر حال مجاہدین کی بہت بڑی تعداد نے برضا و رغبت
خلعتِ شہادت پہنتے ہوئے سوویت فوجوں کو ایسی عبرتناک شکست دی جو تاریخ میں معتبر ترین
شکست مانی جائے گی ۔ ایک حیثیت میں مجاہدین نے اپنے روسی مسلمان بھائیوں کا بدلہ بھی
اس انداز میں لیا کہ سوویت یونین ہی تحلیل ہوکر رہ گیا ۔ مجاہدین اپنا مقصد حاصل کرچکے
تھے ۔ صورتحال کا تقاضا تھا کہ افغانستان کے حکمران وہ خود بنتے اور ان قیدیوں کا ٹرائل
کرتے مگر ان اللہ کے نیک بندوں نے اپنے خون کے پیاسوں کو اس طرح معاف کیا جس طرح حضور
اکرم ﷺ نے مکہ
کے مشرکوں کو حرم کعبہ میں معاف کیا : لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ
الْيَوْمَ ۭ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ
اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 92 ) (سورہ یوسف : ٩٢) '' آج تم پر کوئی گرفت نہیں ،
اللہ تمہیں معاف کرے ۔ وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے ۔''
سابق سوویت یونین کے گرفتار
فوجیوں کو بلا کسی گزند اور تکلیف کے دریائے آمو (River
Oxus) سے پار کرادیا گیا ۔ اب روس سوویٹ یونین سے
رشین فیڈریشن بن چکا ہے یعنی کل کا دیو ( سوویٹ یونین ) آج کا بونا بن گیا ۔
١٤-رچرڈ نکسن کا اسلام فوبیا کا بیج برگ و بار
لاتے ہوئے ایک تناور درخت بن جاتا ہے ۔ بالفاظِ دیگر نکسن کی دور رَس حکمت عملی بروئے
کار آجاتی ہے اور امریکاشدید اسلاموفوبیا کے مرض ( جو اب بڑے مرض (Pandemic) کی شکل اختیار کرلیتا ہے ) میں مبتلا ہوتے ہی دنیائے اسلام سے تصادم
کی راہ پر لگ جاتا ہے۔ افغانستان میں بونی روسی ریاست ( شمالی اتحاد کے گاڈ فادر کی
شکل میں ) اور امریکا ( ١١/٩کے انتقام کے لیے ) افغانستان میں بھیانک خون کی ہولی کھیلنے
کے لیے کود پڑتے ہیں ۔ برطانیہ بھی امریکا کا وار آن ٹیررکا ساتھی بن جاتا ہے ۔ پوری
دنیا اس ظلم اور بربریت پر چیخ پڑتی ہے اور بش اور اس کے بلیئر(Blair) سے اس خونیں '' ڈرامہ '' کو بند کرانے کے لیے بیشتر ممالک میں مظاہرے
شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس ظلمِ عظیم کی حدت اور شدت کے تناظر میں سانحہ ١١/٩ ، جسے کسنجر
نے جنگِ عظیم دوم کے واقعہ پرل ہاربر میں امریکی بڑے جنگی جہازوں کی بڑی تعداد میں
جاپانی ہوائی حملہ سے غرقابی سے تشبیہ دی تھی ، کا امپیکٹ (Impact) بودا و جعلی محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے ببانگِ دہل کہنے میں کوئی
باک نہیں کہ نکسن نے جنگ کی چتا بالآخر اپنے منفی عزائم کے تحت جلا ہی ڈالی اور یہود
نے اس آگ کو اپنی ازلی اسلام دشمنی اور منفی سرشت پر گامزن رہتے ہوئے خوب بھڑکائی اور
اب یہ آگ اس نہج تک جا پہنچی کہ جس کے لیے عراق کے مرحوم صدر صدام حسین نے اپنی زندگی
میں '' امّ المحارب '' ( جنگوں کی ماں ) کا نام تجویز کیا تھا ۔ انہوں نے جارج ڈبلیو
بش کو دعوت مبارزت بھی دی ( جو اس نے قبول نہ کی ) اور وہ اسے میدانِ مکافاتِ عمل میں
تنہا چھوڑتے ہوئے مزید مشتعل کرگئے تاکہ وہ اپنی منفی میلانِ طبع کو اور مہمیز دے
۔ شروع میں بش ایک (Secular)
لادینی جنگجو رہنمانظر آتے تھے بعد میں وہ اس حد تک مشتعل کر دیئے گئے کہ وہ اس جنگ
کو کرئہ ارض کی آخری جنگ (ARMAGEDDON) کے ہدف تک لے جانے کے شدید آرزو مند ہوگئے ۔ یہ نکسن کی ثلث صدی کی
سوچ ، تحاریر اور منفی جذباتیت کا شاخسانہ ہے کہ جسکے ڈانڈے قرب قیامت کی بڑی نشانی
-ظہور الدجال - سے مل جاتے ہیں ۔ مغرب نکسن کی پیدا کردہ اس اتھاہ منفی سوچ -اسلامو
فوبیا- میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ اسے اب اس حالت استغراق سے نکلنا خاصا مشکل بلکہ تقریباً
نا ممکن ہوگیا ہے ۔ یعنی مرض ( اسلامو فوبیا ) اور جنگ باہم لازم وملزوم ہوچکے ہیں
۔ دانشورانِ مغرب کے دماغ اتنے کھول چکے ہیں کہ وہ اس جنگی آگ میں جلنے اور جلانے کو
اس '' فوبیا '' کا مؤثر علاج گردانتے ہیں ۔
١٥- بش جونیئر نے برطانوی کلیسا کا پیرو کار ہونے
کے سبب وار آن ٹیرر کو مذہبی رنگ دیا اور سابق صدرِ امریکا کی حیثیت میں نکسن کے پھیلائے
ہوئے اسلامو فوبیا کے فُسوں کے شدید پرچارک کا روپ دھار لیا ۔ نکسن کا شروع میں وہ
غیر محسوس طریقہ سے معتقد تھا ۔ مگر ایگزیکیٹو آرڈر (Executive
Order 13224) منظور کرتے ہی نکسن کوبہت پیچھے چھوڑ گیا۔اس
انتظامی حکم کے تحت بش نے مشرق وسطیٰ کے صدیوں سے قائم غیر سودی مالیاتی نظم کو تہہ
و بالا کردیا۔ دنیائے مغرب کا بینکاری نظام ، گو حکومتوں کے ماتحت رہا ، دنیائے اسلام
کے حکومتی انتظام سے مبرّا صدیوں پرانے معاشی نظام و انصرام کے سامنے طفلِ مکتب ہی
مانا جائے گا ۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ امریکا نے ١١/٩کے جواب میں دنیا کے انتہائی
پسماندہ ملک افغانستان پر نہ صرف اپنی بحری ، برّی اور فضائی طاقت سے بھرپور حملہ کیا
بلکہ پورے اسلامک بلاک کے مالیاتی وسائل پر غاصبانہ قبضہ کے لیے آپریشن گرین کویسٹ
بھی اپنی وزارت مالیات کے توسط سے شروع کردیا ۔ ایک مشہور امریکی کہاوت ہے : '' امریکا
میں دوپہر کا کھاناکبھی مفت نہیں ملتا There is no free
lunch in US ''آخر کیوں ؟ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے
ناتے پوری اسلامی دنیا کو بالعموم وہ اپنا غلام بنانے کی قسم بھی کھا تا ہے اور
دنیائے اسلام کے منافق حکمرانوں کو بالخصوص حِرص و ہوس کے بندے بنانے کے لیے
کروڑوں ڈالرز کا دانہ بھی ڈالتا ہے ۔ اپنے طور و طریق کو بلا شرم و لحاظ وہ چھڑی
اور گاجر سے تشبیہ دیتا ہے ۔ چھڑی پر تکیہ کرنا سب کی سمجھ میں فوراً آجاتا ہے ۔
مگر گاجر اپنی جیب سے کھلانا اس کے بس کی بات نہیں ۔ اسی لیے اسلامی دنیا کی منی
مارکیٹ (Money Market)
کی نقب زنی کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) کراتے ہوئے بلڈ منی (Blood Money)کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔
اگر پاکستان کے حکمرانوں
میں خدا خوفی ہوتی تو وہ اپنا ملک سودی دلدل میں نہ دھنساتے بلکہ اپنے سودی قرضوں
کے ڈالرز اس عظیم اسلامی مالیاتی منڈی سے خرید کر مغربی ممالک کے سودی مہاجنوں (World
Bank & IMF etc) کو فی الفور ادا کرتے ہوئے اس سودی
شکنجے سے نکل آتے ۔ ایسا سودا صرف خوش
قسمت افراد کے سَروں میں سماتا ہے اور جنہوں نے اپنی سائیکی میں مال و متاعِ غرور
کی لذت و محبت بسا رکھی ہو انہیں باری تعالیٰ نے دنیا کی آخری جنگوں میں تپا کر
دجّال کے دستر خوان کی نذر کرنے کا ارادہ فرمالیا ہے ۔ اصحاب الشمال کا بُرا انجام
ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔
ستّر کی دہائی سے اب تک (
قریباً نصف صدی ) نسل در نسل جوش و جذبہ والے ، عشقِ خداوندی و رسول ہاشمی ﷺ
کے متوالے اور راتوں کے راہب ، دنوں کے شہ سوار ( الرّاہبان باللّیل و الفرسان
بالنّھار ) جن کے لیے علّامہ اقبال فرماتے ہیں :
جو ذکرکی گرمی سے شعلے کی
طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی
سے زیادہ تیز
نوجوانوں نے مغرب کی ہائی
ٹیک (High Tech) افواج کو پندرہ سو کلو میٹر طویل کوہستانی
سلسلے کے غاروں کو بیس بناتے ہوئے اپنی گوریلا کارروائیوں سے ناکوں چنے چبوا دیئے
ہیں ۔ مستقبلِ قریب میں ان کا مطمحِ نظر امام مہدی کے زیرِ کمان لشکر دجّال سے
حتمی اور نتیجہ خیز ٹکراؤ ( آپ چاہے اسے End of Time Battlesکہیں
یا Armageddon
کے نام سے پکاریں صحیح ہے ) اصحابِ یمین و مقربین انہیں اوصاف سے
پہچانے جاتے ہیں ۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ
داں کے لیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے