جریدہ "الواقۃ"
کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/ ستمبر، اکتوبر
2012
غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ابو موحد عبید الرحمن
'' پھر یہ بات بھی قابلِ وضاحت ہے کہ اگر
مسلمانوں کا کسی ملک میں داخلہ و قیام اور اظہار احکام اسلام غلبہ کی صورت میں نہ
ہو تو وہ بدستور دارِ حرب ہی رہے گا ۔ ''(انوار الباری :١٨/١٨٦)
١١)
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں :
'' وہ احباب جو ( یورپ ) سے واپس آئے تو بعض
فاسق اور بعض تو بالکل ہی لامذہب ہوکر لوٹے اس حال میں کے وہ دین کا مذاق اڑا رہے
تھے ۔ '' (فتاویٰ و رسائل الشیخ : ٣/ ٢٥١)
١٢
) مفسر قرآن علّامہ محمد ادریس کاندھلوی رقمطراز ہیں :
''آج کل امریکا اور برطانیہ میں رہنے والے
مسلمان حکومت کی اجازت سے احکام اسلام بجا لاتے ہیں بغیر ان کی اجازت کے احکام
اسلام بجا لانے پر قادر نہیں تو امریکا اور برطانیہ کی حکومت دارا لحرب ہوگی ۔'' (عقائد
اسلام :٢٣٨)
١٣)مولانا
سیّد احمد رضا بجنوری رقمطراز ہیں :
''
موجودہ دور میں جبکہ دنیا کے ڈیڑھ سو ملکوں میں سے تقریباً ایک تہائی اسلامی ممالک
ہیں باقی سب دیار کفر ہیں ، الکفر ملة واحدة ۔''(انوار الباری :١٨/٢٥٥)
١٤)
علامہ سیّد رشید رضا مصری نے بھی فرانسیسی شہریت کی حرمت پر تفصیلی فتویٰ جاری کیا
ہے ۔(نواقض الاسلام القولیة و الملیة :٣٦٧)
١٥)
علّامہ سیّد مہر علی شاہ صاحب فرماتے ہیں :
''یہود
و مشرکین کی عداوت قرآن شریف میں صراحتاً مذکور ہے ۔ پس ترک موالات ہندو اور
انگریز اور یہود سب سے ہونی چاہیئے ۔ '' (مہر منیر :٢٧٤)
١٦) فضیلة
الشیخ داکٹر صالح الفوزان فرماتے ہیں :
''
کفار کے علاقوں میں مستقل اقامت اختیار کرنا اور مسلمانوں کے علاقوں میں سکونت
پذیر ہونے سے گریز کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے ( جوکہ حرام ہے ) ۔ ''(ماہنامہ
'' محدث ' ( لاہور ) : نومبر ٢٠١١ء ص ٤٥)
١٧)
علامہ نعیم الدین مراد آبادی رقمطراز ہیں :
''
کفار کے ساتھ ایسی مجالست و مساحبت ، مواکلت و مشاربت ، تناصر و تعاون بھی ممنوع
ہے ، انہیں رازدار بنانا اپنے امور ان کے ہاتھ میں دینا بھی ناجائز ہے ۔''(حیات
صدرا لافاضل :٢/١٣٣)
١٨)
فضیلة الشیخ علامہ یوسف دجوی المصری بھی ان ممالک کی نیشنلٹی (Nationality)کو اسلام سے متعارض قرار دیتے ہیں ۔(نواقض الاسلام : ٣٦٧)
١٩) علّامہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی رقمطراز ہیں :
''اسلام
نہ اس حکومت کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک الملک یعنی اللہ سے بے تعلق ہوکر
آزادانہ خود مختار قائم ہوئی ہو نہ اس قانون کو تسلیم کرتا ہے جو کسی انسان یا
انسانوں کی کسی جماعت نے بطور خود بنالیا ہو، نہ اس عدالت کے حقِ سماعت و فصلِ
خصومات کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک و فرمانروا کے ملک میں اس کی اجازت (Sanction)کے بغیر اس کے باغیوں نے قائم کرلی ہو ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی
عدالتوں کی حیثیت وہی ہے جو انگریزی قانون کی رُو سے ان عدالتوں کی قرار پاتی ہے
جو برطانوی سلطنت کی حدود میں تاج کی اجازت کے بغیر قائم کی جائیں۔ ان عدالتوں کے
جج ، ان کے کارندے اور وکیل اور ان سے فیصلے کرنے والے جس طرح انگریزی قانون کی
نگاہ میں باغی ومجرم اور بجائے خود مستلزم سزا ہیں ، اسی طرح اسلامی قانون کی نگاہ
میں وہ پورا عدالتی نظام مجرمانہ و باغیانہ ہے ۔ '' (ماہنامہ '' ترجمان القرآن '':
اگست ١٩٤٥ء )
٢٠)مفتی
محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں :
''فقہاء
فرماتے ہیں کہ صرف ملازمت کی غرض سے کسی مسلمان کا دار الحرب میں رہائش اختیار
کرنا اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بننا ایسا فعل ہے جس سے اس کی عدالت مجروح
ہوجاتی ہے ۔ '' (سلسلہ فقہی مقالات : ٥ /١٣)
٢١)علّامہ
شیخ احمد شاکر محدث ( قاضی القضاة سلطنت عثمانیہ مصر ) رقمطراز ہیں :
''
انگریزوں اور اہلِ فرانس کی اور ان کے حلیفوں اور ہمدردوں کی کسی بھی نوعیت کی مدد
کا ارتکاب ( اگر کوئی مسلمان ) کرے گا ، تو اگر اس کے بعد وہ نماز پڑھے گا تو اس
کی نماز قبول نہیں ہوگی ، وہ وضو ، غسل یا تیمم کرکے پاک ہونا چاہے گا تو اس کا یہ
عمل قابلِ قبول نہیں ٹھہرے گا ۔ اس کی کسی قسم کی بھی عبادت لائقِ قبولیت نہیں
ہوگی ۔ '' (کلمۂ حق : ١٢٦)
٢٢) علامہ شبیر احمد عثمانی رقمطراز ہیں :
''
بعضے مسلمان ایسے بھی ہیں کہ دل سے تو سچے مسلمان ہیں ، مگر کافروں کی حکومت میں
ہیں اور ان سے مغلوب ہیں اور کافروں کے خوف سے اسلامی باتوں کو کھل کر نہیں کر
سکتے نہ حکم جہاد کی تعمیل کر سکتے ہیں ، سوان پر فرض ہے کہ وہاں سے ہجرت کریں ۔
'' (تفسیر عثمانی ، مطبوعہ مملکت سعودیہ :١٢٣)
٢٣
) علامہ سیّد بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں :
''ہجرت
کی روح ترکِ وطن نہیں بلکہ شرک اور مشرک سے علیحدہ رہنا ہے ، جہاں شرک کا اقتدار
ہو وہاں اسلامی حیات ہرگز نشو و نما نہیں پاسکتی، اس حالت میں اسلام کی حفاظت صرف
ہجرت سے ہو سکتی ہے ۔ '' (ترجمان السنة ، باب : نھی المومن عن تکثیر سواد المشرکین
: ٢ /٣٧١)
٢٤)
علّامہ عبد الحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ کے سامنے یہ استفتاء پیش ہوا کہ کچھ لوگ
سرکارِ انگریز میں باعزت و وقار ہیں اور انہوں نے خلافِ شرع قانون وضع کیا ہے اور
اسے قبول کیاہے ، ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے ؟ علامہ فرنگی محلہ فرماتے ہیں :
''
حق جل شانہ کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ( و من لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولٰئک ھم الکافرون ) پس ایسا قانون ، جو خلافِ شرع کے ہو
، قبول کرنا اس کا اہلِ اسلام پر حرام ہے اور جو اس کے موافق عمل کرے گناہ اس کا
مقنن قانون کی گردن پر ہوگا اور کرنے والے نے اگر قانون شرعی کو برا سمجھا اور اس
کے ساتھ راضی اور ان کو خلاف مصلحت و غیر کافی تصور کیا تو وہ کافر ہوگئے ........
اور اگر انہوں نے قانونِ شریعت کو برا نہ سمجھا تو اگرچہ کافر نہیں ہوئے مگر بہت
بڑے فاسق ہوئے ۔ '' (مجموعۂ فتاویٰ ،
مطبوعہ یوسفی :٢/٤٨ )
٢٥)
علامہ شاہ عبد القادر دہلوی رقمطراز ہیں :
''
معلوم ہوا کہ جس ملک میں مسلمان کھلانہ رہ سکے ( یعنی اظہارِ دین و اولا البرء )
وہاں سے ہجرت فرض ہے ۔ '' (موضح القرآن : ١٧٧)
٢٦)
جمہور علمائے امت دارالکفر و دارالحرب کی حرمت و شناعت کے بارے میں کس قدر حساس
واقع ہوئے ہیں ، اس کا اندازہ ہم ماضیِ قریب میں رونما ہونے والے ایک سانحہ سے لگا
سکتے ہیں ۔ یہ سانحہ برصغیر ہندوستان میں انگریزوں کادر آنا تھاگو یہ امرِ واقعہ
تھا کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانانِ برصغیر کو آج کے یورپی مسلمانوں سے بڑھ کر
مذہبی آزادی حاصل تھی ، پھر ان کو بعض حلقوں میں سیاسی تسلط بھی حاصل تھا ۔ ان کی
تعداد بھی ان گورے چمڑی والوں سے کہیں زیادہ تھی ۔ اسی طرح بعض علاقہ جات میں
اسلامی قضاة و عدالتوں کا شعبہ بھی بحال تھا مگر ان تمام مثبت عوامل کے باوجود ہم
دیکھتے ہیں کہ ہمارے ان جلیل القدر محققانِ علم و رشد نے ہندوستان کے دارا لحرب و
دارالکفر ہونے کا فتاویٰ جاری کیا ۔ چنانچہ علامہ شاہ عبد العزیز نے ہندوستان کے
دارالحرب ہونے کی حسبِ ذیل وجہ بتلاتے ہیں :
''
اس شہر میں مسلمانوں کے امام کا حکم بالکل جاری نہیں ہے ،بلکہ نصاریٰ کے سرداروں
اور افسروں کا حکم جاری ہے ۔ ہاں اگر بعض اسلامی احکام مثلاً جمعہ اور عیدین اور
گاؤ کشی وغیرہ سے یہ لوگ تعریض نہیں کرتے ہیں ، تو بھلے نہ کریں مگر ان احکام کی
اصل الاصول ان کے نزدیک بالکل ہیچ اور ضائع ہیں ۔ '' (فتاویٰ عزیزی : ١ /١٧٧)
٢٧
) علامہ قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
''
اگرچہ راجح نزد ہیچمدان کہ ہندوستان دارالحرب است ۔''
''
اگرچہ اس عاجز کے نزدیک راجح یہی قرار پایا کہ ہندوستان دارالحرب ہے ۔ '' (قاسم
العلوم ، مطبع مجتبائی : ١٧٧)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے