الواقعۃ شمارہ نمبر ٢
ابو موحد عبید الرحمن
تاریخِ اسلامی کے اوراق اس فطری حقیقت پر شاہد ہیں کہ اس کے باسیوں نے بغرضِ معاش دیارِ اسلامی کو ترک کرکے دیارِ کفر میں کبھی دائمی سکونت اختیار نہیں کی ۔ لیکن عصرِ جدید کی جدت کے جہاں اور غیر فطری عجائب ہیں ، وہیں یہ عجوبہ بھی گاہے بگاہے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ تلاشِ معاش کے لیے لوگ اپنا خطہ چھوڑنے پربخوشی راضی ہیں ، جو کہ ایک غیر معمولی امرِ واقعہ ہے ۔ اس غیر معمولی امرِ واقعہ کا سبب ہمیں اسلامی تاریخ میں ایک غیر معمولی '' فکری تغیر '' ملتا ہے اور یہ فکری تغیر اسلامی تصورِ علم کا مغربی تصورِ علم سے تبدیل ہوجانا ہے۔
مغرب کا عنوانِ علم '' مادیّت '' (Materialism) اور اس کے ارتقاء اور ترقی کے لیے اساس '' تشکیک '' (Spritualism) اور اس کی بنیاد '' ایمان '' (Faith)کو قرار دیا گیا ہے ۔ یوں اسلام اور مغرب کا تصورِ علم ایک دوسرے کی ضد پر قائم ہے یعنی کسی ایک کا اقرار ، دوسرے کے انکار کو مستلزم ہے ۔ علمیت کے اس مخصوص سانچہ سے جو '' شخصیت '' اور '' تصورِ ترقی '' برآمد ہوتا ہے ، وہ بھی باہم متضاد ہیں ۔ اسلامی علمیت (Islamic Epistemology) سے برآمد ہونے والی شخصیت ، اپنے تاریخی پسِ منظر سے وابستہ ، خاندانی نظام سے پیوستہ اور آنے والی نسل کو یہی اقدارِ سلف منتقل کرنے کے لیے کمربستہ ہوتی ہے ۔ مغربی علمیت (Western Epistemology) سے برآمد ہونے والی شخصیت کے پاس تشکیک سے بالا وہ یقینی تاریخی نکتۂ آغاز ہے ہی نہیں جہاں سے وہ اپنے فکری سفر کا آغاز کریں ۔ اسی لیے وہ خود اپنی تاریخ کو تاریکی (Dark Ages) سے تعبیر کرتے ہیں اور جبھی ان کے یہاں اہلِ اسلام کے بَر خلاف سائنسی تجربہ (Scientific-experiment) کو تاریخی تجربہ (Historical-experiment) پر ہر زاویہ ہائے نظر سے فوقیت حاصل ہے ۔ شخصیت کے اس تقابل کے بعد اسلامی و مغربی تصورِ ترقی کے مابین فرق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیے ۔ مغرب کا تصور ترقی '' آگے اور آگے '' پر مبنی ہے کیونکہ پیچھے Dark Ages ہیں جبکہ اسلامی تصور ترقی '' پیچھے اور پیچھے '' پر مبنی ہیں کیونکہ آگے وہ پُر فتن احوال جو قرب قیامت واقع ہونگے اور پیچھے وہ '' خیر القرون '' ہے جسے ہم مثالی دور سے تعبیر کرتے ہیں اور دکھی انسانیت کے لیے اس دور کو دکھوں کا مداوا سمجھتے ہیں ۔
مگر برطانوی سامراج کے تسلط کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں مغربی علمیت کا غلبہ ہوتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں یہ نقصان تو ہوا ہی کہ سلطنت اسلامیہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ، لیکن اسی کے ساتھ علّامہ مودودی دہلوی علیہ الرحمة کی زبان میں وہ شاہِ کلید (Master-key) جس سے ہر شکستہ باب مفتوح ہوجاتا تھا یعنی '' اسلامی علمیت ''، وہ بھی اہلِ ایمان کے ہاتھ سے چھین لی گئی ۔ اس کے نتیجہ میں جو '' ذہنی ارتداد '' مسلم معاشرے میں وبائی امراض کی طرح پھیلا اس کے سبب مسلمانوں کا تصورِ ترقی نہ صرف مسخ ہوکر رہ گیا بلکہ محرف قرار پایا کیونکہ اب وہ مغربی تصور ترقی کے قائل ہوگئے تھے ۔ انہیں ان کے ماضی سے دلبرداشتہ کردیا گیا تھا ۔ جبکہ پہلے وہ '' ماضی'' کے خیال و خامہ سے'' آج '' کی تصویر کو رنگتے تھے ، اسلاف کی یادوں سے اپنے قلوب کو گرماتے اور تڑپاتے تھے ، قرطبہ و غرناطہ ان کی یادوں میں بستا تھا ، وہ نیشاپور کی فضائوں میں سانس لیتے تھے اور ہر فتح و شکست کے بعد ماضی کے انہی دریچوں سے فکری و روحانی غذا پاتے اور پھر فضائے بدر پیدا کرنے کے لیے معرکۂ حق و باطل میں بے دریغ کود پڑتے تھے ۔ لیکن اب وہ اپنی فکر کی اس جلالت و للّٰہیت سے غلام ابن غلام ہونے کی وجہ سے تنفر برتنے لگے تھے ۔ وہ ماضی کی طرح ماضی کو حال کا مقدمہ بنانے کے بجائے حال کو مستقبل کا مقدمہ بنانے لگے تھے کیونکہ وہ مغربی تصورِ ترقی '' آگے اور آگے '' کے قائل ہوگئے تھے ۔ اس تصورِ ترقی نے مسلمانوں کو ان کی تاریخ سے کاٹ کر انفرادیت پسندی (Indiviualism)کا خوگر بنایا تاکہ وہ طاغوت کے اس نظام میں Carreristic ہونے کے لیے Futuristicہوسکیں ۔ اس تصور علمیت نے امت مسلمہ کا سوچنے تک کا زاویہ ہائے نظر تبدیل کردیا اور اب وہ اپنی مرضی سے سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ چنانچہ اب درہم و دینار کی چاہ نے '' فلسفۂ تدبیر '' کو '' فلسفۂ تقدیر '' پر برتری دینے کی ٹھانی ، '' کامیاب انسان '' کی اصطلاح '' اچھے انسان '' کا نعم البدل قرار پائی ۔ '' زہد و قناعت '' پر زیادہ سے زیادہ تسکین (Maximum Satisfaction)کو ترجیح دی گئی ، '' عارف '' کو غیر متعلق (unrelevent)اور '' صارف '' کو (relevent)قرار دیا گیا اور یوں '' روح '' کی حفاظت سے زیادہ اہم شہ '' زندگی '' کی حفاظت قرار پائی ۔ یہ سب کچھ ہوا تاکہ معیار زندگی (Standard of living)بلند ہوسکے اور ہم یہ بھول گئے کہ '' معیار '' (Standard)، '' اقدار '' (Values)کو بدلنے میں کچھ دیر نہیں لگاتا ۔
دراصل اہلِ مغرب اس حقیقت واقعہ سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کے وضع کردہ نظام میں کسی بھی نظریہ کی نظریاتی اساس کو مادیت میں منقلب (Transform) کرنا بآسانی ممکن ہے اور اس کا عملی طریقہ کار (Practical Methodology)یہی ہے کہ معیارِ زندگی کو مستقل طور پر بڑھایا جائے ، جس کے نتیجہ میں '' معیار '' خود بخود '' قدر '' کو بدل دے گا (١)۔یہی وجہ ہے کہ مشہور امریکی معیشت داں والٹ روسٹو Walt Rostow (1916-2003)مذہبی و تہذیبی اقدار کی پابند اقوام کے ترقی نہ کرنے کی اور ان کے معیارِ زندگی کے بلند نہ ہونے کا سبب انہی اقدار (Values) اور معاشرتی اداروں ( مثلاً خاندان ، مسجد ، مدرسہ وغیرہ ) کو قرار دیتا ہے ۔ انتھونی گڈن Anthony Gidden لکھتا ہے :
"According to Rostow (1961), the traditional cultural values and social institutions of low-income countries impede their economic effectiueness.'' (Sociology : 549)
'' معیارِ زندگی '' میں اضافہ کا سب سے مؤثر اور نمایاں طریقہ جو اہلِ یورپ نے متعارف کرایا ہے ، وہ بغرضِ معاش یورپ کی سرمایہ دارانہ ریاستوں میں منتقل ہوجانا ہے ۔ اپنے دیار کو بحالتِ مجبوری دین کے لیے ترک کردینے کا تصور ہجرت (Migration)تو اسلام میں موجود ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا پیدا کردہ یہ تصور جسے یہ نظام Immigration کا نام دیتا ہے ، اسلامی تاریخ کے لیے ایک اجنبی تصور اور اصطلاح ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس تصور کو تبدیلیِ اقدار بذریعۂ معیار میں اس لیے سب سے زیادہ معاون خیال کرتا ہے کہ یہاں تبدیلیِ اقدار میں وہ مذہبی اور خاندانی صف بندی اور وہ پورا Social Febricیکسر مفقود ہوتا ہے جو آج بھی ہمارے '' اسلامی معاشرے '' میں نہ صحیح '' مسلم معاشرے '' ہی میں صحیح ، بڑی حد تک مضبوط ہے ، اور کسی بھی قسم کے متجددانہ زاویۂ ہائے نظر (Modernist Mind Set) کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ جبکہ وہ احباب جو ان معاشروں سے مغرب منتقل ہوتے ہیں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو مجبور پاتے ہیں کہ قدر کو قدر کے ذریعے تبدیل کریں تاکہ معاشرہ انہیں قبول کرسکے ۔ احوالِ مغرب ، رویے ، طرزِ معاشرت ، قوانین ، حکومتی حلف اور پورا یورپین فریم ورک (European Frame Work) ضمیر کو کچھ اس طرح مجبور کرتا ہے کہ ایک معصوم نفس اپنی ایمانی قدر کو مادی قدر سے تبدیل کرلیتا ہے ۔ رہی سہی اقدار جو بچ جاتی ہیں انہیں معیارِ زندگی رفتہ رفتہ تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے ۔ یوں معیار زندگی کا مغربی فلسفہ مشرقی حدود اربعہ سے نکل کر جب خود مغرب میں متحرک ہوتا ہے تو اس کے تحرک میں اس درجہ شدت آجاتی ہے کہ وہ اپنے عملی اطلاق سے پہلے ہی قدر کو قدر کے ذریعہ تبدیل کردیتا ہے ، اور تبدیلیِ اقدار بذریعہ معیار اس کے پاس ایک اضافی آپشن ہوتا ہے ۔ اس لیے مسلم ممالک کو جو ترک کرکے دیارِ یورپ میں جا بستے ہیں ان کا ایمان یقینا خطرے میں ہوتا ہے کہ اب وہ Mixed Economy System سے Capital System میں منتقل ہوچکے ہوتے ہیں جو کہ اس دور میں کفر کا امام ہے ۔ یہی وہ علت ہے کہ جس کے سبب اسلامی معاشرے ہی کو نہیں مسلم معاشرے کو بھی سرمایہ دارانہ معاشرے پرترجیح حاصل ہے ۔ شریعتِ مطہرہ جبھی مسلمانوں کو ہر حال میں دارالکفر ترک کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، اور علماء حق کے مابین یہ متفق علیہ و اجماعی مسئلہ ہے لیکن افسوس صد افسوس بعض تجدد کے پیکر اس اتفاقی مسئلہ میں بھی تشکیک پیدا کر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کفار ہمیں اپنے ملکوں میں فریضۂ عبادت بجا لانے کی آزادی تو دے رہے ہیں ۔ اس پر اس کے سوا کیا تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازتناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اپنے اسلاف کی بصیرت جب اغیار کے یہاں پڑھتے ہیں تو اپنے آباء پر بڑا رشک آتا ہے ۔ برنارڈ لیوس ( Bernard Lewis ) نے اپنی کتاب Poliitical Language of Islamمیں لکھا ہے کہ جب اٹلی کے نیچے کا جزیرہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا تو تاریخ اسلامی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی دارا لاسلام ،دارا لحرب بنا ہو ، ورنہ پہلے دارالحرب دارا لاسلام بنا کرتے تھے ۔ اس موقع پر جب ان علاقوں کی شرعی حیثیت کی بابت اس دور کے علماء سے ( یعنی ائمہ متقدمین ) سوال ہوا تو انہوں نے یہ بصیرت افروز فتاویٰ جاری کیا کہ اگر ان مقبوضہ علاقوں میں امت مسلمہ کو عبادات کی اجازت نہیں تو پھر ہجرت واجب ہے اور اگر کفار نرمی برتیں اور عبادات کی ادائیگی کی اجازت دے دیں تو ہجرت واجب ہی نہیں واجب تر قرار پائے گی ۔ کیونکہ اس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے نرم رویہ سے ارتداد کا مرتکب بنانا ہے ۔ تعجب ہے ان نفوسِ قدسیہ کی بصیرت پر جنہوں نے ایک دن بھی کسی کالج اور یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھی مگر پھر بھی اغیار کی سازش کو اپنے اعمال صالح سے برآمد ہونے والے وجدان سے بھانپ لیتے تھے اور آج کے یہ متجددین ہیں جو اپنے تئیں بڑے پڑھے لکھے ہیں لیکن پھر بھی تبدیلیِ اقدار بذریعۂ معیار کی واضح سازش کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ بہرحال جب دار الکفرمیں سکونت کو اللہ اور اس کے رسول ۖ ممانعت فرما چکے ہوں تو اس حوالے سے مزید کسی قیل و قال کی حاجت نہیں رہتی ۔ اس حوالے سے بعض نصوصِ شرعیہ پیشِ خدمت ہیں ۔
قرآن سے استدالال
ہم حسبِ ذیل سطور میں ، دارالکفر و دارالحرب میں سکونت کے حوالے سے آیات بینات کی روشنی میں بحث کریں گے اور اس سکونت سے جو نتائج لازم آتے ہیں ان کے متعلق بھی کلام ربانی کی روشنی میں کلام کریں گے ۔
(١) ( فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ) [البقرة : ٢٥٦]
"سو جس شخص نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایاتواس نے مضبوط رسی پکڑی ، جو ٹوٹنے والی نہیں ۔"
نکتۂ استدلال
تمام انبیاء کی دعوتوں کا اساسی مؤقف یہی رہا ہے کہ پہلے طاغوت کا انکار ہو تاکہ وحدانیت ربانی کا اقرار ہوسکے ۔ ائمہ مفسرین یہ تصریحات کر چکے ہیں کہ غیر الٰہی قوانین بھی طاغوت کا مصداق ہیں اور طالبان علم و رشد کے لیے یہ ایک معلوم اعتقادی حقیقت ہے (٢) ۔ یورپی ممالک کا شہری انکارِ طاغوت تو درکنار ، اقرار طاغوت کا پابند ہے ۔ اس حوالے سے وہ جن الفاظ میں ان ائمہ طاغوت کے سامنے جس مؤدبانہ انداز میں عاجزی و انکساری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ان دشمنوں سے تاحیات وفاداری کادم بھرتا ہے ،وہ بھی ملاحظہ ہو ۔ بطورِ مثال کینیڈین شہری کا حلف نامہ پیشِ خدمت ہے :
" I swear that I will be faithfull and bear true allegiance to her majesty Queen Elizabeth II, Queen of Canada, her heirs and successors and that I will faithfully observe the laws of Canada......."(٣)
حواشی
(١) اسلام نے معیارِ زندگی کی بڑھوتی کو کنٹرول کرنے کے لیے علمی و عملی لائحہ عمل فراہم کیا ہے ۔ جہاں علمی سطح پر وہ زہد و قناعت ، صبر و شکر اور فقر کے فضائل بیان کرتا ہے وہیں عملی طور پر اس نے زکوٰة ، عشر ، قرضۂ حسنہ وغیرہا پر مشتمل مستقل نظام انفاق ترتیب دیا ہے ۔
(٢) تیسیر الکریم الرحمن للشیخ عبد الرحمن السعدی : ١/٣٦٣
(٣) http://en.wikipedia.org/wiki/oath_of_citizenship
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رجب المرجب 1433ھ/ مئی، جون سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے