اتوار، 26 اگست، 2012

کیا وہابیت خارجیت کا نقشِ ثانی ہے ؟

الواقعۃ شمارہ نمبر 2

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر 

سب سے پہلے گب نے خارجیت کا تعلق وہابیت میں تلاش کیا ہے۔ اس حوالے سے اس کا تجزیہ ہے کہ خوارج مذہبی انتہاپسند تھے، جو صرف خود کو سچا اور حقیقی مسلم سمجھتے تھے دیگر مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے۔ ان کے اس اصول پر تلوار مستزاد تھی، جو انہوں نے مسلم امت کے خلاف اٹھائی اور خود کو امت سے جدا کرلیا، جو راسخ العقیدہ (Orthodox) سمجھی جاتی تھی۔ بعد میں خوارج کے متعلق اعتدال پسند علماء نے ایک ایسا نظام وضع کرلیا جس نے ان کو جنوبی الجیریا، عمان اور زنجبار میں چھوٹی چھوٹی آبادیوں کی شکل میں زندہ رکھا۔
پس صدر اسلام میں تو خوارج کے انتہاپسندانہ نظریات کو مسترد کردیا گیا لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہم وہی نظریات عرب کے وہابی مصلحین میں جاگزین دیکھتے ہیں۔
"Thus early, Islam rejected the doctrine of religious fanaticism. At a later day, in the eighteenth and early nineteenth century, we shall find the same lesson enforced on the wahhabi reformers of Arabia". (١) 
گب کی متابعت میں امیر علی کا بھی یہی موقف ہے، وہ لکھتے ہیں:

''ان فرقوں میں ازارقہ سب سے بڑھ کر کٹر، اکل کھرے اور تنگ نظر ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے سوا سب فرقے واصل بجہنم ہوں گے۔ اس لیے انہیں یا تو جبراً راہ راست پر لانا چاہئے یا نیست و نابود کردینا چاہئے۔ کسی مشرک کو زندہ نہ رہنے دینا چاہئے (مشرک کی اصطلاح کو وہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور اس میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سب کو شامل کرلیتے ہیں) تمام گناہوں کا ان کے نزدیک ایک ہی درجہ ہے۔ قتل، زنا، خمر، تمباکو نوشی سب ان کے مذہب میں مستوجب عذاب ہیں۔ جہاں دوسرے مسلمانوں کا، عام اس سے کہ وہ سنی ہوں یا شیعہ، یہ عقیدہ ہے کہ ہر بچہ مسلمان بن کر دنیا میں آتا ہے اور جب تک تعلیم اسے بگاڑ نہیں دیتی مسلمان ہی رہتا ہے وہاں ازرقی یہ کہتے ہیں کہ کافر کا بچہ کافر ہوتا ہے۔ جس طرح راسخ العقیدہ عیسائیوں کا یہ ایمان ہے کہ جس بچے کو بپتسمہ نہ دیا گیا ہو وہ دوزخ میں جائے گا، اسی طرح خارجی یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس بچے کو کلمہ نہ پڑھایا گیا ہو اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔ حجاج بن یوسف نے ازرقیوں کا قلع قمع تو کردیا لیکن ان کے سنگدلانہ نظریوں نے نو صدیوں کے بعد وہابیت کی صورت میں عود کیا۔'' (٢)

امیر علی آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:

''مسٹر پیلگریو (Mr. Palgrave) نے اپنی کتاب Travels in Central Arabia میں وہابیوں کا نقشہ قدرے خوش آئند رنگوں میں کھینچا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ بلا واسطہ ان ازرقیوں کے جانشین ہیں جنھوں نے حجاج بن یوسف کے ہاتھوں شکست کھا کر وسطی عرب میں پناہ لی۔ محمد بن عبدالوہاب کے عقائد و نظریات نافع بن ازرق کے پیروئوں کے عقائد و نظریات سے نہایت قریب کی مشابہت رکھتے ہیں۔ ازرقیوں کی طرح وہابی بھی تمام دوسرے مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں اور ان کا مال لوٹنے اور انھیں غلام بنالینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ آج کل کے مسلمانوں میں جو تشبیہ پرستانہ رسوم رائج ہیں ان کے خلاف وہابیوں کی بغاوت چاہے کتنی ہی قابل تحسین ہو، حقیقت یہ ہے کہ نجد کے اخوان کی طرح دین اور خدا کی حاکمیت کے بارے میں وہ جو عقائد رکھتے ہیں ان میں کیلون (Caluin) کے پیروئوں کے خیالات کی سی سختی ہے اور وہ ترقی اور نشوونما سے متصادم ہیں۔'' (٣)
Marcel Morand بھی وہابیت کو خارجیت کا نقش ثانی قرار دیتے ہیں(٤)۔

 ای، ادیب سالم کا نکتہ نظر بھی یہی ہے:
"The response of the Khawarij to the corruption of the old Islamic state is manifested today in the wahhabi sect, which is performing a more on less similar rale. The Khawarij and the wahabbis were motivated by thr same purpose, and both have reacted similarly".(٥)
گب سے لے کر ادیب سالم تک سب نے خوارج اور وہابیوں میں معمولی مشابہت کا اندازہ لگا کر یہ نظریہ قائم کرلیا جو بڑا گمراہ کن ہے۔ خاص طور سے امیرعلی نے جس طرح محمد بن عبدالوہاب کے پیروکاروں کو ازارقہ سے مماثل قرار دیا، اس کی بظاہر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اب تک خوارج کا جو مطالعہ سامنے آیا ہے اس کے پیش نظر خوارج خصوصاً ازارقہ اور وہابیوں میں جوہری فرق ہے۔

جس تحریک کو وہابی تحریک کہا جاتا ہے اور جس کے بانی کے طور پر شیخ محمد بن عبدالوہاب (١٧٠٦ء تا ١٧٩١ئ) کا نام لیا جاتا ہے، یہ نام ان کے مخالفین کا دیا ہوا ہے، خود محمدبن عبدالوہاب کے پیروکار اپنے آپ کو ''موحدون'' کہتے ہیں۔ ایک غیر وابستہ اور غیر جانبدار شخص جب ابن وہاب کی تحریک کا مطالعہ کرے گا، وہ شائد اس کو ایک ''سلفی اصلاحی دعوت'' کا نام دے، کیونکہ محمد بن عبدالوہاب دیگر داعیوں اور مصلحین کی طرح دعوت کے لیے اٹھے تھے، تجدید واحیائے دین کا کام ان کے علاوہ بھی بہت سے علماء نے کیا، مثلاًامام ابن تیمیہ (م٧٢٨ھ ١٣٢٨ئ) ابن قیم جوزیہ (م٧٥١ھ ١٣٥٠ئ)، شاطبی (م٧٩٠ھ ١٣٨٨ئ)، عز بن عبدالسلام، امام سنوسی، شاہ ولی اﷲ وغیرہ وغیرہ۔

جو مغربی مورخین شیخ محمد بن عبدالوہاب کے ہمعصر تھے، اور جنہوں نے شیخ کی تحریک کے بارے میں لکھا، وہ ''وہابیت'' کا نام استعمال نہیں کرتے۔ مسعود عالم ندوی، نیپئر کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیخ کا یورپی معاصر ہے، وہ شیخ کی دعوت کو New Religion ''دین جدید'' کا نام دیتا ہے، یا ان کی تحریک کو ''محمدیہ'' سے تعبیر کرتا ہے۔ سب سے پہلے ''وہابی'' کی اصطلاح برک ہارٹ نے استعمال کی ہے، جو محمد علی پاشا کے قبضے کے بعد ١٢٢٩ھ ١٨١٤ء میں حجاز میں آیا تھا (٦)۔

محمد بن عبدالوہاب کی سلفی اصلاحی تحریک کو وہابیت کا نام دینا ایک حوالے سے انتہائی معنی خیز ہے۔ کیونکہ ایک وہابی فرقے اور وھابیت کا ظہور دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں مراکش (المغرب) میں اباضی خارجیوں کے یہاں ہوچکا تھا۔ اس بات کا تذکرہ تیرہویں باب (خارجیت کا پھیلائو) میں ہوچکا ہے کہ اباضی خارجی عبدالرحمن بن رستم بن بہرام (٧) نے الجزائر کے شہر تاہرت میں رستمی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ جب ١٧١ھ ٧٨٧ء میں اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے دولت رستمیہ کے سات معزز حضرات کو حکومت کی تشکیل کی وصیت کی، جن میں اس کا اپنا بیٹا عبدالوہاب اور ایک شخص یزید بن فندیک بھی شامل تھا۔ بیعت عبدالوہاب کے ہاتھ پر ہوگئی جس کے نتیجے میں اس کے اور ابن فندیک کے مابین اختلاف پیدا ہوگیا۔

ابن رستم اور اس کے ساتھیوں کا مذہب ''اباضیہ'' تھا۔ عبدالوہاب رستمی کے زمانے میں یہ مذہب دو فرقوں وہابیوں اور نکاریہ میں تقسیم ہوگیا۔ ''وہابی'' نسبت عبدالوہاب بن عبدالرحمن بن رستم کی طرف تھی۔ پھر ان دونوں اباضی فرقوں کے مابین خونریز جنگیں ہوئیں جن میں نکاریہ کو شکست ہوئی اور ان کا سردار ابن قندیرہ قتل ہوا۔ عبدالوہاب جو شمالی افریقہ میں وسیع رستمی حکومت کا موسس مانا جاتا ہے ١٩٠ھ میں فوت ہوا (٨) جبکہ مشرق عباسی خلافت کے ماتحت تھا۔ تاہرت کی اس رستمی حکومت کا خاتمہ عبداﷲ شبعی نے ٢٩٧ھ ٩١٠ء میں کیا۔

الغرض 'وہابیت' اسی اباضی خارجی عبدالوہاب بن عبدالرحمن بن رستم بن بہرام کی طرف منسوب تھی۔ اس نام کو بعض مخالفین نے ازاں بعد محمد بن عبدالوہاب کی تحریک پر چسپاں کردیا۔

اگر ایک طرف خوارج کا طرز فکر دیکھا جائے کہ وہ صحابہ کرام کو کافر قرار دیتے تھے، احادیث و اجماع صحابہ کی جگہ اپنی عقل پر بھروسہ کرتے تھے، غیر خارجیوں کو نہ صرف کافر قرار دیتے تھے بلکہ ان کے نومولود بچوں تک کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف قتال کرتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے مقابلے پر شیخ محمد کی سلفی تحریک کیا تھی اور خود ان کے افکار کیا تھے، اس کے لیے اب تک سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، تاہم یہاں ان کے بعض مکاتیب سے اقتباسات دیئے جارہے ہیں تاکہ خود ان کی زبانی یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کون لوگ تھے، اور کیا چاہتے تھے۔

عراق کے ایک عالم عبدالرحمن سویدی کے نام شیخ محمد لکھتے ہیں:

''آپ کا مکتوب موصول ہوا۔ دل خوش ہوگیا۔ اﷲ آپ کو ائمہ متقین اور سیدالمرسلین کے دین کے داعیوں میں سے بنائے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ میں متبع کتاب و سنت ہوں۔ دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرنے والا مبتدع نہیں ہوں۔ میرا عقیدہ اور میرا مذہب جسے میں نے اختیار کیا ہے، اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے جس پر ائمہ مسلمین چلے، جیسے: ائمہ اربعہ ہوئے جن کے متبعین قیامت تک رہیں گے۔ ہاں! میں نے لوگوں سے اﷲ کے لیے دین کو خالص کرنے کی بات یقیناً کی ہے۔ زندہ یا مردہ بزرگان دین وغیرہ کو پکارنے سے منع کیا ہے۔ اﷲ کے لیے کی جانے والی عبادت، جیسے: ذبح و نذر، توکل و سجدے اور ان کے علاوہ دیگر عبادتیں جو صرف اﷲ ہی کا حق ہیں جس میں کسی مقرب فرشتے، مبعوث نبی کو بھی شریک نہیں کیا جاسکتا، میں ان سب میں بزرگوں کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں۔ یہی وہ دین ہے جس کی دعوت شروع سے آخر تک سارے انبیاء نے دی ہے اور جس پر اہل سنت و الجماعت کے لوگ قائم و دائم ہیں۔'' (٩) 
شیخ محمد بن عبدالوہاب کا وہ خط جو انہوں نے مکہ مکرمہ کے علماء کے نام بھیجا، اس میں ان کی دعوت کے اہم نکات واضح ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

''ہم پر جو مصیبت آئی ہے، اس کی خبر آپ حضرات اور دیگر لوگوں کو پہنچ چکی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں بزرگوں کی قبروں پر بنے ہوئے مزارات مسمار کردیئے گئے ہیں(١٠)۔جب عام لوگوں پر یہ عمل اس خیال سے گراں گزرا کہ اس میں بزرگوں کی توہین ہے تو ہم نے انھیں ان بزرگوں کو پکارنے سے بھی منع کیا اور اﷲ کے لیے عبادت خالص کرنے پر زور دیا۔ قبروں پر بنے ہوئے مزاروں کو ڈھانے کے بعد جب ہم نے یہ مسئلہ چھیڑا تو عوام پر اور بھی زیادہ گراں گزرا اور علم کے دعویداروں نے مخصوص اسباب کے باعث ان کی پشت پناہی کی۔ یہ اسباب آپ حضرات سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان میں ایک بڑا سبب عوام کی خواہش کی پیروی ہے۔ ان لوگوں نے ہمارے بارے میں یہ تہمت پھیلائی کہ ہم بزرگوں کو گالی دیتے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ معاملہ مشرق و مغرب تک پہنچا دیا اور ہمارے متعلق ایسی باتیں کہیں کہ ایک صاحب عقل انھیں بیان کرتے ہوئے بھی شرماتا ہے۔ میں آپ لوگوں کو اپنے مذہب کی سچی خبر دیتا ہوں۔ جھوٹ نہیں بول سکتا کیونکہ آپ جیسے لوگوں پر جو اپنے مذہب کا خاص و عام میں اظہار کرتے ہیں، جھوٹ نہیں چل سکتا۔

الحمداﷲ! ہم متبعین کتاب و سنت ہیں۔ ہم دین میں کسی نئی بات کے موجد نہیں۔ ہم امام احمد بن حنبل کے مذہب پر ہیں۔ دشمنوں نے یہ بہتان باندھا اور پھیلایا ہے کہ میں اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہوں، ائمہ کی پیروی نہیں کرتا۔میں اس بہتان سے برأت ظاہر کرتا ہوں۔ اگر آپ لوگوں پر ظاہر ہوکہ قبروں پر بنے مزاروں کو ڈھانے اور بزرگوں کو پکارنے سے روکنا، جیسا کہ ہم نے کیا ہے، مذہب سلف کے خلاف ہے تو میں اﷲ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناکر اور آپ لوگوں کو اﷲ اور اس کے رسولۖ کے دین پر گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں اہل علم کی پیروی کرنے والا ہوں گا۔ اگر حق بات مجھ سے پوشیدہ رہی اور اس میں مجھ سے کوئی غلطی ہوئی، اسے آپ لوگ بیان کردیں۔ میں اﷲ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں اسے سر آنکھوں پر رکھوں گا۔ حق کو قبول کرنا باطل پر مصر رہنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ '' (١١)
محمد بن عبدالوہاب کے خطوط پر مبنی کتاب شائع ہوچکی ہے، جس سے ان کی تحریک اور ان پر لگائی گئی تہمتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ ان خطوط کی تعداد ٥١ ہے جو ایک جلد میں چھپے ہیں۔ 

ادیب سالم کہتے ہیں وہابی، خارجیوں کی طرح متشدد موحد تھے، یعنی عقیدہ توحید پر سختی سے ایمان رکھنے والے تھے(١٢)۔یہ انتہائی گمراہ کن جملہ ہے، عقیدہ توحید پر جو شدت سے عمل پیرا ہو کیا وہ کوئی خامی ہے؟ اور کیا اس کی وجہ سے انسان خارجی ہوجاتا ہے؟ رسول اﷲۖ تمام سابقون الاو لون، صحابہ کرام کی اکثریت، تمام اہل بدر وغیرہ سب عقیدہ توحید پر شدت سے ایمان رکھنے والے اور عمل کرنے والے تھے تو کیا یہ سب خارجی تھے؟ 

الغرض محمد بن عبدالوہاب کی سلفی تحریک کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کے بعد یہ بیانیہ، بلاخوف تردید حرف آخر کے طور پر دیا جاسکتا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سلفی اصلاحی دعوت (جسے وہابیت نہیں کہنا چاہئے) تجدید دین کی تحریک ہے، جس کی بنیاد قرآن و سنت اور منہج صحابہ کرام و سلف صالحین پر ہے، یہ کوئی فقہی مسلک نہیں ہے، فروعی مسائل میں امام احمد بن حنبل کے پیروکار تھے اور اس ضمن میں امام ابن تیمیہ کی تشریح کو قبول کرتے تھے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ان کے پیروکاروں سے کچھ بے اعتدالیاں سرزد ہوئی ہوں لیکن محمد ابن وہاب کے پیروکاروں یا افغانستان کے طالبان کو خوارج سے تشبیہ دینا یا مماثل قرار دینا عصبیت اور علمی منافقت ہے، دونوں کے مابین اعتقاد، مشتملات و مفہوم، علاقہ، کیفیت، ادلہ شرعی، طرز استدلال غرضکہ ہر اعتبار سے بعد مشرقین ہے۔ 


حواشی
(١) H.A.R. Gibb, Mohammedanism, P.82, Oxford University Press, London 1969.
(٢) امیر علی، سپرٹ آف اسلام
(٣) ایضاً، ص ٥٢٦
(٤) Political Theory and Institutions     of the Khawarij, P.23 (with reference Morand, Marcel, Introduction a L'Etude du Droit Musulman Algerian, Alger Jules Carlonel, 1921, P.97)
(٥) ایضاً
(٦) دیکھئے مسعود عالم ندوی کی کتاب ''محمد بن عبدالوہاب، ایک بدنام اور مظلوم مصلح''
(٧) یہ اباضی فقہا میں سے تھا، اپنے زہد و تواضع کی وجہ سے مشہور تھا اس کی کتاب ''التفسیر'' ہے۔ یہ خارجی الاصل تھا، اس کا دادا بہرام، حضرت عثمان ابن عفان کے موالی میں سے تھا۔ ]زرکلی، الاعلام، جلد٣، ص٣٠٦[
(٨) اس کی تاریخ وفات میں خاصا اختلاف ہے تاہم زرکلی نے ١٩٠ھ کی تاریخ راجح قرار دی ہے۔ زرکلی کے مطابق یہ اپنے باپ کی وفات کے تقریباً ایک ماہ بعد ١٧١ھ میں خلیفہ بنا، اباضیوں اور غیر خارجیوں پر اسے ایسی حکومت ملی کہ اس جیسی حکومت اس سے پہلے کسی اور اباضی خلیفہ کو نہیں ملی تھی، وہ عالم اور فقیہ تھا، نہایت دلیر تھا، بنفس نفیس جنگ کرتا تھا۔ ]الزرکلی، الاعلام، جلد٤ ص١٨٣[
(٩) محمد بن سعد الشویعر، تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں، ص٩٧
(١٠) جبیلہ میں ان صحابہ کرام کی قبریں پائی جاتی تھیں جو مرتدین کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے تھے یہ جگہ معرکہ یمامہ کے مورچوں میں سے ہے، جہاں مسلیمہ کذاب کے خلاف جہاد کیا گیا تھا، جہالت اور عقیدے کی کمزوری کے باعث لوگوں نے صحابہ کرام کی قبروں پر عمارتیں بنالی تھیں۔ زید بن خطاب اور دیگر صحابہ کی قبروں پر قبے تعمیر کردیئے تھے، ان کے لئے نذر و نیاز کی جاتی تھی، وہاں جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی اور لوگ اﷲ کو بھول کر ان قبروں کا رخ کرنے لگے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قبروں پر مزار بنانے کا آغاز جزیرہ نمائے عرب میں قرامطہ اور مراکش اور مصر میں فاطمیوں کی حکومت نے کیا۔ ]تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں، ص١٣٤[
(١١) محمد بن سعد الشویعر، تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں، ص٩٨
(١٢)  ادیب سالم، ص٢٣

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رجب المرجب 1433ھ/ مئی، جون 2012- سے ماخوذ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے