الواقعۃ شمارہ نمبر 2
محمد آفتاب احمد
بنگلہ دیش کی ایک خصوصی عدالت ''وار کرائم ٹریبونل '' نے بالآخر چار ماہ بعد جماعت اسلامی کے سابق سربراہ پروفیسر غلام اعظم پر ١٩٧١ء کی جنگ کے دوران نسل کشی، انسانیت مخالف جرائم اور قتل کے الزامات میں فرد جرم عائد کر دی ۔ ٩٠سالہ پروفیسر غلام اعظم کو١٢جنوری٢٠١٢ء کو گرفتار کیا گیا ۔ گرفتاری اور فرد جرم عائد ہونے کے بیچ ان پر ظلم و ستم، میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی اور اہل خانہ کو حراساں کرنے کے واقعات ایک الگ داستان ہیں مگر ان سب کے باوجود عوامی لیگ حکومت پروفیسر غلام اعظم کو اپنے قدموں پر نہیں جھکا سکی۔
ان چار ماہ کے دوران بنگلہ دیش کے سیاسی معاملات میں بھارتی میڈیا اور پاکستان کے ایک بڑے صحافتی گروپ کی آڑ میں پاکستان کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن بنگلہ دیش کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی۔ ان سارے معاملات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب جو بنگلہ دیش میں اربوں ڈالر کی لاگت سے بجلی کا منصوبہ شروع کررہا ہے، کی جانب سے اس غیر آئینی و غیر قانونی ٹرائل کو بند کرنے کے مطالبہ کو ڈھاکا حکومت نے درخور اعتنا بھی نہیں سمجھا بلکہ ابلیسی گماشتوں کی ایما پر ریاض حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے ڈھاکا کے حساس ترین علاقہ میں سعودی سفارتکار کا قتل تک کرادیا گیا۔ پروفیسر غلام اعظم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ١٩٧١ء کی جنگ کے دوران پاکستان کی حامی ملیشیائیں تشکیل دیے اور اس کی قیادت کی۔ پراسیکیوٹر زیاد المعلم کا کہنا ہے کہ
''فوجداری ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم پر بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت مخالف جرائم، نسل کشی، قتل، آبروریزی، اغوا، آتش زنی اور دوسرے جرائم کے الزامات میں فرد جرم عائد کی ہے۔''
ضعیف العمر غلام اعظم کو وہیل چیئر پر عدالت لایاگیا۔ ان کے خلاف جج نظام الحق نے فرد جرم پڑھ کر سنائی لیکن عزم و ہمت کے پیکر غلام اعظم نے اس کی صحت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ
'' وہ جنگی مجرم نہیں ۔''
پروفیسر غلام اعظم نے ٹریبونل کی آئینی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے ۔ انہوں نے یہ بات ببانگ دہل کہی کہ
'' اس ٹریبونل کو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں، عدالت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں مجرم ہوں یا نہیں۔''
انہوں نے عدالت میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم سے سوال کیا کہ
''شیخ حسینہ واجد بتائیں کہ ان کے والدشیخ مجیب الرحمن نے١٩٧٣ء میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں جن١٩٣ فوجی افسران کے نام پیش کیے تھے کیا ان میں میرا کا نام شامل تھا؟''
پروفیسر غلام اعظم نے یہ بات واضح طور پر کہی کہ
"آج عوامی لیگ کی حکومت ان پر جو الزامات عائد کررہی ہے اس کے صرف اور صرف سیاسی مقاصد ہیں۔''
پروفیسر غلام اعظم کے خلاف اب ٥ جون سے مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو گا۔
جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی اور مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبد القدیر ملا پربھی ١٨ ماہ بعد ٢٨ مئی٢٠١٢ء کو ١٩٧١ء کی ''جنگ آزادی '' کے دوران جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کردی گئی۔ نام نہاد عدالتی ٹریبونل 1 نے مطیع الرحمن نظامی پر قتل عام، نسل کشی اور سازش سمیت ١٦ الزامات جبکہ عدالت2 میں عبدالقدیر ملا پر قتل عام اور عصمت دری سمیت ٦ الزامات عائد کیے ۔ مطیع الرحمن نظامی پر الزامات کی باقاعدہ سماعت یکم جولائی جبکہ عبد القدیر ملا کے خلاف ٢٠ جون کو ہوگی۔ ٢٩ جون ٢٠١٠ء کو مطیع الرحمن نظامی، نائب امیر مقبول احمد، مرکزی سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہداورڈاکٹر فورم کے دلاور حسین سعیدی پر مارچ ٢٠١٠ء میں اسلامی چھاترو شبر کے ایک جلسہ میں تقریر کے دوران عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا تاہم اگلے ہی دن انہیں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔اسی طرح مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل قمرالزماں اور عبدالقدیر ملا پر فروری٢٠١٠ء میں صدر کے کانوائے پر حملہ کے الزام میں جون٢٠١٠ء میں گرفتارکیا گیا لیکن جب انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تو ان پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ٢٠١٠ء میں ١٩٧١ء کی جنگ میں بنگلہ دیش کے قیام کے مخالفین اور پاکستان کے حامیوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے یہ خصوصی ٹریبونل قائم کیا تھا اور یہ اب تک حزب اختلاف کی ٣ سرکردہ شخصیات پر فرد جرم عائد کر چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اس عدالت کو ''شو ٹرائل''قرار دے کر مسترد کر دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ٹریبونل میں مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار کو بین الاقوامی معیار کے برخلاف قرار دیا ہے۔
کیا معاملہ اتنا سادہ ہے جتنا پیش کیا جارہا ہے یا پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں؟ عوامی لیگ حکومت کے موجودہ دور کے جائزہ سے پتا چلتا ہے کہ حسینہ واجد ایک جانب جہاں بنگلہ دیش کے اہم ضلع چٹاگانگ کو اقوام متحدہ کی عیسائی مشنری کے خفیہ تعاون سے ''مشرقی تیمور'' جیسی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری جانب عدلیہ ، مقننہ، سیاست اور فوج غرض کہ ہر شعبہ زندگی سے دیندار لوگوں کا صفایا کرکے ایسے لوگوں کوآگے لانے میں کامیاب ہوچکی ہیں جو دنیا میں بنگلہ دیش کی سیکولر ریاست کے طور پر شناخت بناسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ جب پڑوس میں سیکولر بھارت موجود ہے تو پھر بنگلہ دیش کی کیا ضرورت؟
ایک اور'' مشرقی تیمور'' کی تیاری
چٹاگانگ ، بنگلہ دیش کا مشہور سرحدی اور پہاڑی علاقہ۔ ٧٤لاکھ کی آبادی۔٦٤لاکھ دوسرے علاقوں سے آئے جنہیں سابق حکومت نے ملک کے مختلف حصوں سے لاکر بسایا۔انہوں نے اپنی جفاکشی، محنت و ہنرمندی سے اس پہاڑی علاقہ کے٤٥ہزار ایکڑ اراضی کو ہرابھرا بنادیا۔ اب حسینہ سرکار انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔وہاں پر متعدد مقامی اور بیرونی مشنریوں کی موجودگی اس کا عملی ثبوت ہے۔چٹاگانگ کی نگراں پارلیمانی امور کمیٹی نے اس نو آباد ٤٥ ہزار ایکڑ اراضی کا پٹہ منسوخ کردیا ہے۔ان میں ٢٢ ہزار ایکڑ زمین کا پٹا سابق اتحادی حکومت نے الاٹ کیا تھا۔ وہاں اندرون و بیرون بنگلہ دیش سے عیسائیوں کو لاکر آباد کیا جارہا ہے۔لارڈ اریک اُ بری جو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ UNDP کی طرف سے چٹا گانگ کے پہاڑی علاقہ کا انچارج ہے، کا کہنا ہے کہ'' اگر بنگالی پہاڑی علاقہ چھوڑ کر نہ جائیں تو حسینہ واجد حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو ملنے والی تمام سہولیات بند کردے اور انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردے۔''لارڈ ایرک کی اگست٢٠٠٩ء میں حسینہ واجد سے ملاقات کے بعد چٹاگانگ کے پہاڑی علاقہ سے فوج عملاً نکل چکی ہے۔جس کا مقصد بنگالیوں کو نکال کر آزاد عیسائی ریاست قائم کرنا ہے جیسا کہ انڈونیشیا کے علاقہ مشرقی تیمور میں ہوا۔مشرقی تیمور کی طرح ان کے گھروں میں آگ لگائی جارہی ہے۔
سیکولرتعلیمی پالیسی میں اسلام شجر ممنوعہ
امریکا اور اقوام متحدہ نے اس بار حسینہ واجد کو جن شرائط پر حکومت سے نوازا اسے پور ا کرنے کے لیے عوامی لیگ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے تعلیم پر وار کیا۔ نئی تعلیمی پالیسی جاری کی گئی جس کے تحت اسکول کے نصاب میں اسلامیات نام کا کوئی مضمون شامل نہیں۔اس پالیسی کا مقصد دین سے نابلد نسل تیار کرنا ہے۔اسی طرح مفکر اسلام مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی تمام کتابوں پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ اس سے بنگلہ دیشی معاشرے میں فرقہ واریت اور انتشار کو فروغ مل رہا ہے۔حسینہ واجد حکومت کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مولانا مودودی کی کتب نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی اور متنازع ہے بلکہ اس سے معاشرے میں انتہاپسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ٢٠٠٤ء میں حکومت پاکستان نے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی کتابوں پریہ کہہ کر پابندی لگادی تھی کہ ان کی کتابیں پاکستان میں انتہاپسندی کے فروغ کا سبب بن رہی ہیں۔بنگلہ دیش کے تمام تعلیمی اداروں خواہ وہ مدارس ہوں یا اسکول و کالج، جامعات ہوں یا کتب خانہ ہر جگہ مولانا مودودی کی تحریریں شجر ممنوعہ قرار پائیں ۔ مگر عوامی لیگ کی اس حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ آخر بنگلہ دیش کے بانی سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے مولانا مودودی کی کتابوں یا ان کی تحریروں پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟یا کیا انہیں مولانا مودودی کی تحریروں کا فہم و ادارک نہیں تھا؟
فوجی افسروں کا قتل عام اورناکام بغاوت کا ڈراما
٢٥ فروری ٢٠٠٩ء میں سرحدی محافظین (بنگلہ دیش رائفلز جو بعد میں بنگلہ دیشی بارڈر گارڈ زمیں تبدیل ہوگئی) کی جانب سے فوجی افسروں کے خلاف نام نہاد بغاوت کی کوشش کے نام پر٧٥اعلیٰ فوجی افسران کو قتل کردیا گیا ۔ یہ وہ افسران تھے جو دینی سوچ رکھتے تھے۔ حسینہ واجد نے اس واقعہ کا الزام بھی جماعت اسلامی پر لگادیا۔ بعد میں حکوت کا یہ جھوٹ واضح ہوگیا اور فوجی تحقیقات سے پتا چلا کہ اس کے پیچھے خود بھارتی خفیہ ایجنسی''را'' کا ہاتھ تھا۔رپورٹ میں حسینہ واجد حکومت کی ملی بھگت کا بھی انکشاف ہوا۔ چونکہ الزام بھارت پر آرہا تھا اس لیے حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا۔واقعہ کی خانہ پری کے لیے مئی ٢٠١٢ء میں ٣٠٩ اہلکاروں کو ٧ سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔ ٢٥ فروری کو ہی اس واقعہ کی رپورٹ دیتے ہوئے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ'' دسمبر٢٠٠٨ ء کے انتخابات میں بنگلہ دیشی عوام نے حسینہ واجد کو ملک کو جمہوری اور سیکولر بنانے کا اختیار دے دیا ہے تاہم اسلام پسند اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔'' ١٩ جنوری٢٠١٢ء کو بنگلہ دیشی فوج نے حسینہ واجد حکومت کے خلاف ایک بغاوت کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا جس میں ١٦افسران کو ملوث بتایا گیا تاہم آئی ایس پی آر نے صرف ایک باریش نوجوان میجر کی تصویر میڈیا کو جاری کی۔ یہ معاملہ بھی عالمی میڈیا کی توجہ حاصل نہ کرسکااور سب کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس ناکام بغاوت کی حقیقت کیا ہے!
جب عدالت نے حکومت کے سُر میں سُر ملایا
عوامی لیگ کی موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی بنگلہ دیش کی عدلیہ پر سیکولر عناصر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔٣ جنوری ٢٠١٠ء کو ہائی کورٹ نے حکومت کی تائید سے دین کی بنیاد پر سیاست کرنے والی پارٹیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔ حالانکہ دستور کی ١٩٨٨ء کی ترمیم سے واضح ہے کہ اسلام ہی ریاست کا مذہب ہے۔ ہائی کورٹ کی رولنگ کے پیش نظر وزیرعدل و قانون شفیق احمد نے بیان دیا کہ '' دسیوں اسلامی پارٹیاں اپنے نام سے لفظ ''اسلامی'' ہٹانے پر مجبور ہوں گی اور انہیں عدالت کے فیصلے کے نفاذ کے لیے انتخابی مہمات کے دوران دینی نعروں کا استعمال بھی ترک کرنا ہوگا۔دین کی بنیاد پر موجود سیاست پر پابندی عائد کردی جائے گی اور اسے ( شیخ مجیب الرحمن کے تیار کردہ) اصلی دستور کے مطابق کردیا جائے گا۔ہم اس اصل دستور کر بحال کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد سیکولر ازم ہے۔''یہ سب کچھ دستور کی پانچویں ترمیم کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا جس میںنومبر ١٩٧٥ء میں ملک گیر عوامی دبائو کے نتیجے میں ''لادینیت '' اور ''اشتراکیت'' کے الفاظ کو حذف کرکے اس کی جگہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کردیا اور لادینی کی جگہ'' اللہ پر ایمان ہر عمل کی بنیاد پر ہوگا'' اور '' اللہ پر پختہ یقین اور بھروسہ'' کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا۔ حسینہ واجد کی اس حکومت نے بالاخر دستور کی پانچویں ترمیم کو نہ صرف ختم کردیا بلکہ اداروں اور جامعات کے نام سے لفظ اسلام تک کو ہٹا دیا گیا۔یہی نہیں بلکہ اسلامی قانون کے مطابق وراثت میں عورتوں کا حصہ مردوں کی نسبت١:٢ کو دستور سے حذف کرکے عورتوں کا حصہ مردوں کے مساوی کردیا گیا۔قحبہ گری کو قانونی قرار دیا گیا اور ہم جنس میں شادی جائز ٹھہری۔
الیکشن کمیشن حکومت کا مہرہ
الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل پر نظر ثانی کرے۔ الیکشن کمیشن نے جماعت کے سیکرٹری جنرل کو خط میں انتباہ کیا کہ جماعت اسلامی کا دستور بنگلہ دیش کے دستور سے ہم آہنگ نہیں نیز اس کی بعض دفعات ریاست کی مبادیات سے بھی میل نہیں کھاتیں۔ خط میں اعتراض کیا گیا کہ :''جماعت کے دستور میں دفعہ ٢ کا پانچواں فقرہ بنگلہ دیش کی پارلیمانی بالادستی اور مجلس قانون ساز کی فعالیت کا جزوی طور پر انکا رکرتا ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا دستور کہتا ہے کہ جماعت اسلامی صرف اور صرف اللہ عزو جل کی مکمل بالادستی کا اعلان کرتی ہے اور کسی غیر اللہ کو سپریم اتھارٹی ( ملک الملوک) نہیں کہا جاسکتا۔'' گو کہ مذکورہ عقیدہ ہر کلمہ گو مسلمان کا عقیدہ ہے اور اس پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں مگر دلچسپ بات یہ کہ مزدور پارٹی اور بائیں بازو کی کمیونسٹ او راشتراکی جماعتیں اللہ کے انکار اور مارکس و لینن کی نظریات پر یقین رکھتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں حالانکہ یہ نظریات داخلی نہیں بلکہ باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ درحقیقت الیکشن کمیشن کو لفظ اسلام سے ہی چڑ ہے ورنہ اسے دستور جماعت کی دفعہ ٥ (٣) کی یہ عبارت نہ کھٹکتی کہ
'' وہ ملک سے ہر طرح کی ناانصافی اور ہر طرح کے کرپشن کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گی اور معاشرے میں اسلامی نظام اور اسلامی عدل و انصاف کو نافذ کرے گی۔''
الیکشن کمیشن کی نظر میں جماعت اسلامی کے پروگرام کا یہ جزو بھی محل نظر ہے کہ
"وہ منظم جدوجہد کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔''
اس سیاق میں بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ کا یہ بیان قابل ذکر ہے کہ
''حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتی ہے جس کا صریح تقاضا ہے کہ اسلامی سیاست پر پابندی عائد کردی جائے کیونکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ان اسلامی سیاستدانوں ہی کے ذریعے ملک میں در آئی ہے۔''
صرف ایک برس بعد ٢٠١١ء میں عوامی لیگ حکومت نے اسلام کے نام پر سیاست پر پابندی لگادی۔
پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر حملہ
بنگلہ دیشی سیکولر عناصر نے اس پوری مہم کے دوران صرف اپنے ملک میں ہی اسلام پسند اور دیندار طبقے کو ہدف نہیں بنایا بلکہ پاکستان کو بھی اپنے زیر دام لانے کی کوشش کی۔بنگلہ دیشی میڈیا(دی فنانشل ایکسپریس، بی ڈی نیوز 24ڈاٹ کام اور ڈیلی اسٹارنے ١٨ مارچ ٢٠١٢ء کو بھارتی و برطانوی روزنامہ انڈیا ٹوڈے اور ڈیلی میل کی رپورٹ کی بنیاد پر)نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی نے عدالت عظمیٰ میں ١٩٩١ء کے عام انتخابات میں خالدہ ضیا کو فنڈزدینے کا اعتراف کر لیا ہے۔بنگلہ دیشی اخبارات نے پاکستان کے ایک بڑے اخباری گروپ کے انگریزی روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل ، اسلام آباد کا بھی حوالہ دیا جس میں بی ڈی نیوز24ڈاٹ کام کے مطابق آئی ایس آئی نے ١٩٩١ء میں بی این پی حکومت کے دوران بنگلہ دیش کے ایک مذہبی نیٹ ورک کی حمایت بھی کی۔تاہم بنگلہ دیشی میڈیا کو اس گھنائونے الزام پر شرمندہ ہونا پڑا۔٢٧ مارچ کوڈیلی اسٹار نےThe Daily Star Stands Corrected کے عنوان سے آئی ایس آئی کے خلاف اس خبر پر نہ صرف معافی مانگی بلکہ یہ بھی کہا کہ ١٩٩١ء میں عام انتخابات کے موقع پر خالدہ ضیا کو آئی ایس آئی کی جانب سے ٥٠ ملین روپے فنڈز دیے جانے کے کسی قسم کے ٹھوس شواہد نہ مل سکے۔
بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کی نسل کشی کی اس مہم میں اب تک صرف جماعت اسلامی کے ٣٠ ہزار سے زائد مرکزی، ضلعی وتحصیل کی سطح کے امرا و سیکرٹریز و دیگر رہنماؤں و کارکنوں کو گرفتا ر کیا جاچکا ہے۔گرفتاری سے بچ جانے والے زیر زمین روپوش ہوگئے ہیں۔گرفتار شدگان پر وہ وہ مظالم کیے جارہے ہیںاسے اگر بیان کیا جائے تو اسلامی تحریکیں مصر میں اخوان المسلمون کے لوگوں پر کیے گئے مظالم کو بھول جائیں گے۔دیگر مذہبی جماعتوں جن میں جماعت التوحید وغیر ہ شامل ہیں کے گرفتارشدگان اور لاپتا افراد کی ایک الگ فہرست ہے۔ جماعت اسلامی کے میڈیا کے اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔ملک میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اسلامی سوچ یا نظریہ رکھنے والے عقوبت خانے کی نذر نہ کیے جاتے ہوں۔ داڑھی اور حجاب کو دہشت گردی سے تشبیہ دی جارہی ہے او راس شعائر کو اختیار کرنے والوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے سعودی عرب کے سرکاری روزنامہ سعودی گزٹ نے ٣٠ اپریل ٢٠١٢ء کو Stop the witch hunt against Ghulam Azamکے عنوان سے اپنے اداریہ میں بنگلہ دیشی حکومت کی اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پروفیسر غلام اعظم کے خلاف غیر منصفانہ ٹرائل بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مگر اس کے اگلے ہی دن امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن کی ڈھاکا آمد نے حسینہ واجد حکومت کو حوصلہ دیا اور چند روز بعد پروفیسر غلام اعظم پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر فرد جرم عائد کردی گئی۔
بنگلہ دیش کے اسلام پسندوں معاشرے سے خاتمہ کے لیے اگر چہ نام نہاد قانونی کارروائی کا آغاز ٢٠٠٩ء سے کیا گیا تاہم اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی بات کرنے والوں کے خلاف سیکولر نما ابلیسی گروہ نے ٢٠٠١ء میں ہی مہم کی ابتدا کردی تھی۔ یہ وہ سال ہے جب ٹوئن ٹاور پر '' حملہ'' کا فسانہ گھڑا گیا۔بنگلہ دیش کے بانی قرار دیے جانے والے مقتول لیڈر شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ اور اس کے حامی ١٩٧١ء کی جنگ کی اپنے انداز میں تعبیر و تشریح کرتے چلے آ رہے ہیں حالانکہ عوامی لیگی بھی اس جنگ کے دوران پیش آئے واقعات کے برابرکے ذمے دار ہیں۔ مکتی باہنی اور اس جیسی دوسری تنظیموں نے بھی بھارت کی فوجی مدد اور تعاون سے مقامی لوگوں اور متحدہ پاکستان کے حامیوں کا قتل عام کیا تھا لیکن عوامی لیگ کی حکومت ان میں سے زندہ موجود لوگوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کر رہی بلکہ اس کے بجائے متحدہ پاکستان کے حامیوں اور مشرقی پاکستان کی تقسیم کے مخالفین کو ٤٢ سال کے بعد بھی خصوصی عدالتیں قائم کر کے ان میں گھسیٹا جا رہا ہے۔عوامی لیگ حکومت کہتی ہے کہ ١٩٧١ء کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج اور اس کی حامی تنظیموں نے ٣٠ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا لیکن آزاد اور غیر جانبدار مورخین ہلاکتوں کے ان اعداد وشمار کی تائید نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کے لیڈر سقوط مشرقی پاکستان کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں اور وہ اس جنگ میں بھارت اور دوسری غیر ملکی طاقتوں کے مکروہ کردار کو یا تو بالکل گول کر جاتے ہیں یا پھر اس کو معروضی انداز میں پیش کرنے سے گریز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے وقت زمینی حقائق ان کے یک طرفہ مؤقف کی تائید نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حسینہ واجد حکومت جماعت اسلامی و دیگر مسلم رہنمائوں کے خلاف الزامات تو جنگی جرائم کی عائد کر رہی ہے مگر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے آج تک کسی بھی جلسہ میں جنگی جرائم کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ ١٥مارچ کو بنگلہ بندھو ایونیو میں ١٤جماعتی حکمراں اتحاد کی ریلی سے خطاب میں بنگلہ دیشی وزیراعظم نے خالدہ ضیا پر الزام لگایا کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں مگر خالدہ جتنی چاہے کوشش کرلیں ، جنگی مجرموں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔
آثار وقرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اخوان المسلمون کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے ؟مسلم دنیا کی دینی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی پاکستان کیا بنگلہ دیش میں اسلامی فکر سے وابستہ افراد کی اخلاقی تائید کریں گے ؟
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رجب المرجب 1433ھ/ مئی، جون 2012- سے ماخوذ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے