جمعرات، 6 ستمبر، 2012

غیر مسلم ممالک میں سکونت ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  (3 ) 

غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک  تحقیقی  و  تنقیدی  جائزہ

ابو موحد عبید الرحمن


قسط  نمبر 1 قسط  نمبر 2 قسط  نمبر 3 قسط  نمبر 4

٢ ) 
اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ (٢٦ ) ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ښ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ (٢٧ٓ) (سورة محمد :٢٥-٢٦)
'' حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد اس سے پھر گئے ، ان کے لیے شیطان نے اس روش کو سہل بنادیا اور جھوٹی خواہشات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کر رکھا ہے ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کے ناپسند کرنے والوں سے یہ کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے ، اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے ۔ '' 

نکتۂ استدلال

یہاں یہ حقیقت قابلِ غور ہے کہ ''دین سے پھر جانے والے'' ان لوگوں کو قرار دیاگیا ہے جنہوں نے ''بعض '' باتوں میں طواغیت کی اطاعت کا وعدہ کیا ہے اور یہ وعدہ بھی '' مستقبل '' سے متعلق ہے اور '' خفیہ '' طور پر کیا گیا ہے ۔ تو پھر ایسے میں ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو '' بعض '' باتوں کی بجائے '' کل '' باتوں میں ، '' مستقبل '' میں نہیں '' حال '' میں طواغیت عصریہ کی مطلق اطاعت کر رہے ہیں ، جبکہ یہ شنیع فعل '' خفیہ '' بھی نہیں '' اعلانیہ '' ہے ۔ فتدبر!

٣ )
(يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ ) (النسائ:١٤٤)

'' اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنائو ۔''

نکتۂ استدلال

اس آیتِ مبارکہ میں لفظ اولیاء کا ترجمہ عمومی طور پر دوست کیا جاتا ہے لیکن عربی لغت میں اس کے اور معنی بھی منقول ہیں ۔ صاحب '' القاموس المحیط '' نے ولی ( اسم صیغہ ) کے یہ معنی بھی تحریر فرمائے ہیں معاون ، مددگار ، محبوب ، قریب وغیرہ [القاموس المحیط ، مادة '' و ل ی '']۔ طواغیت کے معاشرے میں رہنے والا شخص ولی کے اس معنوی سانچہ میں ہر زاویہ سے متعلق ہوتا ہے ۔ پھر مزید کسی تفصیل کی حاجت اس لیے نہیں رہتی کہ صاحب '' لسان العرب '' نے ولی نے معنی ''پڑوسی '' کے بھی کیے ہیں [لسان العرب ، مادة '' و ل ی '']۔ ایسے میں درسِ آیت یہ ہوا کہ اے ایمان والو! اہلِ ایمان کے قرب و جوار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کے قرب و جوار میں نہ جا بسو ۔یہ وہی درس ہے ، جسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
'' من بنی ببلاد الاعاجم ، وصنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبہ بھم حتی یموت ، و ھو کذلک ، حشر معھم یوم القیامة ۔'' [اقتضاء الصراط المستقیم : ١٨٨]
'' جس نے عجمیوں ( کافروں ) کے علاقہ میں گھر تعمیر کیا ، ان کے نیروز و مہرجان میں شریک ہوا اور ان کی مشابہت اختیار کی یہاں تک کہ وہ مر گیا ، تو یہ انہی میں سے ہے ۔ روزِ محشر اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا ۔ ''
یعنی صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عمر نے اہلِ کفر کے علاقہ میں گھر تعمیر کرنے کو بھی ایک مستقل الگ جرم کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔ بصورت دیگر ترک ولایت کی تاکید کی گئی ہے ۔ 

٤)
وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ ) [ الکہف :١٦]
'' جب تم ان ( مشرکین ) سے الگ ہوجائو تو غار میں جاکر پناہ لے لو ۔ ''

نکتۂ استدلال

اصحاب کہف سے متعلق یہ آیت اس حقیقت کا بیان ہے کہ اہلِ حق کا ہمیشہ سے یہ شیوہ رہا ہے وہ اہلِ باطل کے قرب و جوار میں بسنے سے تنفر برتتے رہے ہیں اور صالح اجتماعیت کو مجتمع کرنے کے لیے مقام وحدت بغرض وحدانیت کے متلاشی ہوتے ہیں چاہے وہ نکتۂ اجتماع ایک ویران غار ہی کیوں نہ ہو !

٥ ) 
وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ) [سورة ہود :١١٣]
'' ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سر پرست نہ ملے گا جو اللہ سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی ۔''

نکتۂ استدلال

'' لا ترکنوا '' کا عمومی ترجمہ '' نہ جھکنا '' کیا گیا ہے ، مقصود ظالم طواغیت سے ادنیٰ درجہ میں بھی معاونت نہ کرنا ہے ۔ امام ابن جریح فرماتے ہیں :'' لا تمیلوا الیھم ''    ( یعنی ان کی جانب میلان تک نہ ہو )۔امام ابو العالیة فرماتے ہیں : '' لا ترضوا اعمالھم ''( ان کے اعمال سے راضی نہ ہو ) [تفسیر قرطبی : ٩/٧٢]۔ ظاہر ہے یورپی ممالک وہ احباب ہی جاتے ہیں جو ان کے معاشی یا معاشرتی پہلوکی جانب میلان رکھتے ہیں اور ان کے اعمال سے ہمارا راضی ہونا تو درکنار ، وہاں کے قانون کوتسلیم کرکے خود ان کے احکام کے ہم پابند ہوجاتے ہیں ۔ جبکہ مسلمان کیا ، مسلمان کے جانور تک کو علماء نے دارالحرب میں چھوڑنے کی ممانعت کی ہے تاکہ وہ طواغیت کی تقویت کا سبب نہ بنے ۔ علّامہ ابو الحسین احمد بن محمد قدوری رقمطراز ہیں : 
'' اذا اراد الامام العود الی دار الاسلام و معہ مواش فلم یقدر علی نقلھا الی دار الاسلام ذبحھا۔ ''[التکمیل الضروری شرح القدوری :٢/٤٩٥]
'' اگر امام ( دار الکفر سے ) دارا لاسلام (جہاد کے بعد ) لوٹنا چاہے اور اس کے ساتھ مویشی بھی ہوں ، جن کو وہ دار الاسلام منتقل نہ کرسکے تو پھر چاہئیے کہ انہیں ذبح کر ڈالے ۔ ''
جب ایک جانور تک کو دار الکفر میں چھوڑنے کی اجازت نہیں ،توایسے میں ایک موحد کیوں اور کیسے رہ سکتا ہے ؟

٦) 
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ ) [الممتحنة :٤ ]
''تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کا ہے ۔جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو ۔ ہم تمہارے انکاری ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت ظاہر ہوچکی ہے جب تک کے تم ایک اللہ پر ایمان نہ لائو ۔ ''

نکتۂ استدلال

اس آیتِ مبارکہ کو علماء آیتِ اظہارِ دین قرار دیتے ہیں یعنی دین کے اظہار پر ایک مسلمان اس درجہ قادر ہو کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کے باغی مشرکین کے سامنے وہ ٹھیٹھ موحدانہ اسلوب اختیار کرے جوآپ علیہ السلام نے اختیار کیا ہے ، اور ان سے اعلانِ برأت دوٹوک الفاظ میں کرے ۔اگر کوئی اس طرزِ پر اظہار دین کرنے سے قاصر ہے ، تو پھر علماء کے متفقہ فتاویٰ کی روشنی میں اسے اپنا دیار ترک کرکے توحیدی آب و ہوا کو اختیار کرنا چاہیئے ۔ یورپی ممالک میں بسنے والے حضرات کو اگر آیتِ اظہارِ دین کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو وہ اس طرزِ اظہارِ دین کے علاوہ اور بھی بہت سے امور دینیہ پر عامل ہونے سے یکسر معذور ہیں ۔ مثلاً 

(١) ایک باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو ترکِ صلاة پر سرزنش کرتا ہے توہ وہ یہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہاں کا قانون اس میں مانع ہے ۔

( ٢) کوئی شخص اگر دوسری شادی کسی طبعی مجبوری کی وجہ سے کرنا چاہے تو یہ بھی جرم ہے ۔ 

( ٣ ) دعوت جہاد جوکہ روحِ اسلام ہے وہ بھی شجرِ ممنوعہ ہے ۔ 

( ٤ ) نہی عن المنکر بھی جرم ہے اور بسا اوقات امر بالمعروف بھی ۔

( ٥ ) کوئی مسلمان مرد یا عورت بغرضِ '' حفاظتِ ستر '' Scanning Machine سے نہ گزرنا چاہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا ۔ 

(٦ ) وہ مجبور ہے کہ مشرکین کے ہاتھ کا ذبیحہ کھائے ۔

( ٧ ) مرد و زن کا اختلاط اس حد تک ہے کہ بسوں تک میں صاحب و صاحبہ شانہ بشانہ بیٹھتے ہیں ۔ 

( ٨) شوہر قرآن کی روشنی میں اپنی بیوی کو کسی منکر پر سرزنش کرے تو یہ بھی غیر قانونی فعل ہے ۔

(٩)کتاب اللہ کی روشنی میں اگر کوئی تفریحی مقام جانا چاہے تو وہاں سوائے ننگ Nudismکے اور کچھ نہیں ملتا ۔ 

(١٠) نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ ان دستر خوانوں پر نہ بیٹھو جہاں شراب کے جام چلیں لیکن یورپی فائیو اسٹار میں کھانا کھانے والا مجبور ہے کہ وہ طعام کے لیے ان ہوٹل نما مے خانوں میں کھانا کھائے بلکہ بسا اوقات تقریبات میں بھی اسے ٹکراتے جام کے مناظر کو دیکھنا پڑتا ہے ۔

(١١)نامحرم کو دیکھنا حرام ہے لیکن یورپی باشندہ یہاں پھر مجبور ہے ۔ 

(١٢) نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو راستے میں پائو تو انہیں تنگ راستے پر سے گزرنے پر مجبور کردو] صحیح مسلم : حدیث نمبر ٢١٦٧[۔لیکن یورپ میں یہ Human Rightsکے خلاف ہے ۔ 

تاہم اس سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مسلمان شریعتِ محمدی کو بلادِ مغرب میں رہتے ہوئے '' حق '' تو خیال کرسکتا ہے ، لیکن '' الحق '' ( The Only Truth )خیال نہیں کرسکتا کہ یہ رویہ Human Right Charterسے متعارض ہے ۔ پس جب آپ دوسروں کے کفر و الحاد کو ان کا '' حق '' سمجھتے ہیں اور وحدانیت ربّانی کو اپنا '' حق '' تو اسلام '' الحق '' کیسے رہا ؟ اسلام میں الحق اگر '' حق '' ہوجائے تو یہ شرک فی الحکم ہے ۔ اسلام میں تصور الحق کا اس درجہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اس کے لیے اقدامی جہاد ، فریضہ اقامتِ دین ، استخلاف فی الارض ، جزیہ ، حدود جیسے عملی تصور ات بیان کیے گئے ہیں تاکہ کسی اور شہ کا حق ہونا حاشیۂ خیال میں بھی نہ آئے ۔ اس زیرِ بحث آیت سے جہاں مسئلہ اظہارِ دین منقح ہوا کہ جس پر ایک یورپی مسلمان قادر نہیں وہیں ایک قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے محض مشرکین کے بتوں سے اعلان برأت نہیں بلکہ خود مشرکین سے بھی اعلان برأت کی ، پھر جو ہجرت فرمائی وہ مشہور و معروف واقعہ ہے ۔ طالب علمانہ استفسار ہے کہ جو معاشرہ آپ سے شرک و الحاد کو ایک حق ( Right )کی حیثیت سے تسلیم کروائے ، وہاں ان مشرکین سے اعلان برأت تو کجا ، کیا آپ ان کے شرک سے اعلان برأت کرنے پر بھی قادر ہیں ، ہجرت تو بعد از برأت کی بات ہے ؟

٧)
اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ  ۭقَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۭقَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا  ۭفَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ   ۭوَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ) ( النسائ:٩٧)
'' جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، جب فرشتے ان کی روح قبج کرنے پہنچے تو پوچھا تم کس حال میں تھے ؟ یہ جواب دیتے تھے کہ ہم کمزور و مغلوب تھے ۔ فرشتوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کر جاتے ؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جائے قرار ہے ۔ ''

نکتۂ استدلال

آیت کا پیغام بہت واضح ہے ، لیکن ہم قارئین کی توجہ اس اہم نکتہ کی طرف دلائیں گے جسے امام زید الدین محمد الرازی ( المتوفی ٦٦٦ھ ) نے ''نکات القرآن '' میں اٹھایا ہے ، اور وہ یہ کہ جب فرشتوں کے سوال کے جواب میں ان '' مستضعفین '' نے مدینہ ہجرت نہ کرنے کی علت بیان فرمادی تو پھر جواباً فرشتوں کا یہ کہنا ( أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَةً ) ''کیااللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ وہاں منتقل ہوجاتے '' کیا معنی رکھتا ہے ؟ امام زید الدین جواب مرحمت فرماتے ہیں : '' مطلب یہ ہے کہ اگر تم دور ہونے کی وجہ سے مدینہ ہجرت نہیں کرسکتے تھے تو مکہ سے کسی قریبی علاقہ کی طرف چلے جاتے جہاں تم اپنے دین کے اظہار پر قدرت رکھ سکتے ۔ '' (مسائل الرازی : ٧٩)

علّامہ قاضی ثناء اللہ عثمانی پانی پتی '' تفسیر مظہری '' میں یہی جواب دیتے ہیں نیز علامہ قرطبی اندلسی بھی تفسیر میں فرماتے ہیں : '' و فی ھذہ الایة دلیل علی ھجران ۔'' '' اس آیت میں دلیل ہے دونوں اقسام ہجرت پر " (تفسیر قرطبی : ٥/٢٢٢)۔ اس لیے بعض حضرات کا یہ خیال کہ ہجرت کے لیے دار الاسلام ہونا شرط ہے اور آج یورپی ممالک کا بندہ کوئی دار الاسلام نہیں پاتا اس لیے اس کے لیے احکام ہجرت غیر متعلق ہیں ، صحیح نہیں ۔ جب دارا لاسلام ( یعنی مدینہ منورہ ) کے ہوتے ہوئے بھی دارا لفتن سے دارالامان کی طرف ہجرت کا حکم باقی تھا تو آج کا دور بدرجہ اولیٰ اس حکم کا مستحق ہے ۔ 
٨) ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا  ) ( النسائ:٧٥)
''اے ہمارے رب ! ہم کو اس بستی سے نکال جو ظالموں کی بستی ہے  ۔ ''

نکتۂ استدلال

امام ابو حیان اندلسی اس دعا کی تفسیر میں فرماتے ہیں :  '' و المجمھور علی ان اللّٰہ تعالیٰ استجاب دعاء ھم ۔ '' '' جمہور کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کمزور مسلمانوں کی یہ دعا قبول کی ۔ '' (البحر المحیط : ٢ /٧٧٧)۔ گو دنیا میں اور بھی ظلم کی بستیاں ہیں لیکن ظلم و بربریت کا مظہرِ اتم اور حال کی دنیا میں ظلم کا سبب یہی بلادِ مغرب ہے جبکہ ظلم و معصیت کی پستیوں سے دور رہنا ہی مقصودِ شریعت ہے ، دوری جس قدر برتی جائے گی اسی قدر محمود ہے ۔ صحیح روایت میں سو اشخاص کے قاتل کی مغفرت کی علت ( جو اپنی اس معصیت ہر نادم تھا ) یہ بتلائی گئی ہے کہ اس کی موت بدی کی بستی سے دور اور صالحین کی بستی کے قریب واقع ہوئی تھی ۔'' فکان الی القریة الصالحة اقرب بشبر فجعل من اھلھا ۔''      '' صالحین کی بستی سے اس کا فاصلہ ( بدی کی بستی کے مقابلہ میں ) ایک بالشت نکلا سو وہ ان ہی میں شمار کیا گیا ۔ '' (ریاض الصالحین :١ /٢٩)۔ اس لیے ظالموں کی محبت یا ان کی اعانت کسی بھی قسم کی کرے ، تو یہ مذموم حرکت ہے ، خصوصاً ان اقوام سے تعاون جو اہلِ ایمان کے دشمن ہیں ان کی اعانت تو نہ صرف ظلم کی اعانت ہے بلکہ مسلم امہ پر بھی براہِ راست ظلم ہے ۔ امام ابن حزم اندلسی کا یہ فکر انگیز فتویٰ ملاحظہ ہو :
'' فان کان ھناک محارباً للمسلمین معیناً للکافرین بخدمتہ أو کتابہ فھو کافر ۔'' (المحلیٰ : مسئلہ رقم ٢٢٥٢)
'' اگر کوئی شخص دیارِ کفر میں رہ کر مسلمانوں سے لڑے یا کسی بھی نوعیت کی خدمت کرے یا محض کاتب بن کر کافروں کی اعانت کرے تو ایسا شخص بھی کافر ہے ۔ ''(١)
٩) 
(وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ   ) ( ابراہیم :٤٥)
''حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تم کو بھی سمجھا چکے تھے  ۔ ''
غرض یہ اور بہت ساری دیگر آیات بھی اس زیرِ بحث مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں جو اہلِ ایمان کو ظالموں کی بستیاں اور دیگر دار الکفر ترک کرکے ایک جہانِ صالح آباد کرنے کی دعوت دیتی ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔



حواشی 

(١) امام ابن حزم کی یہ رائے اصولِ فقہ کی روشنی میں اعتقادی حالت پر منطبق ہوتی ہے ۔ باقی اس شنیع فعل کا معصیت ہونا تو ایک معلوم و اجماعی حقیقت ہے ۔ 


یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، شعبان المعظم 1433ھ/ جون ، جولائی سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے