الواقعۃ شمارہ ٣
ابو عمار محمد سلیم
قسط ١
قران مجید اور احادیث مبارکہ میں سود کی ممانعت
١۔قران مجید میں سود کی ممانعت
قران مجید فرقان حمید جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے انسان کو ان تمام کاموں کے کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس کی دنیاوی زندگی کے لیے بہترین سامان فراہم کرتی ہے اور اس کی آخرت میں بھی بڑی نعمتوں کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ قران پاک ہر اس چیز کو کرنے سے رکنے کا حکم دیتا ہے جو انسانی معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنیوالا ہو ، جس سے آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو یا پھر جس سے اخلاقی اور معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہوں۔
قرآن ایسی تمام برائیوں سے انسان کو دور رہنے کا حکم دیتا ہے اور سرکشی اور بغاوت کی روش اختیار کرنے والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے۔چغلی ، جھوٹ ، چوری ، دھوکہ دہی ، زنا اور قتل و غارت گری جیسے غلط کاموں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ انسان کو ایسے تمام غلط کاموں سے رک جانے کے لیے قرآن نے بڑی خوبصورتی سے بڑی مثالیں دے کر تفصیل بتائی ہے تاکہ انسانیت راہ ہدایت پر رہے اور بھٹکنے سے محفوظ رہے۔
قرآن ایسی تمام برائیوں سے انسان کو دور رہنے کا حکم دیتا ہے اور سرکشی اور بغاوت کی روش اختیار کرنے والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے۔چغلی ، جھوٹ ، چوری ، دھوکہ دہی ، زنا اور قتل و غارت گری جیسے غلط کاموں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ انسان کو ایسے تمام غلط کاموں سے رک جانے کے لیے قرآن نے بڑی خوبصورتی سے بڑی مثالیں دے کر تفصیل بتائی ہے تاکہ انسانیت راہ ہدایت پر رہے اور بھٹکنے سے محفوظ رہے۔
ان تمام برائیوں میں سود کا لین دین بھی ایک ایسا ہی برا کام ہے جس سے قرآن نے انسان کو بڑی شدومد سے روکا ہے۔اس لیے کہ سود بہت بڑا ظلم ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے۔سود ایک دھوکہ ہے اور دوسرے انسان کا خون چوسنے کے مترادف ہے۔ قرآن سود کو حرام قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کہ جو لوگ سودی کاروبار میں ملوث ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ( سورة البقرة آیات ٢٧٨ ، ٢٧٩)۔اسی کو مزید تفصیل میں جا کر یوں بیان کیا کہ
: ''.......اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو ، تو جو کوئی بھی ایسا کرتا ہے وہ اپنے مال کو کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔'' (سورة الروم : ٣٩)۔
انسان ہر غلط کام کو کرنے کے لیے حیلے بہانے تراش کرکے اس کو جائز بنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور شیطان کی ترغیب بھی۔قرآن مجید نے انسان کی اس غلط فہمی کو اس طرح بیان کیا ہے
''.........یہ اس لیے کہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ایسا ہی ہے جیسے سود (لینا)۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔' ' (سورة البقرة: ٢٧٥)
سود سے روکنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر روکا اور حکم دیا کہ
'' اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھائو اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو ۔ '' ( سورة آل عمران : ١٣٠)۔
اور پھر مزید ہدایت اس طرح دی کہ
'' اللہ سود کو نابود (بے برکت) کرتا ہے اور صدقہ (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار سے محبت نہیں کرتا ۔'' (سورة البقرہ : ٢٧٦)۔
اور پھر یہ ہدایت بھی عطا کی کہ
'' مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ ''(سورة البقرة: ٢٧٨)
سود سے باز نہ آنے والوں کو اللہ نے بڑی سخت وعید دی ہے اور فرمایا کہ
'' جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ( قبروں سے) اس طرح اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو..........اور پھر جو (حرام کی طرف لوٹا) اور (سود) لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے۔''(سورة البقرة: ٢٧٥)۔
اللہ نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں اپنے تمام رسولوں اور پیغمبروںکے ذریعہ سے انسان کو حرام سے روکاہے۔ ہر شریعت میں سود کو حرام ٹھہرایا گیا اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔مگر انسان نے بھی ہر دور میں سر کشی کی روش اختیار کی اور شیطان کے بہلاوے میں آکر اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن اسی چیز کی طرف اشارہ کر کے پہلی امتوں کے لیے کہتا ہے
''....اور اس کے سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اوراس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے....'' (سورة النسائ: ١٦١)
قرآن مجید کی ان واضح ہدایات کے آ جانے کے بعد یہ صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سود ایک ایسا معاملہ ہے جس میں '' حرام اور باطل ذرایع سے دوسروں کے مال سے اپنے مال میں اضافہ کر لیا جائے۔'' اور پھر یہ مزید واضح ہوتا ہے '' روپیہ اس شرط پر ادھار دیا جائے کہ پہلے سے مقرر شدہ اضافہ کے ساتھ رقم واپس کی جائے۔'' قرآن کی اس تعریف کی رو سے سود وہ اضافہ ہے جو پہلے سے طے کر لیا جائے۔ اللہ اس اضافہ کو ناجائز قرار دیتا ہے اور اس سے روک رہا ہے۔ سود کا کاروبار تجارت نہیں ہے اس لیے کہ تجارت میں اگر نفع ہے تو نقصان کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے۔ تجارت محفوظ اور آزاد ماحول میں ہوتی ہے اور تجارت میں ملوث دونوں فریق کو برابری کے حقوق حاصل ہوتے ہیںجب کہ سود کے کاروبار میں رقم دینے والا ہر حالت میں اپنی رقم ایک مدت کے بعد اضافہ کے ساتھ واپس لینے کا معاہدہ کرتا ہے اور یہ رقم بھی اور اضافہ بھی رقم لینے والے کو لازماً واپس کرنی ہوتی ہے خواہ اس کو اپنی تجارت یا کاروبار میں نقصان ہوا ہو۔ اس طرح ادھار دینے والا ادھار لینے والے کا خون چوستا ہے۔ اس کو تو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے اور اس کا سرمایہ بغیر کسی جدوجہد اور محنت کے بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا فریق نقصان پر نقصان برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔اور یہ ہی وہ وجہ ہے جو اس لین دین کو اللہ کی نظروں میں حرام ٹھراتی ہے۔
٢۔ احادیث مبارکہ میں سود سے ممانعت
جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شریعت نازل کرتا ہے اور انسان کو ہدایات دیتا ہے تو اس کے رسول ان تمام ہدایات پر عمل کرکے مثال قائم کرتے ہیں اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا بول بالا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے جب اپنے ماننے والوں کو سود سے روکا تو پھر حضور نبی کریم رحمت اللعالمین ۖ نے سود کی بنیادی جزئیات ، اس کی کچھ قسموںاور تفاصیل سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ اگر ہم حضور اکرم ۖ کی ان احادیث پر غور کریں جن میں سود کے اوپر استفسار ہے اور جو کہ ستر سے زائد ہیں۔ [مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی کتاب مسئلہ سود (مطبع ادارة المعارف ، کراچی) میں چالیس سے کچھ اوپر احادیث کو یکجا کردیا ہے۔ یہ کتاب بھی اس مسئلہ پر اچھی اور مدلل چیز ہے جس کا مطالعہ یقیناً نفع بخش ہوگا] تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا کہ ربا یعنی سود کی ستر قسمیں ہیں جس میں سود پر رقم کا لین دین صرف ایک قسم ہے۔ گو کہ نبی برحق ۖ نے ستر کا لفظ استعمال فرمایاہے مگر ان سب کا نام لے کر وضاحت نہیں فرمائی۔آپۖ نے ان میں سے صرف چند کی نشاندہی کی ہے۔ آج کی دنیا میں معیشت کے موجودہ جاری نظام میں بھانت بھانت قسم کے سود کا اجرا ہو چکا ہے اور دنیا سود کے ان بندھنوں میں بری طرح جکڑی جاچکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے علماء سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان پر تفصیلی غور کریں اور امت مسلمہ کو ان سے آگاہ کریں اور اس کا توڑ بھی بتائیں۔ آج جتنے قسم کے سود جاری ہیں یہاں پر ہم نہ ان کی تفصیل میں جاسکتے ہیں اور نہ اس پر بحث کر سکتے ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لیے جناب شیخ عمران نذر حسین صاحب کا ایک مفید اورمعلوماتی کتابچہ بر زبان انگریزی بہ عنوان "Importance of Prohibition of Riba in Islam" موجود ہے جسکا اردو ترجمہ راقم نے ہی '' اسلام میں ربا کے حکم امتناعی کی اہمیت ''کے نام سے کیا ہے اور مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔ یہ کتابچہ یقیناً پڑھنے کے لائق ہے اور سود سے نجات حاصل کرنے کی طرف ترغیب دلانے کا باعث ہے۔ اللہ شیخ عمران صاحب کو اس کی جزا عطا کریں۔ آمین۔
مروجہ سود کی قسموں کا جائزہ
اس مختصر کتابچہ میں ہم صرف مروجہ سود کی چند ایک قسموں کا تذکرہ کریں گے اور قاری کو مشورہ دیں گے کہ مزید تفاصیل کے لیے اس علم کے علماء و معیشت کے ماہرین سے استفادہ کرے۔ تاہم چند ایک کی نشاندہی یوں ہے ،
(الف) ادھار لین دین۔ حضور ۖ نے فرمایا کہ '' ادھار میں ربا ہے۔'' اور یہ اس وقت ہے جب کہ ادائیگی تاخیر سے ہو اور اضافہ کے ساتھ رقم واپس ہو۔اگر لین دین میں ادائیگی ساتھ کے ساتھ ہو تو اس میں سود نہیں ہے۔اور اگر ادائیگی بعد میں بھی ہو مگر قیمت میں اضافہ نہ ہو تو یہ معاملہ بھی سود سے پاک ہے۔
( ب) ادھار سودا ہو تو اشیاء کی قیمت میں اضافہ کردیا جائے
( ج) نیلام میں جھوٹی بولی لگانا تاکہ قیمت کہیں سے کہیں پہنچ جائے اور خریداردھوکہ میں آجائے۔
( د) لین دین میں دھوکہ دہی کرنا۔ حرام مال دینا ، نقص کو چھپانا ، یا پھر ناجائز منافع کمانا یہ سب اس میں شامل ہے۔
( ر) ذخیرہ اندوزی کرکے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کرنا اور پھر زیادہ منافع کے ساتھ بیچ کر پیسے بٹورنا بھی اس میں شامل ہے۔
( ز) اجارہ داری کے ذریعہ سے بازار کا سارا مال خرید لینا اور پھر اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرنا۔ اس طرح چونکہ آزاد تجارتی ماحول متاثر ہوتا ہے یہ کام منع ہے۔
( س) سٹے بازی کرنا یعنی جب معلوم ہو جائے کہ مال کی قیمت چڑھنے والی ہے تو اس کو خرید کر روک لینا اور جب قیمت بڑھ جائے تو زیادہ پیسوں پر فروخت کرنا۔
(ش) رشوت اور بدعنوانی کے ذریعہ سے عوام کی دولت کو لوٹ لینا۔
اوپر درج شدہ چیزیں نہ تو مکمل ہیں اور نہ حرف آخر۔ اس سے صرف یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے سود اور بدعنوانی نے مختلف شکلوں سے معیشت کو جکڑا ہوا ہے اور اپنے قابو میں کر لیا ہوا ہے۔ آج کا ایک عام انسان اپنی مجبوریوں کے تحت یا پھر انجانے میں اور یا پھر اللہ کے خوف سے نڈر ہو کر اس دھوکہ دہی کے کاروبار میں ملوث ہو گیا ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ حضور نبی اکرم صادق الوعد ۖ نے بڑے واشگاف الفاظ میں سود کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے جو حضرت ابو ہریرہ نے یوں روایت کیا ہے
'' رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ربا کے ستر حصے ہیں اور اس میں سب سے کمترین حصہ اس کے برابر ہے کہ انسان خود اپنی ماں کے ساتھ شادی کرے (یعنی ہم بستری کرے)۔'' (سنن ابن ماجہ) ۔
استغفرا للہ۔
اتنی شدید وعید اور اتنی بھیانک تعریف کے بعد بھی اگر کوئی سودی لین دین میں گرفتار ہے تو اس کے بے باک اور نڈر ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے؟ ۔ اس کی آخرت کیسی ہوگی اور کیا بھیانک انجام ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
آج کے دور کا نظام معیشت
اوپر جو کچھ درج کیا گیا ہے وہ آج کے دور کے نظام معیشت کی ایک بالکل سرسری تعریف ہے۔ مگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کی دنیا معاشی لحاظ سے دو بڑے بڑے گھنائونے کاروبار میں بری طرح ملوث ہے جس میں ایک ہے سود کا کاروبار اور دوسرا ہے قمار بازی یعنی جوا۔ گو کہ قمار بازی اس مضمون کا موضوع نہیں ہے مگر آج کے دور کی اس برائی کا سرسری تذکرہ کئے بغیر تشنگی باقی رہے گی اس لیے آخر میں اس مسئلہ پر بھی تھوڑا سا اظہار خیال ضروری ہوگا تاکہ اندازہ ہو کہ اللہ کی ایک اور ممنوعہ چیز کو شیطان ملعون نے کس طرح ہماری زندگیوں میں داخل کردیا ہے اور ہم کس قدر انجان ہیں کہ اس کو برا جاننا تو درکنار اس کو بڑی حد تک جائز سمجھتے ہیں۔
سود سے بچائو کے بارے میں گفتگو شروع کرنے سے قبل ہمیں ایک مختصر جائزہ اس بات کا لینا چاہئے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ ہماری زندگیوں اور ہمارے کاروباری لین دین میں سود کی کون سی قسمیں شامل ہیں جن سے بچنا اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے قہر و غضب سے بچانا ہوگا۔آئے دیکھتے ہیں کہ ایسی کون سی چیزیں ہیں جو سود کے زمرے میں آتی ہیں جنہوں نے ہمیں بری طرح جکڑ رکھا ہے اور مزیدغلامی کی طرف ڈھکیلتے ہوئے لے جارہی ہیں۔
١۔ ذاتی اور کاروباری لین دین
انسان اپنی ذاتی ضروریات یا کاروباری حاجتوں کے لیے بعض اوقات دوسروں کی امداد لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہ یا تو عزیز و اقارب یا پھر دوستوں سے رجوع کرتا ہے تاکہ کچھ رقم قرض مل جائے۔ یہ رقم اکثر و بیشتر قرض حسنہ کے طور پر لیا جاتا ہے اور ایک مخصوص مدت کے اندر جو رقم لی ہو وہ واپس کر دی جاتی ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی رقم دینے والے کا اس پر حق ہوتا ہے۔ یہ ایک انتہائی جائز معاملہ ہے۔ اس میں بعض اوقات ضمانت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دی جاتی ہے جو رقم واپس کرنے پر مل جاتی ہے اور اگر رقم واپس کرنے والا رقم واپس نہ کرے تو ادھار دینے والا اس رہن رکھی ہوئی چیز سے اپنے رقم کی واپسی ممکن کرلیتا ہے۔ اس میں ادھار دی ہوئی رقم سے فالتو کچھ ادا نہیں کیا جاتا۔ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اگر کوئی تم میں سے کسی کو قرض دے تو پھر وہ شخص تمہیں کوئی ہدیہ دے تو مت قبول کرو کیوں کہ اس میں سود ہوجانے کا احتمال ہوگا۔ ہمارے اسلاف نے تو اس سلسلہ میں اس قدر احتیاط برتی کہ اگر قرض دیا ہو ہے تو مقروض کی دیوار کے سائے میں بیٹھنے سے بھی احتیاط کیا کہ کہیں سود کے زمرے میں نہ آجائے۔ اللہ اللہ کیا احتیاط ہے اور اللہ کے احکامات کو توڑنے سے بچنے کے لیے وہ لوگ کس حد تک چلے جاتے تھے۔آج اگر ہم ادھار دے بھی دیں تو اتنے نخرے اٹھواتے ہیں کہ بیچارے مقروض کو ناگوار ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات جب ادھار نہ ملے تو بہت سے سود خور لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو سود کے اوپر رقم دینے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت آپ ہرماہ سود کی مقرر شدہ رقم ادا کرتے رہیں تو اصل زر اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب سود کی ماہانہ ادائیگی نہیں کی تو پھر جرمانے کے طور پر یہ رقم بڑھ جاتی ہے اور انسان مزید جکڑا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج سے کچھ عرصہ قبل تک ہمارے معاشرے میں کتنے ہی خاندان ہندو بنئے کے اسی سودی حساب کتاب میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
٢۔ بینک کاکاروباری نظام
آج کے دور کی معیشت کو شیطان مردود نے اپنی ایک عظیم الشان ایجادیعنی بینک کے ذریعہ سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔آج کا کاروبار تمام کا تمام بینک کے گرد گھومتا ہے۔ ہماری ذاتی لین دین ہو یا ہماری تجارتی ضرورت ، سب کو بینک کے گرداگرد لپیٹ دیا گیا ہے۔ ہماری ضرورتوں کو اشتہارات کے ذریعہ سے بڑھا دیا گیا ہے اور ان کے حصول کو بینک کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ ہماری تجارتی حاجتوںکو بھی اسی طرح بینک کے چکروں میں الجھا دیا گیا ہے۔ اور اب ہماری آپس کی لین دین اور درآمد و بر آمد سب بغیر بینک کی شمولیت کے ممکن ہی نہیں۔چھوٹا بڑا ہر قسم کا کاروباری لین دین بینک سے مشروط ہے۔ آپ مکان بنا نا چاہتے ہیں تو بینک جاتے ہیں ، گاڑی خریدنا چاہتے ہیں تو بینک سے رابطہ کرتے ہیں۔ کاروباری مقاصد کے لیے مدد درکار ہو تو بینک سے رجوع کرتے ہیں۔ پنشن کے ذریعہ یا اور کسی ذریعہ سے کوئی موٹی رقم ملے تو اس کو اٹھا کر بینک میں رکھ دیتے ہیں اور پھر ہر ماہ دھکے کھا کر اپنی پاکیزہ کمائی کے بدلے سود کی گندگی وصول کرتے ہیں اور پھر ان تمام چیزوں کے بعد کریڈٹ کارڈہے اور اس کے ذریعہ سے سود در سود کے ایک لامتناہی سلسلہ سے منسلک ہوجاتے ہیں۔
بینکوں کا سلسلہ کچھ یوں شروع ہوا کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی زائرین یورپ اور دیگر علاقوں سے اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے آیا کرتے تو راستے میں چوری اور راہزنی کے واقعات کی وجہ سے اکثرلوگ لوٹ لیے جاتے تھے۔ اس سے بچائو کے لیے یہ سلسلہ شروع ہوا کہ اپنی نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء لوگ کسی کمپنی یا گروپ کے پاس جمع کرا دیتے اور اس کے بدلے انہیں ایک رسید مل جاتی جسے دکھا کر مطلوبہ شہر میں انہیں ان کی چیزیں یا اس کے عوض رقم واپس مل جاتی تھیں۔رفتہ رفتہ یہ صورت بہت ترقی کر گئی اور اس کاروبار میں ملوث لوگوں نے عوام کے جمع شدہ پیسوں کو سود پر ادھار دینے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ذاتی غرض کے لیے بھی اور کاروباری مقاصد کے لیے بھی لوگوں کو یہ رقم آسانی سے مل جاتی تھی اور آج یہ صورت حال ہے کہ یہ معاملہ ترقی کرکے یہاں تک آ پہنچا ہے جہاں دنیا بھر کی غریب عوام اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان بینکوں میں جمع کراتی ہے۔ بینک یہ رقم کسی بڑی کمپنی کو یا کسی سیٹھ کو ادھار دے دیتا ہے جو اس رقم سے کاروبار کرکے ڈھیروں منافع کماتا ہے اور ایک معمولی رقم بنک کو واپس کرتا ہے اور بینک اپنے کھاتے داروں کو اس رقم کا ایک معمولی حصہ منافع یا پرافٹ کے نام پر دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور اگر ادھار لینے والا سیٹھ نقصان ظاہر کردے ، تو عوام کا روپیہ ڈوب جاتا ہے جب کہ بینک اور سیٹھ دونوں اپنی رقم انشورنس کے ذریعہ سے واپس لے لیتا ہے جب کہ انشورنس میں بھی غریب عوام کا ہی پیسہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ یوں غریب ہر طرف سے پٹتا ہے۔یہ ایک ایسا گھنائونا چکر ہے جس کی تفصیل میں جاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بینک کس طرح دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بینک اس کے فائدے کے لیے کام کررہے ہیںمگر حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
بینکوں نے عوام کے لیے مختلف اسکیمیں شروع کر رکھی ہیںجو سب کی سب سود سے ملوث ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا کر ایسے دل لبھانے والے انداز میں ان کی تشہیر کی جاتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں اور اس چیز کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے احکامات سے بغاوت کر رہے ہیں۔آئیے ان میں سے چند ایک چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم صرف موٹی موٹی چیزوں کا مختصراً تذکرہ کریں گے۔ تفصیل جاننے کے لیے دیگر کتابوں اور رسائل سے استفادہ کیا جا سکتاہے۔
(الف) سیونگ اکائونٹ۔ اس مد میں آپ اپنا پیسہ جمع کروادیں اور ایک مقرر شدہ منافع مخصوص وقت میں حاصل کر لیں۔ یہ سود کی سب سے سیدھی سادھی شکل ہے۔ یعنی روپیہ نے وقت گذرنے کے ساتھ بغیر کسی محنت کے اپنی قیمت بڑھا لی۔ اسی کی مزید تبدیل شدہ شکل میں ماہانہ آمدنی اکائونٹ یا پھر پرافٹ لاس شیرنگ اکائونٹ وغیرہ کو بھی عوام میں مقبول کردیا گیا ہے۔اس اکائونٹ میں پرافٹ تو ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بینک کو معلوم ہے کہ کسی نے اگر ایک ہزار روپیہ جمع کرایا ہے وہ اگر ایک سال کے بعد نو سو ہو جائے توکوئی اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھے گا۔اسی لیے تو ا صل رقم محفوظ اور منافع کی شرح پکی معین ہوتی ہے تاکہ لوگ آئیں اور سود میں گھس جائیں ۔
(ب) مکان یا گاڑی وغیرہ خریدنے کے لیے ادھار بھی اسی سود کے زمرے میں آتا ہے جسے بینک بڑی چالاکی سے اسلامی بینکنگ کا لبادہ اڑھا کر پیش کرتا ہے۔یہ تمام کا تمام سود میں ملوث ہونے کا کاروبار ہے اور اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
(ج) کاروباری ادھار۔ اس سودی کاروبار کو تو بعض بینک کھلم کھلا سود یعنیInterestکی بنیاد پر چلاتے ہیں اور بعض نے اس کو اسلامی رنگ میں ڈھال لیا ہے۔ مگر ہے یہ سب سود اور حرام۔
(د ) کریڈٹ کارڈ۔ میرے نزدیک آج کے دور کا سب سے گندا شیطانی دھندا۔ اس کے ذریعہ عوام کی قیمت خرید کو مصنوعی طریقہ سے بڑھا دیا گیاہے۔ آپ کی جیب میں خواہ کوئی پیسہ نہ ہو ، مگر آپ اپنی حیثیت اور استطاعت سے کہیں مہنگی چیزیں اسی کارڈ کے ذریعہ خرید لیتے ہیں اور ہر ماہ تھوڑی تھوڑی رقم بینک میں ادکرتے رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے نہیں ہیں مگر حقیقتاً جتنے کی چیز خریدی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ رقم ادا کی جاتی ہے اور اسی لیے یہ بھی سودی کاروبار ہے۔ حرام ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل غور ہے کہ بینک کہتا ہے کہ اگر آپ تمام کی تمام رقم جو واجب الا دا ہوتی ہے مہینہ ختم ہونے سے قبل یکمشت ادا کردیں تو کوئی سود نہیں لگتا۔ یہ بات شائد درست ہو مگر یاد رکھیں کہ جب آپ نے ادائیگی میں تاخیر کی تو سود کے چکر میں گرفتار ہوگئے۔ اور اس کے بعد یہ بھی انتہائی اہم بات جو لوگ نظر انداز کردیتے ہیں کہ جب آپ کارڈ حاصل کرنے کے لیے بینک کے شرائط کافارم بھرتے ہیں تو اس میں آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اگر آپ نے رقم کی ادائیگی مقررہ وقت پر نہ کی تو بینک اس پر سودلگانے کا حقدار ہوگا۔ آپ نے اس پر دستخط کر دئے تو آپ نے حامی بھر لی اور پھر آپ اس حدیث مبارک کے مطابق جہنم کے حقدار ہو گئے جس میں رسول بر حق صادق و امین ۖ نے یہ خبردی کہ'' جس نے سود دیا ، سود لیا ، سود کا معاہدہ لکھا اور سود کے معاہدہ کی گواہی دی ( دونوں گواہ) سب جہنمی ہیں۔''
٣۔ قومی سیونگ سرٹیفیکیٹ
ہماری حکومت نے سیونگ سرٹیفیکیٹ کے نام پر بہت سی اسکیموں کا اجرا کیا ہے۔ ان تمام قسموں میںیوں ہوتا ہے کہ آپ اپنی رقم ایک مخصوص مدت کے لیے لگا کر کوئی سرٹیفیکٹ خرید لیتے ہیں اور پھر آپ ماہانہ یا سالانہ پرافٹ کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام اسکیمیں خالصتاً سود میں ملوث ہیں خواہ ان کا کتنا ہی خوبصورت نام رکھ دیا جائے اس لیے آپ کے اس پیسے سے سود کا حرام کاروبار ہوتا ہے اور اس کے منافع سے آپ کو آپ کا منافع ادا کیا جاتا ہے۔ اس کی تمام شکل ناجائز اور حرام ہے۔
٤۔ پرائز بانڈ
قومی اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ کی طرح یہ اسکیم بھی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی اسکیم ہے جو سود اور قمار دونوں کا ملغوبہ ہے۔ آپ اپنی رقم کے عوض ایک خاص مالیت کے پرائز بانڈ خرید لیتے ہیں۔ عوام کی یہ رقم سود کے کاروبار میں لگائی جاتی ہے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک انتہائی معمولی حصہ قرعہ اندازی کے ذریعہ سے کچھ خوش قسمت لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہ سود بھی ہے اور جوا بھی اور دونوں حرام ہیں۔ مگر لوگوں کے پاس یہ باتیں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے اور شیطان اور اس کے گرگوں نے لوگوں کی عقلوں پر پردے بھی ڈال رکھے ہیں۔
٥۔ قسطوں پر خریداری
یہ بھی ایک ایسا ہی کاروبار ہے جس کی بنیاد بھی سود کی اسی قسم پر ہے جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔لوگ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو بینک سے یا اس کا کاروبار کرنے والے سے اپنی مطلوبہ شئے حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ معمولی رقم ابتدائی ادائیگی کے سلسلہ میں دے دیتے ہیں اور بقیہ رقم ماہانہ قسطوں پر ادا کرتے ہیں۔ اور یہ ادائیگی یقینا اس چیز کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔بعض لوگ اس کو ایک معاہدے کا نام دے لیتے ہیں اور اس کے جائز ہونے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ تفصیل سے دیکھا جائے تو یہ حرام نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چیز لے لیجئے جس کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہو اور اس رقم پر بازار میں عام طور پر دستیاب ہو۔ آپ اس چیز کو بازار میں پندرہ سو پر بیچنا چاہیں تو آپ کو اس کا خریدار نہیں ملے گا۔ ہاں اگر آپ اس چیزکو اس شرط پر بیچیں کہ اس رقم کی ادائیگی چھہ ماہ بعد کرنی ہے تو لوگ لے لیں گے۔ اب دیکھیں کہ ہوا کیا۔ یعنی روپیہ نے چھہ ماہ کی مدت کے عوض اپنی قیمت خود بڑھا لی۔ یہ اضافہ شریعت کی رو سے حرام ہے اور ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کاروبار آج کل بہت عام ہے اور گلی کوچوں میں اس کا کاروبار کرنے والے بیٹھے ہیں۔ بینک وغیرہ نے اس کو مرابحہ یا معاہدہ اور اسی طرح کے دیگر اسلامی نام دے کر حلال بنا یا ہوا ہے اور عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ پر خریدی گئی چیزوں کا اطلاق بھی اسی سود کے زمرے میں آتا ہے۔
٦۔ ہائوس بلڈنگ کا قرض
حکومت کی طرف سے قائم شدہ یہ ادارہ لوگوں کو مکان بنانے کے لیے قرض فراہم کرتا ہے۔بظاہر تو یہ ادارہ لوگوں کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا ہے مگر اس کا پورا نظام سود کی بنیادوں پر رکھ کر اس کو عوام کا خون چوسنے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ ایک فلاحی ادھار ہوتا اور حکومت کے بیت المال سے عوام کو قرض کی سہولت ہوتی جو سود سے پاک ہوتی۔ مگر آج کتنے ہی لوگ اس کے چکر میں پھنس کر سود در سود میں الجھے ہوئے ہیں اور نہ اس سے گلو خلاصی ہو رہی ہے اور نہ اس قرض سے نجات مل رہی ہے۔ ایک اسلامی حکو مت کی زیر سر پرستی سود کا یہ کاروبار اپنے ہی عوام کا خون چوس رہا ہے اور ہم سب بے بس تماشائی بنے اس کو برداشت کئے جارہے ہیں۔جان لیجئے کہ یہ حرام ہے اور اس ادارے سے رقم حاصل کرکے آپ نے جو گھر بنا یا ہے وہ حرام کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور یہاں تو شائد یہ مکان قائم رہے مگر آپ کی آخرت کے لیے جہنم کی عمیق ترین گہرائیوں میں اس کی جڑیں ہیں۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھیں۔ آمین۔
٧۔ پوسٹ آفس کے سیونگ اکائونٹ اور سرٹیفیکیٹ
یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ پوسٹ آفس کے ادارے نے بھی حکومت کی سر پرستی میں سود کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ پوسٹ آفس کا کام عوام تک خطوں ، ٹیلی گرام اور پارسلوں کی ترسیل کا تھا مگر عوام میں بچت کا شعور بیدار کرنے کے لیے اس میں سیونگ اور مختلف قسم کے سرٹیفیکیٹ کا اجرا کر دیا گیا اور مروجہ اصولوں کے مطابق بغیر سوچے سمجھے اس کو بھی سود کے نظام سے منسلک کرکے حرام میں شامل کر دیا گیا۔ پوسٹ آفس کی پہنچ ملک کے گوشے گوشے میں ہے اور دور دراز دیہاتوں تک ان کی شاخیں قائم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوسٹ آفس میں روپیوں کے لین دین کا کاروبار شائد بینکوں سے بھی زیادہ ہورہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر اس سود کی لعنت کو ہمارے ملک کے انتہائی دور دراز دیہاتوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔
٨۔ حرام آمدنی کے دیگر ذرائع
اوپر جن چیزوں اور اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ سب سود کی بنیاد اور حرام کاروبار پر مبنی ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے کاروبار ایسے بھی پھل پھول رہے ہیں جس کے ڈانڈے بھی سود سے منسلک ہیں اور اسی لیے یہ بھی حرام ہیں۔ آج کے معاشرہ میں لوگوں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ ان کے پیٹ میں حرام جا رہا ہے یا حلال۔ جب اس کی تخصیص نہیں رہ گئی تو پھر دیکھنے بھالنے اور احتیاط کے تقاضے بھی ختم ہوگئے۔ سود ، جوا اور قمار بازی مختلف شکلوں میں معاشرے میںسرائت کر گئی ہے۔آج ہم جو کھارہے ہیں اس سے جو خون بن رہا ہے حرام کے مال سے بن رہاہے اس لیے اس سے تیار شدہ گوشت اللہ کے رسول برحق ۖ کی وعید کے مطابق صرف جہنم میں جلنے کے قابل ہے۔ حرام کی اس ریل پیل سے معاشرہ میں دیگر حرام اور ناجائز کاموں کی بھر مار ہورہی ہے۔ جھوٹ ، رشوت ستانی ، چور بازاری ، لوٹ مار، جوا، زنا ،شراب نوشی ، قمار بازی ، دھوکہ دہی وغیرہ وغیرہ معاشرے کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور ایک عام انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کا نہ سد باب ہوسکتا ہے اور نہ ان سے بچنے کی کوئی ترکیب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی اور کون سی چیزیں ہیں جن سے بچنا چاہئے۔
(الف) شیرز کا کاروبار۔ جب آپ کسی کمپنی کے شئیرز خریدتے ہیں تو آپ اس کمپنی میں اور اس کے کاروبار کے حصے دار بن جاتے ہیں۔ خواہ کتنی ہی چھوٹی سطح پر کیوں نہ ہو آپ کا شمار کمپنی کے مالکوں میں ہوتا ہے۔ آج کے سود کے کاروباری لین دین میں کوئی بھی کمپنی اس حرام معاملے سے الگ نہیں ہے۔ سود کسی نہ کسی شکل میں ہر کاروبار کا حصہ ہے۔ اب اگر یہ کمپنی ایسے کسی طور سے حرام میں ملوث ہے تو آپ بطور مالک ہونے کے اس کے وبال کے ذمہ دار ہونگے۔ اگر کوئی کمپنی ایسی ہے جو حرام تجارت میں ملوث نہ ہو اور حرام ذرایع سے روپیہ حاصل نہ کرتی ہو اور سود سے کلی طور پر پاک ہو تو آپ یقیناً اس حلال کام میں سرمایہ کاری کریں اس کا منافع آپ کے لیے حلال ہوگا۔ بصورت دیگریہ کام درست نہیں ہے۔ علماء نے شیرز کے اوپر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان کے خیال سے استفادہ اس موضوع پر موجود کتابوں سے کیا جا سکتا ہے۔
(ب) قمار اور جوا۔ ہمارے معاشرے میں جوا بھی بے دریغ داخل ہو چکا ہے۔مختلف انداز کی قرعہ اندازیاں صریح طور پر سورة المائدہ کی آیت نمبر ٩٠ کی رو سے(رِجس ِمن عمل الشیطان ) میں داخل ہے اور ممنوع ہے۔ شرط لگانا اوراس کے اوپر رقم یا کسی اور چیز کو شامل کر لینا بھی ممنوع ہے۔ جوا اور سٹے بازی تو اس قدر مقبول ہے کہ اس کا مظاہرہ کسی کرکٹ میچ کے دوران دیکھا جاسکتا ہے کروڑوں روپے کا سٹہ ایک ایک گیند پر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کو انتہائی معصومیت سے تفریح اور کھیل کے زمرے میں ڈال کر اس کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔
(ج) رشوت اور بد عنوانی۔ آج ہمارے معاشرہ میں رشوت کے بغیر کوئی کام ہوجانا انتہائی دشوار ہے۔ رشوت کے ذریعہ سے عوام کا مال ناجائز طریقہ سے ہتھیا لیا جاتا ہے۔ بے چارے مظلوم انسان کی مجبوری کو کیش کرایا جاتا ہے۔ جبکہ نبی کریم ۖنے رشوت لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے مگر ہم رسول اللہ کی لعنت سے بھی نہیں ڈرتے ۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ قرآن پاک کا حکم ہے کہ لوگوں کا مال ناحق مت کھائو اور اسی طرح قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ حکام کے ساتھ مل کر عوام کی دولت مت لوٹو۔ آپ کسی بھی سرکاری ، نیم سرکاری بلکہ اب تو غیر سرکاری دفتر میں بھی چلے جائیں تو آپ کو یہ دونوں برائیاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ملیں گی۔
ہمارے اسلاف کا طرز عمل
گزشتہ صفحات میں ہم نے جن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے اور انہیں سود اور حرام ہونے کے زمرے میں شامل کیا ہے وہ اس معاشرہ میں رواج پائی ہوئی حرام کاروبار میں سے صرف چند ایک ہیں۔ شیطان اور اس کے گرگے انسان کو اللہ کی راہ سے بھٹکانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔ یہ ساری مروجہ چیزیں بظاہر بہت معصوم اور بے ضرر نظر آتی ہیں مگر یہ انسان کی دبی ہوئی خواہشات کو بھڑکاتی ہیںاور ان کے حصول کے لیے جدوجہد اور حلال ذرایع کو استعمال کرنے کی بجائے آسان اور شارٹ کٹ راستہ پیش کرتی ہیں۔ اور ان ہی راستوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ یوں انسان نہ صرف یہ کہ اللہ کے احکامات کے خلاف چل پڑ تا ہے بلکہ سود در سود کے چکر میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑوانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔اور اس کی اس حرکت کا اثر اس کی آنے والی نسلوں پر بھی مختلف طریقوںسے اثر انداز ہوتا ہے اور دور تک چلا جاتا ہے۔اگر ہم اپنی خواہشات کو قابو کر لیں اور یہ تہیہ کر لیں کہ ہم اپنی چادر سے پائوں باہر نہیں نکالیں گے اور ہر قسم کے ادھار سے حتی الامکان پرہیز کریں گے تو بھی ہم غلط چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے رک جائیں گے اور شائد ارادہ پکا ہو تو سود کے ذرائع کی طرف بھی قدم نہ بڑھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا کہ
'' لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا جس میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو ، اور اگر کسی نے سود نہ کھایا ہو گا تو اس کا غبار اس تک ضرور پہنچے گا۔ '' (سنن ابو دائود اور ابن ماجہ)۔
حضور پاک نبی رحمت ۖکی یہ حدیث مبارک ہمارے آج کے دور پر صادق آتی ہے۔ انسان کو بھٹکانے کے لیے شیطان لعین نے جتنی چیزیں ایجاد کی ہیں ان میں سب سے بڑا شاہکار سود کا نظام ہے۔ سود کو ہر شریعت میں اللہ نے حرام قرار دیا۔ مگر آج کا انسان جس طرح اس حرام کاروبار میں ملوث ہے اس طرح پہلے کبھی نہ رہا ہوگا۔ اور اسی کی وجہ سے آج انسانیت جس طرح مغلوب ہے شاید ہی پہلے کبھی رہی ہو۔ اپنے گرد نظر ڈالیں تو ہر چیز میں سود دکھائی دیتا ہے۔ اسی الجھاوے کو دیکھ کر بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ سود سے پاک رہ کر زندگی گزارنا اور کاروبار کر نا ممکن ہی نہیں ہے۔ اوپر بیان کی ہوئی حدیث مبارک کو پیش نظر رکھیں تو شاید لوگوں کا یہ بیان درست نظر آئے کہ سود کا غبار تو ضرور پہنچے گا تو وہ توپہنچ رہا ہے۔ مگر حضرت غبار کہاں یہ تو مکمل آلودگی ہے۔یہ انسان کی کمزوری ہے کہ اس نے شیطان مردود کو اس قدر چھوٹ دے رکھی ہے اور اس کے چکروں میں اس طرح الجھ گیا ہے کہ سود کے ذریعہ سے شیطان کے گرگوں کی غلامی میں جکڑا گیا ہے۔ ساری دنیا کی معیشت مشرق سے مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک سود کے ذریعہ سے ان چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی ہے جو شیطان کے لیے کام کرتے ہیں اس کو پوجتے ہیں اور اس کے غلام ہیں۔ ان لوگوں نے ساری دنیا کی دولت اپنے قبضہ میں کر لی ہے اور ان کی آئندہ کی پلاننگ اور منصوبے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جو وقت آنے پر ظاہر ہونگی۔
اس حدیث مبارک کے صحیح ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نبی برحق انتہائی صادق ہیں اور آپ ۖ نے جو بھی فرمایا یقیناً ویسا ہی ہوگا۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ہر برائی کے خلاف آواز بلند کریں اور اس کو ختم کرنے کے لیے اقدام کریں ، اس کو روکنے کی کوشش کریں اور اس کو پھیلنے نہ دیں۔ ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہمارے اعمال کی درستگی درکار ہے نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اللہ کے نزدیک جزا اور انعام کا دارومدار نتیجہ پر نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ذرا غور کیجئے کہ ایک مجاہد جو اللہ کے نام کی بلندگی اور اعلائے کلمة حق کے لیے نکلتا ہے اور جہاد اور قتال کر تا ہے۔ وہ مجاہد مقابلہ میں اگر اپنے مد مقابل سے کمزور پڑتا ہے اور قتل ہوجاتا ہے تو مادی دنیا کی نظروں میں وہ ناکام ہو گیا اس لیے کہ اس کا دشمن اس پر غالب آگیا اور وہ کافر جس سے وہ لڑ رہا تھا وہ کامیاب ہوگیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ اللہ نتیجہ کو میعار بناتا تو اس مقتول کو شہید کا رتبہ دے کر اعلیٰ مرتبہ نہ دیتا۔بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک تو معاملہ نیت اور عمل کی درستگی کا ہوتا ہے۔ شہید اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے تکلیفیں جھیلتا ہے اور مار تا بھی ہے اور اپنی جان بھی لٹا دیتا ہے اپنا سر بھی کٹا دیتا ہے۔ اور یہی جذبہ اللہ تعالیٰ کو پسند آتا ہے اور وہ شہید اللہ کو محبوب ہوجاتا ہے۔
آج کے فتنوں کے اس دور میں ہمارے دائیں بائیں ، گھر کے اندر بھی اور باہر بھی ہر طرف فتنے اپنی انتہائی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ یہ فتنے جتنی شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا سدباب بھی اسی شدومد اور جذبہ کے تحت کیا جائے۔شیطان کی چالوں کو سمجھنا اور پھر ان سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا ہی ہماری زندگی کا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ اگر آج سود قدم قدم پر موجود ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر قدم دیکھ بھال کر اٹھائیں۔ اپنی پوری کوشش کریں کہ سود میں ملوث نہ ہوں ۔ ہر وہ چیز جس میں سود نظر آئے اس کو چھوڑ دیں خواہ اس میں کتنی ہی مشکل کیوں نہ درپیش ہو۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہیں گے تو اپنی مصلحتوں اور اپنے حکم سے برائی کو ختم کردیں گے۔ یا پھر اس کو اسی طرح قائم رکھیں گے۔ مگر ہماری تمام کوششیں اور ہماری تمام قربانیاں اور وہ تمام اقدام جو ہم نے اس برائی کے خلاف اٹھائے وہ ضائع نہیں ہونگی۔ اللہ اس کا حساب رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ یقیناً اس کا بہتریں صلہ عطا کریں گے اور ہماری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ یہی کوشش بنے گی۔ ا ن شا ء اللہ۔ یہ ہی ہماری اور آپ کی کامیابی ہے۔ یہی اس مضمون کا مقصد ہے اور اسی بات کی ضرورت ہے کہ امت محمدیہ علیٰ صاحب سلام و تسلیم کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیںاور ہر شخص اپنی انفرادی سطح پر سود کے خلاف اپنا پہلا قدم اٹھائے۔ان شا ء اللہ معاشرے سے یہ برائی ضرور ختم ہوجائے گی۔
اگر اس بات کا احساس ہو جائے کہ معاشرہ کے ہر فرد کو انفرادی کوشش کرنی چاہئے اور ہر فرد اپنی جگہ پر خواہ کتنی ہی چھوٹی چیز سے آغاز کردے ، برائی کے منہ پر تھپڑ تو ضرور لگا دیگا۔ ہم نے حلال اور حرام کے درمیان امتیاز کے لیے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے اسی لیے اس حال تک پہنچ گئے ہیں۔ ذرا غور کیجئے اس روایت پر
'' حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ
'' حضور نبی اکرم ۖ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ سود کے متعلق تھی اورحضور نے اس کی پوری تشریح بیان نہیں فرمائی تھی کہ آپ ۖ کا وصال ہوگیا۔ لہٰذا سود کو بھی چھوڑ دو اور ان چیزوں کو بھی چھوڑ دو جن میں سود کا شائبہ بھی ہو۔''
اسی طرح حضرت عمر کے احتیاط برتنے کا یہ واقعہ بھی احادیث میں مرقوم ہے
'' حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایااور کہا کہ ہم نے نوے فیصد حلال کو ربا کے خوف سے چھوڑ رکھا ہے۔''
ہمارے اسلاف میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر چیز میں اللہ کا حکم اور رسول اللہ کی سنت کو تلاش کرتے تھے اور جہاں ہلکا سا شبہ بھی ہوتا اچھی بھلی حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کرتے۔ یہی ان کی کامیابی کا راز تھا اور آج ہمیں بھی اسی چیز کو اپنانے کی ضرورت ہے۔مگر ہمارا رویہ ایسا ہے کہ ہم لوگ دنیاوی زندگی اس کی آسائشوں اور اس کے آرام کو مقدم رکھتے ہیں۔ اللہ کے احکامات ، حضور نبی اکرم ۖ کی سنت اور اپنے اسلاف اور بزرگوں کی روایات سب کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں نہ تو یہ علم ہے کہ غلط کیا ہے اور نہ کوئی ایک عام انسان کو یہ سمجھا رہا ہے کہ زندگی گذارنے کا طریقہ کیا ہے۔قرآن مبارک ہم پڑھتے نہیں ہیں ، جو پڑھتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں اور جو تھوڑا بہت کسی وجہ سے سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ سود گندگی ہے ، اللہ نے اس سے روکا ہے۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ سود کس چیز میں ہے۔ اور اگر پتہ بھی چل جائے تو اس کو چھوڑنے میں جو دشواری اور تکلیف ہے اس کو اٹھانے اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اللہ نے کتنی شدت سے مزمت کی ہے اور آخرت میں سود خوروں کا کیاا نجام ہوگا لوگ اس سے بالکل نابلد ہیں اور جو جانتے ہیں وہ انتہائی بے باکی سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت ڈرتے ہیں وہ اللہ کی رحمت کے اوپر اس قدر انحصار رکھتے ہیں کہ ان کو یقین ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ذرا یہ تو سوچئے کہ معاف کرنے کی بات ہوتی تو اللہ اور اس کا رسول اتنے سخت اور شدید الفاظ استعمال کرکے سود خوروں کی آخرت کا احوال کیوں بیان کر رہے ہوتے۔اللہ کے واسطے اپنے پر رحم کیجئے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کیجئے کہ یہی کامیابی ہے۔
جارى ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے