الواقعۃ شمارہ نمبر 4
ابو عمار محمد سلیم
قسط ٢ (آخری)
قسط ٢ (آخری)
سود کو کیسے چھوڑیں
گفتگو کو مزید طول دینے کی بجائے اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہم سود سے کس طرح نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کون سے اعمال اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے سے ہم سود جیسی گندگی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا جائزہ لیں مگر میں اس جائزے سے قبل یہ اعتراف کرنا چاہوںگا کہ میں اس مسئلہ پر نہ تو زیادہ علم رکھتا ہوں نہ کوئی اتھارٹی ہوں۔جو تھوڑا بہت میں نے اس سلسلہ میں پڑھا ہے اور جو کچھ میرا تجربہ ہے اس کی بنیاد پر میں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ یہ بالکل میری انفرادی رائے ہے اور اگر کسی قاری کو کوئی اختلاف ہو تو وہ اس علم کے ماہرین سے رابطہ کرلیں اور اپنی تسلی کرلیں۔
١۔ سود سے نجات حاصل کرنے کا مصمم ارادہ
کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اور اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کے لیے پکا ارادہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سود ایک گندگی ہے ، بیماری ہے اور گناہ کا کام ہے اور اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو آپ اس پر ڈٹ جائیں۔ اس سود نے ہماری انفرادی زندگی ، گھریلو ماحول ، ہمارے معاشرہ بلکہ کل نسل انسانی کو پریشانی ، بے چینی ، اقتصادی بد حالی ، مہنگائی اور بے راہ روی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یقین جانئے کہ اگر آپ ارادہ کر لیں گے اور اس پر ڈٹ جائیں گے تو آپ یقینی طور پر اپنی زندگی کو اس غلاظت سے پاک کر لیں گے۔ ہر نیک کام جو اللہ کے ڈر اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے ، اس رب العالمین کی رحمتوں کو آواز دیتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور کبھی مایوس نہیں کرتا۔ مگر یہ بھی جان لیجئے کہ جیسے ہی آپ سود کو اپنے مالی معاملات سے نکالنے کی کوشش کریں گے آپ بے انتہا مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ پریشانیاں بھی آپ کو گھیر لیں گی اور نقصانات کا بھی احتمال ہوگا۔ مگر اس راستے پر چلنے کے لیے آپ مُصر رہیں۔ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اپنے گزشتہ کیے اعمال پر نادم ہوں اور رب غفور الرحیم سے اس کی معافی مانگتے رہیں ، آئندہ کے لیے مدد کی بھیک مانگتے رہیں آپ ضرور بالضرور کامیاب ہونگے۔ تمام مخالفت کے باوجود قدم بڑھاتے رہئے اور فیصلہ رکھئے کہ دوبارہ اس گندگی میں کسی طور بھی ملوث نہیں ہونا ہے تو یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی مدد کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ آپ نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا ہوگا ایک صاحب جو بینک میں قریب ساٹھ ہزار ماہانہ پر ملازم تھے اپنی بیٹی کی تبلیغ اور اصرار سے متاثر ہوکر بینک کی نوکری چھوڑ دی اور کاندھے پر تولیہ کا گٹھا اٹھا کر سڑکوں پر بیچ کر دو سو روپیہ روزانہ کما کر بے انتہا خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس گندی آمدنی سے نجات مل گئی۔ بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ کیا ان کی اس حرکت سے معاشرہ سے سود ختم ہوگیا یا اس کے کاروبار میں کمی واقع ہوگئی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اسی طرح سود کو برا سمجھ کر اس سے باہر چلے گئے مگر سودی نظام بدستور موجود ہے اور بینک پھل پھول رہے ہیں۔ تو ان لوگوں نے کیا کمال کیا؟۔ مادی ترقی کے خواہاں لوگ جو دجال کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں ان کے لیے تو ایسے تمام لوگ احمق ہیں اور نا سمجھ ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ کامیاب اور با مراد ہیں جنہوں نے تکلیفیں اور مشکل برداشت کرکے اللہ کی رضا حاصل کر لی۔ ان کا انعام اللہ کے پاس ہے جو یہاں کی آسائشوں سے کہیں بڑھ کر ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔
٢۔ بینک پر انحصار کم سے کم کردیں
آج کے دور کی پوری معیشت اور کاروباری نظام بغیر بینک کی شمولیت کے نہیں چل سکتا۔ بینک کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپ کے اوپر سود کاوہ غبار چھا جاتا ہے جس کی خبر حضور نبی کریم صادق و امین نے دے رکھی ہے۔ مگر یہ ہماری مجبوری ہے۔ جب تک اسلامی نظام معیشت قائم نہیں ہوتا ہم شائد بینک کے بغیر تجارتی معاملات آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔ مگر ہم یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ بینک کی وہ تمام سہولتیں جن میں سود کی شمولیت ہو اس سے دور رہیں اور ان کے قریب بھی نہ جائیں۔ بینک اکائونٹ کھولیں تو سیونگ اکائونٹ وغیرہ قسم کی چیز کھولنے کی طرف نہ جائیں جو منافع کے نام پر آپ کوسود میں گھسیٹ لیں۔ کرنٹ اکائونٹ کھولیں اور بینک میں صرف اتنی رقم رکھیں جو آپ کے ماہانہ لین دین کے لیے ضروری ہو اس لیے کہ آپ کی موٹی رقم کو بینک دوسروں کو سود پر دے گا اور آپ کا پیسہ سودی کاروبار میں لگ جائے گا۔
بینک کے دیگر Products جو وہ صارفین کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیںان سے دور بھاگئے۔ آپ کو جو سہولت بینک سے حاصل کرنی ہے جیسے پیسوں کی ترسیل و رسید وغیرہ ان کے لیے بینک کے جوService Charges ہوتے ہیں وہ تو ادا کرنے ہی ہونگے ان کے علاوہ دوسرے تمام معاملات جن میں سود کا شائبہ بھی ہو اس سے بچیں۔ چیک کا لین دین ، ڈرافٹ وغیرہ کا بنوانا ، اکائونٹ میں پیسوں کا آنا ، بجلی ، گیس پانی اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی جو بینک کے ذریعہ سے ہی ہوتی ہے وہ کریںکیونکہ اس میں سود کی شمولیت نہیں ہے۔ اگر کسی معاملہ میں مجبور ہو جائیں تو بہ اکراہ اس کو کریں مگر اس کا کوئی دوسرا راستہ ضرور تلاش کریں تاکہ دوبارہ نہ کرنا پڑے۔ اگر کسی معاملہ میں شک ہو جائے تو بینک کے افسروں سے رابطہ کریں اور تفصیل معلوم کریں اور اپنی عقل اور سمجھ سے فیصلہ کریںکہ سود سے کیسے جان چھوٹے۔
٣۔ ذاتی لین دین میں سود سے اجتناب
ہماری زندگیوں میں بہت سے مقام ایسے آتے ہیں جہاں ہماری اپنی مالی استطاعت کسی کام کے پورا کرنے کے لیے کم پڑ جاتی ہے۔ ذاتی ضرورتوں یا پھرکاروباری معاملات میںیا پھر کسی خرید و فروخت کے سلسلے میں مزید رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ عموماً بینک اور سود خور دولت مند ہمیشہ آپ کی مدد کے لیے تیار ملیں گے۔ آپ کو ہزار کی ضرورت ہے تو وہ دس ہزار دیدیں گے۔مگر جب ہم نے سود سے بچنے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہم تو اس طرف جائیں گے ہی نہیں۔ اب راستہ یہ رہ گیا ہے کہ ہم عزیز و اقارب اور دوست احباب سے رابطہ کریں اور قرض حسنہ کے طور پر رقم لینے کی کوشش کریں۔ مگر آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ آپ وقت مقررہ پر رقم واپس ادا کر دیں۔ جب معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا تو یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایسے لوگ بھی پیدا ہوجائیں جو مل کر رقم کو Pool کرلیں اور ضرورت مند کی مدد کریں۔ یا پھر آپ خود اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوئی پس انداز کی ہوئی قیمتی چیز کو فروخت کردیںاور اگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو تو اپنی ضرورت کا از سر نو جائزہ لیںاور صرف اتنا کام کریں یا وہ چیز لیں جو آپ کی استطاعت کے اندر ہو۔یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوگا مگر یقین جانئے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے اور اس کو بہتر بنانے کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا یقیناً صاحب عقل و دانش کے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کی زندگی بھی آپ کی اپنی ہے اور آخرت میں جو ہوگا وہ بھی آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آپ سے کوئی مدد کا طالب ہو اور آپ کے پاس اللہ کی عطا سے گنجائش بھی ہو تو مصیبت زدہ کی مدد ضرور کریں۔ اسی سے معاشرہ میں بھلائی پرورش پائے گی اور وقت کے ساتھ اس کی اچھی اورفائدہ مند شکلیں پیدا ہو جائیں گی جو سود سے پاک بھی ہوں گی اور اللہ کی رضا کا باعث بھی۔ان شا ء اللہ۔
٤۔ کاروباری معاملات میں سود سے دوری
جس طرح اوپر ذاتی لین دین کی بات ہوئی اسی طرح کارو باری ضروریات کے لیے بھی موجود رقم سے زیادہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ادائیگی کے لیے یا پھر مزید مال کی خرید کے لیے ، بزنس کو مزید پھیلانے کے لیے، فیکٹری لگانے کے لیے یا اسی طرح کی دیگر کسی بھی ضرورت کے تحت رقم کی حاجت ہو سکتی ہے۔آج کے معاشرے میں رواج یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے کاروبار ی حضرات سے لے کر بڑے سے بڑے صنعت کار تک اپنی ذاتی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔رقم ادھار لے کر سود کے گناہ کا ارتکاب کرکے اپنے بزنس میں لگاتے ہیں اور اس کو محفوظ کرنے اور تقویت دینے کی خاطر انشورنس وغیرہ کے ذریعہ سے مزید سود میں الجھ جاتے ہیں۔تنظیم اسلامی کے بانی مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک بات مجھے بہت پسند آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ '' اگر کاروبار کر نا ہے تو جتنی رقم تمہارے پاس ہے اس سے کرو۔ اگر گاڑی کا شو روم کھول سکتے ہو تو ضرور کھولو ، اگر رقم کم ہے تو موٹر سائیکلوں کا بزنس کرو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو سائیکل کا کام شروع کردو ، سود میں کیوں جاتے ہو ۔'' ان کی یہ بات سن کر محفل میں موجود لوگ مسکرا دیا کرتے تھے مگر حق تو یہ ہے کہ مرحوم کی یہ بات بڑی گہری اور سوچنے والی ہے۔بہترین کاروبار تو وہی ہے جو صاف ستھرا اور سود سے پاک ہو۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے اور اپنی کاروباری عمارت کو گرنے نہیں دیں گے۔بلکہ اس کو سہارا دینے کے لیے اور مزید بڑھانے کے لیے سود پر سود لیں گے۔ مگر اپنی جیب کی استطاعت کے مطابق کاروبار نہیں کریں گے۔یقین جانئے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے قران نے کہا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگی ہے۔ نہ یہ سنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی عقل رکھتے ہیں۔ دنیا کی زندگی نے انہیں اندھا کر رکھا ہے۔یہاں کی عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کی خاطر انہوں نے آخرت کے عذاب کا سودا کر لیا ہے۔ کیسا برا سودا ہے اور کیسی بری تجارت ہے۔ اے کاش کہ وہ لوگ کچھ عقل کرتے۔
اور پھر یہ کہ کاروباری ضرورتوں کے لیے سود پر روپیہ کی فراہمی کے لیے لوگ ایسے کاروبار میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جو حرام مال پیدا کرتا ہے۔ آخر پاکستان میں شراب بن بھی رہی ہے ، بیچی بھی جارہی ہے ، اس کا کاروبار بھی ہورہا ہے اور یہ سب کام ہم پاکستانی مسلمان کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کام حرام ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔اور یہ کہ اس میں جتنے لوگ ملوث ہیں وہ سب حدیث نبوی ۖ کی رو سے جہنمی ہیں۔ اسی طرح شراب کے علاوہ بھی اور بہت سے کاروبار ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے حرام آمدنی کے ذرائع ہیں۔ ہم نے جب سود کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر پھر اب ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم کس کاروبار میں اپنا روپیہ لگا رہے ہیں۔ ایسا کاروبار کریں گے جو حلال روزی دے اور ہم اللہ کے غیض و غضب سے بچ جائیں۔ ان شاء اللہ۔
٥۔ کریڈٹ کارڈ کا خاتمہ
جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا ہے کہ کریڈ ٹ کا رڈ شیطان کا سب سے شاہکار ہتھیار ہے اور اب تو معاملہ کریڈٹ کارڈ سے بھی آگے بڑھ کر کہیں اور جا پہنچا ہے۔ ْکریڈٹ کارڈ کے اوپر کافی بحث ہو چکی ہے اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ وہ لوگ جو کریڈٹ کارڈ پر جی رہے ہیں اور اپنی ماہانہ آمدنی سے کچھ رقم دے کر سمجھ رہے ہیں کہ کام چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ یقین جانئے کہ وہ لوگ بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ بینک کی جو رقم کی آپ کی طرف بڑھتی جارہی ہے وہ آپ کی گردن کے گرد لپٹی ہوئی رسی کا گھیرا تنگ سے تنگ کرتی چلی جارہی ہے۔ آپ نے ہندو بنئے کا ذکر تو سنا ہی ہوگا اور فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ وہ بیاج پر دی ہوئی اپنی رقم کی وصولی کے لیے کیسے سفاک ہاتھ استعمال کرتا ہے۔ زمین جائداد سب ہتھیا لیتا ہے۔ یقین کیجئے کہ آج کے بینک کے پاس اس بنئے سے زیادہ طاقت ہے اور وہ اپنے نادہندگان کے ساتھ اس بنئے سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اٹھاتا ہے۔ خدا کے لیے باز آجایئے۔ اپنی ضرورتوں کو کنٹرول کریں اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ مت کریں۔دقت تو ہوگی مشکل بھی پیش آئے گی مگر وقت گذرنے کے ساتھ آپ کے اندر قناعت پیدا ہوگی اور آپ اپنی چادر تک محدود رہیں گے اور خوش رہیں گے۔ آج ہی پہلا قدم اٹھائے اور اپنا کریڈٹ کارڈ ختم کردیجئے اور اس غلامی سے نجات حاصل کر لیجئے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
٦۔ سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ سے دوری
آپ نے اپنی حلال آمدنی سے کمائے ہوئے مال سے اپنے مستقبل کی ضرورتوں کے لیے سیونگ سرٹیفیکیٹ خرید کر اپنے لیے ایک مستقل اور مسلسل آمدنی کا ذریعہ تو بنا لیا ہے مگر جان لیجئے کہ یہ سود ہے۔حلال آمدنی کی موٹی رقم کو سود کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں تبدیل کرکے حلال کو حرام کر لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ان سرٹیفیکیٹ کا اجرا کرنے والے شائد آپ کے سامنے سیکڑوں ضمیر فروش عالموں کے بیان اور فتووں کا ڈھیر لگا دیں کہ یہ معاملہ حرام نہیں ہے ۔ مگر اللہ نے آپ کو بھی عقل اور سمجھ دی ہے۔ ہماری اور آپ کی غلطی یہ کہ ہم نے قران مجید کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔کسی مولوی نے نہیں بتایا تو ہم نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سود کی سب سے بنیادی اور خراب صورت جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہی ہے کہ روپیہ بغیر کسی محنت کے وقت گذرنے کے ساتھ اپنی قیمت خود بڑھا لے۔ یہ سب سے گھنائونا سود ہے اور اپنے ساتھ معاشرے کی تمام برائیوں کی حشر سامانیاں لیے ہوئے ہے۔ آپ نے جو سرٹیفیکیٹ خریدا ہے اس کا اصل زر جو آپ نے لگایا ہے وہ محفوظ ہے اور ویسے کا ویسا ہے۔ مگر یہ جو ہر ماہ آپ کو منافع کے نام پر مل رہا ہے یہ کیا ہے؟ ۔ کیا آپ کے پیسے نے خود ایک مقررہ مدت میں اپنی قیمت خود سے بڑھا نہیں لی؟ جناب یہی تو سود ہے۔ نہ کسی نے تجارت کی نہ کوئی نفع ہوا نہ نقصان نہ کوئی محنت لگی نہ پسینہ بہا۔ سود پر رقم دی گئی سود وصول کیا گیا اور اسی سے ایک معمولی رقم آپ کو ادا کر دی گئی اور آپ کا منہ بند کر دیا گیا۔ حلال دے کر آپ نے حرام سے پیٹ بھر لیا۔ اے اللہ ہمیں معاف کردیجئے ، ہم واقعی چیزوں کو بغیر سوچے سمجھے کیے چلے جارہے ہیں۔ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیجئے ہماری غلطیاں معاف کر دیجئے۔ آمین۔
٧۔ قسطوں پر اشیاء کی خریداری ترک کردیں
جیسا کہ ہم پیچھے یہ بحث کر چکے ہیں کہ قسطوں کی خریداری میں بھی سود کا عمل دخل ہے اور علماء کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ ایک سہولت نظر آتی ہے کہ کسی کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خرید سکے تو قسطوں پر جا کر خریدنے کی سہولت تو ایک بہت بڑی سہولت ہوئی۔یہ سوچ ہی غلط ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کاروبار جس بڑے پیمانے پر آج ہورہا ہے ایسا آج سے کچھ عرصہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ہمارے بزرگوں کے دور میں جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اس کے لیے جتن کرکے پائی پائی جمع کی جاتی تھی اور پھر جب وہ چیز خریدی جاتی تھی تو نظروں میں اس کی قیمت بھی بہت بڑھ جاتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جتنی تیزی سے قیمتیں چڑھتی ہیں کہ پیسے جوڑتے جوڑتے وہ قیمت دوبارہ پہنچ سے دور ہوجاتی ہے۔ یہی تو شیطانی چکر ہے اور آپ کو پھنسانے اور غلام بنا نے کا ایک ذریعہ ہے۔ اشتہارات کے ذریعہ سے ہماری خواہشات کواتنا بھڑکا دیا جاتا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کی ہمیں فوری ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ بھی فوری بن جاتی ہے اور ہم اس کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہو جاتے ہیں اور پھر قسطوں پر جب مل رہی ہو اور پیسے بھی زیادہ جمع نہ کرنے پڑتے ہوں تو پھر دیر کاہے کی ہے ہم انتہائی تیزی سے سود کے بل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کو قابو میں کرتے ، قناعت اور توکل اختیار کرتے ہم ایک آسان راستہ دیکھ کر اس کو پکڑ لیتے ہیں اور دین ودنیا دونوں میں اللہ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اگر ہم ذرا تحمل سے کام لیںاور اپنی خواہشات کو لگام دے لیںتو اللہ شائد ہمارے لیے بہتری کا کوئی راستہ نکال دیں۔ وہ تو ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں مشکل میں اگر ڈالتے ہیں تو بھی ہماری ہی بھلائی کے لیے کہ اس کے ذریعہ سے آخرت کی سربلندی حاصل ہو جائے۔ اے کاش کہ ہم عقل سے کام لیں۔
٨۔ لاٹری اور قرعہ اندازی وغیرہ کو رد کر دیجئے
ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں ہماری اپنی حکومتیں ہماری دشمن بنی ہوئی ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک کی حکومتیں اپنے عوام سے پیسہ بٹورنے کی خاطر حکومتی سطح پر اور بعض اوقات پرائیویٹ سطح پر بھی لاٹری وغیرہ جیسی کسی اسکیم کا اجرا کرتی ہیں۔ انسان کی نفسانی خواہشات کو چھیڑا جاتا ہے اور اس کی لالچ کو ابھارا جاتا ہے اور بڑے بڑے انعامات اور کیش پرائز کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ عوام آسانی سے دولت حاصل کرنے کی لالچ میں اس جھانسے میں آجاتے ہیں اور دھڑا دھڑ اس اسکیم میں اپنا پیسہ لگا دیتے ہیں۔ حکومت بھی ایک دو لوگوں کو بڑی بڑی رقم انعام میں دے دیتی ہے اور پھر اس کی خوب تشہیر ہوتی ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی پر ان کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آج اس کو ملا ہے کل مجھے ملے گا۔ یہی لالچ اس کو پھنسا تی چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن یا تو اسکیم ختم ہوجاتی ہے اور اگر پرائیویٹ معاملہ ہو تو کمپنی غائب ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو اپنے یہاں کا تاج کمپنی کا واقعہ یاد ہی ہوگا۔ یاد رکھئے یہ سب دھوکے کا کاروبار ہے اور دھوکہ سے حاصل کیا ہوا مال حرام ہے۔ قرعہ اندازی بھی ناجائز ہے اور یہ سب حضور مقبول رسالت مآب ۖ کے فرمان کے مطابق غرر میں آتا ہے جو حرام ہے۔ ایسی تمام چیزوں سے بچیں۔ آج کپڑے دھونے کے پائوڈر ، ڈبل روٹی ، موبائل کارڈ اور پتہ نہیں کتنی الم غلم چیزوں پر یہ اسکیم جاری کی گئی ہے۔ ان کا مال خریدیں، اس کے ڈبہ سمیت اپنے شناختی کارڈ کی کاپی لگائیں اور بذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ قرعہ اندازی میں آپ کو انعام مل جائے گا۔ شائد ہی کبھی کسی خوش قسمت کا نام اخباروں میں آیا ہو۔ کوئی ان سے پوچھے ، کوئی ان کا آڈٹ کرے کہ اس کے ذریعہ سے کتنا مال کمایا اور کتنا بانٹا۔ مگر دھوکہ دہی کے کاروبار میں تو سب کچھ جائز ہے۔ کتنے ہی معصوم لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے پڑ جاتے ہیں اور ان تمام چوروں کو حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ نہ حکومت کی سطح پر رکاوٹ ہے اور نہ ہی ہمارے علماء کو آج تک یہ پتہ چل سکا ہے کہ یہ حرام کاروبار ہورہا ہے ۔ اگر اس کو روک نہیں سکتے تو عوام کو کم از کم اس کے حرام ہونے کا شعور ہی دے دیں۔
٩۔ پرائیویٹ فنانس کمپنیاں اورPyramid اسکیمیں
دھوکہ دہی کے کاروبار کی یہ جدید ترین شکل ہے۔پہلے ایک فنانس کمپنی کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ کمپنی اپنے کھاتے داروں کو بینکوں کے عام شرح سود سے زیادہ منافع دیتی ہے اور اس کی خوب خوب تشہیر ہوتی ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ تو جادو کا کام کرتا ہے۔ لوگ جو نابلد ہیں ، کم علم ہیں یا لالچی ہیں ،جوق در جوق اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حلال کی کمائی کے بنڈل لے کر آتے ہیں۔ اسی میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی کہتی ہے کہ اگر آپ اپنا اکائونٹ کھول کر کسی اور کو بھی اس اسکیم میں شامل کروادیں تو آپ کو ہر فرد کے بدلے فلاں انعام ملے گا یا کوئی اور سہولت مل جائے گی۔ لالچ کو مزیدبڑھا یا اور تیز کردیا گیا۔نتیجہ کے طور پر بہت لوگ اس میں شامل بھی ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی شامل کرا دیتے ہیں۔کمپنی دھڑا دھڑ پیسے بٹورتی ہے۔ کچھ لوگوں کو منافع بھی دیا جاتا ہے یا پھر زور وشور سے کسی فلاحی کام کو شروع کر کے اس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔اس طرح اپنی ساکھ بڑھائی جاتی ہے جو مزید لوگوں کو کھینچنے کا باعث ہو تی ہے اور پھر ایک دن یا تو یہ کمپنی چپکے سے غائب ہو جاتی ہے اور حکومت کی ساری مشینری اس کا پتہ معلوم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا پھر یہ کمپنی عدالت میں اپنے دیوالیہ ہو جانے کی درخواست دے دیتی ہے۔ دونوں صورتوں میں بیچاری عوام کا ہارٹ فیل ہوتا ہے۔ اپنی لالچ اور اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں کرنا سیکھ لیاجائے تو بہت سے نقصانات سے بچت ہو سکتی ہے۔
کچھ اہم سوالات
اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ سوالات بھی پیدا ہوئے ہونگے اور کچھ خدشات نے بھی جنم لیا ہوگا۔ یہ ایک انتہائی لازمی جزو ہے۔جب معاشرہ کے ایک بین اصول اور عام فہم روش سے ہٹ کر کوئی کام کیا جائے گا تو اس سے بہت سارے جاری معمولات میں خلل پڑنے اور اس میں بگاڑ کی کیفیت پیدا ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ ہماری معیشت جن اصولوں پر بنیاد کرتی ہے اور جن قواعد اور ضوابط کی پابند ہے اس میں اگر کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے تو یقیناً امکان اس بات کا ہے کہ ساری کی ساری معیشت دھڑام سے زمین بوس ہوجائے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر رہے مگر اس خوف کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات سے روگر دانی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہونگے۔ آئیں کچھ ایسے سوالات جن کا میرے ذہن نے احاطہ کیا ہے ان کو باری باری دیکھ لیتے ہیںاور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی آپ کے ذہن میں اور سوالات بھی پیدا ہونگے جن کا جواب آپ ایسا تلاش کریں جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے اصولوں سے میل کھاتے ہوں۔قران اور احادیث تک آپ کی رسائی نہ ہو تو ہر معاملہ کو اختیار کرنے سے قبل علماء سے اور ان معاملات کے ماہرین سے ضرور مشورہ کرلیں اس لیے کہ آپ خود اپنے معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ اپنے کیے کا جواب آپ کو ہی دینا ہے۔
سوال نمبر:١
اگر ہم بینک میں صرف ضرورت بھر روپیہ رکھیں اور وہ بھی بغیر منافع والی اسکیم میں تو ہم اپنی اس موٹی رقم کو جو زائد از ضرورت ہو اور کسی مشکل گھڑی کے لیے رکھ چھوڑی ہے اس کا کیا کریں ؟ کیا وہ ساری رقم اٹھا کر گھر میں رکھ لیں؟اسی طرح سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ میں جو رقم محفوظ ہے ان کا کیا کریں؟
جواب
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ کاروباری لوگ موٹی رقم رکھتے ہی نہیں تاہم اگر ہو بھی تو واپس اسی کاروبار میں لگایا جاسکتا ہے اور بینک کے ادھار سے بچا جاسکتا ہے۔ مگرجو لوگ کاروباری نہیں وہ کیا کریں؟ اس کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ ایسے حضرات اپنی رقم کو کسی قابل اعتماد شخص کے جائز کاروبار میں لگائیں اور نفع و نقصان دونوں کے لیے تیار رہیں۔ یا نہیں تو پھر کوئی زمین، مکان، فلیٹ یا دوکان وغیرہ خرید لیں اور اپنی رقم محفوظ کر لیں اور اگر یہ دونوں چزیں ممکن نہ ہو ںتو پھر اپنے لیے خود کسی کاروبار کی داغ بیل ڈالیں جو آپ اپنے فارغ وقت میں کر سکتے ہوں۔اور میرا ایک جواب ایسا ہے جو بہت سے لوگوں کو ناگوار ہوگا اور وہ یہ ہے کہ '' اپنی رقم کو آخرت کے کاروبار میں لگادیںجہاں کا نفع کئی گنا ہے اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔'' اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کا بھی یہ فرمان ہے کہ
''لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟۔ کہدو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہے سب خرچ کردو۔'' (سورة البقرہ۔ آ یت۔٢١٩۔)
سوال نمبر:٢
اگر سود کے بغیر کاروبار نہیں ہوسکتا تو کیا ایسے تمام کاروبار بند کر دئے جائیں؟
جواب
اللہ اور اس کے رسول ۖ کے اوپر بھروسہ کرکے اور ان کی رضا کے لیے ایسا ہی کیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ تاہم اس کاروبار کا جائزہ لے کر اس کو حلال آمدنی کی حدود میں کرنا فی الوقت ممکن نہ ہو تو اپنے معاملات کوکم سے کم سودی الجھاوے میں ڈالیں اور جیسے ہی موقعہ ملے سود سے پاک ہو جائیں۔
سوال نمبر :٣
حکومت اگر بغیر سود کے کسی نظام کو رائج کرنے میں نا کام رہتی ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب
حکومت کی ناکامی ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کا سرٹیفیکٹ نہیں عطا کردیتی ہے۔ سود سے بچنا ہمارا اپنا عمل ہے اور ہم یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں تنگی و ترشی کے خوف سے بالا تر ہو کر۔ اللہ نے اپنا راستہ بتایاہوا ہے۔ اپنی آخرت کو بنانا یا بگاڑنا ہمارا اپنا کام ہے۔ تاہم اللہ اگر حکومت مملکت کو یہ سعادت عطاکرے کہ وہ اسلامی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرے تو ہر ایک کا یہ فرض بنتا ہے کہ حکومت کی بھر پور مدد کی جائے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔ ان شا ء اللہ۔
سوال نمبر :٤
آج سود کے نظام پر پوری معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ اس کے خاتمے سے تو معاشرے میں بڑی خرابی پیدا ہوگی؟
جواب
یقینا ایسا ہی ہوگا۔ اس کے سدھار کی تمام ذمہ داری حکومت مملکت کے ساتھ ساتھ علما ء وقت اور معیشت کے ماہرین کی ہے۔ کوئی سبیل ایسی نکالی جائے یا پھر ایسے اقدام اٹھائے جائیں جو تمام معاشی عمارت کو بھی نہ گرنے دے اور دھیرے دھیرے پورے نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کر لیا جائے۔ اس میں وقت بھی لگے گا اور محنت بھی۔ مگر آخرت کی بہتری اور بھلائی کے لیے یہ قدم فوری نہ اٹھایاگیا تو یقینا حکومت وقت، ماہرین اور علماء کے ساتھ ساتھ ہم اور آپ بھی جواب دہ ہونگے۔
سوال نمبر:٥
جن لوگوں نے بینک سے یا ہائوس بلڈنگ یا ایسی ہی کسی اسکیم سے قرض لے کر گھر بنا یا ہوا ہے وہ کیا کریں؟
جواب
یہ معاملہ ہے تو بہت گمبھیر مگر آخرت کی بھلائی کے سامنے تو تمام مشکلیں ہیچ ہیں۔ اس کا عام فہم جواب تو یہ ہی ہے کہ مکان اگر قرض سے پاک ہو چکا ہے تو اس کو اپنے پاس رکھا جائے یا پھر جو علماء اس سلسلے میں رائے دیں اس کو اپنایا جائے اور اگر مکان کے اوپر ابھی بھی قرض ہے تو سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مکان کو بیچ کر قرض کی رقم اتار دی جائے اور بقیہ جو رقم بچ جائے اس سے کوئی جھونپڑا بھی مل جائے تو لے لیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے کہ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔
سوال نمبر:٦
جن لوگوں نے کار اجارہ وغیرہ قسم کی اسکیموں سے گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں وہ لوگ ایسی گاڑیوں کا کیا کریں یا پھر اپنی بقیہ ماندہ ادائیگی کے لیے کیا کریں؟
جواب
اس کا جواب بھی گزشتہ سوال جیسا ہی ہے۔
سوال نمبر:٧
دیکھا گیا ہے کہ بعض بیوائیں اور کم آمدنی والے لوگوں کو جب بیوہ ہوجانے پر مدد ملی یا ریٹائرمنٹ پرپراویڈنٹ فنڈ وغیرہ سے رقم ملی تو اس کو انہوں نے کسی اسکیم میں پس انداز کر دیا اور آج اسی کے اوپر حاصل ہونے والی آمدنی پر زندہ ہیں۔ یہ رقم نہ تو اتنی بڑی ہے کہ اس سے کوئی کاروبار ہوسکے اور نہ یہ غریب لوگ اس کو ضائع کر سکتے ہیں کہ اسی پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ اب یا تو یہ لوگ اس رقم سے ملنے والی حرام آمدنی کو چھوڑ دیں اور بھوکوں مر جائیں یا پھر قران مجید کی اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے رہیں جس کی رو سے حرام چیزوں کا استعمال جائز ہوجاتا ہے۔
جواب
بے شک قران مجیدنے ہمیں بوقت ضرورت اپنی زندگی بچانے کے لیے اور اسے جاری و ساری رکھنے کے لیے کوئی اور راستہ موجود نہ ہو تو حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ اجازت صرف بہ اکراہ ہے نہ کہ رضا اور رغبت کے ساتھ ہے اور صرف اتنی ہی دیر کے لیے روا ہے جب تک کہ زندگی کو خطرہ ہو اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ قرآن نے یہ رعایت دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ
''........اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو طالب لذت ہو اور نہ حد سے نکل جائے۔'' (سورةالبقرة:١٧٣، سورة مائدہ: ٤، سورةالانعام: ١٤٥)۔
اس خصوصی صورت حال کے لیے میرا جواب یہی ہے کہ بے شک اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اس وقت تک اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں جب تک کہ کوئی دوسرا جائزراستہ نہیں کھل جاتا۔ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیے رزق تلاش کرے۔ ایسے لوگ جن کا گذر ایسی آمدنی پر ہے انہیں اپنے لیے کوئی کام تلاش کرنا چاہئے جو انہیں اس حرام سے نجات دے۔ وہ لوگ جو مجبور اور معذور ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے ان کی ذمہ داری معاشرے کے سر بر آوردہ اور صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ دنیا ہمارے لیے عمل کی جگہ ہے اور ہمارا عمل اللہ کے احکامات اور اس کے رسول ۖ کی سنت کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہم آخرت میں سرخرو ہوں۔ اللہ نے اگر ہمیںرزق میں کشادگی عطا کی ہے تو یاد رہے کہ اللہ نے ہمارے اوپر معاشرے کے کم آمدنی والے اور لاچار لوگوں کا ذمہ بھی رکھا ہے اور ہماری آمدن میں ان کا بھی حصہ رکھا ہوا ہے جو ہم زکو ٰ ة ، صدقات اور دیگر خیراتی کاموں کے ذریعہ سے ان کو ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی خبر گیری نہیں کریں گے تو آخرت میں اللہ کو جواب دہ ہوں گے۔ اسی لیے تو ہمیں اپنے غریب رشتہ داروں اور کم آمدنی والے محلہ داروں کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں اللہ کے سامنے جواب دینے کا خوف دامن گیر ہے تو ہم ضرور ان کا خیال رکھیں گے وگرنہ کیا پتہ کہ سود کے اوپر زندگی کوئی غریب اور لاچار گزارے اور اس کی گرفت میں آجائیں ہم اور آپ۔
اختتامیہ
میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میرا یہ مضمون پڑھا اور اس آخری حصہ تک پہنچ گئے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ میرے اپنے خیالات ہیں اس لیے آپ کا اس سے متفق ہونا بالکل ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ بات تو بہر صورت درست ، صحیح اور حق ہے کہ سود یقینا ایک گندگی ہے اور اس حد تک پھیل گئی ہے کہ پوری نوع انسانی اس کے جال میں بری طرح الجھ کر رہ گئی ہے۔ مغرب کے معاشی ماہرین بھی آج کل سود کے مضمرات پر بڑی شد ومد سے سوچ بچار کر رہے ہیںاور ان کے خیال میں موجودہ گرانی اور معاشی بد حالی کے علاوہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بد عنوانی اور لوٹ مار سب کے پیچھے اسی خباثت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اسلام کے پندرہ سو سال پرانے سود کو چھوڑ دئیے جانے کے احکامات پر آج کے معاشی ماہرین کی نظر ہے اور وہ اس پر بحث و تمحیث میں لگے ہیں کہ اس کو کیسے اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ تقریباً ہر وہ اچھی چیز جو ہمیں ہمارے مذہب نے عطا کی ہے اس پر مغرب تحقیق کرکے اس کی اچھائیوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہم جو اس کے وارث تھے مغرب کی ان ہی اپنائی ہوئی چیزوں کو اپنے یہاں رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل مآخذ تک جاکر اپنا راستہ خود نہیں ڈھونڈھتے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اصلاح خود کریں۔ ہمارے علماء مل کر بیٹھیں اور اپنے ساتھ معاشی اور اقتصادی ماہرین کو ملائیں اور دیکھیں کہ موجودہ سودی نظام سے چھٹکارے کی کیا صورت ہے۔ معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے سود کی غلامی سے بہتر کوئی اور صورت کیا ہو سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں مال وزر کی ضرورتوں سے کیسے عمدہ طریقہ سے عہدہ بر آ ہوا جا سکتا ہے تاکہ اللہ کی ناراضگی مول لیے بغیر دنیا کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ شیطان ہر دور میں ایک نئی چال اور ایک نئے جال کے ساتھ ہمارا شکار کرنے چلا آتا ہے۔ امت کے علماء کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس مردود کی چالوں کو سمجھیں ، معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اب بھی وقت نہیں گیا ہے ، بہتر مستقبل کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کی مدد یقینا شامل حال ہوگی ۔ ان شاء اللہ۔
مگر ہماری اور آپ کی فوری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ سود ی معاملات اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اللہ باری تعا لیٰ نے اس سے دور رہنے کی بہت واضح ہدایت دے رکھی ہے۔ اللہ کے احکامات سے رو گردانی نہ ہماری دنیا کی بھلائی کی ضامن ہے اور نہ ہی آخرت کی۔ بہت سے لوگ سودی معاملات کو زیادہ Serious نہیں لیتے۔ ان کے نزدیک یہ مولویوں کی بڑسے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یا پھر اللہ کی رحمتوں اور اس کے غفور و رحیم ہونے کی صفت لامتناہی پر یقین رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک معاف فرمادیں گے۔ اس میں کیا شک ہے کہ زمین و آسمان بھی اگر گناہوں سے بھرجائیں پھر بھی اس کی رحمت اور مغفرت سب پر حاوی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ مگر ہم اُس کی اُس صفت کو کیوں بھول جاتے ہیں جو اُس کے غیض و غضب ، اُس کی گرفت اور اُس کی پکڑ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اُس کے غضب سے بچ کر اُس کی رحمتوں کی آس رکھنی چاہئے۔ یہ کیا کہ ایک طرف مکمل نافرمانی ہو اور دوسری طرف اُس سے بخشش کی بھی امید ہو۔ اللہ کے واسطے اپنی اصلاح کیجئے۔ اللہ سے ڈریے اس لیے کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور آخرت کا عذاب بہت شدید۔ اللہ ہمارا بھی اور آپ کا بھی حامی و ناصر ہو۔ برائے مہربانی اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں پھیلائیں کہ شائد کسی کی اصلاح آپ کے لیے بھی بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے