اتوار، 12 مئی، 2013

کس قیامت کے یہ نامے

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

کس قیامت کے یہ نامے

از قلم: محمد جاوید اقبال

داغ کوشکوہ تھا:
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں
ہم جو مغرب سے بحث و مباحثے میں محو ہیں کچھ اسی قسم کا شکوہ رکھتے ہیں ۔ مثلاً  Adult Christian Debate   فورم  پر ایک امریکی نے لکھا:
"مسلمانوں کو کہیں چین نہیں ہے۔ اپنے ملکوں میں وہ بے روزگاری ، غربت اور وسائل کی کمی کا گلہ کرتے ہیں ۔ خون خرابہ وہاں کامعمول ہے۔ ایک انتہا پسند گروہ دوسرے انتہا پسند گروہ کو قتل کررہاہے۔ جبکہ مغرب میں انہیں روزگار میسر ہے اور جان کا خطرہ بھی نہیں۔ مگروہ وہاں بھی مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کا سسٹم صحیح نہیں ہے۔ اور اُسے تبدیل کرکے ان کا نظام لانا چاہیئے۔”

یہ اور اس قسم کا پروپیگنڈہ مغرب میں عام ہے۔ خود  وہ اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کرتے ہیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے خاکے بنانے کی جسارت کرتے ہیں۔ مسلمانوں پر صلیبی حملے کی نیت سے ہرمجدون کاحوالہ دیتے ہیں۔ لیکن امت مسلمہ جو ایک دو نہیں 57 مسلم ممالک اور 1:56 ارب انسانوں پر مشتمل ہے ان کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ جب فیس بک نے ڈرا محمدکارٹون کی دعوت دی تو باحمیت مسلمانوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔لیکن محض ایک آدھ برس کے لیے اس کے بعدکوئی متبادل نہ ہونے کے سبب مجبوراً اسی سے رجوع کرنا پڑا۔ پھر گذشتہ سال گوگل نے پیمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے خلاف ایک فلم کا ٹریلر یوٹیوب پر ریلیز کیا ۔ مسلمانوں نے پھر اس کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد پھر اُسی کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے بیسویں صدی میں رہتے ہوئے سچائی اور حقانیت کی پاسبانی کے لیے اپنا متبادل میڈیا تشکیل نہیںدیا۔ اگر ہمارا اپنا میڈیا ہوتا تو ہم نہ صرف اپنا مبنی برحق موقف اہل عالم تک پہنچاسکتے بلکہ مسلم نوجوانوں کی درست رہنمائی کرنے کے بھی اہل ہو جاتے۔ اس وقت توبقول شخصے صورتِ حال یہ ہے:
وہی ذبح کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
امریکہ اور اس کے ناٹو معاونین کا محاذ 14 مسلم ممالک پر حملہ اور ہوچکا ہے۔ تیس لاکھ سے زیادہ انسان ان حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہود ونصاریٰ کایہ متحدہ محاذ مسلمانوں کے فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑاتا رہا ہے اور پھر پروپیگنڈہ بھی کرتا ہے کہ مسلمان تو اتنے جنگ جو ہیں کہ آپس ہی میں خون خرابے سے گریز نہیں کرتے۔ امریکہ نے ایرانی شیعوں کو عراق پر حملے کے دوران استعمال کیا اور ایک متحد ملک کو کرد، سنی اور شیعہ طبقوں میں تقسیم کرکے انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ امریکہ مسلمانوں میں منافرت پیداکرکے اِسے اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کرتا ہے اورپھر یہ پروپیگنڈہ بھی کرتا ہے کہ مسلمان آپس میں خوں ریزی کرتے ہیں۔ کیا اسلام کے اس منفی امیج کا ازالہ کرنا ہمارا فریضہ نہیں؟ پھر کسی مسلم ملک کواسلامی نکتہ نظر اُجاگر کرنے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ ایک عالمی اسلامی میڈیا جو کم ازکم 15 اخباروں اور 30 چینلوں پر مشتمل ہو فوراً لانچ کیا جانا چاہیے تاکہ کم ازکم سچائی توعوام تک پہنچے ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( و ما علینا الا البلاغ المبین )
 یعنی ہماری ذمہ داری پیغام کو پہنچادینا ہے اور بس۔  پھر ہم بحیثیت امت اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا موقف مبنی برحق ہے۔ ہمارا نظریہ منطق اورشعور کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔پھرہمیں اس کے دفاع میں تامل کیوں ہے؟ ہمارے دشمن محض لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ مثلاً وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعداد پراعتراض کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ توریت کے مطابق  حضرات داؤد کی سو بیویاں تھیں ۔ اور ان کے صاحبزادے سلیمان علیہ السلام کی چھے سو بیویاں تھیں۔ اسی طرح وہ مسلمان خواتین کے پردے پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ سوسال پہلے تک یورپ کی تمام شریف اور خاندانی عورتیں چہرے پر نقاب لیتی تھیں۔ جہاں تک خواتین کے حقوق کا تعلق ہے اسلام عورتوں کو زیادہ عزت اور تحفظ فراہم کرتاہے۔ ماں کے حقوق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں۔ ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہیں جاتے ہوئے اپنے والد یا اپنے بھائی یا اپنے شوہر کو ہمراہ لے جائے تاکہ اسے اپنی حفاظت کی فکر نہ ہو۔ اُسے بچوں کو سنبھالنے کی خصوصی ذمہ داری بخشی گئی ہے۔ مغرب کی طرح بچے Day care centers میں بے مہر اجنبیوں کے رحم وکرم پر نہیں رہتے۔عورتوں پر تشدد مغرب میں کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ وہاں دونوں اپنا کیریر بنارہے ہوتے ہیں۔اور ان کے پاس فیملی کے لیے وقت نہیںہوتا۔دونوں ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں اور جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ پھر بچے بھی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور انتہائی شرمناک جرم چائلڈ  abuse عام ہے۔ مثالی نظام وہ نہیں ہے جس میںحکومتی ایجنسیاں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہوں۔وہ ایک فوسٹر پیرنٹ سے لے کر بچہ دوسرے فوسٹر پیرنٹ کو سونپتے رہتے ہیں اور بچہ پہلے سے بڑھ کر ظلم کا شکار ہوتاہے۔کیا اس سے یہ بہترنہیں کہ وہ اپنی حقیقی والدہ کی محبت بھری نگرانی میں پلے بڑھیں؟
اس کے باوجود بھی جرم و سفاکی کے نامے ہمارے ہی نام آتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے