اتوار، 20 اکتوبر، 2013

تمدن اسلام۔ مصنفہ جرجی زیدان کی پردہ دری۔1

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

تمدن اسلام
مصنفہ جرجی زیدان کی پردہ دری
قسط 1

علامہ شبلی نعمانی کے قلم کا شاہکار

مستشرقین کی جانب سے اسلامی عقائد ، ثقافت ، تہذیب و تمدن اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ذات گرامی پر مختلف انداز سے طنز و تشنیع کا سلسلہ گزشتہ کئی صدیوں سے جاری ہے ۔ تاہم ہمارے یہاں کے عام اور نسبتاً سطحی درجے کے اہل علم مغرب اور مغربی مفکرین سے مرعوبیت کی حد تک متاثر ہیں اس لیے بسا اوقات مستشرقین کے اندازِ فریب کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ جرجی زیدان ( ١٨٦١ء - ١٩١٤ء ) کی مشہور کتاب “تمدن اسلام “ کا تعلق بھی ایسی ہی کتابوں میں ہے جسے اس وقت اسلامی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی تھی ۔ تاہم علامہ شبلی نعمانی ( ١٨٥٧ء - ١٩١٤ء ) نے اس کی زہر ناکیوں کا پردہ فاش کیا۔ چنانچہ انہوں نے عربی میں ہی “ الانتقاد علی کتاب التمدن الاسلامی “ لکھی جو ١٩١٢ء میں لکھنؤ سے طبع ہوئی ۔ علامہ شبلی کا یہ مقالہ بہت مشہور ہوا تھا اور اسے علمی دنیا میں وقعت کی نظر سے دیکھا گیا تھا ۔ بعد ازاں انہوں نے اس کی تلخیص اردو میں کی جو ماہنامہ “ الندوہ “ لکھنؤ کی شعبان المعظم ١٣٢٨ھ کی اشاعت میں طباعت پذیرہوئی ۔ نیز علامہ شبلی کے مقالات کی چوتھی جلد میں بھی شامل اشاعت ہے۔ آج بھی ہمارے یہاں مغرب سے مرعوبیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی پسِ منظر میں “ الواقعة “ میں اس مقالے کی اشاعت کی جارہی ہے ۔ ( ادارہ الواقعۃ )
“جر جی زیدان ایک عیسائی مصنف نے یہ کتاب چار حصوں میں لکھی ہے جس میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تاریخ لکھی ہے ۔ اس کتاب میں مصنف نے در پردہ مسلمانوں پر نہایت سخت اور متعصبانہ حملے کیے ہیں لیکن بظاہر مسلمانوں کی مدح سرائی کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ لو گوں کی نظر اس کی فریب کاریوں پر نہیں پڑی اور کتاب گھر گھر پھیل گئی ۔
میں اس حالت کو دیکھ رہا تھا ، لیکن قلت فرصت کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا تھا ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ فاضل کے امتحان میں اس کے داخل نصاب کر نے کی رائے دی گئی اور ٹائمس نے حال میں ایک مضمون لکھا کہ حضرت عمر کا کتبخانہ اسکندریہ کو جلانا ثابت ہے ۔جیسا کہ جر جی زیدان نے اس کوتمدن اسلام میں جدید دلائل سے ثابت کر دیا ہے ۔
ان واقعات نے مجبور کر دیا کہ میں اس کی فریب کاریاں تفصیل کے ساتھ ناظرین کے پیش نظر کروں اصل مضمون عربی میں لکھا ہے اور اس کو نہایت وسعت دی ہے اردو میں مختصر کر دیا ہے اور طرز تحریر بھی معمولی ہے ۔”
PDF WILL BE UPLOADED WITH FINAL EPISODE, IN'SHA'ALLAH

مصنف کا اصل مقصود کیا ہے ؟

 آج کل یو رپ میں تصنیف کا ایک طرز یہ ہے کہ مصنف کسی خاص قسم کے واقعات جب ملک میں پھیلانا چا ہتا ہے تو اس پر مستقل حیثیت سے کوئی کتاب نہیں لکھتا بلکہ کو ئی ناول لکھتا ہے جس میں ان واقعات کو جا بجا ضمنی موقعوں میں لاتا جا تا ہے اور اس طرح دلچسپی کے ساتھ ان تمام واقعات کو گوش آشنا کر دیتا ہے ، اسی قسم کا طریقہ مصنف نے اختیار کیا ہے، اس کے اہم مقاصد جس کے لیے اس نے یہ کتاب لکھی ہے ، حسب ذیل ہیں :
(١) عرب کی تحقیر اور ان کی مذمت۔
(٢) خلفائے (بنو امیہ و عباسیہ ) کے مذہب کی توہین کرتے تھے ، یہاں تک کہ منصور نے بغداد میں کعبہ کی تحقیر کے لیے قبہ خضراء بنو ایا اور معتصم نے سامرہ میں کعبہ اور صفا و مروہ تعمیر کیا ۔
(٣) مسلمانوں پر عام اعتراضات ۔
ان مضامین پر مصنف اگر کو ئی مستقل کتاب لکھتا تو لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے اس لیے اس نے تاریخی واقعات کے پردہ میں ان مضامین کو ادا کیا اور آہستہ آہستہ یہ زہر اس طرح سرایت کر گیا کہ لو گوں کو خبر بھی نہ ہو نے پائی ۔
مصنف نے ان اغراض کے حاصل کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان کی تفصیل ذیل میں ہے :
(١) صریح کذب ودروغ
(٢) روایات کی نقل میں خیانت اور تحریف
(٣) کسی صحیح واقعہ میں اپنی طرف سے ایسا اضافہ کر دینا کہ واقعہ کی صورت بدل جائے
(٤) غلط استنباط اور استدلال ۔
ہم پہلے مصنف کے مقاصد کو کسی قدر تفصیل سے دکھاتے ہیں ۔
کتاب کا ایک بڑا موضوع بنو امیہ کی برائی اور عیب گیری ہے جس کے ضمن میں دراصل عرب پر حملہ کرنا مقصود ہے ۔
کتاب کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں !
و کان من جملة نتائج تعصب بنی امیة للعرب و احتقارھم البلاد الامم انھم اعتبروا اھل البلاد التی فتحوھا و ما یملکون رزقا حلالا لھم ۔” (حصہ دوم ص ١٩)“ بنو امیہ جو عرب کی طرف داری اور تمام دنیا کی تحقیر کرتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام مفتوحہ شہروں کے لو گوں کو اوران کے دولت و مال کو شیرمادر سمجھتے تھے ۔”

و کان عمال بنی امیة یجورون علی اصحاب الارضین من اھل الذمة فی التحصیل و نحوہ۔” (حصہ دوم ص ١٩)“ بنو امیہ کے عمال زمینداروں پر مالگذاری وغیرہ کے وصول کرنے میں ظلم کرتے تھے۔”

و لم یکن عمال بنی امیة یاتون ھذہ العمال من عند انفسھم دائما بل کثیرا ما کانوا یفعلونہ بامر خلفائھم و کان بنو امیة قد انغمسوا فی الترف و اللھو و الخمر ۔” (حصہ دوم ص ٢٦)“ اور بنو امیہ کے عمال یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر خلفاکے حکم سے کرتے تھے ،اور بنو امیہ عیش پرستی اور لہو و لعب اور شراب میں ڈوب گئے تھے۔”

و کان العمال لا یرون حرجا فی ابتذار الاموال من اھل البلاد التی فتحو ما عنوة ۔” (حصہ چہارم ص ٧٥)“اور عمال بنو امیہ مفتوحہ قوموں کے مال چھین لینے کو کچھ برا نہیں سمجھتے تھے ۔”

الاستھانة بالقرآن و الحرمین ۔” ( حصہ چہارم ص ٧٨)“قرآن مجید اور حرمین کی توہین۔”

فان اھل الذمة وغیرھم من سکان البلاد الاصلین قاموا من خلفاء بنی امیة و من عمالھم الامور الصعاب حتی الذین اسلموا منھم فان العرب کانوا یعاملونھم معاملة العبید۔”“ ذمی اور دیگر اصلی باشندوں نے بنو امیہ اور ان کے ملازموں کے ہاتھ سے سخت مصیبتیں جھلیں حتیٰ کہ ان لو گوں نے بھی جو مسلمان ہو گئے تھے ،کیونکہ عرب ان سے غلاموں کا سا برتاؤ کرتے تھے ۔”

و عظم ( ای الحجاج ) امر الخلافة حتی فضلھا ولی النبوة فکان یقول ما قامت السمٰوٰت و الارض الا بالخلافة و ان الخلیفة عند اللّٰہ افضل من الملائکة المقربین و الانبیاء المرسلین ۔” (حصہ چہارم ص٧٩ )
“ اور حجاج نے خلافت کے رتبہ کو اس قدر بڑھایا کہ نبوت پر اس کو فضیلت دی چنانچہ کہتا تھا کہ آسمان اور زمین خلافت سے قائم ہوئے ہیں اور خلیفہ خدا کے نزدیک مقرب فرشتوں سے اور انبیاء اور رسول سے بڑھ کر ہے ۔”
ان باتوں کے ثابت کرنے کے لیے مصنف نے بنو امیہ کے عجیب عجیب ظلم کے واقعات لکھے ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی ۔

 بنو امیہ کی برائی اگر بنو امیہ کی خصوصیت کی بناء پر کی جائے تو ہم کو اس سے اس بحث نہیں ، بنو امیہ یا بنو عباسیہ اسلام کے نمونے نہیں ہیں وہ خلفاء نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے ، اس لیے اور سلاطین کی طرح ہر قسم کے عیوب ان میں ہو سکتے تھے لیکن مصنف کی عنایت بنو امیہ پر اس لحاظ سے ہے کہ وہ اصلی عرب اور عربی قومیت کے نمونے تھے ، ان کے اوصاف و اخلاق و عادات عرب کے اخلاق و عادات ہیں ، چنانچہ مصنف عصر بنی امیہ کا ایک خاص عنوان قائم کر کے لکھتا ہے :
“ و تمتاز عن الدولة العباسیة بانھا عربیة بحتة ۔” (حصہ دوم ص ١٨ )
“اور سلطنت بنو امیہ ، دولت عباسیہ سے اس بات میں ممتاز ہے کہ وہ خالص عربی حکومت ہے ۔”

“ و جملة القول ان الدولة الامویة دولة عربیة ۔” (حصہ چہارم ص ١٠٣ )
“ اورمختصر یہ کہ سلطنت امو یہ عربی سلطنت تھی ۔”
مصنف نے جس قدر بنو امیہ کی مذمت اور برائی کی ہے اسی قدر بنو عباسیہ کی مدح و تعریف کی ہے لیکن نہ اس لحاظ سے کہ وہ کوئی عربی سلطنت تھی بلکہ اس بناء پر کی ہے کہ وہ ایرانی سلطنت تھی چنانچہ عباسی حکومت کو ایرانی حکومت قرار دیتا ہے ، حصہ چہارم میں اس نے عباسیوں کی سلطنت کا جہاں ذکر شروع کیا ہے اس کی سرخی یہ لکھی ہے ، العصر الفارسی الاول اس کے نیچے لکھتا ہے :
دعونا ھذا العصر فارسیا مع انہ داخل فی عصر الدولة العباسیة لان تلک الدولة علی کونھا عربیة من حیث خلفائھا و لغتھا و دیانتھا فھی فارسیة من حیث سیاستھا و ادارتھا لان الفرس نصروھا و ایدوھا ثم ھم نظموا حکومتھا و اداروا شؤنھا و امراوھا و کتّابھا و حجّابھا ۔”
“ ہم نے اس زمانہ کو فارسی کہا حالانکہ وہ عباسی حکومت کا کار نامہ ہے ، یہ اس بناء پر کہ عباسی حکومت اگرچہ اپنے خلفاء اور مذہب اور زبان کے لحاظ سے عربی تھے لیکن پالیٹکس کے لحاظ سے ایرانی تھی ، کیو نکہ ایرانیوں نے اس کی اعانت کی اور ان ہی نے اس کی حکومت کا انتظام کیا اور اس کے کاروبار چلائے اور ایرانی ہی اس سلطنت کے وزیر اور افسر کاتب اور دربان تھے  ۔”
عام عرب کی نسبت مصنف لکھتا ہے کہ وہ نو مسلموں کو سخت حقیر سمجھتے ہیں ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی گوار ا نہیں کرتے تھے ، ان کا قول یہ تھا کہ نماز تین چیزوں کے سانے گزرجانے سے ٹوٹ جاتی ہے ، گدھا ، کتا ، اور نو مسلم ۔ امیر معاویہ نے قصد کیا تھا کہ تمام نو مسلموں کویا ان میں سے ایک حصہ کو محض اس وجہ سے قتل کر دیں کہ وہ غیر قوم ہیں ، گو یا یہ لوگ بھیڑ بکریاں تھیں، عرب کو یہ غرور اس وجہ سے ہو گیا تھا کہ وہ اونٹ چراتے چراتے تخت حکومت تک پہنچے تھے ۔

خلفاء کا کعبہ اور شعار اسلام کی تو ہین کرنا

مصنف نے جا بجا اور ایک موقع پر خاص ایک عنوان قائم کر کے ثابت کیا ہے کہ خلفاء مذہبی شعائر کی تحقیر کرتے تھے ، ایک موقع پر لکھتا ہے :
فحبب بعضھم الی المنصور ان یستبدل الکعبة بما یقوم مقامھا فی العراق و تکون حجا للناس فبنی بنائً اسماہ القبة الخضراء تصغیرا للکعبة و قطع المیرة عن المدینة ۔” (حصہ دوم ص ٣٠ )
“بعضوں نے منصور کو اس طرف مائل کیا کہ کعبہ کے بدلے عراق میں کوئی عمارت بنائے جس کا لوگ حج کیا کریں چنانچہ اس نے ایک مکان بنایا جس کانا م قبہ خضراء رکھا تاکہ کعبہ کی حقارت ہو ، اور مدینہ میں غلہ بھیجنا بند کر دیا ۔”
ایک موقع پر خلیفہ معتصم کے حال میں لکھتا ہے :
“ فانشاء فیھا کعبة و جعل حولھا طوافا و اتخذ منیً و عرفات ۔” (حصہ دوم ص ٣٢ )
“ معتصم نے سامرہ میں ایک کعبہ اور ایک منیٰ اور عرفات تیار کرایا ۔”
خلفائے بنو امیہ کی نسبت اس قسم کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں لیکن ان کی تفصیل کی اس لیے ضرورت نہیں کہ بنو امیہ تو بہر حال مصنف کے نزدیک گردن زنی تھے ،ان کے کسی فعل کی کیا شکایت ہو سکتی ہے لطف یہ ہے کہ اپنے ممدوحین یعنی خلفائے عباسیہ کی نسبت یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں عرب اس قدر حقیر کر دیے گئے تھے ، کہ عرب کا لفظ بڑا بد ترخیال کیا جاتا تھا ، لوگ کہتے تھے کہ “ عرب کتے ہیں ان کے آگے روٹی کا ٹکڑا ڈال دو پھر ان کے سر پر مارو۔ “ مصنف کے اصلی الفاظ یہ ہیں :
فاصبح لفظ عربی مرادفا لاحقر الاوصاف عندھم و من اقوالھم العربی بمنزلة الکلب اطرح لہ کسرة و اضرب راسہ ۔”“ عربی کا لفظ بدتر سے بد تر لقب کا مترادف بن گیا تھا ،اور ان کا مقولہ تھا ، کہ عرب کے سامنے روٹی کا ٹکڑا ڈال دو ، پھر اس کے سر پر مارو ۔”
اس موقع پر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اس میں مصنف کا کیا قصور ہے ، یہ تاریخی واقعات ہیں مصنف نے ان کو نقل کر دیا ، اور سند بھی نقل کر دی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مصنف نے ان عبارتوں کی نقل میں سخت تحریف اور خیانت سے کام لیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے ۔

مصنف (١)نے اس تصنیف میں مختلف طریقوں سے کام لیا ہے کہیں علانیہ جھوٹ حوالے دیتا ہے ، کہیں عبارت کو ادل بدل کر دیتا ہے کہیں ایک خاص واقعہ کو عام کر دیتا ہے او ر اس سے عام نتیجہ نکالتا ہے کہیں اپنے موافق ایک واقعہ کو نقل کرتا ہے اور اس کے مخالف بہت سے صحیح واقعات جو مذکور ہیں ان کو چھوڑ جا تا ہے ، کہیں استدلال اور استنباط میں غلطی کر تا ہے ۔

اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔

صریح جھوٹ

(١) تمدن اسلام کے حصہ دوم میں “عصر بنی امیہ “ کا ایک عنوان قائم کیا ہے جس کے ذیل میں بنو امیہ اور عمال بنو امیہ کے تمام مظالم گنائے ہیں ، اس میں منجملہ ان مظالم کے ایک یہ لکھا ہے :
و اذا اتی احدھم بالدراھم لیودیھا فی خراجہ یقتطع الجابی منھا طائفة و یقول ھذا رواجھا و صرفھا ۔”“ اور جب ان کے پاس کو ئی شخص مال گزاری ادا کرنے کے لیے روپیہ لاتا تھا تو تحصیلدار اس میں سے کچھ روپیہ نکال لیتا تھا اور کہتا تھا کہ روپیہ کا نرخ اور چلن اسی قدر ہے ۔”
اس عبارت کی نسبت حاشیہ میں کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ ٦٢ کا حوالہ دیاہے ، اس کی کیفیت یہ ہے کہ قاضی صاحب نے ہارون الرشید کی فرمائش سے مال گزاری اور جزیہ وغیرہ کے متعلق ایک دستور العمل لکھ کر پیش کیا تھا ، اس میں ایک موقع پر ایک عنوان قائم کیا ہے ، اس کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ فلاں فلاں محصول نہ لیے جائیں ، اس کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فانہ بلغنی ان الرجل منھم یاتی ( الیٰ آخرہ )“ مجھ کو خبر لگی ہے کہ جب اون کے (الی آخرہ)۔”
اس عبارت میں بلکہ اس موقع پر بنو امیہ کا مطلق ذکر نہیں ، قاضی صاحب ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کا حال لکھتے ہیں ، مصنف نے اس کو بنی امیہ کے زمانے سے منسوب کر دیا ۔
(٢) مصنف اسی عنوان کے ذیل میں (صفحہ١٣) بنوامیہ کے عمال کے بہت سے ظلم گنا کر لکھتا ہے :
و فی کلام القاضی ابی یوسف فی عرض وصیہ للرشید بشان عمال الخراج مایئبین الطرق التی اولیک الصغار یجمعون الاموال بھا ۔” (کتاب الخراج صفحہ ٦١ و ٦٢ )“ قاضی ابو یوسف نے ہارون الرشید کو عمال خراج کے بارہ میں جو وصیت لکھی تھی ، اس سے وہ طریقے معلوم ہوسکتے ہیں ، جن سے چھوٹے چھوٹے عمال روپیہ جمع کرتے تھے۔”
قاضی صاحب نے لکھا ہے ( مصنف نے وہ تمام عبارت نقل کی ہے ) کہ یہ عمال رعایا کو دھوپ میں بٹھاتے تھے ،اور ان کے گلے میں مٹکے لٹکاتے تھے ، اوراس طرح زنجیروں میں جکڑتے تھے کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ، لیکن اس میں ایک حرف بھی بنو امیہ کے متعلق نہیں ، قاضی صاحب نے علانیہ ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کا حال لکھا ہے اس بناء پر اسی عنوان کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کیا ہے کہ کاش تو مہینہ دو مہینہ میں ایک دفعہ بھی در بار کرتا اور لوگوں کی فریاد سنتا اس کے بعد لکھتے ہیں :
و لعلک لا تجلس الا مجلسا او مجلسین حتی یسیر ذٰلک فی الامصار و المدن فیخاف الظالم اقوفک علی ظلمہ فلا یجزی علی الظلم ۔”“ اور غالباً تو ایک ہی دو اجلاس کرتا تو تمام ملک میں خبر پھیل جاتی اور ظالموں کو یہ ڈر ہو تا کہ تجھ تک خبر نہ پہنچ جائے ، اس بناء پر ظالم کو ظلم پر جرأت نہ ہو تی ۔”
مصنف نے جا بجا عباسیوں کے عدل و انصاف کی بے انتہا تعریف کی ہے لیکن عباسیوں کا سر تاج ہارون الرشید تھا ، اور اس کے زمانہ کے عمال کا یہ حال ہے ۔
ہمارے مصنف نے ان سب کو بنوامیہ کے نامئہ اعمال میں داخل کر دیا ، کیا دنیا میں اس سے زیادہ کذب و افتراء کی مثال مل سکتی ہے۔

(٣)مصنف نے لکھا ہے کہ عباسیوں کے زمانہ میں ایراینوں نے یہ خیال کیا ، کہ جب تک عرب اور حرم کعبہ کا اثر کم نہ کیا جائے گا ہم کو کامیابی نہ ہو گی ، اس لیے انہوں نے خلیفہ منصور کو اس پر آمادہ کیا ، کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے ، چنا نچہ منصور نے کعبہ کی تحقیر کے لیے ایک عمارت بنائی جس کا نام قبہ خضراء تھا ، مصنف کے اخیر الفاظ یہ ہیں :
“ فحبب بعضھم الی المنصور ان یستبدل الکعبة بما یقوم مقامھا فی العراق و تکون حجا للناس فبنی بنائً اسماہ القبة الخضراء تصغیرا للکعبة ۔” (تمدن اسلام حصہ دوم ص ٣٠ ) “اس بناء پر بعضوں نے منصور کو اس طرف رغبت دلائی کہ وہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے اور لوگوں سے اس کا حج کرائے چنانچہ اس نے کعبہ کی حقارت کے لیے قبہ خضراء بنایا ۔”
اس عبارت کے خاتمہ پر حاشیہ میں طبری صفحہ (١٩٧)  کا حوالہ دیا ہے اس واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ منصور کے مقابلہ میں محمد نفس زکیہ نے علم بغاوت بلند کیا ، تو ایک خطبہ دیا جس میں یہ الفاظ تھے :
“ اما بعد ! ایھا الناس فانہ کان من امر ھذا الطاغیة عدو اللّٰہ ابی جعفر ما لم یخف علیکم من بنائہ القبة الخضراء التی بناھا معانداً للّٰہ فی ملکہ و تصغیراً للکعبة الحرم ۔” (طبری ص ١٩٧)
“ حمد خدا کے بعد اے صاحبو! اس سر کش منصور دشمن خدا کا فعل آپ سے مخفی نہیں کہ اس نے قبہ خضراء بنا یا ہے جس سے خدا کی دشمنی اور کعبہ کی حقارت مقصود ہے ۔”
یہی خطبہ ہے ، جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے لیکن یہ منصور کے ایک دشمن کے الفاظ ہیں ، کیا اس سے تاریخی واقعہ کا اثبات ہو سکتا ہے ،منصور کا زمانہ ائمہ مجتہدین ، محدثین اور فقہاء سے معمور تھا ، کیا اس زمانے میں کسی کو یہ جرأت ہو سکتی تھی کہ کعبہ کا جواب بنائے، کیا ایسا خلاف امکان واقعہ صرف ایک مخالف کی شہادت سے ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن فرض کر لو ، کہ مخالف کے الفاظ صحیح بھی ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ منصور نے یہ عمارت کعبہ کی تحقیر کے لیے بنائی ہے اس میں یہ الفاظ کہاں ہیں کہ “ لوگوں نے منصور کو یہ ترغیب دی کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے ، اور لوگوں سے حج کرائے “ طبری میں اس عبارت کا ایک حرف بھی نہیں ۔

(٤) حصہ دوم صفحہ ٣٠ میں لکھا ہے کہ “ خلیفہ منصور نے مدینہ منورہ میں دریا کی طرف سے غلہ وغیرہ جانا بند کر دیا تھا ، جس سے غرض یہ تھی کہ حرمین کی وقعت کم ہو جائے ، اس بناء پر لوگوں نے منصور سے بغاوت کی ، اور محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ، منصور کو اس کارروائی سے جو مشکلیں اٹھانی پڑیں وہ اس کے جانشینوں کے لیے عبرت کا سبق تھیں،اس لیے اس کے جانشین مہدی نے اس کی تلافی کی۔ “
اس واقعہ میں کس قدر فریب اور خدع سے کام لیا ہے ، واقعہ یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ ایک مدت سے خلافت کا خیال پکارہے تھے ، جب انہوں نے علانیہ علم بغاوت بلند کیا تو چونکہ وہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے ، اس لیے منصور نے وہاں رسد بھیجنا بندکرا دیا طبری میں ہے :
فخبرہ بخروج محمد فقال المنصور نکتب الساعة الی مصر ان یقطع عن الحرمین المادة ثم قال انما ھم فی مثل حرجة اذا انقطعت عنھم المادة ۔” ( طبری واقعات ١٤٥ھ ص ٢٨٠)
“ جب منصور کو محمد کی بغاوت کی خبر دی گئی تو اس نے کہا کہ ابھی میں مصر کو لکھ دیتا ہوں کہ وہاں سے حرمین کو جو مدد آتی ہے بند کر دی جائے ، جب یہ بند ہو جائے گی تو وہ بے دست و پا ہو جائیں گے ۔”
یہی مورخ ایک دوسرے موقع پر لکھتا ہے :
“ لما قتل محمد امر ابو جعفر بالجبر فاقفل علیٰ اھل المدینة فلم یحمل الیھم من ناحیة الجار شیٔ ۔”
“ جب محمد قتل کر دیے گئے تو ابو جعفر منصور نے حکم دیا کہ جار کی بند گاہ سے مدینہ کو ئی چیز نہ جانے پائے ۔”
ان تمام عبارتوں سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ منصور نے محمد کی بغاوت کے فروکرنے کے لیے یہ حکم دیا تھا ، مصنف کی یہ دروغ بیانی دیکھو کہ اس واقعہ کو مقدم قرار دے کر اسی کو محمد کی بغاوت کا سبب قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہے کہ اہل عرب نے اسی بناء پر محمد سے بیعت کی ، اس کے علاوہ یہ بغاوت فرو کر نے کی ایک تدبیر تھی ، اس کو حرمین کی تحقیر سے کیا تعلق ہے ۔

مصنف کے کذب وافتراء ، فریب و تدلیس ، غلط استدلالی اگر چہ الگ الگ عنوان قائم کر کے تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں ، لیکن ناظرین کو اس سے چند اں دلچسپی نہ ہو گی ، اس لیے اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مصنف نے مسلمانوں پر جو نکتہ چینیاں کی ہیں ، ان کا اظہار کیا جائے اور اسی کے جواب کے ضمن میں مصنف کے یہ تمام کارنامے دکھائے جائیں ، مصنف کا اصلی مقصد اس کتاب کے لکھنے سے امور ذیل کا ثابت کر نا ہے ۔

کتاب کے چوتھے حصے (صفحہ٥٨) میں مصنف نے ایک عنوان قائم کیا ہے “عصبےة العرب علی العجم “اس میں ثابت کیا ہے کہ اہل عرب تمام قوموں کو نہایت حقیر سمجھتے تھے ، ان کا مقولہ تھا کہ نماز صرف تین چیزوں سے ٹوٹتی ہے “ گدھا ، کتا اور غیر عرب “ غیر قوموں کے ساتھ ایک صف میں چلنا گوارا نہیں کرتے تھے ، ان کانام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے ، ان کو مذہبی عہدے نہیں دیتے تھے ، خلفاء کی جو اولاد عجمی عورت سے ہو تی تھی ، ان کو منصب خلافت سے محروم کرتے تھے ، امیر معاویہ نے یہ قصد کیا تھا کہ تمام عجمیوں کو یا ایک حصہ کو قتل کر دیں ، وغیرہ وغیرہ

مصنف نے ان واقعات میں حسب معمول ان سب ہتھیاروں سے کام لیا ہے ، جو فطرت نے اس کو عنایت کیے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ خلفائے بنو امیہ کے زمانہ میں شعوبیہ ایک گروہ تھا ، جو اہل عرب کی سخت تحقیر کرتا تھا ، ان کے مقابلے میں عرب میں بھی ایک جماعت تھی ، جو عجم کو حقیر سمجھتی تھی ، تاریخ سے یہ بالکل معلوم نہیں ہو تا  کہ ان دونوں میں ابتداء کس نے کی ، عرب و عجم دونوں مغرور تھے ، عجم کو اپنی قدیم عظمت و شان و شوکت پر ناز تھا ، عرب اپنی شجاعت و آزادی کا دم بھرتے تھے ، اسلام کے بعد دونوں کا اختلاط ہو ا ، تو دونوں فرقے خود بخود پیدا ہو گئے ، مصنف کا دعویٰ ہے کہ عرب اور بنو امیہ کے ظلم و تحقیر نے اس گروہ کو پیدا کیا تھا ، لیکن عباسیہ تو مصنف کے نزدیک عدل و انصاف کے معیار کے تھے ، اور ان کے زمانے میں بقول مصنف (نقل کفر کفر بنا شد ) عرب کی عزت کتے کے برابر رہ گئی تھی ، باوجود اس کے کہ شعوبیہ کے مشاہیر اسی زمانہ میں پیدا ہو ئے اور اسی زمانہ میں انہوں نے عرب کی برائیوں پر مفصل کتابیں لکھیں ، ابو عبیدہ مثنیٰ جس نے عرب کے ایک ایک قبیلہ کے مطاعین پر الگ (٢) الگ کتابیں لکھیں ، عباسیہ ہی کے زمانے میں تھا ، علان شعوبی ، مامون الرشید کے دربار کا ملازم تھا بنو امیہ کے جرم کا کفارہ عباسیہ کے عہد میں کیوں لیا گیا۔
ایک بات خاص لحاظ کے قابل ہے ، کہ جہاں تک پتا لگتا ہے اہل عرب میں سے کسی نے کوئی تصنیف خود ابتدائً نہیں لکھی ، بلکہ شعوبیہ کی تصنیفات کا جواب لکھا ، بخلاف اس کے شعوبیہ کے بیسیوں کتابوں کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں ، ابو عبیدہ اور علان شعوبی کے علاوہ سہل بن ہارون جو مامون الرشید کے کتب خانہ پر مامور تھا ، اس کے تذکرہ میں لکھا ہے :
شعوبی المذھب شدید العصبیة علی العرب و لہ فی ذلک کتب کثیرة ۔” (فہرست ص ١٣٠)“ وہ مذہباً شعوبی تھا اور عرب سے سخت تعصب رکھتا تھا ، اور اس مضمون میں اس کی بہت سی کتابیں ہیں ۔”
بہر حال مقصود یہ ہے کہ عرب میں جو لوگ قومی تعصب رکھتے تھے ، وہ چند افراد تھے ، عام عرب نہ تھے ، عقد الفرید میں ایک خاص باب قائم کیا ہے ، جس کی سرخی “متعصبین ِعرب “ہے ، اس کے تحت میں ان لوگوں کے اقوال لکھے ہیں ، مصنف نے عربوں کے متعصبانہ اقوال و افعال جو نقل کیے ہیں ، قریباً کل یہیں سے لیے ہیں ، لیکن عقد الفرید میں شروع ہی میں تصریح کردی ہے ، کہ
قال اصحاب العصبیة من العرب ۔”“ عرب میں جو لوگ متعصب ہیں انہوں نے یہ کہا ہے۔”
اس سے ظاہر ہو گا کہ یہ ایک گروہ خاص کے خیالات ہیں ۔
مصنف نے خیانت اور فریب کاری سے ان باتوں کو عا م عرب کی طرف منسوب کر دیا ہے ، چنا نچہ کہتا ہے :
و کان العرب فی ایام ھذہ الدولة یترفعون عن سائر الامم من الموالی و اھل الزمة و یعدون انفسھم فوقھم جبلة و خلقة و فضلاء فکان العربی یعد نفسہ سیداً علی غیر العربی و یری انہ خلق للسیادة و ذلک للخدمة ۔” (حصہ چہارم ص ٥٩)
“ عرب اس سلطنت بنو امیہ کے زمانہ میں تمام قوموں سے اپنے آپ کو دور کھینچتے تھے ، اور اپنے آپ کو فطرت میں ، خلقت میں ، فضیلت میں سب سے فائق سمجھتے تھے ، عربی اپنے آپ کو غیر عربی کا آقا سمجھتا تھا ، اور جانتا تھا کہ میں سرداری کے لیے پیدا ہو ا ہوں ، اور عجم خدمت گاری کے لیے ۔”


و کان العرب سکر و انجمرة السیادة و النصر بارتقائھم من رعایة الابل الی سیاسة الملک۔” (حصہ ٤ ص ٦٠)“ عرب افسری اور فتح کے نشہ میں اس وجہ سے چور تھے کہ وہ اونٹ چراتے چراتے حکومت کے رتبہ کو پہنچے تھے ۔”
مصنف نے جس قدر سندیں نقل کی ہیں ، سب ایک خاص گروہ یا خاص اشخاص کے اقوال ہیں ، مصنف ان کو تحریف پسندی کی بناء پر عام کر لیتا ہے ، اور ان سے استدلال کر تا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اس پر ناز ہے کہ اس نے عرب و عجم اور نسل و ملک کی تمیز اٹھا دی ، اور تمام انسانوں میں عام مساوات قائم کر دی ،اسلامی تاریخیں ان واقعات سے معمور ہیں ، لیکن افسوس کہ مصنف کی غلط نمائی ان کا ظاہر کرنا پسند نہیں کرتی ۔

عربی زبان میں مولا ایک لفظ ہے جس کے معنی وسیع ہیں ، یعنی غلام کو بھی کہتے ہیں آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں ، اور عرب کے سوا اور قومیں جو ایمان لائیں ان کو بھی کہتے ہیں ،مصنف نے اس کی وسعت سے کام لیا ہے ، یعنی جہاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب تمام غیر قوموں کو حقیر سمجھتے تھے ، اس کے ثبوت میں وہ اقوال بھی پیش کیے ہیں ، جو غلاموں کے حق میں تھے ، تاہم ہم اس دائرہ کی وسعت کو کم نہ کریں گے ، اور دکھائیں گے کہ عرب میں غیر قوموں اور غلاموں کی کیا وقعت تھی ۔

عرب میں اور عام مسلمانوں میں عزت کا اصلی معیار مذہبی عزت تھا ، یعنی جن کو مذہبی عزت حاصل ہے ان کو ہر قسم کی عزت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ ، اسلام میں مجتہدین ، فقہاء اور علمائے مذہبی کو جو اعزاز حاصل تھا کسی کو کبھی نہیں ہوا۔

مصنف نے نہایت زور و شور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عرب کا غرور اور غیر قوموں کی تحقیر بنو امیہ کے زمانہ میں انتہا درجہ تک پہنچ گئی تھی چنا نچہ لکھتا ہے :
فلما بالغ بنو امیة فی الاستخفاف بغیر العرب ۔” (حصہ ٤ ص ٦٠)
“ پھر جب بنو امیہ نے غیر عرب والوں کی تحقیر کی انتہا کر دی ۔”
اس بناء پر ہم اسی زمانہ کو اس بحث کا معیار قرار دیتے ہیں ۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث و فقہ کا شباب تھا ، بڑے بڑے محدثین و ائمہ فن تمام صدر مقامات میں فقہ و حدیث کی درس و تدریس میں مشغول تھے ، یہ لوگ ان مقامات میں پیشوا تسلیم کیے جاتے تھے ، تمام قوم ان کا ادب کرتی تھی اور سلطنت کی طرف سے ان کا احترام کیا جاتا تھا ، اس زمانے میں جو مقامات مذہبی علوم کے تخت گاہ تھے ، مکہ ، یمن ، شام ، مصر بصرہ ، کو فہ ، خراسان ، جزیرہ تھے ، ان مقامات میں جو لوگ مذہبی علوم کے تاجدار تھے ان کے یہ نام ہیں :
مکہ معظمہ:عطا ء بن ابی ریاح ، یہ امام ابو حنیفہ کے استاد تھے ۔یمن : طاؤس ، ہشام بن عبدالملک نے ان کے نماز جنازہ پڑھائی تھی ۔ (معارف)
شام :مکحول ، امام زہری کا قول ہے کہ عالم صرف چار ہیں ان میں سے ایک مکحول ہیں ۔مصر :یزید بن ابی حبیب ، مصر میں فقہ کے معلم اول یہی ہیں ، عمر بن عبدالعزیزے نے ان کو مصر میں فتویٰ دینے پر مقرر کیا تھا۔(حسن المحاضرہ)
جزیرہ :میمون بن مہران ، عمر بن عبد العزیز نے ان کو جزیرہ کا افسر خراج مقرر کیا تھا ۔(معارف)
خراسان :ضحاک بن مزاحم ، مشہور مفسر ہیں ۔بصرہ :امام حسن بصری ، مشہور امام ہیں ۔کوفہ:ابراہیم نخعی۔
ہمارے مصنف (جرجی زیدان ) کو تو جہ سے سننا چاہیے ، کہ ابراہیم نخعی کے سوا یہ سب عجمی غلام (٣) تھے اور یہ سب عبد الملک بن مروان کے زمانہ میں تھے ،جو مصنف کے نزدیک بد ترین خلفاء تھا حج کے زمانہ میں مکہ معظمہ میں منادی پکارتا تھا ، کہ “ عطاء بن ابی رباح کے سوا کو ئی فتویٰ نہ دینے پائے “ ابن خلکان میں ہے (تذکرہ عطاء بن ابی ریاح )
قال ابراھیم بن عمرو بن کیسان اذکرھم فی زمان بنی امیة یامرون فی الحج صایحا یصیح لا یفتی الناس الا عطاء بن ابی رباح ۔ “
“ ابراہیم کا بیان ہے کہ مجھ کو یاد ہے کہ حج کے زمانے میں ایک شخص کو مقرر کرتے تھے جو یہ پکار کر کہتا تھا کہ عطاء کے سوا کو ئی شخص فتویٰ نہ دینے پائے ۔”
یزید بن عبدالملک جب خلیفہ ہو ا ، اور عمر بن ہیرہ کو عراق کی گورنری ملی تو ١٠٣ھ میں اس نے امام حسن بصری ، شعبی اور ابن سیرین کو بلا بھیجا ، اور ان سے کہا کہ یزید کے جو احکام آتے ہیں مجھ کو ان کی تعمیل کرنی پڑتی ہے ، آپ صاحبوں کی کیا رائے ہے ، امام حسن بصری نے کہا او ابن ہبیرہ تجھ کو خدا سے ڈرنا چا ہیے ، نہ یزید سے ، ابن ہیرہ نے اس پر حسن بصری کو صلہ دیا ۔(ابن خلکان تذکرہ حسن بصری)

ہمارے مصنف کو دوبارہ سننا چاہیے کہ یہ تینوں شخص جو اس حیثیت سے بلائے گئے تھے ، کہ ان کی آواز قوم کی مذہبی آواز ہے ان میں سے دو شخص یعنی حسن اور ابن سیرین غلام تھے ، ١٠٦ھ میں طاؤس کا جب مکہ معظمہ میں انتقال ہو اتو جنازہ میں لو گوں کی یہ کثرت ہو ئی کہ جنازہ چل نہیں سکتا تھا ، مجبوراً ابراہیم بن ہشام گو رنر مکہ نے پولیس سے کام لیا عبدا للہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے صاحبزادے جنازہ کا ندھے پر لے کر چلے ، اور خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے جنا زہ کی نماز پڑھائی (٤) ، کیا اس سے زیادہ کسی کی عزت کی جا سکتی ہے ۔

تابعین (٥) کا گروہ اسلام میں ایک خاص در جہ رکھتا ہے اس گروہ میں بڑے امام اور پیشوا گزرے ، ان سب میں سب سے عالی رتبہ حضرت سعید بن جبیر  تھے ، وہ حبشی غلام (٦) تھے ، مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب غیر عرب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے، اور یہ تعصب سب سے زیادہ بنو امیہ کے زمانہ میں تھا لیکن خود حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو کوفہ میں نماز کا امام مقرر کیا تھا، حالانکہ کو فہ عرب کی خاص آبادی تھی ۔
علم ادب کا امام مطلق حماد راویہ تھا ، سبعہ معلقہ کے قصیدے اسی نے مدون کیے علامہ ابن خلکان اس کی نسبت لکھتے ہیں :
و کانت ملوک بنی امیة تقدمہ و توثرہ و تستزیرہ ۔ “
“ سلاطین بنو امیہ اس کی عزت کرتے تھے ، اور اس کو اوروں پر ترجیح دیتے تھے ، اور اس کی ملاقات کی خواہش کرتے تھے ۔”
ہشام بن عبدالملک جب خلیفہ ہو ا تو پانسو اشرفیاں زاد راہ بھیج کر اس کو دربار میں طلب کیا ، چنا نچہ ابن خلکان نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے یہ معزز اور محترم فاضل دیلمی غلام تھا ۔

سلیمان اعمش جو امام حدیث اور سفیان ثوری کے استاد تھے ، وہ بھی عجمی غلام تھے ،اور ان کا یہ رتبہ تھا کہ جب خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے ان کو خط لکھا کہ “ حضرت عثمان کے مناقب اور علی کے معائب لکھ کر میرے پاس بھیج دیجئے “ تو انہوں نے ہشام کے خط کو قاصد کے سامنے بکری کے منہ میں دے دیا کہ وہ چبا گئی اور قاصد سے کہا کہ ہشام سے کہہ دینا کہ اس کے خط کا یہ جواب ہے۔ (ابن خلکان تذکرہ سلیمان اعمش )

حواشی

(١)       ایک امر کا اظہار کرنا اس موقع پر ضرور ہے مصنف نے جب اس کتاب کا پہلا حصہ مجھ کو بھیجا تو میں نے اجمالاً کتاب کی تعریف کی ، لیکن چونکہ میں مصنف کی عادت سے واقف تھا ، اس لیے میں نے اس کو خط لکھا کہ آپ کو واقعات میں کتابوں کا حوالہ دینا چاہیے ، چنانچہ مصنف نے میرے اس خط کو تمدن اسلام کے دوسرے حصہ میں نقل کیا ہے اور میری تحریک کے مطابق پچھلے حصوں میں حوالے دیئے ہیں لیکن اس میں یہ چالاکی کی کہ چھاپے کی تعیین نہیں کرتا ، اکثر کتابیں مصر میں بار بار چھپی ہیں ، مصنف ان کے حوالے دیتا ہے اور یہ نہیں بتاتا کہ کون سے چھاپہ کے صفحے ہیں ، اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ابن الاثیر ، مسعودی وغیرہ کے جو کثرت سے مصنف نے حوالے دیئے ہیں ، میں نے مقابلہ کیا ، تو میرے پاس جو نسخے ہیں اس میں وہ عبارتیں نہیں ملیں لیکن مصنف یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی اور نسخہ کو حوالہ دیا ہے ، اس کارروائی کی وجہ سے مصنف کی بہت سی خیانتوں کا پردہ رہ گیا ، ورنہ جن کتابوں میں اس کے حوالے میرے نسخہ سے مطابق نکلے ، ان میں ایک موقع بھی مجھ کو ایسا نہ ملا کہ مصنف نے سخت خیانت نہ کی ہو ۔
(٢)       کتاب الفہرست میں ان سب کتابوں کے نام لکھے ہیں ۔
(٣)      فتح المغیث مطبوعہ لکھنؤ صفحہ ٤٩٨۔
(٤)      ابن خلکان تذکرئہ طاؤس۔
(٥)      تابعی اس کو کہتے ہیں جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے صحابہ کو یا کسی صحابی کو دیکھا ہو ۔
(٦)       معارف۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے