منگل، 22 اکتوبر، 2013

تمدن اسلام.مصنفہ جرجی زیدان کی پردہ دری قسط 2

مجلہ "الواقعۃ" شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

تمدن اسلام
مصنفہ جرجی زیدان کی پردہ دری قسط 2

علامہ شبلی نعمانی کے کلک گوہر بار سے

حدیث و روایت کے جس قدر سلسلے ہیں ، ان میں ایک سلسلہ ہے جس کو محدثین کی زبان میں سلسلہ زریں کہتے ہیں، اس سلسلہ کے راوی اول نافع ہیں جو دیلمی غلام تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے جس قدر حدیثیں مروی ہیں ان کا مدار اعظم یہی نافع ہیں ، امام مالک انہی کے شاگرد تھے ۔ انہوں نے ١١٧ھ یعنی ہشام بن عبد الملک کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی ۔
غرض کہاں تک استقصا کیا جائے ۔ بنو امیہ کے زمانہ میں سیکڑوں اہل عجم اور غلام اور غلام زادوں کے نام گنا سکتے ہیں جو عرب کے صدر مقامات یعنی مکہ ، مدینہ ، یمن ، بصرہ ، کوفہ میں مرجع عام تھے ۔ تمام عرب ان کی عزت کرتے تھے اور خود سلطنت ان کا احترام کرتی تھی ۔
اس میں شبہ نہیں کہ عرب کو اس حالت پر غیرت آتی تھی ۔ لیکن یہ رشک و حسد نہ تھا ۔ بلکہ غبطہ تھا اور وہ خود اعتراف کرتے تھے
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
ایک دفعہ ہشام بن عبد الملک نے امام زہری سے پوچھا کہ آج مکہ کا رئیس کون ہے ؟ زہری نے کہا عطاء ۔ ہشام نے کہا اور یمن میں ، زہری نے کہا طاؤس ۔ اسی طرح ہشام نے مصر ، جزیرہ، خراسان ، بصرہ ، کوفہ کے متعلق پوچھا اور زہری نے مکحول ، یزید ، میمون بن مہران ، ضحاک کا نام لیا ۔ ہشام ہر شخص کے نام پر یہ بھی پوچھتا جاتا تھا کہ یہ عرب ہیں یا عجم ۔ زہری کہتے جاتے تھے کہ عجم ۔ جب ابراہیم نخعی کا نام لیا اور کہا کہ وہ عرب ہیں تو ہشام نے کہا کہ اب دل کو تسکین ہوئی ۔ پھر کہا خدا کی قسم موالی ( عجمی ) وغیرہ عرب کے سردار بن گئے ۔ ان کا خطبہ پڑھا جائے گا ۔ زہری نے کہا امیر المومنین یہ دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار ہوگا اور جو اس کو ضائع کرے گا ، گر جائے گا (١) ۔ اسی واقعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب عطاء کا نام آیا تو ہشام نے پوچھا کہ عطاء کو یہ ریاست کیونکر حاصل ہوئی ۔ زہری نے کہا " دیانت و روایت سے ۔"ہشام نے کہا ہاں جو شخص صاحبِ دیانت اور روایت ہوگا اس کو رئیس ہونا ہی چاہیئے ۔
واقعات مذکورہ بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود بنو امیہ میں عجمیوں اور عجمی غلاموں کی کیا عزت تھی ۔ عرب ان کا وقار کرتے تھے ۔ حرم محترم میں ان کے سوا کسی کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی ۔ کوفہ عرب کی خالص آبادی تھی ۔ وہاں کا امام عجمی غلام تھا ۔ خلفائے بنو امیہ ان کو دربار میں بلاتے تھے اور ان کی نہایت عزت کرتے تھے ۔ حدیث و فقہ میں عرب ان کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے ۔
اس کے مقابلہ میں ہمارے مصنف ( جرجی زیدان ) کے ان اقوال پر نظر ڈالوکہ عرب تمام موالی کو ذلیل کرتے تھے ۔ ان کو گدھے اور کتے کے برابر سمجھتے تھے ۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کا نام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے ۔ راستہ میں ان کا برابر چلنا گوارا نہیں کرتے تھے ۔
مصنف کی خیانت
اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مصنف نے اس مضمون میں کن خیانتوں سے کام لیا ہے ۔ ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
مصنف نے لکھا ہے کہ
" منعوا غیر العرب من المناصب الدینیة المہمة کالقضاء فقالوا لا یصلح للقضاء الا عربی ۔" ( تمدن اسلام حصہ چہارم ص ٦٠ )
" عرب کے سوا اور لوگوں کو مذہبی عہدوں سے مثلاً قاضی ہونے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ عہدہ قضا کے قابل صرف عرب ہیں ۔ "
اس کی کیفیت یہ ہے کہ ابن خلکان نے سعید بن جبیر کے حال میں لکھا ہے کہ جب حجاج نے ان کو گرفتار کیا تو بلا کر کہا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ میں نے تم کو کوفہ میں بلا کر امامت پر مقرر کیا اور وہاں ایک شخص بھی عرب کے سوا نہ تھا۔ سعید نے کہا بے شک ۔ پھر حجاج نے کہا کہ جب میں نے تم کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو سب لوگ چیخ اٹھے کہ قضا پر صرف عرب مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ اس بنا پر میں نے ابو بردہ کو قاضی مقرر کیا لیکن کہہ دیا کہ تمہارے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرے ۔
یہ ظاہر ہے کہ جس شہر میں عربوں کے سوا اور کوئی آباد نہ ہو ۔ وہاں مقدمات کے فیصل کرنے کے لیے صرف وہ شخص موزوں ہو سکتا ہے جو وہاں کا اہلِ زبان ہو اور ان کے راہ و رسم سے واقف ہو ۔ اسی بنا پر اہلِ کوفہ نے سعیدبن جبیر کے قاضی ہونے سے انکار کیا ۔ ورنہ اگر قومی تحقیر کی بنا پر اعتراض ہوتا تو نماز کی امامت پر اس سے زیادہ اعتراض کا موقع تھا ۔
امام ابو حنیفہ خالص عجمی تھے ۔ ان کو بنو امیہ کے زمانے میں گورنر عراق نے اصرار کے ساتھ قاضی مقرر کرنا چاہا (٢) لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا ۔ اگر عرب کے سوا کوئی قاضی نہیں ہوسکتا تھا تو امام صاحب کے تقرر پر اصرار کیوں کیا جاتا ۔
مصنف کی خیانت دیکھو کوفہ کے خاص واقعہ کو جو خاص اسباب پر مبنی تھا عام واقعہ قرار دیتا ہے اور عام عرب کی طرف منسوب کرتا ہے ۔
مصنف نے لکھا ہے :
" و حرموا منصب الخلافة علی ابن الامة و لو کان ابوہ قرشیا ۔" (حصہ ٤ ص ٢٠ )
" اور لونڈی زادے کو گو اس کا باپ قریش سے ہو منصبِ خلافت سے محروم کرتے تھے ۔ "
مصنف نے اس کے ثبوت میں ہشام بن عبد الملک کا قول پیش کیا ہے کہ ہشام نے زید بن علی سے کہا کہ " تم خلافت کا خیال رکھتے ہو لیکن اس کے اہل نہیں ہو کیونکہ تم لونڈی کے پیٹ سے ہو ۔ " بے شبہ ہشام کا یہ قول ہے لیکن اس کے جواب میں زید نے جو کہا اس کو مصنف نے قلم انداز کردیا ۔ زید نے کہا ہاں ، لیکن حضرت اسماعیل لونڈی کے پیٹ سے تھے اور ان کے بھائی ( اسحاق ) نجیب الطرفین تھے ، تاہم خدا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو جو خیر البشر تھے ، اسماعیل ہی کی نسل سے پیدا کیا ۔
غرض یہ دو حریفوں کے اقوال ہیں ان میں سے کسی ایک سے کوئی عام خیال نہیں ثابت کیا جا سکتا خاص خاص اشخاص سے بحث نہیں ہے ، بلکہ بحث یہ ہے کہ عام عرب کا خیال تھا ۔ ہشام اور زید دونوں میں سے کسی شخص کا بیان ، عرب کی عام زبان نہیں ہے ۔ ہشام کا قول اگر سند کے قابل ہے تو اس سے زیادہ حضرت زید کا قول سند کے قابل ہے جو خاندانِ نبوت سے تھے اور امام تھے اور آج بھی یمن میں ہزاروں لاکھوں آدمی انہی کو امام مانتے ہیں ۔
بعض مصنفوں نے لکھا ہے کہ خلفائے بنو امیہ لونڈیوں کو حقیر سمجھتے تھے لیکن محققین نے قدیم زمانہ میں اس کی تغلیط کر دی تھی اور اس غلط خیال کا منشا بتا دیا تھا ۔ چنانچہ عقد الفرید میںمذکور ہے :
" قال الاصمعی کانت بنو امیة لا تبایع لبنی امھات الاولاد فکان الناس یرون ان ذلک لاستھانة بھم و لم یکن لدیک و لکن لما کانوا یرون ان زوال ملکھم علی ید ابن ام ولد ۔" (عقدالفرید، جلد سوم ٢٣٠ مطبوعہ مطبع شرقیہ مصر )
" اصمعی نے کہا کہ بنی امیہ کنیز زادوں کو خلیفہ نہیں بناتے تھے اس سے لوگوں نے سمجھا کہ وہ ان کو حقیر سمجھتے تھے لیکن یہ وجہ نہ تھی بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ ان کی سلطنت کا زوال ایک کنیز زادہ کے زمانہ میں ہوگا ۔ "
حقیقت یہ ہے کہ مقابل کے حریف خود غرضی کی بنا پر ہر قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں ۔ مدعیانِ سلطنت نے یہ استدلال بھی پیش کیا لیکن فریق مخالف نے جو جواب دیا وہ لاجواب رہا ۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں جب نفس زکیہ نے بغاوت کی تو اپنے استحقاق کی ایک یہ دلیل بھی پیش کی کہ میںلونڈی زادہ نہیں ہوں ۔ منصور نے جواب میں لکھا کہ ہاں لیکن تمہارے خاندان میں جو لوگ فضل و شرف میں ممتاز تھے وہ وہی تھے جو کنیز زادے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی وفات کے بعد خاندانِ نبوت میں کوئی شخص علی بن الحسین ( امام زین العابدین ) سے بڑھ کر نہیں پیدا ہوا ۔ ان کی والدہ کنیز تھیں ۔ ان کے بعد محمد ( امام باقر ) اور جعفر ( امام جعفر صادق) سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوا اور یہ سب علی ( زین العابدین ) ہی کی اولاد ہیں۔
سالم بن عبد اللہ بن عمر لونڈی کے پیٹ سے تھے ۔ خلیفہ ہشام بن عبد الملک جب مدینہ گیا تو ان کو بلا بھیجا ۔ وہ اس وقت معمولی لباس میں تھے ، کہلا بھیجا کہ میں نہیں آ سکتا ۔ ہشام خود گیا اور دس ہزار روپیہ نذر کیے ۔ حج کرکے پھر مدینہ گیا تو سالم بیمار تھے ، خود عیادت کو گیا ۔ وہ مر گئے تو خود جنازہ کی نماز پڑھائی اور کہا میں نہیں جانتا کس بات پر زیادہ اظہارِ مسرت کروں حج کرنے پر یا سالم کی نمازِ جنازہ پڑھنے پر (٣) ۔
ہمارا مصنف کہتا ہے کہ اہل عرب اور بنو امیہ کنیزوں کی اولاد کو حقیر سمجھتے تھے لیکن ہشام جیسا نامور خلیفہ ، ایک کنیز زادہ کے جنازہ کی نماز کو حج کے برابر سمجھتا ہے ۔
بنو امیہ
مصنف کا سب سے بڑا مرکزِ نظر بنو امیہ کی ہجو و تحقیر ہے ۔ اس بحث میں اس نے جی کھول کر زورِ طبع صرف کیا ہے ۔ اور جس قدر کذب ، تحریف ، تمویہ، فریب ، تدلیس ، خدع ، غلط بیانی کی قوت فطرت نے اس کو عطا کی تھی ۔ سب صرف کردی ہے ۔ کتاب کے چوتھے حصہ میں بنو امیہ کی سفاکی ، مذہب کی توہین ، غیر قوموں پر ظلم اور سختی کے مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور ان پر دفتر کا دفتر لکھا ہے ۔
بنو امیہ کی حمایت اور ہمدردی ہمارا کوئی فرض نہیں ۔ اموی یا عباسی خلفا نہ تھے بلکہ سلاطین تھے ۔ شخصی سلطنتوں میں جس قسم کے سلاطین ہمیشہ ہوتے آئے ہیں یہ بھی تھے ۔ بایں ہمہ ہم کو جن اسباب نے مصنف کی پردہ دری پر آمادہ کیا وہ حسبِ ذیل ہیں :
(١) مصنف یہ کتاب عیسائی بن کر نہیں بلکہ مورخ بن کر لکھتا ہے اور اسی حیثیت سے اس تصنیف کو تمام دنیائے اسلام کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس فرض کو کہاں تک ادا کر سکا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی خدمت سچائی کا پھیلانا ہے اس لیے اگر مصنف نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو اس نے بنو امیہ کے ساتھ نہیں، بلکہ لٹریچر کے ساتھ ، تاریخ کے ساتھ بلکہ کل دنیا کے ساتھ برائی کی ہے ۔
( ٢ ) مصنف کا اصلی مقصد ، بنو امیہ کی برائیاں ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا روئے سخن عرب کی طرف ہے وہ بتصریح کہتا ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت خالص عربی سلطنت تھی جس کی بنیاد تعصب اور سخت گیری تھی ۔ وہ عباسی حکومت کی تعریف کرتا ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عباسی ہے بلکہ اس کہ وہ درحقیقت ایرانی حکومت ہے ۔ چنانچہ چوتھے حصہ میں جہاں سلطنتِ عباسیہ کا ذکر شروع کیا ہے اس کا عنوان یہ قائم کیا ہے ۔
العصر الفارسی الاول۔
ایرانی حکومت کا پہلا دور ۔
اس کے بعد لکھتا ہے کہ گو یہ عباسی سلطنت کا دور ہے لیکن ہم نے اس کو ایرانی اس لیے کہا کہ نظام حکومت اور وزراء و امراء وغیرہ سب ایرانی تھے ۔
شاید یہ کہا جائے کہ خلفائے راشدین کی حکومت بھی خالص عربی حکومت تھی ۔ بایں ہمہ مصنف اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اس لیے عام عرب پر اس کا اعتراض نہیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ خلفائے راشدین کے دور کو اصولِ فطرت کے موافق نہیں سمجھتا بلکہ اس کو مستثنیات عامہ میں داخل کرتا ہے ۔ چنانچہ اس کے خاص الفاظ یہ ہیں :
" علی ان سیاسة الراشدین علی الاجمال لیست مما یلایم طبعیة العمران او تقضیہ سیاسة الملک ۔ فاھل العلم بطبائع العمران لا یرون ھذہ السیاسة تصلح لتدبیر الملک فی غیر ذلک العصر العجیب و ان انقلاب تلک الخلافة الدینیة الی الملک السیاسی لم یکن منہ بدّ ۔" ( حصہ چہارم ص ٣٨ -٣٩ )
" بایں ہمہ خلفائے راشدین کی سیاست عام طور پر اصولِ تمدن اور سیاست ملکی کے مناسب نہ تھی ۔ اس لیے ارباب علم اس سیاست کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ بجز اس عجیب زمانہ کے کسی اور زمانہ کے قابل ہو ۔ اس لیے ایسی مذہبی خلافت کا ملکی سیاست سے بدل جانا ایک نا گزیر امر تھا ۔ "
(٣) بنو امیہ کے پردہ میں مصنف نے قرنِ اوّل کے عام مسلمانوں کی ہر قسم کی برائیاں ثابت کی ہیں۔ اس لیے ایسے اتہامات کا رفع کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔
(٤) جن باتوں نے اس کتاب کو تاریخی پایہ سے بالکل گرا دیا ہے یعنی تحریف ، تعصب ، کذب و خدع ان کا سب سے زیادہ استعمال بنو امیہ ہی کے واقعات میں کیا گیا ہے اس لیے اسی کے ساتھ زیادہ توجہ اور اعتنا کی ضرورت ہے۔
مذہب کی توہین
مصنف نے بنو امیہ کے حالات میں اس کا ایک عنوان قائم کیا ہے کہ بنو امیہ مذہب کی توہین کرتے تھے ۔ چنانچہ عنوان کے الفاظ یہ ہیں :
" الاستھانة بالقرآن و الحرمین ۔" ( حصہ چہارم ص ٤٨)
" قرآن اور حرمین کی توہین ۔ "
اس واقعہ میں مصنف نے نہایت مغالطہ کاری اور ملمع سازی سے کام لیا ہے ۔ اس نے پہلے یہ واقعہ لکھا ہے کہ عبد الملک کو جب خلافت کی خبر پہنچی تو اس کی گود میں قرآن تھا ۔ اس نے قرآن کو بند کرکے کہا " یہ آخری ملاقات ہے " اس کے بعدلکھتا ہے :
" اس کے بعد اس نے اپنے عامل حجاج کو اجازت دی کہ کعبہ پر منجنیق نصب کرے اور ابن زبیر کو قتل کردے اور اس کا سر عین کعبہ کے اندر اپنے ہاتھ سے کاٹے حالانکہ کعبہ حرم ہے ۔ جس کے اندر اور اس کے حوالی میں لڑائی جائز نہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے اس کو جائز رکھا اور تین دن تک لوگوں کو قتل کرتے رہے اور کعبہ کو ڈھا دیا حالانکہ ان کے نزدیک وہ خدا کا گھر تھا اور کعبہ کے پتھروں اور پردوں میں آگ لگا دی جو کبھی اسلام میں نہیں ہوا تھا اور مدینہ میں پہنچے اور وہ ایک حرم ہے اور وہاں کے لوگوں سے لڑے اور ان کا خون بہایا ۔ " ( حصہ چہارم ص ٧٨ -٧٩)
جس فریب دہ ترتیب سے مصنف نے ان واقعات کو لکھا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبد الملک نے خلافت پانے کے ساتھ توہینِ اسلام کو اپنا مقصد قرار دیا اور اس بنا پر کعبہ پر چڑھائی کی اور کعبہ کو آگ لگا دی اور ابن زبیر کو کعبہ کے اندر قتل کردیا وغیرہ وغیرہ ۔
واقعات یہ ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک دونوں خلافت کے دعویدار تھے اور اپنے اپنے فتوحات بڑھاتے جاتے تھے ۔ عبد الملک نے تخت نشینی کے آٹھ برس کے بعد حجاج کے ذریعہ سے عبد اللہ ابن زبیر پر چڑھائی کی ۔ انہوں نے مکہ میں بیٹھ کر مقابلہ کی تیاری کی ۔ حجاج نے محاصرہ کیا اور منجنیق سے سنگباری شروع کی ۔ اسی میں اثنا میں حج کا زمانہ آیا ۔حجاج نے حج کرانا چاہا لیکن عبد اللہ بن زبیر نے روکا ۔ سنگ باری کی وجہ سے حاجیوں کو تکلیف تھی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے حجاج کو کہلا بھیجا کہ لوگ طواف نہیں کر سکتے ۔ حجاج نے سنگ باری بند کرادی ۔ حج کے بعد حجاج نے منادی کرادی کہ لوگ وطن واپس نہ جائیں میں ابن زبیر پر سنگ باری کروں گا ۔
فقہ کا ایک مسئلہ ہے کہ اگر کوئی باغی کعبہ میں پناہ لے تو اس کو گرفتار کرنا یا اس پر حملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ بہت سے فقہاء اس کو جائز سمجھتے ہیں ۔ بنو امیہ کے طرفدار عبد اللہ بن زبیر کو باغی سمجھتے تھے ۔
بایں ہمہ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری نہیں کی بلکہ عبد اللہ بن زبیر نے کعبہ کو گرا کر جو اس میں اضافہ کر لیا تھا اس کو نشانہ بنایا ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ سے پہلے سیلاب کی وجہ سے جب کعبہ گر گیا تو قریش نے دوبارہ تعمیر کی لیکن چونکہ مالی حالت نے زیادہ اجازت نہ دی تھوڑا سا حصہ تعمیر نہ ہوسکا ۔ قریش نے زمین کا اس قدر حصہ خالی چھوڑ دیا اور اس کے گرد دیوار کھچوادی جس کو آج حطیم کہتے ہیں ۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب دوبارہ مرمت کرائی تو یہ چھوٹی ہوئی زمین عمارت کے اندر داخل کرلی ۔
اہلِ شام نے اس فعل کو نا جائز خیال کیا کہ کعبہ پر اضافہ کیا گیا ۔ حجاج نے اسی اضافہ شدہ عمارت پر پتھر برسائے تھے ۔
علامہ بشاری احسن التقاسیم ( مطبوعہ یورپ صفحہ ٧٤ ) میں لکھتے ہیں :
" فامر بوضع المنجنیق علی ابی قبیس و قال ارموا الزیادة التی ابتدعھا ھذا المکلف ، فرموا موضع الحطیم و اخرج ابن الزبیر و صلبہ و رد الحائط کما کان فی القدیم ۔"
"حجاج نے حکم دیا ابو قبیس پر منجنیق نصب کی جائے اور کہا کہ اس حصہ پر حملہ کرو جس کو اس مکلف ( ابن زبیر ) نے ایجاد کیا ہے ۔ چنانچہ حطیم پر پتھر چلائے اور ابن زبیر کو نکال کر پھانسی دی ، اور دیوار ویسی ہی بنادی جیسی پہلے تھی ۔ "
حجاج نے اس کے بعد کعبہ کی عمارت نئے سرے سے بنائی اور آج وہی کعبہ قبلۂ اسلام ہے ۔
باقی یہ واقعات کہ عبد اللہ بن زبیر کو خود کعبہ کے اندر قتل کیا اور پردہ کعبہ میں آگ لگادی ، تمام تر غلط ہیں ۔
عبد الملک کا قرآن کو الوداع کہنا ، اس کی یہ کیفیت ہے کہ عبد الملک خلافت سے پہلے سخت عابد و زاہد تھا ۔ نافع کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں کسی نوجوان کو عبد الملک سے بڑھ کر مستعد ، فقیہ ، عابد اور قاری قرآن نہیں دیکھا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے بعد ہم لوگ کس سے مسئلے پوچھیں گے ۔ فرمایا کہ مروان کے بیٹے سے ابو الزناد کا قول تھا کہ مدینہ کے فقہاء سات ہیں اور ان میں سے ایک عبد الملک ہے ۔
ان حالات کے ساتھ جب خلافت کا بار اٹھانا پڑا تو ظاہر ہے کہ اب وہ زاہدانہ زندگی بسر نہیں ہو سکتی تھی اور قرآن مجید کی تلاوت کا بہ التزام انجام دینا مشکل تھا ۔ اس لیے عبد الملک نے وہ فقرہ بہ حسرت کہا جس کے معنی مخالفین نے یہ لیے کہ قرآن سے بیزاری مقصود تھی ۔
غور کرو ایک شخص جس نے ٣٠ برس زہد و تقویٰ میں بسر کی ۔ جس سے بڑھ کر مدینہ منورہ میں کوئی عابد و زاہد نہ تھا جس کی نسبت شعبی جیسا امام کہتا ہے :
" ما جالست احداً الا وجدت علیہ الفضل الا عبد الملک بن مروان ۔"
" جس سے بڑے بڑے محدثین یعنی عروہ ، رجاء بن حیوة ، امام زہری ، وغیرہ نے حدیث روایت کی جو خلافت پانے سے ایک منٹ پہلے قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھا ۔ خلافت ملنے کے ساتھ دفعةً مرتد ہوجائے اور قرآن سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہو کر کعبہ پر چڑھائی کر دے ۔ مصنف کے سوا کس کے خیال میں آ سکتا ہے ۔ مصنف بظاہر عبد الملک کو بے دین ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن وہ دراصل تمام مسلمانوں کو بے دین ثابت کر رہا ہو کہ ان کے سامنے کعبہ پر چڑھائی ہوئی ۔ کعبہ ڈھا دیا گیا ۔ پردہ کعبہ میں آگ لگا دی گئی اور تمام قدیم مستند کتابوں یعنی طبری ، ابن الاثیر وغیرہ میں سرے سے ہے ہی نہیں ۔ بعض کتابوں میں جہاں ہر قسم کا رطب یابس ہے یہ بھی ہے ۔
مصنف نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے عمال ، خلفائے بنو امیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر ترجیح دیتے تھے ۔ چنانچہ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ اگرچہ یہ روایتیں عقد الفرید اور اغانی وغیرہ سے لی ہیں جن کا شمار تاریخی کتابوں میں نہیں لیکن گفتگو یہ ہے کہ بنو امیہ کے سیکڑوں ہزاروں عمال میں سے ایک دو شخص ایسے تھے تو اس سے عام استدلال کیا ہو سکتا ہے ۔
حجاج اور خالد قسری کے اقوال اور افعال اس وقت بنو امیہ کے نامۂ اعمال میں داخل سمجھے جا سکتے ہیں جب خلفائے بنو امیہ نے ان کو جائز رکھا ہو ۔ حجاج کو ( عبد الملک اور ولید کے سوا ) تمام خلفائے بنو امیہ نہایت برا سمجھتے تھے ۔ خالد قسری کو ان ہی افعال کی بدولت ہشام نے گورنری سے معزول کر دیا اور سخت سزا دی ۔
ولید بن یزید کی نسبت کفر اور زندقہ کا جو الزام مصنف نے لگایا ہے اس کی یہ کیفیت ہے کہ اسکے فیصلہ کرنے کا سب سے زیادہ حق محدثین کو ہے اور وہ اس باب میں مطلق رو رعایت بھی نہیں کر سکتے ۔ علامہ ذہبی جن سے بڑھ کر چھ سو برس کی مدت میں آج تک کوئی محدث اور مورخ نہیں پیدا ہو لکھتے ہیں :
" لم یص عن الولید کفر و لا زندقة بل اشتھر بالخمر و التلوط فخرجوا علیہ لذالک ۔" ( تاریخ الخلفاء ، تذکرہ ولید بن یزیدہ )
یہ ظاہر ہے کہ محدثین قرآن کی ذرا سی اہانت کو کفر سمجھتے ہیں ۔ ولید خدانخواستہ اگر قرآن مجید کو تیروں کا نشانہ بناتا جیسا کہ مصنف نے نقل کیا ہے تو کیا محدثین اس کے کفر سے انکار کرسکتے تھے ؟
حواشی
(١)       فتح المغیث شرح الفیة الحدیث للسخاوی ، مطبوعہ لکھنؤ صفحہ ٤٩٨ -٤٩٩
(٢)      ابن خلکان ، تذکرہ امام ابو حنیفہ ۔
(٣)     ابن الاثیر حالت بغاوت نفس زکیہ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے