اتوار، 20 اکتوبر، 2013

دعوت یا تباہی فریضۂ دعوت کی اہمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نظر میں قسط 1

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

دعوت  یا  تباہی

فریضۂ دعوت کی اہمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نظر میں
قسط 1

مرتب : محمد ثاقب صدیقی

ڈاکٹر ذاکر نائیک عصر حاضر کے مشہور و معروف داعی و مبلغ اسلام ہیں ۔ ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں متعدد غیر مسلم افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ۔” دعوت یا تباہی” کے عنوان سے انہوں نے اپنے لکچرمیں تبلیغ کی اہمیت کو نہایت اچھوتے اور منفرد انداز سے بیان کیا ہے ۔ ان کے تقریری بیانیے کو محمد ثاقب صدیقی نے تحریری انداز میں منتقل کیا ہے نیز حواشی میں بعض مقامات پر فہم مطلب کے لیے قرآنی آیات کا اندراج بھی کیا ہے جس کے بعد اس کی” الواقعة” میں طباعت کی جا رہی ہے ۔ ( ادارہ  الواقعۃ )
الحمد اللّٰہ  و الصلوٰة  و السلام علی رسول اللّٰہ و علی آلِہ  و اصحابہ اجمعین اما بعد ! اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم :
(قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ    ) (سورة التوبة : ٢٤)
(رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ 25؀ۙوَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ 26؀ۙ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ 27؀ۙيَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ 28) ( سورة طٰہ : ٢٥ -٢٨ )
PDF WILL BE UPLOADED WITH FINAL EPISODE, IN'SHA'ALLAH
میری تقریر کا موضوع ہے: دعوة یا تباہی!
دعوة کا مفہوم
ہم پہلے یہ جان لیں کہ دعوت کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ ہم سب جو اردو جانتے ہیں، ہمیں دعوت کے ایک عمومی معنی معلوم ہیں۔ ہم جب بھی دعوت کا لفظ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کھانے کی دعوت کا تصور خودبخود آجاتا ہے۔” دعوة” یا”دعوت” کے معنی ہمیشہ کھانے کی ہی دعوت نہیں ہوتی۔ دعوة یا دعوت کے معنی ہوتے ہیں، بلانا، مدعو کرنا اور مدعو اسی کو کیا جاتا ہے جو خاندان میں نہیں ہوتا ہے۔ ہم میں نہیں ہوتا بلکہ باہر سے ہوتا ہے۔ ہم بات کریں گے”دعوة الاسلام” پر یعنی اسلام کی طرف لوگوں کو بلانا۔ جب ہم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوة دیتے ہیں تو اُن لوگوں کو دیتے ہیں جو اسلام میں داخل نہیں ہیں۔ اسی لیے خصوصاَ جب ہم غیر مسلموں کو اسلام کاپیغام دیتے ہیں تو اُسے کہتے ہیں”دعوة الاسلام”۔ لیکن یہ لفظ دعوة یادعوت دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مسلمانوں سے بھی اسلام کے بارے میں بات کرنے کے لیے اور غیر مسلمانوں کو بھی اسلام کی دعوة دینے کے لیے۔ لیکن خصوصاَ یہ عربی لفظ دعوةغیر مسلمانوں کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ جب ہم مسلمانوں سے اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں یا اُسے اسلام کے بارے میں مزید علم دیتے ہیں اُس کے لیے لفظ ہونا چاہیے” اصلاح”۔ عربی میں اصلاح کا مطلب ہوتا ہے درست کرنا۔ تولہٰذا جس مسلمان کو ہم اسلام کے بارے میں مزید علم دیتے ہیں کہ کس طرح سے صلوٰة پڑھووغیرہ تو اِس کے لیے خصوصی لفظ ہونا چاہیے”اصلاح” اور جب ہم غیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں تو اُس کا خصوصاَ لفظ ہونا چاہیے” دعوة”۔ لیکن عام طور پر ہم لفظ دعوة دونوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال دعوة خصوصاَ غیر مسلموں کے لیے ہونا چاہیے ۔
سورۂ توبہ اور مسلمان
میں نے آغاز میں قرآن مجیدکی ایک آیت شامل کی ہے جو سورۂ توبہ کی ہے۔ سورۂ توبہ ، قرآن مجیدکی سب سے سخت سورة ہے۔ کیونکہ سورۂ توبہ وہ واحد سورة ہے جو بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       سے شروع نہیں ہوتی۔جبکہ قرآن مجید میں جتنی بھی سورتیں ہیں تمام کی تمام  بِسْمِ اللہ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
(بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ )(بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ)(بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ)
(غور کیجئے کہ) جب قرآن مجیدکی دیگر تمام سورتوں کے شروع میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ہے تو سورۂ توبہ کے شروع میں کیوں نہیں ہے؟؟؟اسی لیے میں کہتا ہوں کہ  سورۂ توبہ قرآن کی تمام سورتوں میں سب سے سخت سورت ہے ۔
فرض کیجئے کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ کسی بدنام اور بُرے علاقے کی سڑک پر چل رہے ہیں اور کوئی غنڈہ یا بدمعاش آپ کی والدہ کا پرس چھن کر بھاگ جاتا ہے۔
آپ کیا کریں گے؟ لازماَ آپ اُس کا پیچھا کریں گے اور جب آپ اُسے پکڑلیں گے تو آپ یہ نہیں کہیں گے بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے ۔ آپ یہ بھی نہیں کہیں گے کہ السلام علیکم۔ بلکہ آپ موضوع پربراہ راست آئیں گے اور کہیں گے”اے میاں! ہینڈ بیگ واپس کرو، نہیں تو گردن توڑ دوں گا۔”
اِسی طرح جب آپ سورۂ توبہ پڑھتے ہیں تو پہلی چار پانچ آیتوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مکہ کے مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک صلح کا معاہدہ ہوتا ہے اور اِس صلح کو مشرک لوگ توڑ دیتے ہیں(١)۔
جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورۂ توبہ کی پانچویں آیت میں آتے ہیں تو فرماتے ہیں” آپ اپنے آپ کو سدھار لو چار مہینے میں نہیں تو اعلانِ جنگ” اللہ تعالیٰ مشرکوں سے کہتے ہیں ہم آپ کو چار مہینے کا موقع دیتے ہیں اگر آپ نہیں سدھریں گے تو اعلانِ جنگ اور جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ جنگ کا اعلان فرماتے ہیں یا تنبیہ دیتے ہیں تو براہِ راست موضوع پر آتے ہیں(٢)۔
اسی لیے کچھ علماء کے نزدیک  سورۂ توبہ کے آغاز میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       نہیں ہے۔ لیکن جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورة التوبہ آیت ٢٤ پر آتے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اب ہم مسلمانوں سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں:
(قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ)” کہو چاہے وہ آپ کے والد ہو ں۔”(وَاَبْنَاۗؤُكُمْ)” یا آپ کے بیٹے ہوں۔”
(وَاِخْوَانُكُمْ)”یا آپ کے بھائی ہوں۔”(وَاَزْوَاجُكُمْ)”یا آپ کی بیوی یا آپ کے شوہر ہوں۔”(وَعَشِيْرَتُكُمْ)”یا آپ کے رشتے دار ہوں۔”(وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ) ”تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپ کوکس سے محبت ہے؟
(اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ) ” اگر آپ کو ان (٨) چیزوں سے اللہ  سے یا اس کے رسول سے یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبت ہے ۔”
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
(فَتَرَبَّصُوْا) ” آپ ٹھہرو۔”
تو جب اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ فتربصوا تو اللہ تعالیٰ آپ کو وارننگ دے رہے ہیں کہ ٹھہرو! سدھرو، جاگ جاؤ۔
(فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ) ” ٹھہرو جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ پر تباہی لے کر آئے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔”
احکام الٰہی سے اعراض کا انجام
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سورة محمد الآیة : ٣٨میں:
(وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ      ) ” اگر آپ اللہ کے پیغام سے دور جائیں گے (یا اللہ کی بات نہیں مانیں گے ) اللہ تعالیٰ آپ کی جگہ پر ایک دوسری قوم کو لے آئیں گے اور وہ قوم آپ جیسی نہیں ہوگی ۔”
قرآن میں سورة الجمعة الآیة : ٥میں فرمایا ہے کہ
(مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا   ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ   ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ) ” جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بُری مثال ہے اور اللہ  (ایسے) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔”
تورات یہودیوں کے لیے نازل کیا گیا تھا لیکن یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کا کہنا نہیں مانا تو اُن کی یہ مثال ہے کہ جس طریقے سے گدھے کے اوپرکتابیں لاد دی گئی ہیں اور گدھا کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب بھی کوئی قوم اپنے آپ کو دوسروں سے بالا ترسمجھنے لگتی ہے اور اسی گھمنڈ میں اللہ تعالیٰ کا کہنا ماننا چھوڑ دیتی ہے تو جن لوگوں کووہ قوم نیچا دیکھتی ہے، اُن ہی لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُس قوم کے سر پر لاکر بیٹھا دیتا ہے۔ جیسا کہ یہودی یہ سوچنے لگے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے منتخب کردہ لوگ ہیں اور اپنے آپ کو اونچا سمجھنے لگے اور دوسری قوموں کو نیچا دیکھنے لگے اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم (تورات) پر عمل کرناچھوڑ دیا تو یہ جس عرب قوم کو نیچا دیکھتے تھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے اِس جاہل قوم کو دنیا کو نور دینے کے لیے بھیجا ۔
مسلمانوں کا منصب اور اس کے تقاضے
اللہ تعالیٰ سورة آل عمران الآیة ١١٠ میں فرماتے ہیں:
(كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) "(اے مسلمانو!) آپ سارے جہاں میں بہترین امہ ہیں۔"
جب بھی کسی کی تعریف کی جاتی ہے یا کوئی اونچا عہدہ ملتا ہے تو اُس عہدے کے ساتھ ہمیشہ ذمے داری ہوتی ہے۔ کوئی بھی اونچا عہدہ ذمے داری کے بغیر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اسکول کے اندرایک ٹیچر کا درجہ کلرک یا چپراسی سے زیادہ ہے جبکہ ایک پرنسپل کا درجہ ایک ٹیچر سے بھی سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذمے داری بھی ہے ۔ایک ٹیچر کی ذمے داری ایک چپراسی سے زیادہ ہے اور ایک پرنسپل کی ذمے داری ایک ٹیچر سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی کسی بھی اونچے عہدے کے ساتھ ذمے داری کا ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قرآن میں:
(كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ)” (اے مسلمانو!) آپ سارے جہاں میں بہترین امہ ہیں۔”
جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم سب سے بہترین امہ ہیں، ہمیں اتنا اونچا عہدہ دیا گیا ہے، ہم خیر امْہ ہیں، تو کیا اِس کے ساتھ ذمے داری نہیں ہے ؟؟؟ ذمے داری اِسی آیت میں بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ) ” کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں خیر امہ کہتے ہیں کیونکہ ہم لوگوں کواچھائی کی طرف بلاتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ درجہ دیتے ہیں”خیر امہ” کیونکہ ہم لوگوں کو اچھائی کی طرف بلاتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔لیکن اگر ہم لوگوں کو اچھائی کی طرف نہیں بلائیں ، برائی سے نہیں روکیں اور دعوة الاسلام کا فریضہ انجام نہ دیں تو ہم مسلمان اور خیر امہ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورة البقرة، الآیة ١٤٣میں فرماتے ہیں:
(وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا)” ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت (ایک درمیان کی امت) بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسولصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم تم پر گواہ ہوجائیں ۔”
ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کا پیغام اُن لوگوں تک پہنچائیں جن لوگوں تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ جب عام طور پر کسی مسلمان سے پوچھا جاتا ہے کہ اِس دنیا میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے ؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اپنی والدہ، اپنے والد، اپنے بیٹے، اپنی اہلیہ سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہے۔
یہ خوشی کی بات ہے لیکن مثال کے طور پر آپ اپنے گھر سے ایک دن صبح جاتے ہیں اور آپ کے گھر سے نکلنے کے بعد آپ کا پڑوسی آپ کی والدہ کو گالی دیتا ہے، بُرے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ جب آپ گھر میں شام کو واپس لوٹیں گے اور آپ کو پتا چلے گاکہ آپ کے پڑوسی نے آپ کی والدہ کو بلاوجہ بُری بُری گالیاں دیں، بُرے الفاظ استعمال کیے۔ تو آپ کیا کریں گے؟؟؟یقیناَ آپ اُسے ماریں گے۔ کیونکہ اُس کی جرأت کیسے ہوئی کہ اُس نے آپ کی والدہ کو گالیاں دیں ؟ اگر آپ کے پاس خود طاقت نہیں ہے تو آپ کسی اور کو کسی بھی قیمت پر لے کر آئیں گے لیکن اُس کو سبق سکھائیں گے۔ کیونکہ آپ اپنی والدہ سے محبت کرتے ہیں۔
فریضۂ دعوت اور ہماری بزدلی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورة مریم الآیة ٨٨ سے ٩٠ میں فرماتے ہیں:
(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا88۔  لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا89) ” وہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیٹا جنا ( یقیناً ) انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خلاف سب سے بُری بات کہی ۔”
جو شخص کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے خلاف سب سے بُری گالی دی اور اللہ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں کہ
(تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ)” اگر آسمان کے پاس ذرا بھی جذبہ ہوتا تو وہ پھٹ اٹھتا ۔”(وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ)” یہ زمین پھٹ اٹھتی ۔”(وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا  )” اور یہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔”
اگر ان آسمانوں کے پاس ذرا سا بھی جذبہ ہوتا تو یہ آسمان پھٹ اُٹھتا اور یہ زمین پھٹ اٹھتی اور یہ پہاڑ گر پڑتا۔لیکن ہم مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہر روز ہمارے غیر مسلم، ہندو، عیسائی دوست کہہ رہے ہیں کہ اللہ نے بیٹا جنا اور ہم مسلمان منہ بھی نہیں کھولتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ سے سب سے زیادہ محبت ہے والدہ ، والد ، بیٹے سے زیادہ ۔جب کہ ہر روز ہمارے پڑوسی، ہمارے ساتھی جن کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں ، ہمارے دوست جن کے ساتھ ہم اسکول جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا اور ہم مسلمان منہ بھی نہیں کھولتے۔ ہم صرف کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ اگر کوئی والدہ کو گالی دے تو ہم اُسے ماریں گے، لیکن جب غیر مسلم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا تو وہ اللہ تعالیٰ کو گالی دے رہے ہیں اور ہم مسلمان منہ بھی نہیں کھولتے۔ کہنے کے لیے ہم سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ لیکن دراصل ہم اللہ سے اِتنی محبت کرتے ہی نہیں۔ چہ جائیکہ ہم منہ کھولیں ہم تو اُن کے ساتھ ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرسمس  (Christmas) ہوتا ہے تو بہت سے مسلمان اپنے عیسائی دوست کو کہتے ہیں میری کرسمس!۔ جب آپ کہتے ہیں میری کرسمس  (merry christmas) توآپ کیا کررہے ہیں آپ شہادت دے رہے ہیں کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نے پچیس دسمبر کو بیٹا جنا ۔ عیسائیوں کو سدھارنا تو دوسری بات رہی ہم اُلٹا اُن کا ہی ہاتھ بٹارہے ہیں ۔ بہت بار ہمارے ہندو دوست ہمیں بلاتے ہیں پوجا پر اور پوجا پر پرشاد دیتے ہیں اور سب مسلمان جانتے ہیں کہ پرشاد کھانا حرام ہے۔ قرآن شریف میں کم از کم چار جگہ سورة المائدة الآیة : ٣، سورة البقرة الآیة : ١٧٣، سورة الانعام الآیة : ١٤٥اور سورة النحل الآیة : ١١٥ میں (اس طرح)لکھا گیا ہے کہ
(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ) ” آپ کے لیے حرام ہے وہ کھانا جو مرا ہوا گوشت ہے ، جو خون ہے ، خنزیر کا گوشت اور اس کھانے پر جس کے اوپر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا گیا ہے ۔”
سب مسلمان جانتے ہیں کہ ہندو ہمیں جو پرشاد دیتے ہیں اُس کے اوپر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ حرام ہے لیکن جب ہمارے ہندو دوست ہمیں پرشاد دیتے ہیں تو ہم اُن کا دل نہیں توڑنا چاہتے تو کیا کرتے ہیں ؟ بسم اللہ پڑھ کر کھالیتے ہیں ۔ کل بسم اللہ پڑھ کر شراب پئیں گے، پرسوں بسم اللہ پڑھ کر خنزیر کا گوشت کھائیں گے، کیا ہو گیا ہے ہماری مسلم امہ کو؟؟ ؟
ہم منہ بھی نہیں کھولتے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہم منہ کھولیں گے تو ہمارا دوست ہم سے ناراض ہوجائیگا۔ ہماری دوستی ٹوٹ جائے گی۔ ہمیں غیر مسلمانوں کی دوستی اللہ کی دوستی سے زیادہ پیاری ہے۔ افسوس کی بات ہے ہمیں ڈر ہے کہ اگر جو گاہک میری دکان پر آتے ہیں اگر میں اُنہیں اسلام کے بارے میں کہوں گا تو وہ بھاگ جائیں گے ہمیںاللہ تعالیٰ سے زیادہ اُس گاہک سے محبت ہے ۔ ہمیں اپنے غیر مسلم دوستوں سے زیادہ محبت ہے اِسی لیے ہم ڈرتے ہیں کہ منہ کھولیں گے تو اُن کا دل ٹوٹ جائے گا، ہم منہ کھولیں گے تو دوستی ٹوٹ جائے گی، ہمیں اِن کی دوستی اللہ کی دوستی سے زیادہ پیاری ہے ۔ یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے!
الحمد اللہ ثم الحمد اللہ! اسلام کی دعوت دینا بہت آسان ہے ۔ لیکن صرف تھوڑی ہمت ہونی چاہئے اور بس!
 اگر کوئی میرا ہندو دوست مجھے گنپتی کی پوجا کے لیے بلائے گا جوکہ بمبئی کے اندر سب سے عام پوجا ہے اور مجھے پرشاد دے گاتومیں اُس سے صرف ایک آسان سوال پوچھوں گاکہ
“گنپتی کون ہے؟”
تو میرادوست مجھ سے فرمائے گا
”یہ گنپتی، بھگوان شیوا (لارڈ شیوا)کابیٹا ہے۔”اور وہ کہے گا”ایک دن جب شیوا گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اُس کی بیوی  پَارْوَتی اپنے جسم کا میل نکال کر کے ایک بیٹا پیدا کرتی ہے اور اُس بیٹے سے کہتی ہے کہ” آپ گھر کے دروازے پر کھڑے رہو اور میں آرام کررہی ہوں،گھر میں کسی کوبھی اندر آنے نہیں دینا” اور کچھ دن بعد جب شیوا اپنے گھر پہ لوٹتے ہیں اور گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو یہ لڑکا اُنہیں روکتا ہے کہتا ہے”میری والدہ آرام فرمارہی ہیں آپ گھر میں نہیں جاسکتے” شیوا طیش میں آکرکہ یہ لڑکا میرے گھر میں مجھے داخل ہونے سے روک رہا ہے اُس کی گردن اُڑادیتے ہیں۔”
تو میں سوال پوچھوں گا اپنے ہندو دوست سے
”آپ کا بھگوان اپنے بیٹے کو نہیں پہنچان سکتا ہے ،تو جب میں تکلیف میں ہوں گا تو وہ مجھے کیسے پہنچانیں گے؟”
اور جب یہ کہانی شروع ہوتی ہے تواِس کہانی کے اندر اتنی دور تک وہ سر چلا جاتا ہے کہ
“بھگوان اُس سر کوواپس نہیں لاسکتا ہے تو وہ کہتے ہیں لوگوں سے کہ پہلا جانور جو آپ کے نزدیک آئے گااُس کی گردن کاٹ کے میرے پاس لے کر آؤ تو پہلا جانور جو اُن کے نزدیک آتا ہے وہ ہوتا ہے ہاتھی اور ہاتھی کی گردن کاٹتے ہیں اور شیوا کے پاس لے کر آتے ہیں اور شیوا اِس ہاتھی کی گردن کو اپنے بیٹے کے اوپر لگاتے ہیں اور وجود میں آتا ہے گنیش گنپتی!”
میں کہوں گا:
” یہ آپ کا بھگوان ہے ؟”
میرا دوست کہے گا:
“ارے جانے دو نا ذاکر! یہ تو کہانی ہے۔ چھوڑو اسے۔”
“ارے پر مجھے پرشاد کھانا ہے آپ ثابت کرکے دکھاؤ کہ گنیش بھگوان ہے اور میں پرشاد کھاسکتا ہوں۔ کیونکہ قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ کے نام پر کوئی چیز دی گئی ہے تو مسلمان کھاسکتا ہے ۔ آپ ثابت کرکے دکھاؤ کہ یہ اللہ ہے اور میں یہ (پرشاد) کھاؤں گا ۔”
“ارے جانے دو نا ذاکر یہ سب کہانی ہے۔”
“لیکن مجھے پرشاد کھانا ہے ۔ آپ ثابت کرکے دکھاؤ کہ گنیش خدا ہے اور میں یہ کھانا کھاسکتا ہوں۔”
اب صورتحال یہ ہوگی کہ وہ بھاگ رہا ہے اور میں اُس کا پیچھا کر رہا ہوں۔
ہمیں صرف منہ کھولنا چاہئے ۔ صرف ایک آسان سوال کیجئے کہ گنیش کون ہے اور ہمارا کام ہوجاتاہے ۔ ہمیں اُسے گالی نہیں دینی ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ سورة الانعام الآیة : ١٠٨ میں فرماتے ہیں:
(وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ) ” ہمیں ان لوگوں کو گالی نہیں دینا چاہیے جن کی یہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔”
ہمیں گالی نہیں دینی ہے بلکہ ایک آسان سوال کرنا ہے کہ گنیش کون ہے؟ اور باقی کام خودبخود ہوجائے گا ۔ لیکن ہمیں منہ تو کھولنا چاہئے ۔
یہود و نصاریٰ کے جذبات
اللہ سبحانہ تعالیٰ سورة البقرة الآیة :١٢٠میں فرماتے ہیں:
(وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ)” آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں ۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے تب تک کہ آپ اُن کا دین قبول نہیں کر لیتے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ سورة البقرة الآیة :١١١ میں فرماتے ہیں:
(وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى) ” یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا۔”
وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں آپ مسلمان لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ حتیٰ کہ آپ کتنی ہی عبادات کرلیں، روزپانچ مرتبہ صلوٰة پڑھیں ، حج پہ جائیں، رمضان میں روزہ رکھیں یا زکٰوة دیںیا کوئی بھی نیک کام کریں، کوئی فائدہ نہیں۔ آپ لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے ۔ یہاں تک کہ آپ لوگ یہود و نصاریٰ نہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ    111) ” یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، اُن سے کہیے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔”
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کبھی بھی کوئی بھی اونچی اونچی بات کرتا ہے تو اُس سے کہو اپنا بُرہان پیش کرو اگر آپ سچے ہیں۔یہ عیسائی / نصرانی لوگ بائبل کواپنا بُرہان کہتے ہیں۔ اُن لوگوں نے ہمارے لیے اپنابُرہان بائبل ٢٠٠٠ سے زیادہ زبانوں میں پیش کیا ہے ۔ بائبل میں یہ لکھا گیا ہے ،بائبل میں وہ لکھا گیا ہے ، کیاہمیں بائبل کو ایک ساتھ نگل لینا چاہئے؟ ہمیں اگر کوئی بھی اپنا بُرہان پیش کرتا ہے، اگر کوئی بھی اپنا شناختی کارڈ آپ کو پیش کرتا ہے، آپ کیا کریں گے؟ آپ چیک کرتے ہیں کہ وہ ثبوت صحیح ہے یا غلط ہے۔ اگر کوئی ثبوت پیش کر رہا ہے تو پہلے آپ کو چیک کرنا چاہئے کہ وہ ثبوت صحیح ہے یا غلط ہے۔ ہم مسلمان کیا کررہے ہیں؟ ہم مسلمان تو اُن کے ثبوت کو چیک کر ہی نہیں رہے ہیں، چیک کرنا تو دور کی بات یہ عیسائی لوگ ہمارا بُرہان ہمارا قرآن ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں ۔
عیسائی مشنریز کی کارگزاریاں
اِس وقت دنیا بھرمیں عیسائیوں کے لاکھوں مبلغین میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ خصوصاَ مسلمان گھروں میں نشانہ لگارہے ہیں ۔ ہمارے گھر کے دروازے عیسائی لوگ کھٹکھٹاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
“آپ کے قرآن مجید میں لکھا گیا ہے یا نہیں کہ بائبل اللہ کا کلام ہے؟”

اور اکثر مسلمان کہیں گے کہ
” ہاں! بے شک قرآن میں لکھا گیا ہے کہ بائبل اللہ کا کلام ہے۔”
تو اُن کا دوسرا سوال ہے کہ
”اگر بائبل اللہ کا کلام ہے تو آپ بائبل کے اوپر عمل کیوں نہیں کرتے؟”
 ہم سے سوال پوچھتے ہیں مگر جواب نہیں دیتے۔
پھر اگلا سوال کرتے ہیں
”قرآن مجید میں آپ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلمکا نام کے ساتھ کتنی بار ذکر کیا گیاہے؟”
اگر آپ کو معلوم ہے تو آپ کہیں گے کہ
”پانچ بار۔نبیصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا ذکر خصوصاَ نام کے ساتھ پانچ بار کیا گیا ہے۔”
تو وہ ایک نیا سوال کریں گے کہ
 ”عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نام کے ساتھ قرآن مجید میں کتنی بار کیا گیا ہے؟”
  اگر آپ کو نہیں معلوم تو وہ کہیں گے 
”پچیس بار”۔
تو اُن کا اگلا سوال ہوگا
”کون شخص افضل ہے؟ وہ شخص جس کا ذکر قرآن مجید میں نام کے ساتھ پانچ بار آیا ہے یا وہ شخص جس کا ذکر قرآن مجید میں نام کے ساتھ پچیس بار آیا ہے؟”
 آپ سے سوال پوچھیں گے مگر جواب نہیں دیں گے ۔ سوال پوچھ کر چھوڑ دیں گے۔ آپ کے ذہن میں شک ڈالیں گے۔ عام آدمی تو ایسا ہی جواب دیگا کہ”جس کا ذکر قرآن مجید میں پچیس بارہے وہی افضل ہے۔” اگر آپ چیک کریں گے کہ تو معلوم ہوگا کہ ماشاء اللہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نام کے ساتھ پچیس مرتبہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا ذکر نام کے ساتھ پانچ مرتبہ آیا ہے،  چار مرتبہ محمد(صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) اور ایک مرتبہ احمد(صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم
اگلا سوال پوچھیں گے
”کہ آپ کے آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کے والد اور والدہ تھے؟”
  آپ کا جواب ہوگا
 ”بے شک۔ اُن کے والد بھی تھے اور اُن کی والدہ بھی تھیں۔”
 تو وہ سوال کریں گے
”عیسیٰ علیہ السلام کے والد اور والدہ تھے؟”
  ہم کہیں گے کہ
” اُن کی والدہ تو تھیں لیکن اُن کے والد نہیں تھے۔”
“تو پھر کون افضل؟ جن پیغمبر کے والد تھے وہ افضل یا جن کے والد نہیں تھے وہ افضل؟”
یہاں بھی سوال کریں گے لیکن جواب نہیں دیں گے۔ آپ کے ذہن میں شک پیدا کریں گے۔ سوال کریں گے، قرآن مجید سے دلیل پیش کریں گے۔ ہمارا بُرہان ہمارے خلاف استعمال کریں گے اور ہم مسلمان لوگ منہ بھی نہیں کھولتے ہاتھ پہ ہاتھ باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ایک پنچنگ بیگ ہوتی ہے پریکٹس کے لیے باکسنگ والوں کی، تو اسِی طرح یہ کرسچن مشنری  کے لوگ ہم مسلمانوں کو پنچنگ بیگ بنا رہے ہیں ۔ یاجب شوٹنگ (فائرنگ) (کی پریکٹس) کرتے ہیں تو پتلا بناتے ہیں، اسی طرح ہم مسلمانوں کو پتلا بنا کر شوٹ کر رہے ہیں۔ افسوس ہے ہماری امّہ پر۔
پھر دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ
” آپ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم زندہ ہیں یا انتقال فرما گئے PHYSICALLY؟”
  اور ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ اُن کا انتقال ہوچکا ہے اور مدینہ منورہ میں دفنائے گئے ہیں ۔ پھر پوچھتے ہیں
 ”کیا حضرت عیسیٰ  زندہ ہیں یا انتقال فرماگئے؟”
 اور ہمیں یہ قبول کرنا پڑے گا کہ
قرآن میں سورة النساء الآیة : ١٥٨ میں لکھا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں زندہ اٹھالیا (٣)۔
تو کون افضل ہیں، وہ جن کا انتقال ہوگیا ہے یا جو زندہ ہیں؟
سوال کریں گے مگر جواب نہیں دیں گے۔ آپ کے ذہن کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔ ذہن میں شک پیدا کریں گے۔ ہمارا بُرہان ہمارے خلاف پیش کریں گے۔
پھر پوچھیں گے کہ
”آپ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے معجزات کیے؟”
 “آپ کہیں گے ہاں بے شک بہت سے کیے۔”
 “کیا اُنہوں نے کوئی ایسا معجزہ کیاکہ جس میں اُنہوں نے کسی مردے انسان میں جان ڈالی ہو؟”
 اور ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ہمیں قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں معلوم یا کسی صحیح حدیث میں ذکر نہیں ہے کہ جس کے اندر محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے ایسا معجزہ کیا کہ مُردے میں جان ڈالی۔پھر وہ اگلا سوال کریں گے۔
” حضرت عیسیٰ نے کبھی مُردوںمیں جان ڈالی؟”
  اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے بے شک عیسیٰ نے مُردوں میں جان ڈالی باذن اللہ(٤)۔ اُٹھ اللہ کے نام پہ۔
” تو کون افضل۔وہ، جو مُردوں میں جان ڈال سکتے ہیں یا وہ جو مُردوں میں جان نہیں ڈال سکتے؟”
سوال کریں گے مگر جواب نہیں دیں گے۔ آپ کے ذہن کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔ ذہن میں شک پیدا کریں گے۔ ہمارا بُرہان ہمارے خلاف پیش کریں گے اور ہم مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ ڈال کہ بیٹھے ہیں۔
حواشی
(١) (بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ 1۔ فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ2۔ وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ  ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ3 اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 4) (سورة التوبہ : ١ تا ٤) ” اللہ اور اُس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا ۔ پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیںہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی ۔ اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچادیجئے ۔ بجز ان مشرکو ں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا ، نہ کسی کے خلاف تمہاری مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو ، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے ۔”
(٢) (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ  ) (سورة التوبہ الآیة: ٥) ” پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصرہ کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔”
(٣) (بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ) (سورة النساء : ١٥٨) ”بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے۔”
(٤) (وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ) (سورة آلِ عمران الآیة : ٤٩)” میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔”

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے