جریدہ
"الواقۃ" کراچی، شمارہ 7 ذوالحجہ
1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012
ایم ابراہیم خاں
تہذیبوں کا تصادم
''تہذیبوں کا تصادم'' بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے میں
ایک متنازع نظریہ ہے۔ سیمیوئل پی ہنٹنگٹن نے اس نظریے کو عالمگیر شہرت بخشنے میں مرکزی
کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1993 میں معروف جریدے "فارن افیئرز" میں ایک مضمون
لکھا جس میں یہ تصور صراحت سے بیان کیا گیا تھا کہ جدید دنیا میں بین الاقوامی جنگوں
کی بنیاد تہذیبی اختلاف پر ہوگی۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح برنارڈ لیوئس نے 1990
میں معروف جریدے "دی اٹلانٹک" منتھلی کے ستمبر کے شمارے میں شائع ہونے والے
مضمون "دی روٹس آف دی مسلم ریج" میں دی تھی۔ ہنٹنگٹن نے جب تہذیبوں کے تصادم
سے متعلق مضمون لکھا تو دنیا بھر کے سیاسی اور علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اپنے مضمون
پر غیر معمولی ردعمل دیکھ کر ہنٹنگٹن نے 1996 میں ایک ضخیم کتاب "تہذیبوں کا تصادم
اینڈ دی ری میکنگ آف ورلڈ آرڈر" کے عنوان سے شائع کی۔ اس کتاب کو بھی عالمگیر
شہرت حاصل ہوئی۔ بہت سے سیاسی مبصرین کے نزدیک جو کچھ ہنٹنگٹن نے بیان کیا اس میں زیادہ
دم خم نہیں، اور کسی بھی جنگ کی اصل بنیاد مفادات کا تصادم ہے، تہذیبوں کا تصادم نہیں۔
سرد جنگ کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے
تجزیہ کاروں کو تحریک ملی کہ وہ عالمی سیاست اور معیشت کو نئے زاویوں سے دیکھیں اور
پرکھیں۔ مغرب کی لبرل ڈیمو کریٹک اقدار کو ہی دنیا کا مقدر سمجھا جانے لگا۔ ایک صدی
کے دوران مغرب نے جو فقید المثال ترقی کی ہے اس کی روشنی میں کسی اور تہذیب کے پنپنے
کی امید کی ہی نہیں جاسکتی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کمیونزم کو غیر معمولی مقبولیت
ملی تھی، مگر اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے یہ نظریہ بظاہر دم توڑ گیا۔ کمیونسٹ بلاک کی
شکست و ریخت اور بالآخر تحلیل نے سیاسی مبصرین کو یہ نتیجہ اخذ کرنے کی راہ دکھائی
کہ فکری محاذ پر اب کوئی فیصلہ کن تبدیلی رونما نہیں ہوگی اور دنیا نظریاتی اعتبار
سے اپنی منطقی منزل تک پہنچ گئی ہے ! چند مصنفین اور دانشوروں کے نزدیک مغرب کی سیاسی
سوچ ہی اب دنیا کا فکری مقدر ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اس کے تناظر میں ایسی سوچ
کا ابھرنا حیرت انگیز بھی نہ تھا۔ ترقی پذیر دنیا ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھ رہی
تھی۔ ترقی سے ہمکنار ہونے والے نئے ممالک بھی مغرب کی فکری کاسہ لیسی سے بچے ہوئے نہ
تھے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر فرانسس فوکویاما نے یہ متنازع نظریہ پیش کیا
کہ دنیا نظریاتی اعتبار سے مکمل ہوچکی ہے، لہٰذا فکری تاریخ کا سفر ختم ہوا۔ اس موضوع
پر انہوں نے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی جو علمی اور عوامی حلقوں میں خاصی مقبول ہوئی۔
فوکویاما کے نزدیک دنیا اب مغرب کے نظریات سے دامن بچاکر نہیں چل سکتی۔ ان کا بنیادی
استدلال یہ تھا کہ مغرب کی برتری انتہائی واضح ہے اور اس کا دائرۂ اثر اس قدر وسیع
ہے کہ دنیا اس کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہے۔
ہنٹنگٹن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اکیسویں صدی میں جنگیں پانی
یا زمین کے حصول کی خواہش کی بنیاد پر نہیں، بلکہ تہذیبی اور مذہبی اختلاف کی بنیاد
پر ہوں گی۔ اس تصور یا نظریے نے سنجیدہ حلقوں میں ہلچل مچادی۔ یہ بآور کرلیا گیا کہ
مغرب کے انتہائی طاقتور ممالک اس نظریے کو بنیاد بناکر ترقی پذیر معاشروں کو زیر نگیں
کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے جس طرح جارحانہ طور پر کمزور ممالک کے خلاف کارروائیاں
شروع کیں اور ان کی زمین اور وسائل ہتھیانے کا عمل شروع کیا اس سے دنیا کو یہ پیغام
ملا کہ اب مغرب اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک
پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم کا بہانہ تراش کر افریقہ اور مشرق
وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہنٹنگٹن کا استدلال یہ ہے کہ بین
الاقوامی تعلقات اور تنازعات کو اب مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی بنیاد پر سمجھنا زیادہ
آسان ہوگا۔ "فارن افیئرز" میں ہنٹنگٹن نے لکھا ہے:
"میرا نظریہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد جو نئی دنیا معرض وجود میں آئی ہے اس میں تمام بڑے اور فیصلہ کن تنازعات کی بنیاد معاشی مفادات اور نظریات سے کہیں بڑھ کر تہذیبی اقدار پر استوار ہوگی۔"
ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب میں دنیا کو سات تہذیبوں میں تقسیم
کیا ہے۔ آئیے، اس تقسیم پر ایک نظر ڈالیں۔
·
یورپ، شمالی امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل عیسائی تہذیب۔ (عیسائی
دنیا میں روس بھی شامل ہے تاہم وہ آرتھوڈوکس ہے۔ قدامت پرست عیسائیوں کے عقائد کیتھولک
یا پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے خیالات سے یکسر مختلف ہیں۔ روس اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک
بھی ایک تہذیبی علاقہ تشکیل دیتی ہیں ۔ سابق سوویت یونین کی ریاستیں خود فیصلہ کریں
گی کہ انہیں یورپ اور شمالی امریکا کے ساتھ رہنا ہے یا روس کے ساتھ۔ روس اور اس کے
زیر نگیں علاقوں کو ایک علاحدہ تہذیبی علاقہ اب تک تو تصور نہیں کیا جاتا، ممکن ہے
آگے چل کر اس کی راہ ہموار ہو۔ جن علاقوں میں آرتھوڈوکس عیسائی رہتے ہیں انہیں باضابطہ
تہذیب بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔)
·
مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا پر مشتمل
اسلامی تہذیب
·
ہندوستان اور نیپال پر مشتمل ہندو تہذیب
·
صحرائے صحارا کے زیریں علاقے پر مشتمل تہذیب
·
چین، ویت نام، سنگاپور، تائیوان وغیرہ پر مشتمل چینی تہذیب
·
تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویت نام، بھوٹان، منگولیا، لائوس، تبت، میانمار، نیپال
اور شمالی بھارت سے تعلق رکھنے والے بدھ باشندوں پر مشتمل بدھ تہذیب
·
اور آخر میں جاپان۔ بہت سوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ہنٹنگٹن نے جاپان کو علاحدہ
تہذیب شمار کیا ہے۔ انہوں نے اس کی ٹھوس وجوہ بھی بیان کی ہیں۔
ہنٹنگٹن کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تہذیبوں
کے مابین اختلافات تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق یوگوسلاویہ ،
چیچنیا اور پاک بھارت تنازعے کی مثال پیش کی ہے۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہنٹنگٹن
نے یہ بھی لکھا ہے کہ مغربی اقدار کو برتر قرار دے کر انہیں دنیا کا حتمی مقدر بنادینا
کسی طور درست نہیں، بلکہ سادہ لوحی ہے۔ مغرب نے جہاں جہاں قدم جمائے ہیں، جمہوریت اور
سرمایہ دارانہ نظام بھی نافذ اور رائج کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں صرف
خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مغرب اس بات کو قبول یا ہضم نہیں کر پارہا کہ اس کی دی ہوئی
ہر سوغات لاجواب نہیں۔ مغرب کو اس بات کا احساس (اور فخر) ہے کہ اس نے جدید بین الاقوامی
نظام بنایا، اس کے لیے قوانین مرتب کیے اور اقوام متحدہ کی شکل میں دنیا کو ایک لڑی
میں پرویا۔ مگر یہ سب تو اس نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا ہے، پھر
بھلا کوئی بھی دوسری تہذیب مغرب کے دیئے ہوئے ہر اصول کو اپنانے کے لیے صبر اور قرار
کیوں داؤ پر لگائے؟
ہنٹنگٹن نے چین کی تہذیب کو مستقبل میں مغرب کے لیے سب سے
بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ چین
اور اسلامی دنیا کے مابین مناقشے کی تاریخ نہیں، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کو زیادہ آسانی
سے قبول کرسکتے ہیں۔ اسلامی ممالک نے چین میں دلچسپی دکھائی بھی ہے۔ چین کے مستحکم
ہونے سے ہر اسلامی ملک کی انفرادی سیاست اور معیشت کے علاوہ مجموعی طور پر اسلامی تہذیب
بھی توانا ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں تہذیبوں کے مابین تصادم کا خطرہ مزید پروان چڑھے
گا۔ مغرب کے لیے بہت سے مسائل موجود ہیں۔ ایک طرف تو اس کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے
اور رقبہ بھی محدود رہ گیا ہے۔ عالمی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مغرب اس معاملے
میں دنیا کا ساتھ نبھانے سے قاصر ہے۔
ہنٹنگٹن نے آرتھوڈوکس، ہندو اور جاپانی تہذیب کو swing
civilization قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ ان تہذیبوں کا جھکاؤ کسی بھی سمت ہوسکتا ہے۔ ہندو تہذیب کسی بھی مرحلے پر چینی
یا اسلامی تہذیب سے مل سکتی ہے۔ اسلامی اور چینی تہذیب کے ممکنہ ملاپ کو ہنٹنگٹن نے
شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس معاملے میں وہ قدرے متعصب دکھائی دیئے ہیں۔ چین کو عالمی
سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے پاکستان، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کا ساتھ
درکار ہے۔ یہ ساتھ پانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عالمی میڈیا میں چین کے خلاف
مغربی پروپیگنڈا کا بنیادی سبب بھی یہی خوف ہے کہ کہیں چین اور اسلامی دنیا ایک نہ
ہوجائیں۔
جدیدیت، مغربیت اور منقسم ممالک
ہنٹنگٹن کے ناقدین روایتی تہذیب کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا
نشانہ بناتے ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضے نبھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے خیال میں اس کا
بنیادی سبب یہ ہے کہ بیشتر قدامت پسند تہذیبیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔
ان کی نظر میں بہتر یہ ہے کہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فروغ کی کوشش
کی جائے۔ اس کوشش میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ اس ذیل میں جاپان ایک ایسی مثال
ہے جسے بنیاد بناکر کئی پس ماندہ تہذیبیں اپنے لیے نیا جہان پیدا کرسکتی ہیں۔ جاپان
نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرکے اس نے ترقی کی
متعدد منازل طے کی ہیں اور اب وہ عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جاپان
نے آزاد معیشت کو فروغ دیا ہے، جمہوریت کو اپنایا اور اس کے باوجود مغرب سے یکسر جدا
تہذیبی شناخت برقرار رکھی ہے۔ چین بھی ابھرتی ہوئی غیر مغربی معیشت ہے۔ روس کا شمار
بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو غیر مغربی جدیدیت کی عمدہ مثال ہیں۔ روس کے لیے ابتدا
ہی سے شناخت کا مسئلہ موجود رہا ہے۔ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ مشرقی ملک ہے یا
مغربی۔ مغربی دنیا اسے اپنا حصہ بنانے کے معاملے میں کبھی سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔
مغرب نے جس دور میں بیرون ملک نوآبادیاں بنانے پر توجہ دی،
فطری علوم کو پروان چڑھایا اور روشن خیالی اپنائی اسی دور میں آرتھوڈوکس تہذیب اندرونی
فروغ کی جانب مائل رہی۔ اقدار کے معاملے میں اس نے بازنطینی تہذیب کے بجائے روم کی
سلطنت پر انحصار کیا۔ ظاہر ہے کہ مشرق سے روس کا فاصلہ بھی بڑھ گیا۔ ترکی کا مسئلہ
یہ ہے کہ وہ دو تہذیبوں کے سنگم پر کھڑا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کا مقام غیر معمولی
رہا ہے، مگر جدید دور میں اس نے مغرب کو بہتر آپشن کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ ترک زبان
رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ مغرب کی اقدار کو نمایاں طور پر اپنایا گیا ہے۔ ترک
سیاست اور معیشت میں فوج کا کردار کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ اب بھی فوج تمام معاملات
پر حاوی ہے۔ ترکوں نے جدید مغربی لباس کو بھی اپنالیا ہے۔ ترکی یورپی یونین کا حصہ
بننے کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا چکا ہے۔ ترکی کا معاملہ بہت واضح ہے کہ وہ مغرب کا
حصہ بننا چاہتا ہے۔ یورپی یونین کا حصہ بننے کی صورت میں ایران پر بھی دباؤ بڑھ جائے
گا۔ swing civilization کے حامل کسی بھی ملک کے لیے
کسی برتر تہذیب کا حصہ بننے کی راہ اسی وقت ہموار ہوتی ہے جب تین شرائط مکمل کی جائیں۔
· سب سے پہلے تو اس ملک کی اشرافیہ ایسا کرنے
کے لیے تیار ہو،
·
دوسرے یہ کہ اس فیصلے یا ارادے کو عوام کی حمایت حاصل ہو
· اور تیسرے یہ کہ جس تہذیب کا حصہ بننے کی تیاری
کی جارہی ہے اس کی اشرافیہ بھی اس معاملے کو قبولیت کی سند دے۔
ہنٹنگٹن کے تصورات نے خاصا ہنگامہ کھڑا کیا۔ ان سے اختلاف
کرنے والے بھی کمر کس کے میدان میں آگئے۔ بہت سے سرکردہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال
یہ تھا کہ ہنٹنگٹن نے کہیں سے کوئی اشارہ پاکر یہ شوشہ چھوڑا ہے! اختلاف کرنے والوں
کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ تہذیبی بنیاد پر عالمی مناقشوں کا جواز پیش کرنا تاریخی
حقائق سے درست ثابت نہیں ہوتا۔ ایک ہی تہذیب سے وابستہ ہونے کے باوجود یورپی ممالک
نے دو عالمگیر جنگیں لڑی ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی بھرپور کوشش
کی ہے۔ ہنٹنگٹن کے نظریے کے مطابق چین اور مشرق بعید کے بیشتر ممالک ایک ہی تہذیب کا
حصہ ہیں لہٰذا ان کے مابین مخاصمت کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے
کہ ویت نام اور دوسرے بہت سے ممالک اب بھی چین سے خوفزدہ ہیں۔ ویت نام خاص طور پر قابل
ذکر ہے جس نے اب بھی خاصی بڑی فوج رکھی ہوئی ہے۔ مسلم دنیا بھی اب تک منتشر چلی آرہی
ہے۔ پاکستان، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر
اسلامی ممالک اپنی اپنی ترجیحات کے تحت جی رہے ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات کسی واضح تہذیبی
رشتے کی جانب اشارہ نہیں کرتے بلکہ اس سے کہیں دور جاکر یہ سب اپنے اپنے "تکوینی"
مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے علاحدہ بلاکس سے وابستگی رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت اور جاپان نے اپنی تاریخی اور تہذیبی روایات کے برعکس
جمہوریت کو عمدگی سے اپنایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ دیگر تہذیبوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا
ہے، لیا جاسکتا ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو کسی بھی دوسری تہذیب سے وابستہ کسی بھی ملک
سے معاملات طے کرتے وقت حکومت کی نوعیت یا سیاسی نظام پر خاصا زور دیتے ہیں۔ بھارت،
جاپان اور روس اس کی واضح مثال ہیں۔
11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بہت سوں کو محسوس
ہوا کہ ہنٹنگٹن نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل درست تھا۔ افغانستان اور عراق پر جنگ تھوپنے
کے عمل کو تہذیبی ٹکراؤ سے تعبیر کیا گیا۔ 1995 سے 2004 تک یورپی یونین میں توسیع کی
جاتی رہی۔ مشرقی یورپ کے آرتھوڈوکسی کو چھوڑ کر کئی ممالک مغربی یورپ کے مرکزی دھارے
کا حصہ بننے کی جانب مائل ہوئے۔ جرمن جغرافیہ دان البرٹ کولب کے مطابق قومی تاریخ کی
تشکیل میں مذہب سے کہیں بڑھ کر معاشرت اور معیشت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہنٹنگٹن کا سوانحی خاکہ
سیمیوئل فلپس ہنٹنگٹن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں
نے تاریخ اور سیاست کے حوالے سے علمی حلقوں میں تہذیبوں کے تصادم کو پروان چڑھانے میں
مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 18 اپریل 1927 کو پیدا ہونے والے ہنٹنگٹن نے علمی محاذ پر
بھرپور زندگی بسر کی ہے۔ انہیں جمہوری اور فوجی حکومتوں کے مابین کشمکش سے متعلق امور
کا ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 1968 میں ایک متنازع مضمون میں مشورہ دیا تھا کہ
ویت نام میں امریکا نواز عناصر کو مستحکم کرنے لیے دیہی علاقوں پر بمباری کی جائے۔
اسی زمانے میں انہوں نے شریک مصنف کی حیثیت سےThe
Governability of Democracies لکھی۔
امریکا کے ٹرائی لیٹرل کمیشن نے یہ رپورٹ 1976 میں شائع
کی۔ ہنٹنگٹن کی شہرت کا آغاز 1960 کی دہائی سے ہوا جب ان کی کتاب Political
Order in Changing Societies شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں
نے سیاسی مفکرین کی اس رائے کا جواب پیش کیا تھا کہ دنیا بھر میں نوآبادیاتی تسلط سے
نجات پانے والے ممالک میں سیاسی اور معاشی اصلاحات تیزی سے نافذ ہوں گی۔
1970 کی دہائی میں ہنٹنگٹن نے اپنے سیاسی نظریات
کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کئی تجربے کیے۔ انہوں نے ہر طرح کی حکومت کے ساتھ
کام کیا۔ برازیل سمیت کئی ممالک کی حکومتوں کو انہوں نے لبرل ڈیموکریسی کی طرف جانے
کے معاملے میں خبردار کیا تاکہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں۔ ہنٹنگٹن کے نظریات
پر تنقید بھی بہت ہوئی۔ سیاسی مفکرین کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کبھی غیر منطقی نوعیت
کی باتیں کرتے ہیں۔
ہنٹنگٹن کو حقیقی شہرت 1996 کی کتاب Clash
of Civilizations سے ملی۔ اس کتاب نے انہیں متنازع
مصنفین کی اگلی صف میں کھڑا کردیا۔
ہنٹنگٹن کی کتابیں
ü THe Soldier and the State: The Theory and Politics of Civil-Military
Relations (1957)
ü The Common Defense: Strategic Programs in National Politics (1961)
ü Political Order in Changing Societies (1968)
ü American Politics: The Promise of Disharmony (1981)
ü The Third Wave: Democratization in the Late Twentieth Century (1991)
ü The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (1996)
ü Who Are We? The Challenge to
America's National Identity (2004)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے