اتوار، 27 جولائی، 2014

An Observation on Two Ideological Islamic States ایک نظر – دو نظریاتی اسلامی ریاستوں پر

ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ/جنوری، فروری 2014، شمارہ 22 اور 23
ایک نظر– دو نظریاتی اسلامی ریاستوں پر An Observation on Two Ideological Islamic States


لمحہ فکریہ

ایک نظر – دو نظریاتی اسلامی ریاستوں پر

ابو الحسن

اسلامی جمہوریہ پاکستان – یہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں مختلف طرزِ ہائے حکومت اور ان کی ذیلی شکلیں آزمائی گئیں ۔ جمہوریت (Democracy)، اشرافیت (Aristrocracy)، عدیدیت (Oilgarchy) ، ملوکیت (Monarchy)، آمریت (Dictatorship)، مذہبی حکومت (Theocracy) ، لبرل اور سیکولر حکومت اور ایک عدیم النظیر خلافت راشدہ ۔ پاکستان کا طرزِ حکومت ان سب سے ماوراء ہے۔ اردو، فارسی، عربی اور کسی اور زبان میں اس کے شایانِ شان کوئی لفظ نہیں ایک نئی اصطلاح ڈھالنی پڑتی ہے۔ یونانی زبان کا ایک لفظ Klept بمعنی چور ہے اس سے انگریزی لفظ Kleptomania نکالا گیا۔ ایک معتبر انگریزی ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں۔
An Irresistable Tendency to Theft in Persons who are well to do.
خوشحال لوگوں میں چوری کا بے قابو رجحان۔
کیا پاکستان میں رائج طرزِ حکومت کے لیے کلپٹوکریسی سے بہتر نام سوچا جا سکتا ہے؟ ہم اردو میں اس کو "دزدیت" کہہ سکتے ہیں۔ دزد فارسی میں چور کو کہتے ہیں، اردو میں دزدیدہ نگاہی، دزدِ حنا کے الفاظ مستعمل ہیں۔ ملک کے محسود ملوک اشرف و اشراف و مشرف، معظم فی الدین و الدنیا اور ان کے منظور نظر کی مال داری اور زرداری سے کون واقف نہیں۔ ان میں اقتدار کے تخت نشین بھی ہیں روحانی دنیا کے سجادہ نشین بھی۔ چوری اور سینہ زوری کرنے والے روحانی اور دنیاوی پیشوا اگر چورنہیں تو کیا چور کے سر پر دو سینگ ہوتے ہیں؟ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اراکین اور ارباب حل و عقد پر ٹیکس چوری، رشوت خوری، خورد برد، غبن، جعلی ڈگری رکھنے، انتخابات میں دھاندلی کرنے وغیرہ کے سر عام ببانگِ دہل الزام لگتے رہے ہیں اور لاکھوں کی چوری ان خاندانی موروثی چوروں کے شایان شان نہیں۔ یہ اربوں کھربوں کے الٹ پھیر کے مشاق چور ہیں۔
اور پھر کہا جاتا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور صحابہ کرام کی قائم کردہ مدینہ کی پہلی نظریاتی ریاست کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی اسلامی ریاست ہے۔ نظریاتی اور واقعاتی طور پر یہ اس درجہ کا جھوٹ ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنا۔ جھوٹ کی تکرار جھوٹ کا عقیدہ بنا دیتی ہے۔ دونوں ریاستوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ دونوں ریاستیں ہیں۔ باقی ہر معاملہ میں وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فرعون کی بھی ایک حکومت تھی وہ حکمران تھا، حضرت عمر کی بھی ایک حکومت تھی وہ بھی حکمران تھے، اس اشتراک کے قطع نظر دونوں حکمران اور ان کی حکومتیں ایک دوسرے کی ضد تھیں، گل و خار میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں نباتاتی پیداوار ہیں دونوں کے متضاد خواص سے ہر ایک واقف ہے۔
مدینہ کی ریاست کے بانی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم تھے معصوم عن الخطا تھے۔ وحی الٰہی کی ہدایت سے بہرہ ور تھے ان کے جانشین ان کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے عقیدہ سے علم کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ ان کا دین علم کی یقینیات پر تھا وہاں کے لوگ افلا تعقلون، افلا تتفکرون، لعلھم یفقھون، افلا یتدبرون کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اولوا الالباب اور اولی الابصار تھے۔
مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد عقیدہ توحید اور اس کے تقاضوں کی تکمیل پر تھی اس عقیدہ کی بنیاد بھی تعقل و تفکر تھی۔ قرآن نے ان کے دلائل دیئے اور دعوت فکر دی۔ عقل و حواس کی خدا داد نعمتوں کی نا قدری پر قرآن نے اوّلین مخاطبین سے سورہ اعراف آیت 179 میں فرمایا :
وَلَقَدۡ ذَرَأۡنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلۡجِنِّ وَٱلۡإِنسِۖ لَهُمۡ قُلُوبٞ لَّا يَفۡقَهُونَ
بِهَا وَلَهُمۡ أَعۡيُنٞ لَّا يُبۡصِرُونَ بِهَا وَلَهُمۡ ءَاذَانٞ لَّا يَسۡمَعُونَ بِهَآۚ
أُوْلَٰٓئِكَ كَٱلۡأَنۡعَٰمِ بَلۡ هُمۡ أَضَلُّۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡغَٰفِلُونَ ١٧٩
"اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا یعنی بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، ان کے پاس عقل ہے لیکن اس سے سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، کان ہیں مگر سنتے نہیں وہ عقل و حواس کھو کر چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے زیادہ کھوئے ہوئے، ایسے ہی لوگ ہیں جو سر تا سر غفلت میں ڈوب گئے۔"
مدینہ کے حاکم دنیاوی معاملات میں مقتدر تھے، دین کے معاملات میں جانشین رسول معلم تھے، محتسب تھے، مفتی تھے، الآمرون بالمعروف و الناھون عن المنکر تھے، والحافظون لحدود اللہ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو اطاعت رسول کا حکم دیا۔ فرمایا: مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدۡ أَطَاعَ ٱللَّهَۖ (النساء : 80 ) اور سنہ 10 ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر سورہ مائدہ کی آیت 3 کے ایک حصہ میں فرمایا:
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ
نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِين
ٗاۚ
"آج کے دن میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے پسند کر لیا کہ دین الاسلام ہو۔" آیت کے شروع میں جو احکام دیئے گئے ان میں اسلام سے پہلے ادیان میں جو عقائد و احکام نہایت سخت اور تنگ تھے انہیں ہٹا دیا گیا اور وہم پرستی کے عنصر سے دین کو پاک کر دیا گیا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جن عقائد و اعمال کو نیکی قرار دیا وہی نیکی ہیں معروف ہیں اور جن عقائد و اعمال کو معصیت، اثم ، عدوان، منکر قرار دیا ان سے اجتناب مومن کی نشانی ہے اور دین میں رخنہ اندازی اور انحراف کے خود فریبی کے اندازِ فکر اور طرزِ عمل کوبدعت قرار دے کر ان سے اجتناب کی تاکید فرمائی گئی۔ پہلی اسلامی ریاست میں جن چیزوں سے اجتناب کیا جاتا تھا دوسری نظریاتی ریاست میں ان ہی کا ارتکاب باعث ثواب سمجھا جا رہا ہے۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ وہم و جہل جب علم و ایمان کا روپ دھار لیں تو ان چوہوں کی طرح ہیں جو انسانی دماغ کے پنجروں میں داخل تو ہوجاتے ہیں نکل نہیں سکتے ان چوہوں کے پنجروں کی طرح دماغ رکھنے والوں پر کوئی دلیل کام نہیں کرتی ان کی دلیل ویسی ہی ہے جیسا کہ شیکسپیر نے کہا تھا: "میرے پاس سوائے عورت کی دلیل کے دوسری دلیل نہیں ……….. میں اسے ایسا سمجھتی ہوں کیونکہ میں اسے ایسا سمجھتی ہوں" ان کے آگے دلیل پیش کرنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے یا بہروں کو بھیرویں [1]سنانا۔ تعقل، سماعت و بصارت کی قوتوں کو ان پنجروں کے چوہے اپنی غذا سمجھ کر چٹ کر جاتے ہیں، دین کے یقین اور وہم و جہل کے گمان میں کیا فرق ہے؟ وہی جو انسانی اعمال اور بندر کے انسانی اعمال کی نقل میں ہے۔ انسانی اعمال فطری ہیں بندر کا انسانی اعمال کی نقل کرنا غیر فطری ہے اور خود اس کی فطرت کا مسخ کرنا ہے۔
پاکستان کے موجود حکمرانوں کا مختصر ذکر ہو چکا۔ دوسری نظریاتی اسلامی مملکت کا قیام ان لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جنہیں اسلامی ریاست کی ہیئت ترکیبی، فکری اساس، تشکیل کے بنیادی عوامل و عناصر کے طریقہ کار کا شعور نہ تھا  دین کے عقائد کی بجائے ان کے ہاں صرف موروثی روایاتی خوش اعتقادی تھی۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں کوئی عالم دین نہیں تھا۔ کسی مخلص، لائق و فاضل با کردار سیاست دان کی اپنے موقتی درپیش مقاصد میں کامیابی، علم دین سے بہرہ مندی اور تاریخ کے الٰہی قوانین کے شعور کی دائمی رہنمائی کا بدل نہیں اور آج بھی کسی سیاسی جماعت میں کوئی عالم دین نہیں ہر جماعت میں ایک ہی شخصیت میں علامہ، مولانا، مفتی، مفکر، فلسفی، دانشور،قانون داں وغیرہ کی صفات جمع ہوگئی ہے۔ ملک میں جماعتوں اور انجمنوں کی کمی نہیں اور پھر ہر جماعت کا ہر قائد اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ ایک نئی مصیبت آن پڑی کہ بھانڈ، بہروپیے، مسخرے، قصہ گو، گویوں، جہلا کو دشمنان اسلام اور ان کے مقامی آلہ کار بعض میڈیا والوں نے مسلمانوں میں با وقار با اثر شخصیات قرار دے کر جاہل عوام کے ذہنوں پر ان کا سکہ بٹھانا شروع کیا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا
چشم دلال جنس رسوائی
دل خریدار ذوق خواری ہے
اکثر میڈیا والے جنس رسوائی کے دلال اور ذوقِ خواری کے خریدار ہیں اور اس سودے میں کروڑوں کے وارے نیارے ہیں ان کا مقصدِ حیات اور ان کا معبود پیسہ ہے۔ جو پیرہن ان کا ہے مذہب کا کفن ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسلام کی پیروی کی دعویدار ہے لیکن اسلام سے عملاً نکلے ہوئے ان مسلمانوں کو اسلام سے وہی نسبت ہے جو کعبہ سے نکالے گئے بتوں کو کعبہ سے تھی جن کے متعلق غالبؔ نے کہا تھا
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
مدنی ریاست کے لوگوں کا دین علم کی یقینیات پر تھا۔ پاکستانی ریاست کے لوگوں کا دین ظنون، اوہام، اہواءِ نفس، آباء پرستی پر مبنی ہے۔ تاریخِ ادیان کے ایک دور کو آباء پرستی Ancestor Worship کا دور کہا جاتا ہے۔ اس کے اثرات ہر دور میں ظاہر ہوتے رہے اور اب بھی ہیں۔ آنے والی نسلیں آباء و اجداد کے احترام میں ان کے عقائد و اعمال کو اپنی گمراہیوں کا جواز بناتی رہیں۔ قرآن نے دعوت انبیاء کے انکار کے لیے کافروں کا یہ قول نقل کیا ہے۔ وَإِذَا فَعَلُواْ فَٰحِشَةٗ قَالُواْ وَجَدۡنَا عَلَيۡهَآ ءَابَآءَنَا (اعراف : 28) اور  وَجَدۡنَآ ءَابَآءَنَا كَذَٰلِكَ يَفۡعَلُونَ (شعراء : 74) نَتَّبِعُ مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآۚ ﭿ (لقمان : 21)۔ ہمارے معاشرے کے مروّجہ مذہب پر اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے۔
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا
اس طرز فکر کو قرآن نے اس طرح بھی بیان فرمایا :
أَفَرَءَيۡتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ وَأَضَلَّهُ ٱللَّهُ عَلَىٰ عِلۡمٖ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمۡعِهِۦ
وَقَلۡبِهِۦ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِۦ غِشَٰوَةٗ فَمَن يَهۡدِيهِ مِنۢ بَعۡدِ ٱللَّهِۚ أَفَلَا
تَذَكَّرُونَ ٢٣
 (الجاثیہ : 23)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔ اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔"
اسلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ وحدہ لا شریک کی ذات پاک قاضی الحاجات ہے، مسبب الاسباب ہے، اس کے اسماء الحسنیٰ میں ضار اور نافع ہیں۔ سورہ یونس آیت 106 میں حکم ربانی ہے :
  وَلَا تَدۡعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا
يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَۖ فَإِن فَعَلۡتَ فَإِنَّكَ إِذ
ٗا مِّنَ ٱلظَّٰلِمِينَ ١٠٦
"اللہ کے سوا کسی کو نہ پکار اس کے سوا جو کوئی ہے وہ نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر تونے ایسا کیا تو یقیناً تو بھی ظلم کرنے والوں میں گنا جا ئے گا۔"
اور اللہ نے دو بار فرمایا : لَعۡنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ (اعراف : 44 ، ھود :18)
قرآن نے سورہ فاطر آیت 32 میں مسلمانوں کے تین طبقے قرار دیئے۔
ثُمَّ أَوۡرَثۡنَا ٱلۡكِتَٰبَ
ٱلَّذِينَ ٱصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۖ فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٞ لِّنَفۡسِهِۦ وَمِنۡهُم
مُّقۡتَصِدٞ وَمِنۡهُمۡ سَابِقُۢ بِٱلۡخَيۡرَٰتِ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۚ ذَٰلِكَ هُوَ
ٱلۡفَضۡلُ ٱلۡكَبِيرُ ٣٢
"اور پھر پچھلی قوموں کے بعد ہم نے اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو کتاب الٰہی (قرآن) کا وارث ٹھہرایا جنہیں ہم نے اپنی خدمت کے لیے اختیار کر لیا (یعنی مسلمانوں کو) پس ان میں ایک گروہ تو ان کا ہے جو اپنے نفوس پر ترک اعمال حسنہ و ارتکاب معاصی سے ظلم کر رہے ہیں دوسرا ان کا جنہوں نے معاصی کو ترک اور اعمال حسنہ کو اختیار کیا۔ خدا پرستی اور ترک نفسانیت میں ان کا درجہ درمیانہ اور متوسطین کا ہے، تیسرے وہ جو اذنِ الٰہی سے تمام اعمال حسنہ و صالحہ میں اوروں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں اور یہ خدا کا بڑا ہی فضل ہے۔"
ہمارے ملک میں طبقہ اول کے مسلمانوں کی بہتات ہے طبقہ دوم کے مسلمان بھی نظر آ جاتے ہیں۔ معلوم نہیں طبقہ سوم کے مسلمان ہیں تو کہاں ہیں؟
مسلمانوں سے اسلام کا مطالبہ توحید پر عمل کا ہی نہیں، اللہ کے رسول سے محبت اور ان کی اطاعت کا بھی ہے۔ محبت کی روح اطاعت ہے جو کسی حکم کی تعمیل میں ہو یا رضاکارانہ محبوب کے پسند کے اعمال کی انجام دہی میں ہو۔ محبوب کے احکام سے انحراف، سرتابی، دعوائے محبت کے ساتھ ممنوعات سے رغبت اور ان کا ارتکاب، محبت میں غلو سب غداری کی تعریف میں آتے ہیں۔ عیسائیوں کا ان کے پیغمبر کی محبت و تعظیم میں غلو ان کی بشریت پر قانع نہ رہ سکا، انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا۔ رومی بت پرستی نے عیسائیت کو مسخ کر ڈالا۔ بت پرستی کا مکروہ چہرہ شخصیت پرستی کے دلکش نقابوں میں ظاہر ہونے لگا تو عیسائیوں نے اپنے علماء و مشائخ کو قولاً نہیں عملاً اپنا خدا بنا لیا۔ سورہ توبہ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا :
 ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ
وَرُهۡبَٰنَهُمۡ أَرۡبَاب
ٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِ
"ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو پروردگار بنا لیا۔"
پروردگار بنا لینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انہیں رب السمٰوات و الارض کہتے ہیں مطلب یہ کہ یہودیوں نے اپنے فقیہوں اور عیسائیوں نے اپنے پوپ اور اس کے مقرر کیے ہوئے پادریوں کو دین کے بارے میں جو منصب دے دیا ہے وہ اپنے زاہدوں اور درویشوں کی نسبت جیسا کچھ اعتقاد رکھتے ہیں وہ فی الحقیقت انہیں مثل پروردگار بنالینا ہے۔ شخصیت پرستی کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان ہونی، محال، غیر فطری خصائل وافعال کو اپنے ممدوح سے منسوب کریں اور ان سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو متبرک اور مقدس سمجھ کر تعظیم کریں اور ان کے ہر قول کو حکم ربانی سمجھیں۔ سنن ترمذی و بیہقی میں ہے کہ صحابی حضرت عدی بن حاتم کی روایت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اس آیت کا یہی مفہوم بتلایا۔ قرآنی تعلیمات کا جب تک اثر قائم رہا مسلمان شخصیت پرستی کی لعنت سے محفوظ رہے۔
آسودگانِ خاک سے انجاحِ مقاصد کے لیے رجوع کیا جاتا ہے۔ انہیں مسبب الاسباب، قاضی الحاجات مان کر اولاد کی پیدائش، رزق میں کشادگی، دفع بلیات کے لیے استعانت کی جاتی ہے اور پھر اگر نماز پڑھتے ہیں تو ایاک نعبد و ایاک نستعین بھی پڑھ لیتے ہیں۔ اللہ سے بھی جھوٹ بولنے میں بے باک ہیں۔ اہل ثروت و اقتدار اور ان کی ناز پروردہ بیگمات نے کبھی عرق گلاب سے غسل نہیں کیا ہوگا۔ مگر قبر کے پتھروں کو عرقِ گلاب سے غسل دیا جاتا ہے پھر قرآنی آیات سے مزین چادروں سے قبر کی ستر پوشی کی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے عقل پر اتنے پتھر پڑے کہ وہ بھی پتھروں تلے دفن ہوگئی۔
ہمارے علماء و مفکرین، دانشور و دعویدارانِ حب نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی چشم دور بیں کی رَسائی سے ماوراء ایک وصف نبی ہے جو صدق و اخلاص کی خورد بین سے ہی دیکھا جا سکتا ہے وہ ہے اللہ کے رسول خاتم الانبیاء، رحمۃ اللعالمین، شافع محشر کی تمتعات دنیا سے بے رغبتی، سادگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو کبھی بھوک ستاتی تھی اور کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا، ہمارے علماء کو شکم سیری سے بد ہضمی اور نفخ کی شکایت ہوتی رہتی ہے۔
دوسری نظریاتی اسلامی ریاست میں دین ایک تماشہ ہے، لہو و لعب ہے، خرافات ہے، اس لیے اللہ کا حکم ہے :
وَذَرِ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَهُمۡ
لَعِب
ٗا وَلَهۡوٗا وَغَرَّتۡهُمُ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَاۚ (الانعام :70)
"ایسے لوگوں سے کنارہ کش رہو جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔"
مسخرہ عالم یا منافق سیاستدان جیسے نیچ سے نیازمندانہ یا خود غرضانہ تعلق رکھنے والا اس آیت کے حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔ الغرض غور کریں پاکستانی قوم کردار کے بحران Crisis of character میں مبتلا ہے اور کردار کا خمیر مذہبی احکام کی پابندی، ضابطہ اخلاق کی پاسداری اور ہوش و حواس کی یاری سے اٹھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان اسلام کا قلعہ کیوں کر ہے۔ شاید اس لیے کہ
دل کی جراحتوں سے کھلے ہیں چمن چمن
اور اس کا نام فصل بہاراں ہے آج کل



[1]   ایک راگنی جو صبح کے وقت گائی جاتی ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے