اتوار، 12 مئی، 2013

کامیابی و ناکامی کا پیمانہ، سورة العصر کی روشنی میں

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

کامیابی و ناکامی کا پیمانہ، سورة العصر کی روشنی میں

محمد اسماعیل شیرازی

( وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ )


'' قسم ہے زمانہ کی بے شک انسان خسارہ میں ہے ماسوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے اور آپس میں حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔ ''

اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ انسان خسارہ میں ہے اس کے کیا معنی ہیں ؟ آیا کہ یہ خسارہ دنیاوی ہے یا پھر ابدی زندگی کا ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے بتائے فرا مین کو پس پشت ڈال دے اور دنیا میں اپنی من مانی سے زندگی بسر کرے تو یقینا ایسا شخص کل حشر کے میدان میں اپنی خود سری کے باعث بہت بڑا خسارہ اٹھائے گا ۔ اس کے بعد اللہ رب العزت فر ما تے ہیں کہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے۔ ایمان اور نیک اعمال کیا ہیں ؟ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ انسان صرف اور صرف لا الااللہ پڑھ کر باقی واجبات کو چھوڑ دے اور یہ سمجھ لے کہ میں ایمان لا یا اور کامیاب ہو گیا تو ایسا ممکن نہیں کیو نکہ کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ رب جلیل نے یہ بھی انسان کے لیے شرط لازم قرار دی ہے کہ نیک اعمال کرے اور صالح بندہ بن کر اپنی زندگی بسر کرے ۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ آپس میں حق اور صبر کی تلقین کی۔ حق یہ کہ بندہ اللہ کا حق ادا کرے اور دنیا میں بھی کسی کا حق نہ مارے حق کے ساتھ ساتھ ٹھیک ٹھیک معاملات نبھائے اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ انسان پر کوئی آزمائش دے تو اس پر بجائے نا شکری اور پریشانی کا اظہار کرے بلکہ انتہائی صبر کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو کامیابی و کامرانی سے نوازتا ہے ۔
اس سورة مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے '' توضیح القرآن ''میں مو لانا عبدا لرشید لکھتے ہیں :
'' انسان سراسر نقصان میں ہے ، اس کی عمر کا ہر لمحہ قیمتی ہے ، مگر یہ اسے بے فائدہ ضائع کر تا ہے ۔ ان میں پہلی دو یعنی خسران و محرومی سے بچے رہنے والے خوش نصیب انسانوں کی چار صفات کا یہاں بیان ہو ا ہے ۔ ان میں پہلی دو یعنی ایمان اور عمل صالح صفات ذاتی و انفرادی اور بطور کمال لازم کے ہیں ، باقی دو یعنی تواصی بالحق اور تواصی بالصبر صفات ملی و اجتماعی بطور کما لات متعدی کے ہیں ۔اسلام تو انفرادی و اجتماعی ، ذاتی و ملی دونوں قسم کی اصلاح ایک ساتھ چاہتا ہے ۔ اور جو خوش قسمت حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہوں گے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے توان کانام صفحات دہر پر زندہ جاوید رہے گا ،اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے وہ بطور باقیات الصالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے ، امام شافعی نے فر مایا کہ اگر قرآن پاک میں صرف یہی ایک سورت نازل کر دی جاتی تو سمجھدار بندوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی ۔''
قارئین کرام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بآور کرا دیا ہے کہ اگر ان چار صفات کو اپنا ئے گا تو وہ میرے مقرب بندوں میں سے ہو گا اور اگر کو ئی ان میں کسی ایک یا دو صفات کو رد کر دے اور باقی پر عمل پیرا ہو تو وہ لازماً خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا ۔
جیسا کہ دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف کشت و خون ہو تا ہو ا نظر آتا ہے ۔اس کی وجہ کیا ہے؟ اصل میں امت مسلمہ حق اور صبر سے بالکل دور ہو چکی ہے آج ہم ایمان کا اقرار تو کرتے ہیں مگر دل ایمان کی لذت سے محروم ہیں اگر نیکی کا کوئی عمل کر لیں تو دل میں ایک تڑپ فوراً ہی کروٹ لیتی ہے کہ لو گ یہ کہیں گے فلاں آدمی بڑا نیک متقی اور پرہیز گار ہے در اصل ہم نیکی اور پر ہیز گاری اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے نہیں کرتے بلکہ دنیا کو دکھانا مقصو د ہے ۔اپنے بھائی کے حق کو دبانے کی ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بھی اس کی فلاں چیز میرے پاس آجائے چا ہیے وہ ناحق طریقے سے ہی کیوں ہو ۔
آج ہم اس فانی دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ اپنے رحیم و کریم آقاکو بھو ل بیٹھے ہیں اور حق کی راہ سے کو سوں دور ہو چکے ہیں ، بلکہ یہاں یہ کہنا زیادہ معقول ہو گا کہ حق اور صبر ہم سے دور نہیں ہو ئے بلکہ ہماری بد اعمالی کی وجہ سے رب کائنات نے ہم سے ہدایت کو دور کر دیا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ ربّ کریم ہمیں کامیابی کے ان عناصرِ اربعہ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ کیونکہ اس کا نتیجہ حقیقی کامیابی وکامرانی ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے