اتوار، 2 ستمبر، 2012

تصوف میں غیر اسلامی ادیان کی آمیزش

الواقعۃ شمارہ ٣ 

محمد عالمگیر 

مترجم : ابو عمار محمد سلیم

شیخ عیسیٰ نورالدین اور حلول کا تصور 

 فرتھیوف شوؤن ( Frithjof Schuon ) عرف شیخ  عیسیٰ نورالدین (١٩٩٨- ١٩٠٧)۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے worldwisdom.com۔  ان کی زندگی کی تفصیل اور اسلامی نقطہ نظر سے گمراہ کن خیالات کو ان صفحات میں ظاہر کرنا ممکن نہیں ۔ یہ موجودہ دور کے ایک صوفی اور صاحب قلم حضرت تھے۔انہوں نے اپنا پورا زور اس نظریہ کی اشاعت پر صرف کیا کہ تمام مذاہب کی ایک ماورائی وحدت ہے۔
ان کے مطابق مذاہب کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ در اصل پردے ہیں۔ اگر ان پردوں کو اٹھا دیا جائے تو تمام مذاہب ایک ہو جاتے ہیں۔ اس خیال کا پرچار کرتے ہوئے وہ ایک قدم اور آگے بڑھے اور یہ بیباکانہ بیان دیا کہ خدا انسان بن گیا تاکہ انسان خدا بن جائے (استغفراللہ)۔ یہ سچ ہے کہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے حوالے سے تمام مذاہب میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے، اور صرف چھوٹے ذہن کے لوگ ہی اس بات پر کہ کھانے پینے کے آداب،  کپڑے پہننے کے اطوار، عبادات کے طریقے، مذہبی رسوم اور اس طرح کی چیزوں پر آپس میں جھگڑتے ہیں۔ یہ اختلافات بذات خود بڑا فساد نہیں ہیں اس لیے معاشرے میں عموماًان پر آپس میں سمجھوتا ہو جاتا ہے ، اور ان کو قبول کرلیا جاتا ہے۔  حلانکہ یہ اختلافات بھی ان کے مذاہب کے اعتقادات سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور ان تمام مذاہب کی بنیادی تعلیم کے ضمن میں یہ اختلافات حقیقی ہیں، ناقابل مصالحت ہیں اور ان پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا ہے۔

مغرب کے وہ صوفی جو دوسرے مذاہب سے اچھی چیزیں ڈھونڈھ کر اسلام میں داخل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے ایک نیا نظریہ قائم کیا ہے کہ خدا ئی منصوبہ کے تحت دنیا مختلف علاقوں میں تقسیم کی ہوئی ہے اور ان علاقوں میں سے ہرعلاقہ میں ایک خاص مذہب کوپھلنے پھولنے کی آزادی ہے۔ ان کی ایک منطق یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو جب ان علاقوں پر دوسرے مذاہب کے لوگ حملہ آور ہوئے پھر بھی ان علاقوں میں ان کا اپنا  مذہب اسی طرح صدیوں سے قائم و دائم چلا آرہا ہے۔یہ نظریہ اسلام کے مرکزی تعلیم سے متحارب ہے، جس کا کہنا ہے کہ انسان نے جب اللہ کے احکامات سے رو گردانی کی اور خاص طور سے توحید کے خلاف ہوئے تو اللہ نے اپنے پیغمبر بھیجے اور ہدایات نازل کیں تاکہ انسان اللہ کو اس طرح سمجھ سکے جس طرح اسے سمجھنا چاہئے۔  خدا کا انسان بن جانا ایک عیسا ئی نظریہ ہے جو ان کے نظریہ تجسیم کی پیداوار ہے ۔ اسی طرح انسان کا خدا بن جانا  ہندووںکے فلسفہِ نروان کا داعی ہے جس کے تحت انسان اللہ سے مل جاتا ہے اور آواگون کے دائمی چکر سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔

 شیخ عبدالواحد یحیٰ کا پیدائش اور موت کے چکر کا فلسفہ  

اوپر درج شدہ سلسلہ فلسفہ کی ایک اور شخصیت رِنے گِنوں ( Rene Guenon ) جو ١٨٨٦ء میں پیدا ہوئے اور ١٩١١ ء میں  شیخ عبدالواحد یحیٰ کے نام سے جانے گئے۔  انہوں نے ١٧ کتابیں لکھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی کتاب Introduction to the Study of Hindu Doctrines  ١٩٢١ء میں شائع ہوئی۔ یعنی ان کے اسلام قبول کرنے اور شیخ کے عہدے پر فائض ہونے کے دس سال بعد۔ اور اس سے اگلے چھ سال کے بعد ١٩٢٧ء  میں ان کی ایک اور زبردست کتاب منظر عام پر آئی جس کا نام تھا Man and His Becoming According to Vedanta  ۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ  ٩٢٩ ١ء میں اپنے کچھ ہمرازوں اور ساتھیوں کے اصرار پر انہوں نے فرانس میں ایک روایتی انداز کاMasonic Lodge کی بنیاد ڈالنے کے لیے رضامندی کا اظہار کر دیا ، جس کا نام ان کی ایک کتاب La Grande Triade   یعنی تین کا جوڑا کے نام پر رکھا گیا۔ اس لاج کے اولین بانی اس سے کچھ عرصہ بعد الگ ہو گئے، مگر یہ لاج آج بھی زندہ ہے اور Grande Lodge de France کا حصہ ہے۔  اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی  Symbolism of the Cross   جو ١٩٣١ء میں منظر عام پر آئی اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ١٩٤٥ء میں انہوں نےThe Reign of Quantity and the Signs of the Times لکھی۔ وہ ١٩٥١ء میں فوت ہوئے۔ ( ماخوذ از وکی پیڈیا) 

انہوں نے اپنی کتاب The Reign of Quantity and the Signs of the Times   میں لکھا :
 ''درحقیقت دنیا کا آخری وقت بار بار آسکتا ہے۔ اس لیے کہ مختلف دوران کے کئی چکر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اندر چکراتے رہتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہ تخمینہ مشابہت رکھنے والے دوسرے ادوار میں ہر درجہ پر لاگو ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہر مرتبہ آخر کی اہمیت ایک جیسی نہیں ہے، بلکہ جس دور کے آخر کی بات ہو رہی ہے وہ بہت اہم ہے اس لیے کہ یہ آخر پورے مَنوَنْتَر یا انسانیت کے وجود سے متعلق ہے۔ مگر پھر بھی یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آخر پوری کائنات کا اختتام ہے بلکہ دائمی بحا لی کے نظام کے تحت اس آخر کے بعد فوری طور پر ایک نئے منو نتر کی ابتدا ہوگی ۔''
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
'' اس موضوع پر ابھی ایک اور نکتہ کی وضاحت باقی ہے۔ مسلسل ترقی کے داعی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سنہرا دور ماضی میں نہیں بلکہ مستقبل میں ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ہمارے اپنے منونتر کا تعلق ہے ،  یہ دور ماضی میں تھا۔ اس لیے کہ یہ اولین دور سے متعلق ہے۔  ایک احساس یہ بھی ہے کہ یہ ماضی میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نظر نہ صرف  موجودہ منونتر پر رہے، بلکہ کائناتی نظام کے چکر کا تواتر پر  بھی ہماری نظر رہے ۔ اس لیے کہ جب مستقبل کی بات ہوگی تو وہ سنہرا دور ایک اگلے منونتر ہی میں ممکن ہے۔

  مَنْوَنْتَر 

اوپر درج کیے گئے اقتباس کو سمجھنے کے لیے منونتر کے مطلب کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ پورانوں یعنی ہندئووں کی مذہبی کتابوں سے اخذ کیا ہوا ایک دیو مالائی تصور ہے۔ وکی پیڈیا اس کے متعلق یہ کہتا ہے: 

منونتر یا منو و نتر یا منو کا دور۔ منو ہندئوں کے یہاں نسل انسانی کا بانی ہے۔ منونتر آفاقی وقت کی پیمائش کا ایک پیمانہ ہے۔ منونتردراصل منو اور انتر یعنی دور کا امتزاج ہے جس کا مطلب بنتا ہے منو کا دور یا اس کی زندگی کا دور ۔
  ہر منونتر ایک خاص منو کی تخلیق ہے اور اس کی حکومت کے زیر اثر ہے۔ اس منو کی تخلیق برہما نے کی ہے جو کہ خالق ہے۔ منو دنیا اور اس کی تمام چیزوں کی تخلیق اپنے دور میں خود کرتا ہے، جو اس کی زندگی تک قائم رہتا ہے۔ اس منو کی موت پر برہما ایک اور منو کی تخلیق کرتا ہے تاکہ یہ چکر جو سرشٹی کا چکر کہلاتا ہے چلتا رہے۔ اسی طرح وشنو بھی ایک نئے اوتار کو جنم دیتا ہے اور ایک نیا اِندر اور سات رِشیوں کا تقرر کرتا ہے ۔
ہندئووں کے وقت کے حساب سے ہر ١٤ منو اور ان کے منونتر مل کر ایک کلپا بنتا ہے جس کو جُگ بھی کہتے ہیں، جو  برہما کا دن ہوتاہے۔ ہر کلپا کے خاتمہ پر تمام چیزیں فنا ہوجاتی ہیں اور دنیا بھی ختم ہو جاتی ہے، اور آرام کے دور میں چلی جاتی ہے جسے برہما کی رات کہتے ہیں۔
اس عمل کے بعد برہما تخلیق کا عمل دوبارہ شروع کرتا ہے۔ اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر چلتا رہتا ہے۔ تخلیق کے ہر عمل کے بعد تباہی کا عمل شروع ہوتاہے۔ ان دونوں کاموں کی ذمہ داری ہندئوں کے دیوتا شیو پر ہوتی ہے۔ 
 سُوِیتا وَراہا کلپا (موجودہ کلپا ) کے ١٤ منو  
 پہلا منونتر :  سو یمبھو منو کا دور   دوسرا منونتر:  سو روچش منو کا دور تیسرا منونتر:  اُتم منو کا دور چوتھا منونتر:  تمش منو کا دور پانچواں منونتر:  رَیوت منو کا دورچھٹا منونتر:  چَکشُش منو کا دور ساتواں (موجودہ) منونتر:  ویوسو تھ منو کا دورآٹھواں (اگلا) منونتر:  ساورنی منو کا دورنواں منونتر:  دکشا ساورنی منو کا دور دسواں منونتر:  برہما ساورنی منو کا دور گیارہواں منونتر:  رُدْرا ساورنی منو کا دوربارہواں منونتر:  دھرما ساورنی منو کا دورتیرہواں منونتر:  رَوکیا یا دیو ساورنی منو کا دورچودھواں منونتر:  بَھوتا یا اِندرا ساورنی منو کا دور (ختم  اقتباس وکی پیڈیا )
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ہر منونتر کا دورانیہ ٠٠٠،٧٢٠،٣٠٦ برس کا ہوتاہے جو کہ ٧١ چترُجگ پر مشتمل ہے ۔ ہر  چترُجگ کا دورانیہ ٤٣٢٠٠٠٠ سال کا ہے اور ایک چترُجگ میں ٤ جُگ ہوتے ہیں، جن میں  ١٧٢٨٠٠٠ برس ستیہ جگ کا ، ١٢٩٦٠٠٠ تریتا جگ کا ،  ٨٦٤٠٠٠ برس دواپر جگ کا اور ٤٣٢٠٠٠ برس کالی جگ کا ہوتا ہے۔
مختصراً یہ کہ تخلیق ، خاتمہ اور تخلیقِ نو کا یہ لامتناہی چکر  اسی طرح ایک کلپا سے دوسرے کلپا تک جس کے اندر ایک منونتر سے دوسرے منونتر تک اور اس کے اندر چترُجگ سے چترُجگ تک اور اس کے اندر جگ سے جگ تک چکر در چکر مسلسل اور لگاتار چلتا رہتا ہے۔ گو کہ شیخ عبدالواحد نے اس چکر در چکر سلسلہ کو اپنی تحریر میں وضاحت سے ظاہر نہیں کیا ہے، مگر ما قبل میں دیے گئے ان کے اقتباس کودوبارہ پڑھیں جس میں ہم نے قوسین کے اندر اندراجات کا اضافہ کردیا ہے تاکہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے کہ شیخ صاحب کے ذہن میں کیا ہے :
درحقیقت دنیا کا آخری وقت (یعنی قیامت) کئی مرتبہ آسکتا ہے ( جو کہ کسی خاص مانو کے دور پر منطبق ہو) ۔  اس لیے کہ مختلف دوران کے کئی چکر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اندر چکراتے رہتے ہیں ( یعنی کلپائوں کے اندر  منونتر، منونتروں کے اندرچترجگ، اور چترجگوں کے اندر٤ جگ)۔اس لیے بھی کہ یہ تخمینہ مشابہت رکھنے والے دوسرے ادوار میں ہر درجہ پر لاگو ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہر مرتبہ آخر کی اہمیت ایک جیسی نہیں ہے، بلکہ جس دور سے وہ متعلق ہو اس پر منحصر ہے (اس لیے کہ ایک کلپا سے دوسرے کلپا تک کی تبدیلی بہت بڑی تبدیلی ہے بمقابلہ منونتر ، چترجگ اورجگ کی تبدیلیوں کے) ، آج کل جس دور کے آخر کی بات ہو رہی ہے وہ بہت اہم ہے اس لیے کہ یہ آخر پورے منو نتر یا انسانیت کے وجود سے متعلق ہے ( شائد اس لیے کہ یہ ساتویں منونترکا اکہترویں چترجگ کا چوتھا جگ ہے) ۔ گویا کہ اسے انسانیت کے زمانی وجود کا دوربھی کہہ سکتے ہیں ( جو ابھی اکہترویں چترجگ کے کالی جگ کا حصہ ہے) ۔ مگر پھر بھی یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آخر پوری کائنات کا اختتام ہے بلکہ دائمی بحالی کا جو اثر ہے وہ فوری طور پر اس آخر سے ایک نئے  منو نتر کے آ غاز ( سوارنی منو کے دور کا آغاز ہوگا جو کہ جاری  وراہا کلپا کا آٹھواں حصہ ہے) کو بحال کرے گا جو ایک دوسرے منو نتر کے دور کا ابتدا بن جائے گا۔
 وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
 ''ابھی ایک اور نکتہ کی وضاحت باقی ہے۔ ترقی کے داعی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سنہرا  دور ماضی میں نہیں تھا بلکہ مستقبل میں ہے ( یہاں مصنف ترقی کے داعیوں کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ اس قول پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ '' جیت سچ کی ہوگی'' جو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ آخر میں آکر سچ ہی جیتے گا)۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ہمارے اپنے منو نتر کا تعلق ہے ، ( اس کا سنہری دور) ماضی میں تھا۔ ( ایک خیالی تصور جس کی رو سے روحانی یا اخلاقی ترقی بے معنی ہو جاتی ہے ) اس لیے کہ یہ اولین دور سے متعلق ہے۔ ( ان کا اشارہ ستیہ جگ یا سچائی کے دور سے ہے جو موجودہ چتر جگ کا حصہ ہے)۔ ایک احساس یہ بھی ہے کہ یہ ماضی میں بھی ہے ( یعنی پچھلے چتر جگ کے ستیہ جگ میں جو ساتویں منونتر کا حصہ تھا) اور مستقبل میں بھی ( یعنی اس ستیہ جگ میں جو آٹھویں منونتر کا پہلا چترجگ میں ہوگا)۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریں صرف اس موجودہ منوونتر پر نہ رہے ( اس حالت کے قابل قبول ہونے کے لیے یہ قبول کرنا ضروری ہے کہ اس چکر در چکر منونتر اور چترجگ کا کوئی خاتمہ نہیں ہے) بلکہ اس کو تمام کائناتی نظام کے چکر یا دور تک بھی لے جایا جا ئے اس لیے کہ جب مستقبل کی بات ہوگی تو وہ سنہرا دور شائد ایک اگلے منونتر کے دور کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے ( یعنی ستیہ جگ جو آٹھویں منونتر کے پہلے چتر جگ میں وقوع پذیر ہوگا)۔ 
اس تمام بحث کو ہم مابعداطبیعیات میں ماورائی نظریہ کے بچائو کی مجبوری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، جو ایک مہمل اور لا یعنی بات ہے اور جو موجودہ دور میں سنہرے دور کی موجودگی کے رد کرنے پر مصرہے ۔ اس میں لفظ '' شائد'' کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ علم الیقین کا فقدان ہے اور اشارہ دیتا ہے کہ یہ ما بعدالطبیعیات کا ایک کھیل ہے۔ 

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اسلام کے فلسفہ کے تحت زندگی کی روانی ایک سیدھے خط کے مطابق ہے نہ کہ کسی گول چکر کے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان اور کائنات کی ایک آخری حد مقرر کر رکھی ہے اور ہر چیز اپنے آخر کی طرف رواں دواں ہے۔ جبکہ ہندئوں کا چکر نا ختم ہونے والی تخلیق ، تباہی اور پھر تخلیقِ نو کا پرچار کرتی ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق نہ کوئی پہلا کلپہ تھا ، اور نہ کوئی آخری کلپہ ہوگا۔ لہٰذا خالق اور مخلوق کے ہمیشہ قائم رہنے کا یہ نظریہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ بڑی آسانی سے اللہ اور اس کی تخلیق کے ایک (یعنی واحد وجود)  ہونے کو قبول کر رہا ہے، جہاں تخلیق صرف فریبِ نظر یعنی مایا بن کر رہ جاتی ہے۔ ( وحدت الوجود بھی اسی نظریہ کا ایک بدل ہے)۔ اور حقیقت یا سچائی کو لِیلا یعنی برہما کے دل بستگی کے کھیل سے مشابہت دی گئی ہے۔ جبکہ قرآن کریم کا فرمان ہے:( وما خلقنا السمٰوات والارض و ما بینھما لاعبین )سورة دخان ( ٣٨ : ٤٤)، یعنی ''ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے کھیل کے لیے نہیں بنایا ہے۔'' تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوفی شیخ ( یعنی شیخ عبدالواحد) کو اس فرمان قرانی کا علم نہیں تھا؟۔

موت کے بعد کوئی موت نہیں

اسلام میں صاف صاف الفاظ میں تخلیق کا عمل لا شئی سے بتا یا گیا ہے۔ البدیع جو اللہ سبحانہ' و تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے ایک نام ہے، اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ انسان بلا شک و شبہ موت کا ذائقہ چکھے گا مگر صرف ایک بار۔ اس کے بعد اس کو ایک دوسری دنیا میں اٹھا یا جائے گا۔ ( وہ دنیا اس دنیا جیسی نہیں ہوگی کہ جس کو دوبارہ تخلیق کیا گیا ہو) اور اس میں اس کو دوبارہ موت نہیں آئے گی۔ قرآن مجید نے کہا کہ:
( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ  ) سورة دخان ( ٥٦ : ٤٤)
یعنی پہلی موت کے علاوہ اور کسی موت کا ذائقہ نہیں چکھے گا۔ 
ایک دوسری جگہ قرآن ان لوگوں کی فرحت کا ذکر کرتا ہے جو جہنم سے بچا لیے گئے اور جنت میں داخل کیے گئے:
( وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ ٥٧  ۔ اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ  اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ ۙ  ٥٨۔ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ٥٩۔ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٦٠۔ لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ٦١۔)  سورة صافات ( ٦١- ٥٧ : ٣٧)
(پھر وہ خوشی کے عالم میں اپنے ساتھیوں سے کہے گا) اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کیے جانے والوں میں ہوتا۔ اچھا تو کیا اب ہمیں موت نہیں آئے گی؟ سوائے اس موت کے جو ہمیں پہلے آچکی؟  اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ زبردست کامیابی یہی ہے۔ اس جیسی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے۔ 
اور جو دوزخ میں داخل ہو گا اس کے لیے کہا کہ:
 لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي  )
 یعنی وہ اس میں نہ مریگا، نہ زندہ رہے گا ۔ سورة طٰہٰ(٧٤ : ٢٠) اور سورة اعلیٰ ( ١٣ : ٨٧)،
جس کا مطلب ہے کہ دوزخی بھی دوسروں کی طرح موت کا مزہ نہیں چکھے گا ، اور اس کی زندگی موت سے بھی بد تر ہو گی۔

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن حکیم کا یہ سیدھا سادہ صاف ستھرا بیان ایک ایسے شخص کی نظروں سے نہ گزرا جو مسلمان بھی تھا ، صوفی بھی اور شیخ بھی ؟

 اسلام تاریخ کی حد بندی کا نظریہ نہیں دیتا ۔ اس لیے سنہری دور کے لیے کسی خاص دور کے شروع سے متعلق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ' کی ہدایت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا،  جبکہ وہ ابھی جنت میں ہی تھے۔ تمام بنی آدم کے اقوام اور قبیلوں کو یہ آزادی حاصل رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان ہدایات پر عمل پیرا ہو کر اپنے دور کو سنہرا بنا لیں۔ انسان نے جب کبھی شیطان مردود کی اتباع کی (جنت میں بھی) تو اس کی قسمت میں تباہی لکھ دی گئی۔ اس لیے پوری انسانی تاریخ  وقتاً فوقتاً اپنے عمل کے زیر اثر یا تو اپنے بہترین سنہرے دور سے گزری یا پھر انتہائی برے دور سے۔

اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ خیالی سنہری دور جس کا اوپر تذکرہ ہواہے کسی ایسے دور میں وقوع پذیر ہوا جس میں سے کوئی خوش قسمت انسان گزرا ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ ایسا دور انسان کی جبلی فطرت کے زیر اثر نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی اولین حالت جس کا تذکرہ ہوا، انسان کی اپنی فطرت کے اندر ودیعت کیا ہوا ہے۔ اور یہ فطرت وہی ہے جو اسے صحیح یا غلط عمل کا انتخاب کرواتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس فطرت کی مجموعی پرورش کسی بھی دور کو سنہرے دور میں بدل سکتی ہے۔

ایسا بھی ہوا ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں قوموں کی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے اندر سے تمام اچھائی غائب ہو گئی ہوجیسے جناب خاتم المرتبت پیغمبر اسلام ۖ کی بعثت سے قبل دنیا بھر کا حال تھا۔ ایسے تمام مواقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ہدایات کے نزول کا اعادہ کیا تاکہ ما بعد الطبیعیاتی نحوست کو صاف کیا جا سکے۔( عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں Scribes اور Pharisees کی کارکردگی غور طلب ہیں)۔  اور پھر انسانیت نے پیغمبروں کی رہنمائی میں سچائی کا سفر شروع کیا۔ پیغمبروں کے رحلت فرما جانے کے بعد آنے والی نسلوں کو بار بار اس سچائی کو عملی جامہ پہنانا پڑا۔ اس فطری رہنمائی کو چھوڑدینے کی صورت میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ماضی کی طرح مستقبل میں بھی فرد اور جماعت ذمہ دار ٹھہرائے جائینگے اور یہی وہ فطرت اولین ہے جو انسان کو عطا ہوئی ہے جس کی بدولت وہ ہدایت کی روشنی کو دیکھتا بھی ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔

نور اور ہدایت

جیسے انسانی آنکھ کو مختلف وجہ سے نظروں کی درستگی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، اسی طرح اندرونی آنکھ یعنی عقل کو بھی نورِ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے گردا گرد ہونے والے حالات و واقعات کو دیکھ کر پرکھتا ہے اور اپنی استعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے کوئی نئی چیز آئے تو علم کے میکانیکی عمل کے ذریعہ اس کو اس کی تفصیل سمجھانی پڑتی ہے تاکہ آنکھ اس کو اچھی طرح سمجھ لے،  اسی طرح فطرت انسانی کو بھی ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنے اعمال کو بہتری کی طرف لے جاتا ہے اور طبعی دنیا میں اپنا مقام بنا تا ہے۔
در حقیقت یہی نور اور ہدایت تمام علوم کا جوہر ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ۖ تک پھیلا ہوا ہے، جو آج کی بحث کا موضوع ہے۔ اللہ کی طرف سے آنے والی ہر نئی ہدایت تصدیق کرتی رہی ہے کہ پچھلی ہدایت میں نور بھی تھا اور ہدایت بھی اسی لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا:
( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) سورة مائدہ ( ٤٤ : ٥ )۔
  یعنی
''ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی۔''
 اور پھر آیت نمبر ٦ ٤ میں یہ فرمایا:
 '' اور ہم نے ان (پیغمبروں)کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنی سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔''
اور پھر آیت نمبر ٤٨ میں یہ فرمایا:
'' اور (اے رسول محمد! ۖ) ہم نے تم پربھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کروجو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔''  
اوپر کی آیات سے یہ پر زور دعویٰ سامنے آتا ہے کہ 

( الف) پچھلی کتابیں بھی اللہ کی طرف سے تھیں اس لیے ان میں بھی ہدایت اور نور تھا۔

( ب) اگلی آنے والی کتاب یہ تصدیق کرتی رہی ہے کہ پچھلی کتاب میں ہدایت اور نور موجود تھا۔ اور

( ج) موجودہ آئی ہوئی کتاب انہی عقائد کو پاک صاف کرکے پیش کر رہی ہے ( جن کو تم نے گڈ مڈ کردیا تھا)  اور عمل کے لیے زیادہ صحیح ہدایات پر مبنی ہے۔ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی آنے والی کتاب کو پچھلی کتابوں سے کچھ ادھار نہیں لینا پڑا اور نہ ان کی تصدیق کی ضرورت تھی۔ اور یہ سلسلہ قران مجید فرقان حمید کے آنے تک اسی طرح چلتا رہا ، اور اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ اعلان کردیا کہ وہ اس ہدایت کی بذات خود حفاظت کریں گے کیونکہ یہ بنی نوع انسانی کے لیے آخری کتاب ہے جو اللہ پاک نازل کر رہے ہیں۔

پچھلی تمام کتابوں میں جو ہدایات اور نور تھی وہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے، اسی لیے قرآن مجید کے باہر سے کوئی چیز اس سلسلہ میں نہیں چاہئے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں جو کچھ بھی قرآن کی ہدایت کے مطابق ہے وہ سچی ہدایت اورنور ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کو رد کر دیا جائے اور پھر اس کا یہ مطلب بھی ہوا کہ اگر کسی مسئلہ میں دوسری کتابوں کا موقف قرآن سے مختلف ہے تو اب یہ لازم ہے کہ اُن  مواقف کو درست کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اپنے آپ کو فرقان کہا ہے یعنی وہ معیار جس پر تمام غلط اور درست کو ناپا جائے، اور فیصلہ کیا جائے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ کونسی بات جائز ہے اور کون سی ناجائز، دوسری کتابوں میں کیا سچ ہے اور کہاں جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اس کے بر خلاف اگر دوسری کتابوں میں درج شدہ عقائد ، واقعات اور فطری عوامل کے بارے میں قرآن خاموش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں وقف کرنا چاہئے، چھوڑ دینا چاہئے اور اس کو کسی طور پر سچائی کا درجہ نہیں دینا چاہئے۔

اسلام یہ تر غیب دیتا ہے کہ دنیاوی علم کو جہاں سے ملے حاصل کیا جائے۔ اسلام نے دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول اور تعلقات کے سلسلہ میںاپنے دروازے بند نہیں کیے ہیں۔ ایک طرف اسلام خود اپنے لوگوں کے لیے زندگی کو بہتر انداز سے گزارنے کی ترغیب دیتا ہے، تو دوسری طرف دوسرے لوگوں کو اپنے سچ کی طرف آنے اور اس بہتری کو قبول کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام غیرمذہب کے لوگوں پر تشدد سے بھی منع کر تا ہے اور ان کی دولت لوٹنے سے بھی روکتا ہے۔ قرآن کا انداز تو یہ ہے کہ( لا اکراہ فی الدین )  سورة البقرة ( ٢٥٦ : ٢)۔  یہ ہے اسلام میں آزاد خیالی کا تصور۔ آزاد خیالی مذہبی عقائد اور روحانیت کا ملغوبہ نہیں ہے۔ صرف اسلام ہی جیو اور جینے دو کے اصولوں کی تعلیم دیتا ہے۔

بے جا آزاد خیالی

اسلام کے ابتدائی د ورکے مسلمانوں نے دوسرے معاشروں میں پائے جانے والے انسانی تصورات اور خیالات کی سرپرستی کرنے میں کوئی جھجک روا نہیں رکھی۔ ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر یونانی افکار ہیں جس کو عیسائیت نے اپنے عروج کے دور میں بالکل نظر انداز کر دیاتھا اور وہ ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ سرپرستی کے اس عمل میں بعض مسلمانوں نے ان افکار کوکچھ زیادہ ہی نگل لیا اور پھر اسلامی بنیادی عقائد کو یونانی فلسفہ، خصوصی طور پر نو افلاطونی افکار کے مطابق پرکھنا شروع کردیا۔ اس کے نتیجہ میں ذہنی فہم وفراست ، افراتفری ، پراگندگی، پھوٹ اورنزاع نے جنم لیا۔ یہی چیز پھر پھیل بھی گئی۔ مگر صحیح العقیدہ مسلمان (سوادِ اعظم) قرآن اور سنت رسولۖ سے چمٹے رہے اس لیے کہ ان کی یہ محبت اسلام کی سچائی اور حقانیت کی بدولت تھی۔ روایتی علماء ، امام غزالی وغیرہ جیسے جید عالم حضرات ایسے موقع پر اٹھ کھڑے ہوئے۔  انہوں نے انتہائی خوبی کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں در آئے ہوئے باطل تفکرات کو پہچانابھی اور ان کو دور کرنے کی کو شش بھی کی ، تاکہ فوت شدہ معاشرتی اقدار سے ان کے رومانس کو ختم کیا جا سکے۔ اور ایسا کرنے کے عمل کے دوران جو ماحول پیدا ہوا اس میں وہ لوگ جو اسلام سے دور ہورہے تھے ان لوگوں کی تعریف میں مصروف رہے، جنہیں اللہ نے کفار کا نام دیا تھا۔

مسلمانوں میں دیگر مذاہب کے خیالات کا دخول

Syncretism  یعنی دوسرے مذاہب کے تصورات کی آمیزش کا وہ سلسلہ جو ایک مرتبہ شروع ہو گیا تھا وہ کبھی بھی مکمل طور پر اکھاڑ کر پھینکا نہ جا سکا۔ اور یہ ہمیشہ ہی حالت نمو میں موجود رہا اور مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے سامنے آتا رہا۔ اس کی سب سے بد ترین مثال مغل بادشاہ اکبر کے دین الٰہی میں ملتی ہے جو اس کے دور کے تمام مذاہب کے عقائد کا ایک ملغوبہ تھا۔ اسی طرح مسلم علاقوں پر برطانوی راج کے دوران جمال الدین افغانی ( ١٨٩٧- ١٨٣٨ ) کی صورت میں سامنے آیا جو ایک ایرانی شیعہ مسلم تھا۔ وہ مصر کے فری میسن لاج کا سر پرست تھا۔ اس کا ایک پیرو محمد عبدہ  ( ١٩٠٥- ١٨٤٩ ) اس کے بعد اس عہدہ پر فائض ہوا۔ دینی لحاظ سے محمد عبدہ چار سنّی مذاہب کے بجائے بارہ امامی شیعہ فرقہ کے بہت قریب تھا، جس کی بڑی وجہ جمال الدین افغانی کا اثر تھا۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا '' اسلام اور عیسائت '' اس میں اس نے لکھا:
'' تمام مذاہب ایک ہیں۔ ان کا اختلاف صرف ظاہری ہے۔یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حمایت کرنی چاہئے۔ '' اس نے لندن کے ایک پادری کو لکھا: ''میں دو بڑے مذاہب ، اسلام اور عیسائیت کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گلے ملتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر تورات ، انجیل اور قرآن ایسی کتابیں ہونگی جو ایک دوسرے کی حمایت اور تائید کر رہی ہونگی، جو ہر جگہ پڑھی جا رہی ہونگی اور ان کی ہر قوم میں عزت و تکریم بھی ہو رہی ہو گی۔''
مصر میں اس ہم خیال گروہ کا ملاپ بہت اہم ہے۔ شیخ عبدالواحد یحیٰ ١٩٣٠ء سے لے کر اپنی موت ١٩٥١ء تک وہیں رہے، اور فرانس کے فری میسن لاج دی گریٹ ٹرایڈ کی بنیاد ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ لاج پیرس کے گرینڈ لاج کے ساتھ منسلک ہے۔ شیخ عیسیٰ نورالدین  بیس سال تک شیخ عبدالواحد کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہے اور آخر کار ان سے ملنے کے لیے سن ٣٨ او ر ٣٩ میں مصر کا دورہ کیا۔ شیخ ابو بکر سراج الدین ( ٢٠٠٥- ١٩٠٩) جو شیخ عیسیٰ نورالدین کے شاگرد تھے ١٩٣٩ء میں مصر گئے اور ١٩٥٢ء تک وہاں مقیم رہے اور اس کے بعد بھی اپنی موت تک وہاں جاتے رہے۔ اسی طرح سید حسین نصر بھی، جو پچاس سال تک شیخ عیسیٰ نورالدین کے شاگرد رہے ، اور جن کے تمام تصانیف Perennial Philosophyکے عقائد اور نظر یات پر مبنی ہیں۔

("Philosophia Perennis" is the central concept of the "Traditional School" formalized in the writings of Rene Guenon, Frithjof Schuon and Ananda Coomaraswamy. The term was first used in the 16th century by Agostino Steuco in his book entitled De perenni philosophia libri X (1540), in which scholastic philosophy is seen as the Christian pinnacle of wisdom to which all other philosophical currents in one way or another point. The idea was later taken up by the German mathematician and philosopher Gottfried Leibniz, who used it to designate the common, eternal philosophy that underlies all religions, and in particular the mystical streams within them. The term was popularized in more recent times by Aldous Huxley in his 1945 book: The Perennial Philosophy. The Hindu revivalist notion of Sanatana Dharma has been taken as a translation of Philosophia Perennis) - (Wikipedia)
اسی کی ہم عصر ایک اور تحریک کی بنیاد تھیو سو فیکل سوسائٹی کے نام سے ١٨٧٥ء میں نیو یارک میں مادام ہیلینا  بلاواٹسکی ( ١٨٩١- ١٨٣١) اور ان کے ساتھیوں نے ڈالی۔  اس کا مقصد یہ تھا کہ آریہ اور دیگر مذاہب عالم کی تحریروں کو پڑھنے کی ترغیب دلائی جائے تاکہ ایشیائی ادب یعنی برہمنی ،  بدھ اور زرتشتی فلاسفی کی اہمیت کو بآور کرایا جائے۔یہ تھیو سوفیکل سوسائٹی مسلمانوں کی نظریہ کے تحت نقصان دہ تو تھی ہی، مگر شیخ عبدالواحدیحیٰ ایک قدم اور آگے بڑھے ۔ انہوں نے مادام بلاوٹسکی کی تحریکِ syncretismکو اکھاڑ پھینکا اور اس کی جگہ synthesis یعنی مصنوعیت کے ایک نئے تصور کی بنیاد ڈالی ۔ان کی کتاب Symbolism of the Cross    کے تجزیہ میں وکی پیڈیا کہتا ہے:

'' گِنوں (یعنی شیخ عبد الواحد یحیٰ) synthesis اور  syncretism کو الگ الگ واضح کرتا ہے۔ syncretism  میں دوسری جگہوں سے جمع کیے گئے اجزا کو ملا کر اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ وہ اجزا باہم بے محل ہوتے ہیں،  اور آپس میں گھل مل نہیں سکتے۔ یہ ایک بیرونی چیز ہے جس کے اجزا کو دوسری جگہوں سے مستعار لیا جا سکتا ہے یکساں نہیں کیا جا سکتا۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے وہ  Symbolism of the Cross میں لکھتا ہے کہ: ''syncretism فوری طور پر پہچان میں آجاتا ہے جب یہ نظر آئے کہ اس کے مختلف اجزا کو باہر سے مستعار لے کر اکٹھا کیا گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ یہ سب اجزا ایک ہی عقیدے کی مختلف تشریحات اور شکلیں ہیں ، یا پھر مختلف النوع اعمال ہیں جو کسی خاص حالت اور زمان و مکاں سے متعلق ہیں۔ گِنوں کے مطابق یہ انداز فکر تھیوسوفیکل سوسائٹی کے عقائد میں ملتا ہے۔ اس کے بالمقابل synthesis میں چیزوں کو ان کے اصل کے تناظر میں دیکھا جا تا ہے، اور اگر وحدانیت کے پس منظر میں رکھا جائے، اور اس ادراک کے ساتھ ان کے عقائد سے منسلک رکھا جائے، تو اظہار کے کثیر التعداد مظاہر کے باوجود سچ کی اصل حقیقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس آگاہی کے ساتھ ایک شخص کو یہ آزادی حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ  مذہب کے کسی بھی شکل میں سچ  کو اپنالے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا اندازِ بیان ہے، جو انہیں خاص تحفہ کے طور پر عطا کی گئی ہے ۔ لہٰذا تمام کے تمام روایتی مظاہر کو synonymies  یا ایک دوسرے کے مترادف کہہ سکتے ہیں۔ رِنے گِنوں کہتا ہے کہ صلیب کا نشان قدیم زمانے سے مختلف شکلوں میں مختلف علاقوں میں رائج رہا ہے ۔ اس لیے صلیب صرف عیسائیوں کے عقیدہ سے منسلک نہیں ہے ، اور اس کو کسی بھی روایتی پس منظر میں مختلف اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
چونکہ syncretism ایک ایسی تصویر بنانے کی کوشش کرتی ہے جو فی الوقت موجود نہیں ہے، اس لیے شیخ عبدالواحد یحیٰ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس تصویر کو بنا نے کی ضرورت بھی نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو محض ایک مصنوعی مرکب کا نام ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صلیب کی روح ہر نظریٔہ  میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہ ایک Kaleidoscope  کی طرح ہے جس کی تصویریں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیںمگر وہ ایک ہی اجزاء سے بنے ہوتے ہیں، اور ان میں ایک مخفی مصنوعی اکائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے صلیب کی نشانی اپنی مختلف شکلوں میں تقریباً ہر جگہ مل جاتی ہے۔ یہاں تقریباً کا لفظ یقیناً علم یقین کا ہم پلہ نہیں ہے۔ اگر اس کو قبول کر لیا جائے تو یہ کہنا پڑیگا کہ منونتر کا بے اصل نظریہ بمع دیگر ہندو نظریوں کے، صلیب کا مختلف شکلوں میں اظہار، اور اسلام کا خالص نظریہ توحید سب ایک ہی تصویر کے مختلف اجزا ہیں۔ہمارے نزدیک یہ سب انتہائی انوکھی اور انہونی خرافات کے برابر ہیں۔ واہیاتِ محض!!

 اگر اس نظر یہ کو درست سمجھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا میں کفار اور مشرک کن لوگوں کو کہا جائے گا۔ اس قسم کا آزاد نظریے کے تحت تو تمام مذاہب کے علماء کفر کے  شمار میں نہیں آ ئیں گے اس لیے کہ تحفۂ بیان میں سب کو برابر کا حصہ ملا ہے، یعنی زبانیں مختلف ہیں مگر اشارہ تو سب کا  ایک ہی چیز کی طرف ہے۔ اسی طرح عوام کی بھی ایک بڑی تعداد شرک سے بری الذمہ ہو جائے گی، اس لیے کہ ان کی وہ ذہنی استعداد نہیں ہے کہ اُن باریکیوں کو سمجھ سکیں جو اشراف کے ذہنی قلابازیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو اس میں لفظِ کفر مختلف شکلوں میں پانچ سوسے زیادہ مرتبہ واسطہ پڑ تا ہے۔ کیا اس بات پر کسی کا ایمان ہو سکتا ہے کہ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کا اصل مطلب نہیں ہے؟  نعوذباللہ۔ قرآن کا یہ بیان ہے کہ

'' اور( حقیقت یہ ہے کہ) اِن ( مشرکین) میں سے اکثر لوگ کسی اور چیز کے نہیں، صرف وہمی انداز ے کے پیچھے چلتے ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ حق کے معاملے میں وہمی اندازہ کچھ کام نہیں دے سکتا۔ یقین جانو، جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں، اللہ اس کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔'' سورة یونس ( ٣٦ :١٠)
 ۔ اور پھر کہتا ہے کہ:
 ''وہ محض وہم و گمان کے پیچھے چل رہے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہم و گمان حق کے معاملے میں بالکل کار آمد نہیں۔'' سورة نجم (٢٨:٥٣)۔
 اس حقیقت کے باوجود کہ کسی شخص نے کتنی ہی معرکة الآرا کتابیں لکھی ہوں اور دنیا بھر کی ادبی تنظیموں سے اس کو کتنے ہی انعامات ملے ہوں، بطور ایک مسلمان کے، اس کاہندو اور عیسائی اعتقادات کو اسلام میں داخل کردینا بہت بڑی غلطی ہے ، اس لیے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مکمل نہیں ہے اور اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اسلام میں صلیب اور منونتر جیسے خیالات مخفی طور پر موجود ہیں، گویا کہ اسلام بھی دیگر مذاہب سے مختلف کوئی نظریہ نہیں ہے۔
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

قسط نمبر ١ کا مطالعہ کیجئے   قسط نمبر ٣   کا مطالعہ کیجئے


یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے