پیر، 14 جنوری، 2013

اقبال -- امید اور یقین کا نامہ بَر

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9  محرم، صفر 1433ھ/  نومبر ، دسمبر 2012

محمد جاوید اقبال

اقبال -- امید اور یقین کا نامہ بَر

اقبال کو رُخصت ہوئے ٧٥ سال ہونے کو آئے لیکن ان کا امید افز اور روح پرور کلام اس قدر تازہ لگتا ہے گویا آج ہی کہا گیا ہو۔وہ غلامی کے دور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے بڑی بے خوفی سے غلامی کو موت سے بدتر قرار دیااور آزاد ی کا راز آشکار کردیا:
لاطینی ولادینی کس پیچ میں اُلجھا تو داور ہے ضعیفوں کا لاغالب اِلا ھُو
اقبال نے قوم کو غلامی سے چھڑانے کے لیے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کی ۔ ایک بکھرے ہوئے انبوہ کو قوم میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ کام انبیاء نے کیا ہے۔ مگراللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے یہ توفیق امت محمد ﷺ کے علماء کو عطا ہوئی۔ علامہ اقبال نے قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی لیے برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی نے ان کی بے ضرر نظموں کے سوا ان کا معنی خیز کلام عوام تک نہ پہنچنے دیا۔ورنہ پاکستان جن مشکلات اور مصائب سے گزرا وہ اُسے کبھی پیش نہ آتے۔ انہوں نے بتایا کہ ملوکیت ساحری کی ایک شکل ہے۔ جس کے سبب لوگ نیند میں محو رہتے ہیں۔ جب تک عوام شاہی کے فریب میں مبتلا رہتے ہیں ان کی غلامی کی حالت برقرار رہتی ہے۔
 خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا سا محکوم اگرپھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
علامہ اقبال نے قوم کو مشورہ دیا کہ وہ مولویوں اور پیروں کے چکر سے نکلیں اور اپنی عقل اور شعور سے نئی دنیا تعمیر کریں:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہےسِرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ عام قوموں کی طرح نہیں ہیں۔
 خدائے لم یزل کا دستِ قدرت توزباں تو ہےیقیں پیدا کر او غافل کہ مغلوبِ گماں توہے
علامہ اقبال نے امت کو روشن مستقبل کی امید دلائی۔
اب تیرا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیورکھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر و سیم
ان کی شاہکار نظم "طلوعِ اِسلام" اتنی شاندار ہے کہ الہامی لگتی ہے۔ فرماتے ہیں:
سر شکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیداخلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیداکتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہےیہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
یہ واضح طور پر امام مہدی کی آمد کی نوید ہے۔   
                                             
 علام اقبال  کے کلام میں امربالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا ذکر بھی ملتاہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اقبال ہمیں کن باتوں سے روکتے ہیں:
کھویا نہ جا صنم کدئہ کائنات میںمحفل گداز گرمیٔ محفل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کرقبولصبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نےجو خرد کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
رزقِ حلال کی اہمیت پر اس سے بہتر نصیحت ممکن نہیں ہے:
 اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھیجس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یعنی دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر اپنے مقصدِ حیات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور باطل اور حق دونوں کو راضی رکھنے کی روش ترک کردینی چاہیئے۔اللہ نے انسان کو سب سے قیمتی تحفہ جو دیا ہے وہ د انش مندی ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر ذہین لوگ چالاک بن جاتے ہیں اورجس طرف فائدہ نظر آئے اس طرف چل پڑتے ہیں۔اسی لیے اقبال نے ہمیں یہ نصیحت کی ہے کہ ہم چالاکی ترک کرکے حکمت و دانش کی راہ اختیار کریں۔زندگی حسن سے مسحور ہوکر سیدھی راہ فراموش کردیتی ہے۔ اس لیے اقبال آگاہ کرتے ہیں:
گرچہ دلکشا ہے بہت حُسنِ فرنگ کی بہارطائر بلند بام دانہ و دام سے گذر
ذہین لوگ عموماً تن آسانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہےتم مسلمان ہو ؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے ؟حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہےتم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ربّ تعالیٰ نے دنیا کو مومنوں کےلئے پیدا کیا۔ لیکن مومنوں کو اپنی عباد ت کے لیے تخلیق فرمایا:
نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیےزمانہ ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
نماز کی ادائیگی میں سُستی اور کوتاہی کو اس طرح نشانۂ تنقید بنایا ہے:
مسجد توبنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال سب زیادہ اہمیت جہاد کو دیتے ہیں۔
کبھی اے نوجوانِ مسلم تدبر بھی کیا تو نےوہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تاراتجھے پالا ہے اس قوم نے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں سرِ دارا
اقبال جانتے تھے کہ کافر دنیا کی کامیابی اور دولت کے لیے لڑتا ہے جبکہ مومن اللہ کی رضااور آخرت کی کامیابی کی خاطر جہاد کرتا ہے۔ مسلمان شہادت کی نیت سے جنگ کرتاہے۔ نہ دولت اور کامیابی کے لیے اور نہ ہوسِ ملک گیری کے لیے۔کہتے ہیں:
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومِننہ مال غنیمت نہ کشور کشائیتھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے
اقبال کافلسفۂ شہادت قرآنِ کریم سے ماخوذ ہے اور پچھلی قوموں کی سرگزشت پر مبنی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل کو فرعون کے غلامی سے نکالا تو انہیں حکم دیا کہ وہ فلسطین پر حملہ آور ہوں تاکہ انہیں وہ زمین بخشی جائے ۔ لیکن یہودی ڈرگئے اور کہنے لگے کہ فلسطینی بہت طاقتور قوم ہیں وُہ اِنہیں ختم کردیں گے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ ہوگی۔ انہیں صرف حملہ کرکے چند قربانیاں دینی ہوں گی ۔ یہودیوں نے کہا '' موسٰی جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔'' اس پر حضرت موسیٰ کو بہت دکھ پہنچا انہوں نے کہا ''اے اللہ ! میر ا زور صرف اپنی جان پر ہے اور اپنے بھائی (ہارون )کی جان پر۔'' اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی اور نافرمان یہودیوں پر چالیس سال کے لیے فلسطین میں داخلے پر پابندی لگادی اوریہودیوں کو چالیس سال تک صحرائے سینا سے نکلنے کا راستہ نہیں ملا۔لیکن عتاب کے باوجود رب تعالیٰ نے ان پر من و سلویٰ اُتا را اور ان پر بادلوں کا سایہ کیا۔ اقبال  نے اسی لیے قوم کو اللہ کی راہ میں جان دینے کی اہمیت سے آگاہ کیا:
کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفاں سے کیاناخدا تو' بحر تو' کشتی بھی تو ساحل بھی توشعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کوخوف باطل ہے کیا کہ غارت گرِ باطل بھی تویہ غازی یہ تیرے پراسرار بندےجنہیں تو نے بخشاہے ذوقِ خدائی
اقبال  نے لیبیا کی جنگ میں مجاہد عمرالمختار کی طرف سے مجاہدوں کو پانی پلانے پر مقرر لڑکی فاطمہ کی شہادت پر نظم کہہ کر شہادت کی اہمیت کو اجاگر کیا:
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہےذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہےیہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھیایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اقبال نے یہ حقیقت امت پر آشکار کی کہ صرف وہی ملک ہمارا ہوسکتا ہے جسے ہم اپنے لہوسے حاصل کریں:
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہوسےمسلماں کے لیے ہے ننگ وہ پادشاہی
نیز یہ بھی فرمایا:
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہےکہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
حالات خواہ کتنے ہی خراب ہوجائیں۔خواہ علماء دولت پرست ہوجائیں۔ خواہ سیاستدان وطن فروش ہو جائیں لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کام نہیں رُکتے۔ اللہ کے کسی نہ کسی بندے کو ' جس میں ذرا بھی صلاحیت ہو ، توفیق مل جاتی ہے اور وہ مسلم عوام میں شعور و آگہی عام کرنے لگتا ہے۔ انہیں حالات کی سنگینی کا ادراک کرانے لگتا ہے۔ آنے والے دور کے مسائل اور مشکلات سے واقفیت پھیلانے لگتا ہے اور اللہ کی رحمت سے عطا ہونے والے انعام و اکرام کی امید دلانے لگتاہے۔جب ہندوستان پر آسام سے سرحد تک اور کشمیر سے راس کماری تک غلامی مسلط تھی 'اللہ تعالیٰ نے قبائلی علاقوں کے محسود اور آفریدی قبائل کو آزاد اور سربلند رکھا اور انہیں غلامی کاشکار نہ ہونے دیا۔یہ وہ دور تھا جب بڑے بڑے عالم انگریز کی ذہانت اور حشمت کے گن گارہے تھے۔ اس وقت نیم خواہ پشتون قبائل نے علمِ بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ اقبال ایسے عبقری تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کی بے داری کے لیے چُن لیا تھا۔ان کے والد نے انہیں ہدایت کی کہ قرآن اس طرح پڑھو گویا وہ تم پر نازل ہوا ہو۔ اقبال  نے قرآن کا مطالعہ کیا اور اس میں پنہاں معنی کا نظا م سمجھنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے قرآنی فلسفۂ تاریخ کا بغور مطالعہ کیا ۔ تذکیر بایّام اللہ کو سمجھنے میں اپنی زندگی لگادی ۔اقبال کے اخلاص کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے سرکاری ملازمت ترک کرکے وکالت شروع کی اور جب ان کی آمدنی ٥٠٠ روپے ہوجاتی تو وہ اُس ماہ کوئی اور کیس نہ لیتے اور سارا وقت قرآن پڑھنے، اُس کا پیغام اخذ کرنے اور اُسے اردو اورفارسی میں منتقل کرنے میں صرف کرتے۔ یہ درست ہے کہ غیب کا علم صرف اورصرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کو ہے۔لیکن پروردگار ِ عالم اپنی رحمت سے اپنے مخلص بندوں کو وہ بصیرت عطا کرتے ہیں جس کی روشنی میں وہ مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
آسیا یک پیکرِ گِل استملت افغان در پیکرِ اُو دل است
کشادِ اُو کشادِ آسیا
فسادِ اُو فِسادِ آسیا
یعنی افغانستان اگرآزاد ہوگا تو پورا ایشیا آزاد ہوگا اور اگر افغانستان فساد کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر پورا ایشیا فساد زدہ ہوجائے گا۔ زبانی دعوے ہی نہیں بلکہ علامہ اقبال نے اپنی محدود آمدنی میں سے بچت کرکے افغانستان کے حکمراں کی نذر کی تھی۔ افغانستان کا دورہ کیا تھا آپ کے دورہ افغانستان میں سید سلیمان ندوی  اور سر راس مسعود ہمراہ تھے۔

 اقبال  کی نظر نے دیکھ لیاتھا کہ یہود ونصاریٰ کا اتحاد عالمی حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی لیے آپ نے لیگ آف نیشنز کو ' جو اقوام متحدہ کی پیش رو تھی ' داشتہ پیرکِ افرنگ قراردیاتھا۔یوں تو اقبال کی شاعری امید ورجا کی شاعری ہے لیکن طلوعِ اسلام ایک الہامی نظم کہی جاسکتی ہے کیوں کہ اس میں موجودہ دور کی تصویر نظر آتی ہے:
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوشاور ظلمت رات کی سیمابِ پا ہو جائے گیپھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجودپھر  جبیں  خاک ِ  حرم  سے  آشنا  ہو  جائے  گی         
اقبال کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھےکہ فرنگ کی رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
بہت کم لوگوں نے یہ شعر سنا ہوگا ۔ مگر اس شعر کی معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اقبال کا کلام فسردہ دلوں میں عزیمت کی روح پھونک دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قومیں شاعروں کے دل میں پیدا ہوتی ہیں۔ اچھے سیاستدانوں کے دور میں فروغ وترقی پاتی ہیں اور بُرے سیاستدانوں کے ہاتھوں تباہ ہوجاتی ہیں۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جس زندگی میں انقلاب نہ ہووہ زندگی موت ہے
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگیروح امم کی حیات کش مکشِ انقلاب
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اُن کے درجات بلندفرمائے اور پاکستانیوں کو آمادۂ اِنقلاب فرمائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے