پیر، 14 جنوری، 2013

امام ابو سلیمان الخطابی

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9  محرم، صفر 1433ھ/  نومبر ، دسمبر 2012

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

امام ابو سلیمان الخطابی

شیخ الاسلام امام ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب الخطابی البستی مشاہیر ائمہ اسلام و فقہائے محدثین میں سے تھے ۔
آپ کی کنیت ابو سلیمان نام حمد تھا ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے احمد بھی لکھا ہے جو کہ درست نہیں ۔ اپنے جدّ بزرگوار الخطاب کی صفتِ نسبتی سے الخطابی کہلائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصوف کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے اسی نسبت سے '' الخطابی '' کہا جاتا ہے ۔ ( وفیات الاعیان، غایة المقصود)
٣١٩ھ میں بمقام '' بُست '' ولادت ہوئی ۔ '' بست '' بلادِ کابل کے اطراف میں ہرات و غزنی کے درمیان واقع ہے (وفیات الاعیان، غایة المقصود) ۔ لیکن مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری کی تحقیق کے مطابق : '' بُست بضم الباء مدینة بین سجستان و غزنین و ہراة ۔''( سیرة البخاری : ١٧٧)


امام خطابی نے تحصیلِ علم کے لیے عراق ، حجاز ، خراسان اور ماوراء النہر کا سفر کیا اور ہر جگہ کے اساطینِ علم سے استفادئہ علمی کیا ۔ عراق میں شیخ ابو علی الصفار ، ابو جعفر الرزاز وغیرہما سے استفادہ کیا ۔ مکہ مکرمہ میں امام ابو سعید بن الاعرابی ، بصرہ میں ابوبکر بن داسہ ، بغداد میں امام اسماعیل بن محمد الصفار سے کسبِ علم کیا ۔

صاحبِ '' غایة المقصود '' علّامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے امام خطابی کے اساتذئہ حدیث و فقہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے مشائخِ حدیث میں ابو العباس الاصم نیشاپوری ، ابو عمر محمد بن عبد الواحد زاہد صاحب ابی العباس اور عبد اللہ بن محمد المسکی شامل ہیں اور مشائخِ فقہ میں ابو علی اور قفال ہیں ۔( غایة المقصود :١/٤٢ -٤٣)

امام خطابی نے ایک طویل عرصہ تک نیشاپور میں قیام کیا ۔ یہاں درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ امام خطابی کثیر الدرس مدرس تھے ۔ ان کے حلقۂ وابستگانِ علم کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ ان کے تلامذہ و مستفدین میں امام ابو عبد اللہ الحاکم نیشاپوری ، امام عبد الغفار بن محمد الفارسی ، ابو القاسم عبد الوہاب بن ابی سہل الخطابی ، ابو الحسین عبد الغافر الفارسی ، ابو حامد اسفرائنی ، ابو نصر محمد بن احمد بلخی ،ابو بکر محمد بن حسین غزنوی ، ابو مسعود حسین بن محمد الکرابیسی وغیرہم شامل ہیں ۔

امام خطابی بڑے زاہد و عابد ، متقی و متدین اور پرہیزگار تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں علم و ادب ، زہد و ورع اور تدریس و تالیف میں ابو عبید القاسم بن سلام سے مشابہ تھے  ۔(وفیات الاعیان ، انباہ الرواة ، غایة المقصود ، تاریخ التراث العربی )

امام خطابی علمی اعتبار سے بھی نہایت بلند مرتبہ رکھتے تھے ۔ '' طبقات الشافعیہ ''میں علّامہ سبکی نے انہیں '' امام حدیث '' قرار دیا ہے ۔

علامہ سمعانی نے '' کتاب الانساب '' میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :  '' امام ، فاضل ، کبیر الشان ، جلیل القدر ، صاحب التصانیف الحسنة ۔''

امام خطابی صاحبِ تصنیف تھے ۔ ان کی تصانیف کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے :

١-معالم السنن شرح سنن أبی داود :

امام ابو داود کی معروف ترین کتاب ہے ۔ اس کا شمار سنن ابی داود کی اہم شروحات میں ہوتا ہے ۔ اس میں احادیث کی شرح و توضیح اور اس کے اسرار و حکم سے تعرض کیا گیا ہے ۔ اصولِ حدیث و دیگر فنی مباحث پر بھی ابحاث شامل ہیں ۔شیخ کامل محمد محمد عویضہ اپنی کتاب '' ابو داود'' میں اس شرح سے متعلق لکھتے ہیں :'' ھو شرح وسط اعتنی فیہ باللغات و تحقیق الروایات، و ضبط الکلمات، و استنباط الاحکام و الآداب ، و الکشف عن المعانی الفقھیة المنطویة علیھا الاحادیث، و بیان ما استغلق من المعانی ۔'' (ص ٣٣)

 امام خطابی نے یہ شرح ایک جماعتِ اہلِ علم کے اصرار پر تالیف فرمائی تھی ۔اس کی اہمیت کو ہر دور کے علماء نے تسلیم کیا ہے اور ان کے بعد آنے والے تمام شارحینِ سنن ابی داود نے اس سے خصوصی اعتنا کیا ۔

 علّامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن ابراہیم مقدسی ( م ٧٦٩ھ ) نے '' عج الة العالم من کتاب المعالم '' کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے ۔ '' معالم السنن '' متعدد بار مرحلۂ طباعت سے گزری ہے ۔ پہلی مرتبہ حلب سے ١٩٢٠ تا ١٩٢٤ء میں طبع ہوئی ۔ اس کی ایک اہم طباعت شیخ احمد شاکر مصری اور شیخ محمد حامد الفقی کی تحقیق سے قاہرہ سے ١٩٤٨ء میں ہوئی ہے ۔

٢-اعلام السنن فی شرح البخاری :

مولانا عبد السلام مبارکپوری لکھتے ہیں : '' یہ ایک نہایت پاکیزہ شرح ہے ابتدا کا لفظ   '' الحمد للّٰہ المنعم'' ہے ۔ مصنف نے اپنی مشہور کتاب معالم السنن سے فرصت کرکے بلخ میں لوگوں کے بڑے تقاضے پر ایک جلد میں لکھی ۔ محمد تمیمی نے ان ضروری شروکات کے پورا کرنے کا التزام کیا جو خطابی سے واقع ہوئے تھے اور جس قدر اوہام خطابی سے اس شرح میں صادر ہوئے اس پر بھی بحث کی ۔ ''( سیرة البخاری : ١٧٧-١٧٨)

٣-اصلاح اغلاط المحدثین

٤-غریب الحدیث

٥-' ' کتاب الع زلة '' أو '' الاعتصام بالعزلة ''

٦-علم الحدیث

٧-کتاب شان الدعاء الماثور

٨-بیان اعجاز القرآن

٩-کتاب الشجاع

١٠-شرح الاسماء الحسنیٰ

١١-الغنیة عن الکلام و اھلہ

١٢-تفسیر الادعیة الماثورة عن رسول اللّٰہ ﷺ

١٣-کتاب الجہاد

١٤-معرفة السنن و الآثار(١)

امام خطابی تجارت پیشہ تھے ۔ کسبِ حلال کے لیے اپنی قوتوں کو صرف کیا کرتے تھے ۔ آخری عمر میں طبیعت کا رجحان زہد و ورع کی طرف بہت زیادہ مائل ہوگیا تھا ۔ ربیع الاول ٣٨٨ھ میں بست میں وفات پائی ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ٣٨٦ھ کو سالِ وفات قرار دیا ہے ۔

امام خطابی کے حالات امام حاکم نے '' تاریخ نیشاپور '' ، علامہ سمعانی نے '' الانساب '' ، علامہ ابن الجوزی نے     '' المنتظم ''، ابن خلکان نے '' وفیات الاعیان '' ،امام ذہبی نے '' سیر اعلام النبلاء '' اور '' تذکرة الحفاظ ''، علامہ سبکی نے '' طبقات الشافعیہ ''، امام ابن کثیر نے ''البدایة و النہایة '' ، ابن العماد الحنبلی نے '' شذرات الذھب '' ، جمال الدین قفطی نے '' انباہ الرواة علی انباہ النحاة '' ، علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے '' غایة المقصود فی حل سنن أبی داود '' ، خیر الدین الزرکلی نے ''الاعلام'' ، عمر رضا کحالہ نے ''معجم المولفین '' اور مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے '' تذکرة المحدثین '' میں لکھے ہیں ۔ ان تمام تذکرہ نگاروں نے امام خطابی کی علمی فضیلت و کمالِ جامعیت کا اعتراف کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی تذکرہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام خطابی کے احوال رقم کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔

حواشی
(١)       اس نام سے امام بیہقی کی کتاب مشہورِ زمانہ ہے ۔ تاہم اسی عنوان سے امام خطابی نے بھی ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس کا ذکر علامہ چلپی نے ''کشف الظنون'' اور اسماعیل پاشا بغدادی نے '' ھدیة العارفین ''میں کیا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے