ہفتہ، 23 فروری، 2013

مستشرقین اور تحقیقات اسلامی۔ قسط1

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013

مستشرقین اور تحقیقات اسلامی قسط 1

مولانا عبد القدوس ہاشمی

 مستشرقین اور تحقیقات اسلامی۔ قسط1 PDF Download

@ http://alwaqiamagzine.wordpress.com

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
یہ عالم حوادث و واقعات سے پُرہے۔ ہر صبح کچھ نہ کچھ حوادث اپنے ساتھ لا تی ہے اور ہر روز کو ئی نہ کوئی واقعہ ہو تا ہی رہتا ہے۔ ان ہی حوادث و و اقعات کی ترتیب، ان کے اسباب و علل کی تلاش اور ان کے اثرات و نتائج کی نشاندہی کو تاریخ کے نام سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ علم تاریخ نام ہے فطرت کے قوانین تکوین یعنی سنة اللہ فی الارض کی شناخت اور اس کے بیان کا۔ ایک مورخ یہ بیان کرتا ہے کہ کونسا واقعہ پیش آیا۔ کب اور کہاں پیش آیا۔ اس کے اسباب کیا تھے اور اس کے اثرات و نتائج کیا پیدا ہوئے۔



مولانا عبد القدوس ہاشمی ماضیِ قریب کے نامور عالم، مترجم و محقق تھے۔ مولانا نے اپنا یہ فاضلانہ مقالہ 30 ستمبر 1969ء کو راولپنڈی کے ایک اجتماع "شام ہمدرد" میں پڑھا تھا جو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہ صرف قیمتی مندرجات پر مشتمل ہے بلکہ مستشرقین کی فکری اساس اور ذہنی نفسیات کو سمجھنے کے لیے بھی انتہائی ممد و معاون ہے۔ بعد ازاں یہ مقالہ "مکتبہ ملّی کراچی" سے طباعت پذیر ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے "الواقعة" میں شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

 اس طرح جب ہم ماضی پر غور کرتے ہیں تو حسب ذیل سوالات ذہن میں خود بخود اُبھرتے ہیں:
 
1۔ کیا یہ واقعہ پیش آیا؟ اس سلسلے میں بیان کرنے والے کا ذریعہ علم، اس کے ثقہ یا غیر ثقہ ہو نے کے متعلق معلومات۔ واقعہ کے امکانِ عقلی و امکان عادی کے متعلق تحقیق و تد قیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ واقعہ کا ظرفِ مکان اور ظرفِ زمان متعین کر نے کا مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ تحقیقات کے بغیر یہ یقین نہیں پیدا ہو سکتا کہ واقعہ فی الحقیقتہً ہو ا بھی یا نہیں۔

 اس کے بعد یہ مرحلہ پیش آتا ہے کہ واقعہ کے اسباب کیا تھے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہو ئے۔ اس کی تلاش و تحقیق ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔ اگر کو ئی محقق اس مرحلہ پر گھبرا کر سہل انگاری سے کام لیتا ہے تو تاریخ کی صحیح تر جمانی نہیں کرتا۔

ان دونوں قسموں کے سوالات کو حل کرنے کے بعد ہی کو ئی بیان، تاریخ کا بیان ہو سکتا ہے ورنہ محض افسانہ بلکہ مجلسی لطیفے سے زیادہ اس بیان کی علمی قیمت نہیں قرار پا سکتی۔ مثلاً ایک مستشرق نزول وحی کے دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ام المومنین بی بی خدیجہ کے مابین اس خلوت کی گفتگو کو نقل کر تا ہے۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ام المومنین کے سوا تیسرا آدمی مو جود نہیں ہے اور حوالہ میں یہ لکھ دیتا ہے کہ "محمد بن اسحاق المتوفی سنہ ١٥١ھ نے یہ گفتگو اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ "
اس گفتگو کی صحت تسلیم کرنے کے سلسلہ میں تاریخ کے ایک طالب علم کے سامنے یہ سوالات آتے ہیں:
 کیا خلوت میں کوئی تیسرا شخص موجود تھا؟ روایت کسی تیسرے شخص کی موجودگی سے قطعی انکار کرتی ہے۔
 کیا یہ واقعہ حضرت ام المومنین  نے کسی سے بیان کیا؟ حضرت ام المومنین  سے کوئی روایت مو جود نہیں ہے۔
 کیا یہ واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی صحا بی سے بیان کیا؟ کو ئی صحابی یہ نہیں بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے یہ واقعہ بیان فر ما یا۔
ظاہر ہے اب سارا دارومدار محمد بن اسحاق اور اس کے شیوخ پر رہ گیا۔ عملاً یہ ممکن نہیں کہ خلوت میں اس وقت کو ئی شخص مو جود ہو، پھر علم رجال یہ بھی وضاحت کے ساتھ ہمیں بتا دیتا ہے کہ محمد بن اسحاق اور اس کے اکثر شیوخ غیر محتاط قصہ گو اور کہانیاں بنانے والے تھے۔
امام ذہبی نے میزان الاعتدال ص ٢٢ ج ٣ طبع القاہرہ ١٣٢٥ھ میں لکھا ہے:
" قال یحی القطان اشھد ان محمد بن اسحاق کذاب قال ابن معین وھو صالح الحدیث مالہ عندی ذنب الا ما قد حشا فی السیرة من الاشیاء المنکر ة المنقطعة و الاشعارا المکذویة۔ قال مالک انظروا الی رجال من الدجاجلة دخل رجل معہ حمل فوضعہ فی عنق ابن اسحاق فاخرجہ نذھب الی السلطان فجلد۔ قال سعید من اجل القدس۔"
ذرا غور فر مائیے۔ واقعہ کا ظرفِ زمان و ظرفِ مکان خلوت میں کسی راوی کے وجود کو عادةً ناممکن قرا ر دیتا ہے خود روای غیر ثقہ، قصہ گو اور بے اعتبا ر اور بیان واقعہ "لفظ بہ لفظ" اس واقعہ کی تاریخی قیمت کیا قراردی جائے؟
اس جگہ ایک کم نظر کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ ایسی گفتگو ہو نا امکانِ عقلی و عادی کے حد ود میں تو آتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایسی گفتگو ہو تی ہو۔ لیکن ذرا غور فر مائیے تو یہ واضح ہو جا تا ہے کہ یہ غلط فہمی ہے اور فکر کی کمزوری سے پیدا ہوئی ہے۔ کسی حادثہ کا صرف ممکن ہو نا۔ اس کے حقیقتہً واقعہ ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کو ئی شخص یہ بیان کرے کہ جس جگہ آج راولپنڈی کا ریلوے اسٹیشن ہے وہاں اس سے پہلے ایک مندر تھا۔ اسے توڑ کر انگریزوں نے ریل کا اسٹیشن بنا دیا تو اگر چہ اس کا امکانِ عقلی و امکانِ عادی مو جود ہے لیکن جب تک اس کی کوئی شہادت نہ مل جائے صرف امکان کی وجہ سے اسے واقعہ تاریخی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو ا کرے کہ صرف امکانِ واقف کو دلیلِ واقعہ قرار دے دیا جائے تو ہر ناول و افسانہ تاریخ کا مرتبہ پا جائے گا اور تحقیق کا سا را دفتر خرافات کا پلندہ بن جائے گا۔ شہادت ملنے کے بعد بھی ایک مرحلہ شہادت کی قیمت مقرر کر نے کا باقی رہ جا تا ہے۔ ہر بیان، تاریخی قیمت نہیں رکھتا اور نہ ہر شہادت قابلِ اعتماد ہو تی ہے۔
ایک اور مثال تاریخی تنقیح سے غفلت کی سن لیجئے۔ اس کے بعد اصل، مو ضوع پر جو ایک مختصر سی گفتگو ہے اس کے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ مرحوم ڈاکٹر حسن ابر ہیم حسن نے جو مصر کی سب سے بڑی یو نیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور آکسفورڈ Oxford کے سند یافتہ ڈاکٹر تھے۔ اپنے ماہر فن اساتذہ کے حوالہ سے کتاب "مشاہیر اسلام" (ص 24 ) میں یہ لکھا ہے کہ "حضرت عثمان ذی النورین نے حضرت ابوبکر صدیق کے سمجھانے سے اسلام قبول کیا اور اس وقت حضرت عثمان  کی عمر 20 سال سے زیادہ نہ تھی۔"  اسی کتاب کے صفحہ 23 پر وہ لکھ چکے ہیں کہ "حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے پانچ یا چھ سال بعد حضرت عثمان  پیدا ہو ئے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن مبارک چالیس سال یا اس سے کسی قدر زائد تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس حساب سے حضرت عثمان کا سن 35 یا 34 سال ہو نا چاہئیے۔ بیس سال کیسے ہو گا؟
اسی کتاب کے صفحہ 280 پر ہے کہ "حضرت عبدا للہ بن زبیر کی عمر جب 17 سترہ برس کی ہوئی تو ان کے والد بزرگوران کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہو ئے۔"
حضرت عبد اللہ بن زبیر سن 1 ہجری میں بمقام قبا پیدا ہو ئے یہ خود اسی کتاب کے صفحہ (278) پر موجود ہے اور سارے مورخین کے نزدیک مُسلم ہے۔ حساب کر کے دیکھئے کہ عبد اللہ بن زبیر کی عمر کا گیارہواں سال شروع ہی ہوا تھا یا شاید دو دن ابھی دس سال کے پورے ہو نے میں باقی تھے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وفات پا گئے۔ یہ کہاں ممکن ہے کہ عبدا للہ بن زبیر نے 17 سال کی عمر میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی ہو۔
روایاتِ تاریخ کی تنقیح اور اشخاص و اوقات کی تعین میں غفلت نے کیسی مضحکہ خیز غلطیاں سر زد کر ادیں۔ ان دونوں روایتوں میں فاضل مورخ نے ایک عثمان کو دوسرے عثمان سے اور ایک عبداللہ بن زبیر کو دوسرے عبدا للہ بن زبیر سے خلط ملط کر کے نا ممکن کو ممکن بنا دیا۔ شاید فاضل مصنف اور ان کے نامور اساتذہ نے علم الرجال کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ اس طرح کی غلطی سرزد نہ ہوتی۔
یہ صرف دومثالیں ہیں آپ تلاش کریں تو اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ناقص مطالعہ کو کافی سمجھ کر لکھنے اور روایات کی تنقیح و تحقیق کے بغیر اس کو نقل کر دینے سے کیسی عجیب عجیب قسم کی غلطیاں بڑے بڑے نامور حضرات سے بھی ہو جاتی ہیں۔
خدا نخواستہ یہ مقصود نہیں ہے کہ کسی کے علم کی تقلیل یا اس کے کارناموں کی توہین کر کے اپنی بڑائی ثابت کی جائے مقصود صرف یہ ہے کہ میرا یا کسی شخص کا بیان بغیر ضروری تنقیح کے قابل قبول نہیں ہو تا۔ یہ لازم ہے کہ اچھی طرح جانچ پڑتال کر لی جائے۔ اور یہ تو صرف ان غلطیوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جو اقتضائے بشری یا ناقص مطالعہ سے سر زد ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر محقق کی نیت کا کھوٹ اور مقصد کی قباحت بھی تحقیق و تحریر کے ساتھ مل جا ئے تو پھر اس کے کر شمے بہت عجیب اور حد درجہ گمراہ کن ہو تے ہیں اگر مقصد ہی یہ ہو کہ کسی مذہب کو یا کسی قوم کو حقیر اور ناقابل نفرت ثابت کیا جائے تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کاحسن کرشمہ ساز کرے
علامہ برو کلمان ((Karl brockelmann مشہور جرمن مستشرق ہماری صدی کے سب سے بڑے مستشرق اور بلا شبہ عربی ادبیات کے بے مثال عالم ہیں انہوں نے عربی کتابوں کی ایک ایسی جامع اور معلوما ت افزا فہرست تیار کی ہے کہ دوسری کوئی کتاب اس موضو ع پر اس کے مقا بلہ میں نہیں پیش کی جاسکتی۔ ابن الندیم کی "الفہرست"، مصطفی طاش کبریٰ زادہ کی "مفتاح السعادة"، حاجی خلیفہ کی "کشف الظنون"، اسمٰعیل پا شا کی "ایضاح المکنون" اور "ھدیة العارفین" اور یوسف الیان سر کیس کی "معجم المطبوعات" سے بھی علامہ بروکلمان کی تاریخ ادبیات عرب کا مرتبہ بعض اعتبا ر سے بلند ہے۔ آج کسی ایسے کتب خانہ مشرقیات کا تصور بھی ممکن نہیں جس میں علامہ بروکلمان کی یہ بے بہا کتاب مو جود نہ ہو۔
لیکن یہی علامہ بر و کلمان جب ایک پکے عیسائی بن کر اور یو رپین اقوام کو ترجیحی مزایا و مناقب کے جذبات کو اپنے سینے میں لے کر تاریخ مسلمانان عالم لکھتے ہیں تو ایسی بے سروپا باتیں لکھتے چلے جاتے ہیں کہ بہت سی مملکتوں کو ان کی کتاب کا داخلہ اپنے ممالک میں بند کر دینا پڑا۔ چنانچہ پاکستان میں بھی اس کتاب کا داخلہ بند ہے۔ میں نے یہ کتاب پڑھی ہے۔ مجھے حیرت ہو تی ہے کہ عربی کتابوں کا یہ عظیم المرتبت کتاب شناس، کتابوں کا نام بتاتا ہے۔ مصنف کا نام اور اس کا سن وفات بتاتاہے، کتاب کس کس کتب خانہ میں اور کہاں کہاں مو جود ہے یہ بھی بتا دیتا ہے کبھی کتابوں کو کھول کر پڑھتا کیوں نہیں۔ اول تو کتابیں پڑھیں بہت تھوڑی، جو پڑھیں ان کی رویات پر غور نہیں کیا، پھر اسباب و نتائج ایسے پیدا کر لیے کہ کسی شخص کے حاشیۂ خیال میں ایسے عجیب و غریب اسباب و نتائج نہیں آسکتے آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تاریخ لکھتے ہو ئے ان کا ذہن ایک متعصب کا ذہن تھا اور ان کے قلب و دماغ پر یو رپین اقوام کی بر تری کے تصورات کا قبضہ تھا۔
میں اس جگہ کچھ اقتباسات اس کتاب سے پیش کر تا۔ لیکن چونکہ اس کا اقتباس کر نا بھی قانوناً ممنوع ہے اس لیے صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ پو ری کتاب دوردراز کار قیاسات اور بے سروپا با توں سے بھری پڑی ہے۔
استشراق کی ابتداء
یہودیوں اور عیسایوں کا واسطہ مسلمانوں سے با لکل ابتدائی دور میں ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے مکی دور ہی میں یہودی اور عیسائی دین اسلام پر اعتراضات کی ابتداء کر چکے تھے اور مخالفت کرنے میں قریش کے بت پر ستوں کے ہمنوا تھے۔ مدینہ منورہ کے دہ سالہ دور میں یہ مخالفت اور زیادہ شدت اختیار کر گئی۔ خصوصاً یہودیوں کی مخالفت اور طرح طرح کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ قرآن حکیم کے وحی الہٰی ہو نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی صادق ہو نے کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات ان کی طرف سے ہو تے رہے قرآن مجید کی مکی اور مدنی آیتوں میں ان کے بعض اعتراضات اور جوابات کا ذکر موجود ہے، آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد خلافتِ صدیقی و فاروقی میں ان لوگوں سے مسلمانوں کو ہر جگہ واسطہ پڑا اور عراق و شام کی فتوحات نے تو آپس میں ایک دوسرے سے ملنے کی راہیں پوری طرح کھول دیں۔ عیسائی علمائے مذہب نے اس زمانہ سے بطور مہم کے اسلام اور اس کی تعلیمات سے واقفیت پیدا کرنے اور قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق طرح طرح کے شبہات پیدا کرنے کی ابتداء کر دی تھی۔ مگر اس زمانہ میں ان کی طرف سے خود عیسائی بھی کچھ زیادہ تو جہ نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ باز نطینی حکومت کی سخت گیری کے مقابلہ میں مسلمانوں کی رواداری اور آزادی نے مفتوحہ علا قوں کی غیر مسلم آبادی کے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی کہ لوگ مسلمان فاتحین کی آمد کو خدا کی رحمت سے تعبیر کرتے تھے اور اپنے متعصب مذہبی پیشوائوں کی طرف لو گ کم ہی تو جہ کرتے تھے۔ اس زمانہ میں لو گ جوق در جوق مسلمان ہو تے جاتے تھے۔ مصر و شام کے عیسائی اور یہودی علماء اور پیشوایان مذاہب اس کے مقابلہ میں بے دست و پا سے ہو گئے تھے۔
ولید بن عبدا لملک (86- 96ھ) کے دور میں کاشغر، بخارا اور سندھ فتح ہو گیا اور اس زمانہ میں اند لس بھی ممالک اسلامیہ میں شامل ہوا۔ اب اہل یو رپ سے مسلمانوں کا براہ راست تعلق قائم ہو گیا اگرچہ اس سے پہلے بھی یورپ کے زائرین بڑی تعداد میں بیت المقدس میں کنسیئہ قیامت اور ولادت گاہ مسیح کی زیارت کے لیے جاتے تھے بلکہ بہت سے یو رپین طلباء بیت المقدس اور دمشق میں رہ کر علم حاصل کرتے تھے مگر ان کا تعلق اتنا گہرا اور ایسا دوامی نہ ہو تا تھا جیسا کہ اندلس کی فتح کے بعد سے ہو گیا۔
تفصیلات کے بیان کا یہ موقع نہیں، عرض یہ ہے کہ یورپ کے طالبان علم کا تعلق اور عیسائی و یہودی پیشوایان مذہب کی اسلام کے خلاف علمِ فلسفہ اور تحقیقات کے نام سے مساعی بالکل ابتدائی دور اسلامی ہی سے جاری تھیں  اور آج تک جاری ہیں۔ اس لیے ہم تاریخ کے کسی خاص وقت کو اس جدو جہد کا نقطہ آغاز قرار نہیں دے سکتے۔ البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کے طریقے بدلتے رہے۔ مقاصد میں اگرچہ کو ئی بنیادی تبدیلی نہیں ہو ئی لیکن کلیسا کا زور ٹوٹنے کے بعد سے کچھ ایسے مستشرقین ضرور پید ا ہو ئے جنہوں نے جرات کے ساتھ اپنے ہی اساتذہ کی پھیلائی ہو ئی بہت سی باتوں کو غلط قرار دیا اور پوری قوت کے ساتھ ان کی تردید کی۔ یہ فیصلہ کر نا مشکل ہے کہ اس تردید سے ان کا مقصد سچ کو سچ کر کے دکھا نا تھا یا خود اپنی طرف سے پیدا کیے ہو ئے شکوک کو قابل قبول قرار دینا تھا۔ اس لیے کہ ان کی تردید کر نے والوں میں سے اکثر نے جہاں اپنے پیش رو مستشرقین کے کذب و افتراء کی پوری قوت کے ساتھ تردید فر مائی ہے وہاں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ نئے شبہات بھی پیدا کر دیے ہیں اور اتنی معصومیت کے ساتھ دبی زبان میں کوئی نہ کوئی نئی بات کہہ گئے ہیں کہ پڑھنے والوں کو ان کی نیت پر کو ئی شبہ بھی پیدا نہ ہو سکے۔
مثلاً لندن یو نیورسٹی کے مشہور پرو فیسر علامہ ڈینس سورا اپنی کتاب "تاریخ الادیان" میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق بے سروپا اعتراضات اور اپنے ماقبل کے مستشرقین کی پھیلائی ہو ئی جھوٹی باتوں کی پوری قوت کے ساتھ تر دید کر تے ہیں یہ کتاب 1933ء میں لندن سے شائع ہو ئی ہے وہ اپنے بیان میں اس قدر غیر متعصب اور بے لاگ مصنف نظر آتے ہیں کہ کسی کو ان کی نیت پر شُبہ کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ وہ اچھے خاصے عقیدت مند کی طرح بیان کرتے ہیں کہ
"مذاہب کے عظیم بانیوں میں سے شاید محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ہی شخص ہیں جن کی شخصیت سے تاریخی حیثیت سے بالکل واضح ہے اور خرافات نے ان کی شخصیت پر کوئی پردہ خفا نہیں ڈالا ہے۔"
اور اس کے بعد عقیدتمند انہ انداز میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کارناموں کی تعریف کرتے ہیں بلکہ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں لیکن اس کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ
"بلا شبہ عرب کے لوگ جنوں اور روحوں کی پو جا کرتے تھے اور روحوں کے حجری مجسموں میں جا گزیں ہونے کے قائل تھے۔ ان کے علاوہ قبیلہ قبیلہ کے الگ الگ بت بھی ہو تے تھے۔ اسلام نے ان سب بتوں کو نیست نابود کر دیا۔ صرف ایک حجر اسود کو باقی رکھا شاید اس لیے کہ اس سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا احترام مقصود تھا یا شاید یہ ایک سیاسی عمل تھا جس کے ذریعہ عربوں کے باہمی اتفاق کو باقی رکھنا مقصود رہا ہو۔ (ص 221 المشرقون و الاسلام مصنفہ زکریا ہاشم زکریا۔ طبع القاہرہ 1965 ء)
آپ نے دیکھا کہ فاضل پروفیسر نے کس معصومیت کے ساتھ یہ یقین دلانے کی سعی فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیاسی مصلحت کی بناء پر ایک بت کو باقی رکھا اور اس حد تک بت پرستی کو اسلام میں جائز قرار دیا۔ حالانکہ زمانہ جاہلیت میں بھی جبکہ سینکڑوں بت تھے کبھی حجر اسود کو بتوں کے زمرہ میں نہیں شمار کیا گیا اور نہ کبھی اس کی پوجا کی گئی۔ حجر اسود کا ذکر ہی کیا۔ اٹھارہویں صدی تک یورپ کے مستشرق اور محققین یہ لکھتے رہے اور مشہور کرتے رہے کہ مسلمان جو حج کو جاتے ہیں وہ اس لیے جاتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ایک بُرنجی بت بنوا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان اس بت کو سجدہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے آواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں خود علمائے یورپ نے اس کی تردید کی اور ایک بار نہیں بار بار مختلف ممالک کے علماء نے اس کی تر دید کی۔ تب یہ خیال لوگوں کے دلوں سے محو ہو سکا یا شاید اب بھی دور افتادہ دیہاتیوں میں یہ خیال موجود ہو۔
بہرحال جیسے جیسے علم کی رو شنی پھیلتی گئی۔ عربی کتابیں یورپ کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوتی رہیں اور یہ انتہائی حق نا شناسی ہوگی کہ عربی کتب کے اصل مضمون کی تصحیح و اشاعت اور ان میں سے بہت سی کتابوں کے یورپین زبانوں میں ترجمہ کرنے کی جو عظیم الشان خدمت پچھلے پانچ سو سال کے اندر یو رپ کے مستشرقین نے انجام دی ہے اس سے انکار کیا جائے یا ان کو کمتر درجہ کا کارنامہ قرار دیا جائے۔ اس کے لیے سینکڑوں مستشرقین نے اپنی عمریں صرف کر دیں حکومتوں اور بادشاہوں نے لاکھوں روپے خرچ کیے دولت مندوں نے بڑے بڑے اوقاف قائم کیے اور آج عربی کی بڑی بڑی اہم کتابیں جو ہمارے ہاتھوں میں ہیں ان میں سے بہت سی کتابیں وہی ہیں جو ان ہی مستشرقین کی مساعی جمیلہ سے پہلی بار طبع ہو کر ہمارے ہاتھوں میں آسکیں ہیں۔ اس طرح افتراء پر دازی کا وہ بادل بھی آہستہ آہستہ چھٹ رہا ہے جو صدیوں تک قدیم مستشرقین اور پیشوایانِ مذاہب کے بیانات اور ان کی تحریروں سے یورپین ذہنوں پر چھایا ہوا تھا، اب تحریروں کے انداز اور مستشرقین کے تحقیقات اسلامی کا طریقہ کسی نہ کسی قدر بدلا ہوا نظر آتا ہے، اگرچہ اب بھی مقاصد میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ پادری زویر کی تحقیقاتِ اسلامی اور ڈاکٹر کنیٹویل اسمتھ کی تحقیقات میں مقاصد کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ملتا۔ دونوں کی تحقیقات کو دیکھ لیجئے۔ مقصد وہی استعماریت کی تائید اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سعی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے