ہفتہ، 23 فروری، 2013

مسلمانوں کے لیے واحد نسخۂ کامرانی- نبوی منہج۔ اداریہ


جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013
درسِ آ گہی

مسلمانوں کے لیے واحد نسخۂ کامرانی- نبوی منہج

اداریہ

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی 


آج مسلمان فرقہ پرستی ، مسلکی عصبیت اور فقہی تصلّب و جمود کے قعرِ مذلّت میں جا گرے ہیں ۔ آفرید کارِ عالمِ انسانیت نے انسانیت کے لیے نسخہ سلامتی صرف اسلام میں مضمر کر رکھا ہے مگر یہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ آج جبکہ من حیث المجموعی تمام اقوام و ملل شدید ترین بحران کا شکار ہیں ، مسلمان اس بحرانی کنوئیں کے سب سے نچلے مقام پر ہیں ۔ جن کے پاس نسخہ شفا کی دولت ہے وہی پنجۂ مرض کے سب سے زیادہ گھائل ہیں ۔

ان کی طبعیتوں میں شقاوت کا ایسا زنگ لگ چکا ہے کہ سعادت کی کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہ ظلمت کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ نور کی ایک کرن بھی ان کی آنکھوں پر بوجھ بن جاتی ہے ۔ دلوں پر غفلت کے پردے ہیں اور آنکھیں ظلمتوں کے زیرِ حجاب۔
ان کے تصور ہی سے یہ بالا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلک یا فرقے سے بالاتر بھی ہوسکتا ہے ۔ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا کہ کوئی دعوت یا فکر کسی گروہی عصبیت سے ماوراء ہوکر بھی دی جاسکتی ہے ۔لیکن مسلمان خواہ ظلمتوں کی انتہائی تاریکی میں جا پہنچیں یا شقاوتوں کی انتہائی پستی میں جا اتریں ۔ وہ اس وقت تک نہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامران جب تک کہ وہ اپنے عقیدے و فکر کو اللہ کے رسول کے عقیدے و فکر کے مطابق نہ بنالیں ۔ فرقہ پرستوں اور اپنے اپنے اکابر کے نظریات کی پیروی کرنے والوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے :
( الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً ) ((الکہف: ١٠٤))
" جولوگ حیات دنیوی میں اپنی مساعی میں گم رہے اور گمان کرتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔"
دین تو اس راہِ مستقیم کا نام ہے جو دل کی ہر کجی کو اور ذہن کی ہر پراگندگی کو دور کردیتا ہے ۔ جب تک ہم صرف " کتاب"  و " سنّت "  کو اپنا میزان و فیصل نہ بنالیں ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔ 
( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ ، اِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ ، ذَلِکَ خَیْْر وَ أَحْسَنُ تَأْوِیْلاً ) (( النساء :٥٩))
" پس جب تم میں کسی امر میں کوئی تنازع ہوتو اسے اللہ اور رسول پر پیش کرو ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ بہتر طریقہ اور اچھا نتیجہ ہے ۔ "
اللہ ربّ العزت نے بتادیا کہ یہی مآخذِ شریعت ہے اور یہی مطلوب طریقت ۔ یہی تقاضا ئے ایمان ہے اور یہی سرمایۂ آخرت ۔ 
اسلام نے توحیدِ کامل کی دعوت فکرِ انسانی پرپیش کردی۔ انسان کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک معبود ِواحد کی بندگی کے دائرے میں داخل کر کے انسانیت کے مرتبے کو بلند کیا ۔ مگر اس روح کی سیاہ بختی اور اس ذات کی پامالی ، جس کا فہم اس مرتبے کے ادراک سے محروم ہے ۔اسلام اس ایک نکتے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا کہ اللہ کی حیثیت کو کسی مقام ، کسی صورت ، کسی دائرے اور کسی پیمانے پر کسی دوسری ذات میں منتقل کردیا جائے ۔اور دین کی تعبیر وہی ہے جو اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے بیان فرمادی ۔ " ما انا علیہ و اصحابی " کی راہ پر گام فرسا ہوئے بغیر نہ ابدی نجات ممکن ہے اور نہ دنیاوی سعادت کا اکتساب ۔
اسلام کو کل کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق تھا اور نہ آج کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق ہے ۔ دنیا کی بقا کے لیے جس قدر حق کا وجود ضروری ہے ، اسی قدر باطل بھی ناگزیر ہے۔ دونوں میں کسی ایک کا خاتمہ ہی وقتِ موعود کی آمد باعث ہو گا۔ کسی سرکش کی سرکشی اور کسی شقی کی شقاوت ، اسلام کو ذرہ برابر بھی گزند نہیں پہنچا سکتی لیکن اسلام کے اصل مجرم مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے اللہ اور رسول سے بے وفائی کا جرم کیا ہے ۔ جرم کی یہ سنگینی کس درجہ بڑھ چکی ہے کہ احساسِ جرم ہی مفقود ہوچکا ہے ۔ 
آئیے صرف ایک بار دیانتاً اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس سے رجوع کرکے دیکھیں سعادتوں کے دروازے نہ کھل جائیں ایسا ہو نہیں سکتا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے