ہفتہ، 23 فروری، 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق 8

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق

 قسط 8

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ


تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

خرمے کے درخت کا ذکر کرکے دوبارہ علیحدہ سے اس کے پھل کے ذکر کرنے کی یہ وجہ ہے کہ خرمے کا درخت از سرتاپا آدمیوں کے حاجات میں کار آمد ہے تو یہ مستقل احسان ہوا اور اس کا پھل مستقل احسان اور دونوں قدرت خدا کا نشان۔


اس آیت میں تین طرح کی پیداوار کا ذکر فرمایا گیا ۔ میوہ ، غلّہ ،خرما۔ میوہ جات کے درخت باقی رکھے جاتے ہیں اور پھل توڑ کر استعمال کیا جاتا ہے اور غلّجات کے درخت جڑ سے کاٹ لیے جاتے ہیں اور غلّے ان سے الگ کرکے استعمال میں لائے جاتے ہیں ، اور خشک کرکے دیر تک رکھے جاتے ہیں ، اور دور دراز ملکوں میں بغرضِ تجارت بھیجے جاتے ہیں ۔ میوہ جاتے اپنی فصل میں ترو تازہ رہتے ہیں اور آخر فصل کے ساتھ ساتھ خود بھی رخصت ہوجاتے ہیں ۔ خرمے کو دونوں جنس کے ساتھ مشابہت ہے ۔ جب تک ترو تازہ ہے ، نہایت لذیذ اور مفید میوہ ہے اور فصل کے بعد خشک ہوجانے پر غلّہ ہے ، جو زمانۂ دراز تک انسان اپنے کام میں لاتے ہیں اور دور درازملکوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔
یہ ساری چیزیں اور سرو سامان کس لیے ہوئے ( رِزْقًا لِلّْعِبَادِ )"تاکہ سارے بندوں کو روزی پہنچائوں" گھاس ، پتے ، میوہ جات اور غلّے ہی پر ساری مخلوقات ارضی کی غذا موقوف (منحصر) ہے ، بلکہ کپڑے اور مکانات بھی انہیں نباتات کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
سوال
درندے گوشت خوار اُن میں سے روزی کا کوئی حصہ نہیں پاتے اس لیے کلّیہ ٹوٹتا ہے (یعنی یہ دعویٰ کہ تمام مخلوقات اس ذریعے سے رزق حاصل کر رہی ہے ، باطل  ہوجاتا ہے )۔
جواب
عباد سے مراد انسان و جن ہیں ، اس لیے کہ مکلف بہ عبادت بھی یہی ہیں ، پس کلیہ صحیح ہوگیا اور اگر عام مراد لی جائے یعنی بمعنی مملوک و مخلوق تو بھی چرندے بلاواسطہ رزق پاتے ہیں اور درندے بواسطہ ۔ اگر پیداوار ارضی نہ ہو تو کوئی حشرات الارض یا دوسرے پرند اور چارپائے زندہ نہ رہیں اور یہ نہ رہیں تو جن کی زندگی انہیں کے کھانے پر موقوف ہے وہ کیونکر رہیں گے ۔ پس کلیہ (رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ) بحال رہا ۔
( وَاَحْيَيْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا)"اور زندہ کرتا ہوں بذریعہ اسی آب باراں کے مردہ زمین کو" زمین کی ایک وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ اس پر نہ گھاس نہ کھیت نہ درخت ہوتے ہیں نہ کوئی آدمی نہ حیوان ، چرندہ خواہ پرندہ و درندہ نظر آتے ہیں ۔ ایک سنسان عالم اس جگہ ہوتا ہے کہ یکایک موسم باراں پہنچا اور ابر نے مینہ برسایا ، خنک ہوا چلی ،اور وہی زمین بات کی بات میں بدل گئی ۔ کوسوں تختہ کا تختہ سبزہ زار انواع و اقسام کے گل و ریحان سے پُر بہار بن گیا ۔ آدمیوں کا ہجوم ہوا ۔ کوئی سیر و تماشے کی غرض سے آتا ہے ۔ کوئی اس کی اصلاح کی غرض سے ۔ کوئی تخم پاشی کر رہاہے ، کوئی محافظت ۔ ہزاروں رنگ کے چرند و پرند اور خوش الحان طائر چہچہاتے ہیں ۔ مختلف رنگ و صورت کے حشرات الاورض دکھائی دینے لگتے ہیں جن کا قبل میں کچھ پتا اور نشان نہ ملتا تھا ۔ اب اس حالت کو پہلی حالت سے ملائیے تو وہی نسبت ہوسکتی ہے جو مردہ کو زندہ سے ہے ۔
غرض جس طرح آب باراں کے پہنچتے زمین مکنونات ارضی کو باہر پھینک دیتی ہے اور دانوں میں جو مادہ درختوں کا اور درختوں میں مادہ پھول و پھل کا نہاں (پوشیدہ) ہوتا ہے وہ باہر نکل آتا ہے ۔ ( كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ ) (ق:١١) "اسی طرح ( بروزِ حشر ) نکلنا ہوگا" ایک نفخہ کی تاثیر سے زمین کے تمام مخفیات باہر نکل پڑیں گے ۔ جیسا فرمایا (  وَ الْاَرْضُ مُدَّتْ  ) "جب زمین کھینچ دی جائے گی اور باہر پھینک دے گی جو کچھ اس میں ہوگا اور خالی ہوجائے گی۔"
اور فرمایا (  ) " قبروں سے اس طرح نکلیں گے جیسے بکھری ہوئی ٹڈیاں۔"
سوالات
(١) سابق آیت میں (وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ) (ق:٧) کا مطلب اور اس آیت میں ( وَنَزَّلْنَا) (ق:٩)سے(كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ       )(ق:١١) تک کا مطلب واحد ہے ۔ پھر تکرار کا کیا حاصل ؟
(٢) آیت سابق کے بعد فرمایا (تَبْصِرَةً وَّذِكْرٰى) (ق:٨) اور اس آیت میں فرمایا ( رِزْقًا )(ق:١١) حالانکہ  دونوں جگہ دونوں باتیں ضم کی جاسکتی ہیں ۔ یہ ساری چیزیں تبصرہ اور ذکریٰ اور رزقِ عباد ہونے میں یکساں ہیں ۔
(٣) اور اُس جگہ پر عبد کو منیب کے ساتھ مقید کیا اور یہاں پر عباد کو عام رکھا ۔ اس تغیر اسلوب میں کیا فائدہ ہے ؟
جواب
(١) پہلی آیت میں اپنی کمالِ صنعت و قدرت ، ایجاد و تخلیق و حشر و نبوت پر آسمان و زمین و جبال و نباتات اور ان کی پیدائش و آرائش سے استدلال منظور ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ ساری چیزیں الگ الگ اس پر دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ ان آیتوں کے ضمن میں ذکر کیا جا چکا اور دوسری آیت میں اپنے احسان و انعام کا جتانا منظور ہے جس کے ذرائع یہی آب باراں اور باغ و زراعت و نخلستان ہیں ، مگر ان میں بھی دلائلِ حشر ضمناً موجود تھے اس لیے (كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ) (ق:١١) کہہ کر اس کی تصریح فرمادی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے