منگل، 4 فروری، 2014

عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج۔ اداریہ Present day challenge and the Muslim World


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج (اداریہ)
Present day challenge and the Muslim World

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اس وقت عالم اسلام بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما ہے :
(١) پہلے محاذ کا تعلق میدانِ جنگ و حرب سے ہے اور
(٢)دوسرے محاذ کا تعلق میدانِ علم و فکر سے

عالم اسلام پر مسلط جنگ
عالم اسلام کی زمینی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ چارو ناچار اسے حالتِ جنگ کا سامنا ہے ۔ شاید ہی کوئی اسلامی ملک ایسا ہو جسے اندرونی یا بیرونی طور پر اغیار کی سازشوں کا سامنا نہ ہو ۔ یہ جنگ باقاعدہ طور پر میدانِ حرب میں بھی لڑی جا رہی ہے اور بساطِ سیاست پر بھی ۔ اب چونکہ جنگوں کے طریقے بدل چکے ہیں ۔ جنگیں کئی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں ۔ میدان حرب میں اسلحہ و بارود کی گھن گرج کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے اور معاشیات کے میدان میں طلبِ زر کی کمی و زیادتی سے بھی یہ بازی جیتی جاتی ہے ۔ بساطِ سیاست پر کیا محض ایک فیصلہ بھی قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ الغرض عالم اسلام کی سیاسی ابتری اس امر کی شاہد ہے کہ عالم اسلام حالتِ جنگ میں ہے۔ مگر بیک وقت قریباً ٦٠ ممالک کی یہ سیاسی ابتری بھی ان میں احساسِ یکجائیت پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کی واحد وجہ وہ استعمار کے آلۂ کار سیاسی زعماء ہیں جو امت کے جسدِ واحد کو منتشر و متفرق کرنے میں ہَمہ وقت مصروفِ عمل و حرکت ہیں ۔ حتیٰ کہ امت مسلمہ کا حقیقی وجود اب سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوچکا ہے ۔ اب سعودی عرب کا مسئلہ سعودی عرب کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا مسئلہ صرف پاکستان کا ۔ اب فلسطین کے مظلومین اپنی جدوجہد صرف اپنے بل بوتے پر کریں اور کشمیر کے حریت پسند اپنی جنگ خود لڑیں ۔مسلم دنیا کے حکمران ان کی اخلاقی تائید سے بھی اب قاصر ہیں ۔ "امت مسلمہ" کا تصور عوام الناس میں تو کسی درجے موجود ہے مگر اس کا حقیقی سیاسی وجود سر دست مفقود ہے ۔
PDF LINK Present day challenge and the Muslim World

عالم اسلام پر علمی و فکری یلغار
دوسرا اہم محاذ علمی و فکری سطح پر بپاہے ۔ مسلمان اس سطحِ ارضی کا وزنی جزو ہیں ۔ چھ سے سات ارب انسانوں کی آبادی پر مشتمل اس دنیا میں جہاں ہزاروں قومیتیں آباد ہیں ، متعدد مذاہب انسانی فکر و عمل پر حکمرانی کر رہے ہیں ، مختلف زبانیں ذریعہ تفہیم بنی ہوئی ہیں ۔ ان میں اسلام واحد دین ہے جس نے قومیت ، لسانیت اور عصبیت کی ہر سطح سے بلند ہوکر افرادِ نسلِ انسانی کو ایک رشتۂ وحدت میں پرو دیا ۔ اسلام ہی واحد دین ہے جو انسان کے ہر گوشۂ عمل پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ ایسے میں وہ سازشی عناصر جو دنیا کو آگ و خون کی لپیٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کا پیغام امن و آشتی اور اس کے آئین و قوانین کے نفاذ کی برکات سے انسانی دنیا مستفید ہو ۔ چنانچہ وہ اسلام کے اندر اصلاحات کرنا چاہتے ہیں ۔ اب تک بساطِ عالم پر متعدد جنگیں لڑی گئیں ہیں لیکن وہ تمام جنگیں صرف میدان جنگ تک محدود تھیں یہ پہلی عالمی جنگ ہے جو فریقین کی ہر سطح میں پھیل چکی ہے ۔ مکمل شعور و ادراک کے ساتھ اسلام کے اصول و مبادی کو بگاڑنے کی سعی کی جارہی ہے ۔

جب وہ اسلام کی عظمتوں کا ساتھ نہ دے سکے تو چاہا کہ اسے اپنی رذالتوں کی سطح تک گرالیں۔ چنانچہ گزشتہ ایک صدی سے اس علمی و فکری یلغار کو مہمیز لگی ہوئی ہے ۔ جتنے مفکرینِ قرآن گزشتہ چند دہائیوں میں پیدا ہوئے ہیں اس قدر تو چودہ سو برسوں میں بھی نہیں ہوئے ۔

عالم اسلام کے محقق علماء و اسکالرز پر مال و زر کی برسات کی جاتی ہے ۔ ان کی نگاہوں میں طلبِ زر کی بھوک اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جس کے سامنے الہامی نوشتوں بھی خشک ہوچکے ہیں ۔ ان اسکالرز کی جانب سے دین میں تخریب کا عمل لا علمی و غیر شعوری طور پر انجام نہیں پا رہا بلکہ ایسا بالقصد و الارادہ کیا جا رہا ہے ۔ منکرات و فواحشات کے جواز کی دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں ۔ نکاح کے مقدس بندھن سے آزاد کرنے اور " شرعی زنا " کی ترکیبیں نکالی جا رہی ہیں ۔ مسلمانوں کو جذبۂ عمل سے محروم کرکے " امیدِ فردا " کی آس میں تھپک تھپک کر سلایا جا رہا ہے ۔ مذہب کے دکانداروں نے بھی اپنی اپنی دکانیں سجالی ہیں ۔ نت نئے رسوم و اعمال کا اجراء کرکے اپنی اپنی تجارت کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ ماہِ مقدس رمضان المبارک بھی مذہبی تجارت کا " قیمتی سیزن " بن کر رہ گیا ہے ۔ مذہب کا ہر تاجر حصولِ زکوةٰ کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا ہے ۔ آہ ، اسلام کا ایک مقدس رکن بھی ان ہوس پرستوں کی طلبِ ہوس کی نذر ہوگیا ۔ اور آہ، کہاں ہیں وہ دل جنہیں اسلام کا درد تھا اور کہاں ہے وہ سینہ جو اللہ اور اس کے رسول کے احساسِ محبت میں جوش مارتا تھا ۔

حکمتیں اور تقاضے
بایں ہَمہ ، ان دونوں محاذوں کے اپنے تقاضے ہیں جس طرح میدانِ جنگ میں اگر کوئی شخص بغیر آلۂ حرب دشمن کی صفوں میں جا داخل ہو تو اس کی ہلاکت یقینی ہے اسی طرح رسوخِ علمی کے بغیر علمی و فکری جنگ کا حصہ بننے والے کا مغلوب الفکر ہوجانا بھی بعیداز قیاس نہیں ۔

رسوخِ علم کیا ہے ؟
دنیا میں جس قدر بھی علوم ہیں ان کی حیثیت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ علوم آلیہ ہیں ، جن کا کام اللہ تک پہنچانا ہے ۔ جو علم اللہ کی معرفت کا ذریعہ نہ بنے اور جس علم سے فکر بلند اور قلب روشن نہ ہو وہ علم ، علم نہیں عین جہل و ضلالت ہے ۔

دائمی و ابدی فلاح کے لیے نہ نیوٹن کی سائنس کام آسکتی ہے اور نہ ہی شیکسپئر کا ادب ۔ جارج برنارڈ شا کی ذہانت ہی کچھ مفید ہوسکتی ہے اور نہ ہی سوامی وویکانندا کی روحانیت ۔

پورے قرآن مجید میں صرف ایک مقام پر" اوالوا العلم "کی ترکیب استعمال ہوئی ہے اور وہیں اللہ رب العزت نے اس کا مصداق کون ہیں ؟ بتادیا ہے ۔
شَہِدَ اللّہُ أَنَّہُ لاَ ِلَہَ ِلاَّ ہُوَ وَ الْمَلاَئِکَةُ وَ أُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ ِلَہَ ِلاَّ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ]آل عمران : ١٨[
" گواہی دی اللہ نے کہ سوائے اس کے کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور اہل علم نے ۔ وہی عدل کا قائم رکھنے والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبودنہیں ، وہی غالب حکمت والا ہے ۔ "

اللہ رب العزت نے بتا دیا کہ اس کی توحید کی معرفت رکھنے والے ہی اہلِ علم ہیں اور رسوخِ علم اس کے بغیر ممکن نہیں ۔

توحید کی تعلیم فطری ہے جب فکر نکاتِ توحید کو اخذ کرلے گی تو قلب اس کے انوار سے روشن ہوجائیں گے ۔ وہ توحید جو انسان کی زندگی میں جلوہ گر نہ ہو اور وہ علم جو آمادئہ عمل نہ کرے عین ضلالت ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے