منگل، 12 نومبر، 2013

اے ماؤ ، بہنو ، بیٹیو !

مجلہ "الواقعۃ" شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

اے ماؤ ، بہنو ، بیٹیو !

ابو عمار سلیم





ہم سب کے علم میں یہ بات ہے کہ طلوع اسلام سے قبل عرب کے جاہل معاشرہ میں گونا گوں اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں موجود تھیں۔ عربوں کی زبان میں فصاحت و بلاغت تھی تو ان کی سرشت میں بے خوفی اور بے باکی بھی تھی۔لوٹ مار قتل و غارت گری میں وہ انتہا درجہ کے سفاک اور بے رحم تھے تو مہمان نوازی اور بندہ پروری میں بھی ان جیسا روئے ارض پر اور کوئی دوسرا نہیں تھا۔تلوار کے دھنی تھے تو بات کے بھی بڑے پکے تھے۔ ایک دفع زبان دے دی تو پھر چاہے جان چلی جائے زبان سے پھرنا ممکن نہیں تھا۔ عورتوں اور خصوصاً بچیوں کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھتے اور اپنی نوزائدہ لڑکیوں کو اپنے بے جا تفاخر اور اونچی ناک کے کٹنے کے ڈر سے اپنے ہی ہاتھوں جا کر گڑھے میں دفن کر آتے۔ عورت ان کے پیروں کی جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تھی۔ اس کا مقصد صرف مردوں کی خدمت کرنا اور ان کی خواہشات کی پیروی کرنا رہ گیا تھا۔ معاشرہ عزت صرف ان خواتین کو دیا کرتا تھا جو بڑی مال دار تھیں یا پھر کسی بڑے قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ عام چلتی پھرتی خواتین کی نہ تو عزت و آبرو محفوظ تھی اور نہ ہی ان کی چیخ وپکار پر کوئی کان دھرتا تھا۔ اسی تناظر میں جب ہمارے آقائے نامدار سرور کائنات نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  مبعوث ہوئے تو جہاں پورے معاشرے کی تطہیر ہوئی وہاں عورتوں کے حقوق و فرائض بھی متعین ہوئے۔ معاشرے کے افراد کی تربیت ہوئی تو انہیں عورتوں کے بارے میں بھی احکامات عطا ہوئے۔ معاشرہ کے وہ افراد جو اپنی محبوباؤں کے حسن اوران کے ساتھ اختلاط ، ان کی اداؤں کی فحش اور ناروا تصویر اپنے اشعار میں بیان کرکے فخر محسوس کرتے تھے ان کو ہی جب غض بصر کا حکم ملا تو ان کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ برابر سے کون سی عورت گذر کر گئی۔ اسی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ اکثر و بیشتر خواتین ایک جگہ سے دوسری جگہ بلا کھٹکے اکیلے سفر کرتیں اور ان کو کسی کا ڈر نہیں رہتا تھا۔معاشرے نے عورت کو ایک مقام دیا جو اس کا حق تھا اور اس کے تمام حقوق کی پاسداری تمام مردوں کے اوپر لازم قرار دے دی گئی۔عورت کو ماں کی صورت میں وہ مقام ملا کہ اس کے قدموں تلے ہی جنت ڈا ل دی گئی۔ باپ کی نسبت تین گنا عزت کی حقدار ہوگئی۔ اس کا نان نفقہ مردوں کے ذمہ ڈالا گیا اور ان کی املاک میں اس کا حصہ ٹھرا دیا گیا۔ عورتوں کا مال ودولت عورتوں کی اپنی ملکیت بن گیا جس پر مردوں کا کوئی حق نہ تھا تاآنکہ عورت خود اپنی مرضی سے کچھ عطاکردے۔مردوں کو اس کا محافظ بنایا گیا اور اس کو خود اپنی روٹی کپڑے مکان کے حصول سے بری الذمہ قرار دیا گیا۔ جہاں عورتوں کو ایک باعزت مقام ملا وہاں ان سے بھی یہ امید رکھی گئی کہ وہ اپنی عزت کا خود بھی پاس رکھیں گی۔ بے جا حسن و آرائش کی نمائش کریں گی اور نہ ہی مردوں کی امانت میں خیانت کریں گی۔ ان کو اسلام نے گھر کے اندر بٹھا یا ، پردہ کی پابندی کروائی تو ان کے معاشرتی حقوق کو سلب نہیں کیا بلکہ جائز اور مناسب آزادی سے نوازا گیا۔ مردوں کو عورتوں کی غلطیوں پر سرزنش کا اختیار دیا گیا تو اس میں بھی ایسی پابندیاں لگائیں کہ جس سے عورتوں کی تحقیر بھی نہ ہو اور ان پر اس سرزنش کی آڑ میں ظلم بھی نہ ہو۔ الغرض مردوزن کے معاملات  میں جو سدھار پیدا کیا گیا وہ اس قدر جاذب اور اتنا عمدہ تھا کہ آناً فاناً پورے معاشرہ میں مقبول بھی ہوا اور اس کے اچھے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔
اسلامی تعلیم کا نقطہ آغاز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے مالک کل ہونے سے شروع  ہوتا ہے۔ پورے قران کریم کا ایک بڑا حصہ اسی بات کو مختلف پیرائے سے بیان کرتا ہے۔ اس کے بعدقرآن پاک حسن اخلاق اورآپس کے میل جول اور معاشرے میں بہتری پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  ایک بہترین استاد کی شکل میں معاشرے کی تطہیر اور اس کی تربیت کے لئے موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  نے  ایک ایسے نظام کی بنا ڈال دی جسے آپ کے جان نثار صحابہ اور تربیت یافتہ ساتھیوں نے مزید آگے بڑھایا۔ ظاہر ہے کہ نبی کا ترتیب دیا ہوا معاشرہ ہر لحاظ سے عمدہ اور قابل تقلید تھا۔ اس کے اپنے گوناگوں فوائد تھے اور لوگوں کو یہ فائدے مل بھی رہے تھے۔ مگر جیسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ ابلیس لعین ہمارا دشمن ازلی اپنی کارروائیوں سے کبھی غافل نہیں رہتا اور جیسے اس نے ہمیشہ سے لوگوں کو ورغلایا اور اللہ کے بتائے ہوئے راستوں سے بھٹکا تا رہا ہے امت مسلمہ کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ اس نیک اور پاک معاشرہ میں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے دور میں وجود میں آیا اور جسے صحابہ کرام اپنے ساتھ لے کر چلے وقت گذرنے کے ساتھ شیطان کے کرتوتوں کی آمیزش سے نہ بچ سکا ۔ گھر کی اکائی اور خاندان کی مضبوطی جو انسان کے معاشرتی بھلائی اور فلاح کی ضامن تھی شیطان کی رخنہ اندازی کی بدولت تباہ ہونی شروع ہوگئی۔جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کی رحلت کو عرصہ زیادہ گزرتا گیا معاشرہ بھی بگڑتا چلاگیا۔ابلیس مردود نے پہلے بھائی کو بھائی سے لڑایا پھر گھروں کے اندر ناچاقی ڈالنی شروع کردی۔ میاں بیوی کے تعلقات میں رخنہ اندازی کی اور بڑے بڑے فتنے اٹھائے۔ روپیہ پیسہ کی فراوانی کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد ٹہرا دیا اور لوگوں کو اس کے حصول کے لئے ہر جائز اور ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے کی ترغیب دی۔ ہر وہ شخص جس کو اسلام کے ابتدائی زمانے  کے حالات اور معاشرے کا علم ہے اور وہ آج کے مادر پدر مغربی اثرات سے بھر پور بگڑے ہوئے ماحول پر نظر رکھتا ہے تو وہ یقینا اس بات سے آگاہ ہوگا کہ ہم آج جس دور سے گذر رہے ہیں اور جن اقدار اور روایات کو پیچھے چھوڑ کر مغرب کی سرپرستی میں سر پٹ دوڑے جارہے ہیں وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستوں سے بہت دور اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کے قائم کردہ معاشرے سے بالکل الٹا ہے۔آج سے کچھ عرصہ پہلے گھر کی اکائی کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ گھر کے بڑے کو گھر کے تمام معاملات میں حکم سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے پورے گھرانے کا ہر فرد ایک دوسرے سے پیار و محبت کے رشتوں سے جڑا ہوتا تھا۔کوئی اگر بھٹک جاتا تو گھر کے بڑے اس کو سمجھاتے بجھاتے اور حالات درست ہو جاتے۔ہر شخص جو گھر سے باہر روٹی کمانے یا کسی اور مصروفیت کی وجہ سے جاتا وہ ہمیشہ گھر واپس آجانے کے لئے تیار رہتا اور اس کو حقیقی سکون اور آرام واپس اپنے گھر آنے کے بعد ہی ملتا۔ انسان کا گھر اس کا قلعہ ہوتاہے مگر آج شیطان نے اس قلعہ میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ کہیں کہیں اس کا انہدام بھی ہوگیا ہے۔ ناچاقی اور ایک دوسرے سے شکایات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ اب اس قلعہ کے اندر بھی حفاظت اور سکون عنقا ہوچکا ہے۔ میاں  بیوی کے تعلقات میں سے پیار و محبت ختم ہوتا جارہاہے،  بھائی کو بھائی سے شکایات ہیں ، چھوٹے بڑوں سے نالاں ہیں تو بڑوں کو چھوٹوں کی تمام باتیں ناگوار ہورہی ہیں۔ ساس بہو نند بھاوج کی لڑائیاں اور بدزبانیاں اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ اب میڈیا پر بھی کھلے عاموں ان مقدس رشتوں کی تضحیک اور جوتم پیزار دکھائی جاتی ہے۔ایسے پروگرام دکھانے والوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی چیزیں دکھا کر لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ یہ اچھی بات نہیں ہے اور ایسے جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں۔ بیشک یہ ایک اچھی بات ہے کہ یہ اصلاح کا ایک زاویہ بھی ہے۔ مگر جس بھونڈے انداز سے یہ پروگرام پیش کیا جاتا ہے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پروگرام بنانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ پروگرام میں جتنی زیادہ بدزبانی اور گالم گلوچ ہوگی ، جتنا زیادہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جائے گا پروگرام اتناہی چٹ پٹا اورکامیاب ہوگا۔جبکہ یہی بدزبانی نوجوانوں اور کچے ذہن کے بچوں کو یہ پیغام دے رہی ہوتی ہے کہ دو بدو جواب دینا ، اپنے آپ کو کمزور نہ پڑنے دینا خواہ اس کے لئے تہذیب و شائستگی کو ہاتھ سے جانے دیا جائے عین حق ہے۔ اپنی بات کو دلائل کے ذریعہ اور شائستگی کے دائرہ میں رہ کر پیش کرنا ایک الگ بات ہے اور اسی کو ایسے انداز میں پیش کرنا کہ چھوٹے بڑوں کے رشتوں کا بھی لحاظ نہ رہے ایک بالکل ناروا اور ہمارے مذہبی اقدار کے منافی بات ہے۔ 
معاشرے کی اس خرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ذی شعور اور درد مند دل رکھنے والا انسان موجودہ حالات کی تصحیح چاہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیزی سے زوال پذیر معاشرے کو کس طرح سنبھالا جائے کہ قرون اولیٰ جیسی فضا پیدا ہوجائے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہے۔ اور اگر یہ ممکن ہے تو اس کے لئے کون سے اقدامات اٹھائے جائیں؟ میری دانست میں یہ کام مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ اگرہم سب اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ دیکھیں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمارے افعال اور معمولات میں کیسی درستگی ہونی چاہئے۔ قران حکیم فرقان مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں زندگی گزارنے کے جو بے بہا اصول درج ہیں ان سے دوری نے ہی آج کی فضا کو بگاڑا ہے۔ اگر واپس ان اصولوںکو اپنا لیا جائے تو معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جب موجودہ معاشرتی برائیوں پر نظر ڈالیں تو ان تمام برائیوں  کے ختم ہونے کی ایک صورت یہ نظر آتی ہے کہ معاشرہ کا ہر ایک شخص  اپنی جگہ پر اپنے آپ کو درست کرلے۔ اپنا جائزہ لیا جائے اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسا کرنے سے یقینا معاشرہ میں بہتری کے آثار پید ا ہونے  شروع ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ ایک دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی نئی نسلوں کو شروع سے ہی درست راستے پر ڈال دیا جائے۔ ان کے اندر وہ شعور پیدا کیا جائے جو اچھا انسان اور اچھا مسلمان بننے میں ممد و معاون ہو ۔ آنے والی نسل کو درست راستے پر ڈالنے کے لئے ان کی بہتر تربیت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا تعلیمی نظام بھی ضروری ہے جو اسلامی تعلیمات کے اوپر مبنی ہو اور بچوں کو شروع سے ہی اسلامی نظام حیات اور عبادات و اقدار سے روشناس کرا دیا جائے جو ایک اسلامی معاشرہ بنانے میں مددگار ہو۔ موجودہ دجالی نظام تعلیم تو ہماری نئی نسل کو اسلام سے بہت دور لے جارہا ہے اور اسلام اور اس کے اقدار سے نفرت سکھانے میں پیش پیش ہے تو ایسی صورت میں کسی ایسے نظام تعلیم کا اجرا یقینا ممکن ہی نہیں ناممکن ہے۔
میرا اس بات پر ایمان ہے کہ یہ مشکل کام جو آج اسکولوں کے ذریعہ سے رواج نہیں دیا جاسکتا ہے گھر کے ابتدائی ماحول سے اس کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اور گھر سے اس کی ابتدا کرنے کے لئے گھر کی اکائی کو مظبوط بنانا انتہائی ضروری ہوگا۔ گھر کی اکائی اس وقت تک مظبوط تو کیا قائم بھی نہیں ہوسکتی جب تک کہ گھر کی خواتین اس کے اندر اپنا تن من دھن سب لگا نہ دیں۔ میری آج کی پکار انہی ماؤں بہنوں بیٹیوں سے ہے۔ یہ ہماری خواتین ہی ہیں جو اس بگڑتے ہوئے معاشرہ کو سنبھالا دے سکتی ہیں۔خواتیں گھر کی مالکہ ہیں اور پورا گھر ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔ گھر کے مرد عموماً گھر کے معاملات سے بیگانہ رہتے ہیں اور انہوں نے تمام معاملات کو عورتوں کے اوپر چھوڑ رکھا ہے۔ ہماری خواتین بھی گھر کے تمام معمولات کو انتہائی خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں۔ خواتین اگر چاہیں تو اس سلسلہ میں ایک انتہائی مثبت طرز فکر اپنا کر گھر کے ماحول کو ہزاروں گنا بہتر بنا سکتی ہیں۔اس ہدف کے حصول کے لئے ہم کچھ مشورے خواتین کو دینا چاہتے ہیں جو گھر کی ایکائی کو یقینا مظبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد کرے گی۔
١۔گھر کی خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر کو یکجا کرلیں۔ اس سلسلہ میں گھر کے ہر فرد کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ گھر کے ہر فرد کی مشکل گھر کے سب لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔تمام لوگ باہم ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں رہیں اور ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہمہ دم تیار رہیں۔گھر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت گھر کے اندر رہنے کی ترغیب دیں۔ گھر کے بڑے مرد حضرات اپنے کام اور کاروبار کے لئے گھر سے باہر نکلیں گے اور بچے اپنے اسکول کالج کے لئے جائیں گے۔ یہ ضروری ہے اس کو نہیں روکا جا سکتا ہے مگر ماحول ایسا ہونا چاہئے کہ گھر واپسی کے بعد بغیر کسی اشد ضرورت کے باہر نہ جایاجائے۔ تمام لوگوں کا ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا ایک ایسی صورت پیدا کرسکتا ہے جہاں سارے گھر والے ایک وقت  میں ایک ساتھ بیٹھیں اور کچھ وقت باہم گفت وشنید کے لئے وقف رکھیں ۔ شام کی چائے پر ایک ساتھ کچھ وقت گذار لیا جائے اور بچوں کے اسکول کے معاملات یا بڑوں کی کاروباری کاروائیوں پر تبادلہ خیال ہوجائے تو بھی ایک بندھن بن جانے کا امکان ہو سکتا ہے۔
٢۔خواتین کو چاہئے کہ گھر کے بزرگوں اور خاص کر عمر رسیدہ لوگوں کی عزت خود بھی کریں اور بچوں کو بھی اس بات کی تاکید کریں کہ بڑوں کی عزت کی جائے۔ بڑوں کی بزرگی کی اہمیت صاف اور واضح الفاظ میں بچوں کے دل و دماغ میں بٹھادی جائے تاکہ وہ ان کی عزت اس لئے کریں کہ وہ قابل عزت ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی ہماری بہتری اور خدمت میں صرف کردی ہے ۔ گھر کے بزرگوں کو ایک کونے میں پڑا رہنے دینے کی بجائے ان کے علم تجربہ اور دنیاوی برتاؤ کے سلسلہ میںان کے خیالات کا استعمال کیا جائے۔ بزرگ اپنے آپ کو تمام معاملات میں حصہ لیتا ہوا دیکھ کر خوش بھی رہیں گے اور دعاؤں سے بھی نوازیںگے۔  خواتین خود بھی رشتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کی درجہ بدرجہ عزت اور شفقت کا لحاظ رکھیں اور بچوں سے بھی اس کا اہتمام کرائیں۔گھر میں بوڑھے ماں باپ ہوں یا ساس سسر یا دوسرا کوئی ضعیف العمر رشتہ دار جس کا آ پ کے ساتھ رہنا ضروری ہے تو اس کی شخصیت کو قبول کریں اور اپنے لئے عذاب جان نہ سمجھیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب اور اس کا صلہ صرف اللہ نے اپنے ذمہ رکھا ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی کا یہ جذبہ بھی اسی درجہ میں آتا ہے۔
٣۔گھر کے ماحول کو اتنا پر امن اور پر سکون بنا دیں کہ گھر سے باہر جاکر سکون ڈھونڈھنے کی ضرورت نہ ہو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات اپنے کام سے واپس آنے کے بعد پھر سے تیار ہوکر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر زیادہ تر گھر سے فرار کا جذبہ کا رفرما ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات کئی ایک ہوسکتی ہیں۔ گھر کی مکدر فضا بھی ہو سکتی ہے ، لڑائی جھگڑے کی وجہ سے بھی اس فرار کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ غیر ضروری پوچھ گچھ یا دیگر تکلیف دہ معمولات اور باتوں کی وجہ سے بھی زیادہ وقت گھر سے باہر لگایا جاسکتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول پر سکون ہو ، ہر طرف پیار و محبت کی چاشنی ہو ایک دوسرے سے باہم الفت اور ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کا جذبہ ہو تو گھر سے باہر بھاگنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
٤۔گھر کے ماحول کو آرام دہ بنائیں۔ اور یہ کام خواتین کے علاوہ کوئی دوسرا احسن طریقہ سے نہیں کر سکتا۔ گھر کی خواتین خواہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجا بنا کر رکھیں۔ ایک اچھی ،  صاف ستھری ، خوشنما اور دول موہ لینے والی فضا گھر کے سکون کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔اس سلسلہ میں خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گھر کے ہر فرد کی پسند اور ناپسند کو سمجھیں اور ان کا خیال رکھیں۔ کھانے پینے میں بھی اور گھر کے ماحول میں بھی یہ پسند اور ناپسند بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ہر ایک کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کریں اور اس کو بانٹنے کی کوشش کریں۔
٥۔بچوں کی تربیت صحیح اسلامی اصولوں پر کریں۔ ان اصولوں کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ بھی کریں اور دوسر وں کو بھی سکھائیں ۔ آپ خود اگر نماز روزے کی پابندی کریں گی تو یقینا بچے بھی آپ کی باتوں کا اثر لیں گے اور خود بھی نماز پر کھڑے ہو جایا کریں گے۔اسی طرح دوسرے شعائر اسلامی کی پابندی اور ان کی ترویج رفتہ رفتہ مزاج کا حصہ بن جائے گی اور پھر نہ ان پر عمل کرنا دشوار ہوگا اور نہ ہی ان کا کوئی مذاق اڑائے گا ۔ جھوٹ سے پرہیز ، غیبت اور چغلی سے اجتناب خود بھی کریں اور بچوں کو بھی اس کی برائی کا احساس دلا کر اس سے دور رکھیں تو انہیں بھی اس سے نفرت ہوگی اور بہت ساری خرابیاں جو ان کی وجہ سے معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہیں ان کا سدباب بھی ہو سکتا ہے۔
٦۔بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آئیں۔ یاد رکھیں کہ آج ان کی اچھی تربیت کل آپ کے آرام اور بڑھاپے کی تکلیفوں سے نجات کا ایک بڑاہتھیار ہے ۔بچوں کو ہر بات کھل کر سمجھائیں اور ان کے اندر نرم خوئی اور نرم دلی کا جذبہ ابھاریں۔ ان کے ساتھ جہاں بڑاپے کا فاصلہ قائم رکھیں وہاں ان سے دوستی اور رابطہ کا راستہ بھی کھلا رکھیں۔ بچے اگر اپنے ماں باپ کو اپنا ہمدرد اور سچا دوست سمجھیں گے تو کبھی بھی گھر سے باہر جاکر ہمدردی نہیں ڈھونڈھیں گے اس لئے کہ ہمدردی کا جذبہ گھر سے باہر جو بھی ملتا ہے ، نقلی ہی ملتا ہے اور اکثر و بیشتر لوگ ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا تے ہیں۔
٧۔خواتین اکثر اپنی زنانہ محفلوں میں ایک دوسرے کو مشورہ دیتی ہیں کہ '' اپنے میاں کو اپنے قابو میں رکھو ۔'' میں بھی آپ کو یہی مشورہ دے رہا ہوںمگر قابو میں رکھنے سے میری مراد وہ نہیں ہے جو عام طور سے خواتین کی مراد ہوتی ہے۔ میرا مشورہ  یوں ہے کہ آپ اپنے میاں سے ایسا رشتہ استوار کریں کہ آپ کا  شوہرآپ کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور ہم نوا سمجھے۔ اپنی تمام مشکلات اور پریشانیاں آپ کے ساتھ مل کر حل کرنے کی کوشش کرے۔ عمومی طور پر اخراجات کے مسائل ہر گھر کے لئے اس مہنگائی کے دور میں عظیم پریشانیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ آمدنی کی کمی اور مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہر گھر کی ضرورتوں میں ایک غیر متوازن صورت حال پیدا کردیتا ہے۔ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے یا تو قرض لینا پڑتا ہے یا پھر دو نمبر کام جیسے رشوت اور بے ایمانی یا لوٹ مار اور ہیرا پھیری جیسی چیزوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔ حر ام کی آمیزش ایک دفعہ ہوجائے تو پھر یہ چیز زہر قاتل سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔گونا گوں برائیوں کے راستے کھل جاتے ہیں اور سب سے پہلے گھر کا سکون تباہ ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ پورے خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اپنے میاں کو اپنے قابو میں رکھنے کامطلب یہ بھی ہے کہ اپنے گھر والے کی آمدنی کے ذرائع پر نظر رکھیں۔ اگر اللہ کے فضل سے آمدنی حلال ذرائع سے آ رہی ہے تو صبر و شکر کے ساتھ اس کو غنیمت جانئے۔ ضرورت سے زیادہ ہے تو اسے پس انداز کیجئے اور ضرورت سے کم ہے تو آمدنی میں اضافہ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنی ضروریات کا جائزہ لیں اور اس میں کمی کرلیں تاکہ گذارہ احسن طریقہ سے ہو سکے۔بہت زیادہ پیسہ آرام اور سکون کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ شیطان کو راستہ دکھاتا ہے کہ آپ کی طرف آئے اور آپ کا اغوا کرلے۔ شیطان اور اس کے ورغلانے سے بچئے۔
٨۔ اپنے بچوں کو اپنا سرمایہ سمجھئے۔ یقین جانئے کہ آپ کے بچے آپ کے لئے اللہ کریم کی طرف سے بہت بڑا انعام ہیں۔ آپ اپنے بچوں کی تربیت میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں۔ اپنے میاں کو بھی اور گھر کے دیگر افراد کو بھی بچوں کے تمام معاملات میں ملوث رکھیں۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھیں ہیں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کے بچے کس اسکول میں کس کلاس میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ باپ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق پیسے کما کرلائے اور گھر والی کے حوالے کردے اور پھر تمام چیزوں سے بری الذمہ ہوجائے۔بچوں کی اچھی تربیت کے لئے اپنے میاں کو اپنے ساتھ ملائے اور اس کو مجبور کریں کہ وہ زیادہ وقت گھر کو دے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے گھر کو صحیح طریقہ سے استوار کر رکھا ہے تو شائد گھر کے مردوں کو گھر سے باہر رہ کر سکون نہ ملے اور وہ زیادہ وقت خود ہی رضاکارانہ طور پر گھر میں گذاریں ۔ بچے اگر صحیح تربیت یافتہ ہونگے تو آپ کی بھی اور پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا ہونگے۔ آپ کے بڑھاپے کا سہارا ہونگے۔
٩۔آج کے دور میں جہاں لوگوں کا گذارا اپنی آمدنی میں نہیں ہورہا ہوتا ہے وہاں دیگر چھوٹے بڑے مسائل الگ سے جنم لے لیتے ہیں۔اگروسائل کم ہوں اور اخراجات کی فہرست بہت طویل ہو تو زندگی وبال جان بن جاتی ہے۔کئی مواقعوں پر ایسا ہو تا ہے کہ خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا پڑتا ہے اور نوکری کے لئے نکلنا پڑ تا ہے۔ وہ وقت جو خواتین کو گھر پر صرف کرنا چاہئے وہ روزی کمانے کے چکر میں گھر سے باہر لگانا پڑتا ہے۔ گھر کی طرف توجہ کم ہوجاتی ہے۔ وہ فضا جو ایک خاتون کی موجودگی سے گھر میں بنتی ہے اس میں رخنہ پڑ جاتاہے۔ بچے اپنے آپ کو اکیلا تصور کرنے لگتے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال یا روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی میں بھی پیچھے رہنے لگتے ہیں اور دیگر برائیاں بھی در آتی ہیں اور یوں ان کی زندگی میں ایک خلا بن جاتا ہے جو ان کے اخلاق ، طور طریقوں اور نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بسا اوقات اس کا حملہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ بچوں کو پھر واپس اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالا جا سکتا ۔ اور یوں نقصان سراسر انفرادی سطح پر والدین کا اور اجتماعی سطح پر پورے معاشرے کا ہوتا ہے۔اس خطرہ کے پیش نظر میری رائے یہ ہے کہ خواتین گھر سے باہر نکلنے سے پہلے بہت اچھی طرح غور و خوض کرلیں۔ کوئی مناسب راستہ اور موجود ہو تو اس کو اپنا لیا جائے۔ اخراجات میں ردوبدل سے یہ مقصد پورا ہوتا ہے تو وہ کر لیا جائے اور اگر حالات بالکل ہی ناگذیر ہو جائیں تو کم سے کم وقت کے لئے باہر نکلیں مگر یاد رہے کہ آپ کے گھر کی ذمہ داری بہر طور آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس سے پیچھا نہیں چھوٹ سکتا۔ مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ خواتین مردوں کی نسبت ساٹھ فیصد زیادہ کام کرتی ہیں اور اس کی وجہ باہر کے علاوہ گھر کی ذمہ داریوں کا نباہ ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں میں کام کرنے کے لئے ماسیاں یا بندے رکھ لیتے ہیں جو ان کی غیر موجودگی میں گھر کا خیال رکھتے ہیں۔ خود سوچیں کہ آپ کے گھر کو آپ سے بہتر کون چلا سکتا ہے ۔ آپ کی موجودگی آپ کے گھر کی اکائی کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔ آپ کے نہ ہونے سے یہ شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ 
١٠۔اپنے بچوں کی تربیت کے پروگرام کو خود ترتیب دیجئے۔ ان کو کیا سکھانا ہے یہ آپ جانتی ہیں ۔ ان کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانے کے لئے بہت کچھ ان کی فطرت میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ اس تمام معاملات کو اچھی طرح غور کر کے اپنے بچوں پر لاگو کریں۔ باہمی ہمدردی کا سبق دیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کو کسی فلاحی کام کے لئے ابھاریں اور ایسے حالات پیدا کردیں کہ وہ کچھ حاصل کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا سیکھیں۔
اوپر جو کچھ بھی میں نے عرض کیا ہے بہت معمولی باتیں ہیں جو ہر ایک ذی شعور شخص کے علم میں ہے۔ بسا اوقات کچھ چھوٹی موٹی چیزیں  ہماری نظروں میںاپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں۔پھر ہم ان کی طرف کم ہی توجہ کرتے ہیں نتیجہ کے طور پر اس کی غیر موجودگی سے گھر کی اکائی میں رخنہ پڑ نے لگتا ہے۔ اور پھر انہی چیزوں کے غیر اہم ہوجانے سے گھر کی وہ اکائی جو انتہائی اہم ہے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔میاں بیوی ، بہن بھائی ،  بچے اور والدین، سب ایک دوسرے سے نالاں اور بیزار ننظر آتے ہیں۔شیطان کی کاروائیاں انتہائی تیز رفتاری سے ہماری تباہی اور بربادی کا پروگرام ترتیب دے رہی ہیں۔ شیطان کو معلوم ہے کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے ۔ اسے بھی علم ہے کہ قیامت بس نزدیک ہی آ پہنچی ہے۔ اس نے اپنے رب کے سامنے جو دعوہ کیا تھا کہ انسان کو مکمل طور پر اللہ کا نافرمان بنا کر دم لے گا اس کو پورا کرنے کے لئے مہلت اب بہت کم رہ گئی ہے۔ اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوا تو اللہ تبارک و  تعالیٰ کے غیض و غضب کا شکار ہو جائے گا۔اس لئے وہ ہمیں اور آپ کو بہکانے اور بھٹکانے کے لئے نت نئے داؤ پیچ لگا رہا ہے۔ ہمیں اللہ سے غافل کرنے کے لئے کیسے کیسے کھیل تماشے اور گناہ آلود دلچسپیوں کے سامان کا انبار لگا رہا ہے۔ لوگ بھی ہیں کہ سر پٹ اس کی طرف ہی دوڑے جارہے ہیں۔ جو کچھ وہ کان میں پھونک دے رہا ہے اس کے جادو میں آتے چلے جا رہے ہیں ایک عجیب سی وارفتگی اور مدہوشی کا سماں ہے یہاں تک کے اللہ کے احکامات سے کھلم کھلا بغاوت ہورہی ہے اور خاتم النبین سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی تنبیہات کو بھی پس پشت رکھا جارہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کو خوف تھا کہ امت عیش و آرام میں داخل ہوجائے گی اس لئے آپ نے حکم کیا تھا کہ اپنی زندگیوں کو انتہائی سادہ رکھو۔ دنیاوی معاملات میں حصہ لو ایک دوسرے کی مدد کرو، معاشرہ کو سدھارو، جو کماؤ اس میں دوسروں کا حصہ رکھو ، جو اپنے لئے پسند کرو اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرو۔ مگر ہم نے سنی ان سنی کردی۔ بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ '' سمعنا و عصینا ''  یعنی ہم نے سنا اور نہیں مانا۔ تو کیا ہم نے بھی یہی نہیں کیا۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کے ماننے والے ہیں تو کیا یہ رویہ مناسب ہے اور ان کی شفاعت اور اللہ کی بخشش اور مغفرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتاہے؟۔
اس گفتگو کو تکمیل تک پہنچانے سے قبل میں اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں سے دوبارہ گذارش کروں گا کہ اپنی اور اپنی آل اولاد کی بہتری کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے گھر کو ایک عمدہ نمونہ بنائیں ۔اس کو اتنا پرکشش بنا دیں کہ گھر کے لوگوں کو صرف گھر میں رہ کر ہی آرام اور سکوں ملے۔ باہر جائیں تو واپس دوڑے چلے آئیں ۔ خوشیاں ، مال اور دولت کی فراوانی کے بغیر زیادہ پائدار اور زیادہ پرکشش ہوتی ہیں۔ مال و دولت تو غرور ، نخوت اور تکبر کی علامت ہے۔ یہ محبت کی بجائے نفرت کا بیج بوتا ہے ۔نزدیک لانے کی بجائے دور بھگاتا ہے۔دنیاوی زندگی سے کہیں اہم اُخروی زندگی ہے۔ دنیا تو ایک امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں بوئیں تو وہاں کاٹیں گے۔ وہاں کی تیاری خود بھی کریں  ،  اپنے گھر والوں کو بھی اس کے لئے تیار کریں اور بال بچوں کو معاشرہ کی بہتر تشکیل کے لئے تربیت دیں۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ وما علینا الاالبلاغ۔
PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے