پیر، 14 جنوری، 2013

سوچیے ضرور، مگر سوچے بغیر

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9  محرم، صفر 1433ھ/  نومبر ، دسمبر 2012

ایم ابراہیم خاں

سوچیے ضرور، مگر سوچے بغیر!

میلکم  گلیڈویل کی مشہور زمانہ کتاب Blink کا تجزیہ جس میں اس نظریے کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے کہ سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے بہت زیادہ سوچنا نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ بسا اوقات نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔

میلکم گلیڈویل نے 2005 میں معرکہ آرا کتاب ''بلنک'' لکھی جس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس کتاب میں گلیڈویل نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ذہن پر زیادہ زور دیے بغیر بھی نتیجہ خیز فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ذہن میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں آزاد چھوڑے جانے پر وہ تیزی سے کسی بہتر نتیجے تک پہنچ سکتا ہے اور اس صورت میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ بھی انتہائی مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔


گلیڈویل کا استدلال یہ ہے کہ سوچنے کے لیے سوچنا ناگزیر نہیں۔ جب انسان کسی بھی معاملے میں یا کسی معاملے کے کسی خاص پہلو پر ذہن کو زیادہ متحرک نہیں کرتا تو سوچ کا عمل زیادہ عمدگی سے جاری رہتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔ سوچنے کے اس منفرد طریقے کی وضاحت کرنے کے لیے گلیڈویل نے جو اصطلاح وضع کی ہے اسے thin slicing کہا جاتا ہے، یعنی کسی معاملے میں بہت کم مشاہدے یا تجربے کے بغیر بھی کسی نتیجے پر پہنچ کر تیزی سے فیصلہ کرنا۔ گلیڈویل کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں میں فطری طور پر ایسا سوچنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ کسی بھی معاملے میں حالات اور واقعات پر غور کرکے وہ فوری طور پر جو بھی نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ بالکل درست ہوتا ہے۔ اس نتیجے کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے بھی سراسر درست ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے تصور کو مستحکم کرنے کے لیے گلیڈویل نے طب، تعلیم، میڈیا، ٹیکنالوجی اور دوسرے بہت سے شعبوں سے واضح مثالیں پیش کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ذہن پر زیادہ زور دیے بغیر کیے جانے والے فیصلے بسا اوقات ان فیصلوں سے بہتر ثابت ہوتے ہیں جن کے لیے بہت سوچا گیا ہو۔

گلیڈویل کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان میں سوچنے کی صلاحیت پر کئی عوامل کا عمل دخل اچھا خاصا ہوتا ہے۔ ہماری پسند و ناپسند، تعصبات، حالات اور تعلقات بھی ہماری سوچ پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر دیگر عوامل ہم پر اثر انداز نہ ہو رہے ہوں تو کسی بھی معاملے میں سوچنا اور کسی نتیجے تک پہنچنا کچھ زیادہ دشوار ثابت نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ایک خاص انداز سے سوچنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ان کی سوچ کا دائرہ خاصا محدود ہوتا ہے۔ انہیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ ان کی سوچ کو کیا رنگ دیا جائے گا، ان کے بارے میں کیا سوچا جائے گا۔ سوچنے کے معاملے میں وہ رات دن ایک لگی بندھی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ اس نوعیت کی سوچ کو اصطلاحاً stereotype کہا جاتا ہے۔ گلیڈویل کا کہنا ہے کہ سوچ کو کسی سانچے سے نکالنے کی صورت میں سوچنے کا عمل خاصا آسان اور پُرلطف ہوجاتا ہے۔ جو لوگ ایک خاص پس منظر کے تحت سوچنے کے عادی ہوتے ہیں وہ کسی بھی معاملے میں اپنی سوچ کا معیار بلند نہیں کر پاتے۔ زندگی بھر وہ ایک خاص سوچ کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور سوچنے کے حوالے سے کوئی کارنامہ انجام دیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ کسی بھی حوالے سے محدود فکر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مجروح کرتی ہے۔ امریکا اور یورپ کے کسی بھی ملک میں رات کے وقت سڑک پر یوں ہی گھومنے والے کسی بھی سیاہ فام کو پولیس شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ایسا در اصل اس لیے ہے کہ سیاہ فام افراد کے بارے میں سفید فام افراد میں یہ سوچ پنپ چکی ہے کہ ان کی اکثریت جرم پسند ذہنیت کی حامل ہوتی ہے! یہ لگی بندھی سوچ پولیس کے طریق کار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

Blink کا خلاصہ

گلیڈویل نے اپنی کتاب میں انسان کا ذہن پڑھنے کی صلاحیت کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر ذہن کو پڑھنے کی صلاحیت پروان چڑھائی جائے تو کسی کو ایک نظر دیکھ کر بھی اس کے بارے میں تیزی سے بہت کچھ سوچا جاسکتا ہے، کسی نتیجے تک پہنچا جاسکتا ہے۔

گلیڈویل نے 6 سال قبل The Tipping Point لکھی تھی۔ اس کتاب نے بھی غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس کتاب میں گلیڈویل نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ کسی بھی شعبے میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب کوئی بھی چیز اچانک بہت بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کرتی ہے، یا اپنے اثرات کا دائرہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ tipping point کی اصطلاح تب سے مشہور ہوئی ہے ۔ Blink میں بھی گلیڈویل نے دو اصطلاحات (blink اور thin-slicing) دی ہیں۔ گلیڈویل لکھتے ہیں کہ جب ہم فوری طور پر کوئی فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں تو ہم دراصل blink کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے معمولی تناسب میں دستیاب معلومات کو عمدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ ہم انفارمیشن کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر طرف سے طرح طرح کی معلومات ہم پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ہم ان معلومات کے سمندر میں ڈوبے بغیر بھی بہت سے فیصلے کرسکتے ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ کسی بھی اہم فیصلے تک پہنچنے میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا جائے اور ذہن کو تیزی سے سوچنے کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

گلیڈویل نے اپنی کتاب کے آغاز میں ایک ایسے مجسمے کی کہانی بیان کی ہے جسے آثار قدیمہ کے ایک گروپ نے نہایت قیمتی قرار دیا تھا۔ دوسرے گروپ نے مجسمے پر صرف ایک نظر ڈالی اور فیصلہ سنا دیا کہ یہ جعلی ہے! اس کی رائے بالکل درست ثابت ہوئی۔

گلیڈویل نے عملی زندگی سے کئی مثالیں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان میں کوئی ایسا نظام موجود ہے جو اسے تیزی سے سوچنے، اور کسی نتیجے تک پہنچنے میں غیر معمولی مدد دیتا ہے۔ جو لوگ اپنے ذہن کی ایک انداز سے تربیت کرتے ہیں وہ تیزی سے فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ معاملہ کھیلوں کا ہو، گھریلو تعلقات کا، فن کی دنیا کا ہو یا مشاغل کا، ہر مقام پر ہماری gut-feeling ہماری مدد کرتی ہے۔ ہم بسا اوقات کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کیے بغیر بھی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں، اور وقت ثابت کرتا ہے کہ ہمارا تجزیہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔

گلیڈویل نے کلیو لینڈ (امریکا) کے ایک فائر فائٹر کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ کہیں آگ لگ گئی۔ یہ فائر مین اپنے ساتھیوں کے ساتھ موقع پر پہنچا اور آگ بجھانے کا عمل شروع کیا۔ آگ پہلے منزل پر کچن میں لگی ہوئی تھی۔ اچھا خاصا پانی ڈالنے پر جب آگ نہ بجھی تو فائر فائٹر نے اپنے ساتھیوں کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ جب فائر فائٹرز اترچکے تو اگلے ہی لمحے کچن سمیت پورا فلور گر پڑا۔ آگ دراصل کچن میں نہیں، بلکہ زیر زمین حصے میں لگی تھی۔ اُس فائر فائٹر کو کیسے اندازہ ہوا کہ فلور گرنے والا ہے؟ اُس نے بتایا کہ چھٹی حس نے اسے خبردار کیا۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں چند مقفل صندوق ہوتے ہیں جن میں بہت سی کام کی باتیں محفوظ ہیں۔ جب ہم blink کرتے ہیں تو ذہن کے کسی صندوق کو کھول رہے ہوتے ہیں۔ اُس فائر فائٹر نے بھی اپنے ذہن کا ایک ایسا ہی صندوق کھولا تھا۔ اگر اُس نے سوچنے پر وقت صرف کیا ہوتا تو اُس سمیت کئی افراد کو موت کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعد میں اپنے اعلیٰ افسر کے سامنے صفائی پیش کرتے ہوئے اُسے کئی عوامل بیان کرنے پڑے، جن کی مدد سے وہ فیصلے تک پہنچا تھا۔ اہمیت صرف اس بات کی تھی کہ فیصلہ بالکل درست تھا۔

گلیڈویل لکھتے ہیں کہ فوری نتائج اخذ کرنا اور کسی فیصلے تک پہنچنا کوئی ایسا عمل نہیں جو آپ کی دسترس میں نہ ہو۔ علم، تجربے اور تربیت کے ذریعے ہر انسان اپنے اندر تیزی سے نتائج اخذ کرنے اور اہم فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے۔ گلیڈویل کے مطابق ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں تعصبات اس قدر ہیں کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی (نادانستگی کے عالم میں) اپنی سوچ کو متوازن نہیں رکھ پاتے، اور چند مخصوص حدود میں رہتے ہوئے سوچنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ اگر انسان ایک خاص دائرے میں رہتے ہوئے سوچنے لگے تو اس کے لیے قدم قدم پر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

Blink پر تنقید

گلیڈویل کے نظریے پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر اور یونائٹیڈ اسٹیٹس کورٹ آف اپیل فار دی سیونتھ سرکٹ کے جج رچرڈ پوزنر نے گلیڈویل پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں پیش کی جانے والی مثالوں کے سلسلے میں ٹھوس دلائل نہیں دیے۔ علاوہ ازیں انہوں نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے ان کی شکل متعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

معروف صحافی اور مدیر مائیکل آر لیگالٹ نے جنوری 2006 میںThink: Why Crucial Decisions Can't Be Made in the Blink of an Eyeشائع کی۔ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے اپنے قارئین کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ سوچنے کا عمل غیرمعمولی طوالت پر مبنی ہوتا ہے اور اس میں ذہنی توانائی بھی صرف ہوتی ہے۔ اور یہ کہ کسی بھی اہم معاملے میں پلک جھپکتے ہی کوئی اہم اور دور رس اثرات کا حامل فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیگالٹ نے لکھا ہے کہ امریکا اور یورپ آج کل واضح طور پر عقل کے بحران میں مبتلا ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سوچنے کی عادت ترک کردی گئی ہے۔ لیگالٹ کا کہنا ہے کہ ''بہت سے مشکل لمحات میں صرف چھٹی حس پر بھروسہ کرنے کے باعث بہت بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کو سمجھنے کے لیے ذہن سازی ضروری ہے۔ وقتی فیصلوں کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی۔ فیصلے جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوا کرتے۔ اگر سوچنے کا یہی ڈھنگ برقرار رہا تو ہماری آزادی اور جینے کا ڈھنگ دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔''

مبصرین نے Think کو بھی غیر متوازن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خاصی عجلت میں لکھی ہے اور اس میں حقائق کا سہارا لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔

Blink سے اقتباسات

یہ کتاب اس سوچ کے بارے میں ہے جو اچانک نمودار ہوتی ہے اور کسی بھی فیصلے تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ جب آپ کسی سے پہلی بار ملتے ہیں، کسی مکان میں پہلی مرتبہ قدم رکھتے ہیں یا کوئی کتاب پہلی بار پڑھتے ہیں تب اچانک کہیں سے ایک احساس ابھرتا ہے کہ گویا آپ کو بہت کچھ معلوم ہے۔ ایک لمحے میں آپ کا ذہن کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے، فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ یہ کتاب اسی ایک لمحے کے بارے میں ہے۔ ذہن کے کسی کونے سے اچانک ابھرنے والے کسی بھی خیال کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پلک جھپکتے میں کرلیے جانے والے فیصلے بھی بسا اوقات نہایت کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ میں اس کیفیت کو وجدان نہیں کہتا۔ یہ ایک جذباتی کیفیت ہوتی ہے۔ جب ہم وجدان کا سہارا لیتے ہیں، چھٹی حِس کے ذریعے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تب ہم لازمی طور پر کوئی ایسی بات نہیں کر رہے ہوتے جو صرف عقل پر مبنی ہو۔ میں جب blinking کی بات کرتا ہوں تو اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ اس میں کہیں بھی کوئی چیز عقل کے خلاف محسوس نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک blinking بھی دراصل thinking  ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سوچنے کے اس عمل میں تیزی غیرمعمولی حد تک ہوتی ہے۔ روایتی اور عمومی انداز سے سوچنے میں خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ blinking  میں سوچنے کا عمل شعوری نہیں۔ جو کچھ بھی ہونا ہے، ایک پل میں ہونا ہے۔ ذہن اس سطح تک کس طور پہنچتا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ اصل مسئلہ یہ سمجھنا نہیں ہے کہ تیز سوچ کیا ہوتی ہے، بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ تیزی سے سوچنے کا فن کس طور سیکھا جاسکتا ہے۔

بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ اگر سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرنے کی عادت پڑگئی تو انسان کا کیا ہوگا؟ کیا ہمارے بہترین فیصلے غیر معمولی حد تک منظم ڈھنگ سے سوچنے کا نتیجہ نہیں ہوا کرتے؟ کیا روایتی ڈھنگ سے سوچنے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جائے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں، اور جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہمارے حواس اور سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی ایک دائرے میں رہتے ہوئے سوچنے کی عادت سے چھٹکارا پالیتے ہیں تو بہت سے معاملات میں تیزی سے سوچنے کی عادت پروان چڑھنے لگتی ہے۔ میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تیزی سے کیے جانے والے تمام فیصلے درست نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں تربیت خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ جو لوگ کسی بھی قسم کی تربیت کے بغیر ہی سوچنے کی بیماری پال لیتے ہیں ان کے لیے صرف پریشانیاں رہ جاتی ہیں۔

ہماری تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس میں تیزی سے سوچنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمیں بچپن ہی سے رٹایا جاتا ہے کہ کسی بھی معاملے پر غور کرنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ معلومات درکار ہوتی ہیں، اور یہ کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ غور کرنا چاہیے۔ تیزی سے سوچنے والوں کو کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔ مگر کیا پرسکون انداز سے سوچنا ہمارے لیے ہمیشہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ زندگی میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں (بلکہ آتے رہتے ہیں) جب زندگی ہم سے غیرمعمولی رفتار کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ مطالبہ یا تقاضا سوچنے کے معاملے میں بھی ہوتا ہے۔

شکاگو میں کُک کاؤنٹی ہاسپٹل کے عملے کو تربیت دی گئی کہ وہ سینے کے درد اور دل کے مختلف امراض کی تشخیص کے معاملے میں زیادہ معلومات جمع نہ کیا کریں، بلکہ محض چند علامات کا تجزیہ کریں اور فیصلہ کریں۔ نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ آج اس ہسپتال کا شمار سینے کے درد سے متعلق تشخیص کے بہترین مراکز میں ہوتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کسی بھی شخص کو غیر روایتی ڈھنگ سے سوچنا سکھایا جاسکتا ہے۔ کُک کاؤنٹی ہاسپٹل کے عملے (اور خاص طور پر سینئر ڈاکٹرز) کو تیزی سے سوچنے کی جانب مائل کرنا کچھ آسان نہ تھا۔ سب سے بڑی مشکل انہیں روایتی انداز سے سوچنے کی راہ پر گامزن رہنے سے گریز پر آمادہ کرنے سے متعلق تھی۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ کسی بھی مریض سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول زیادہ سودمند تھا۔ یہ روایتی سوچ انہیں معاشرے نے دی تھی۔ انسان میں قدرت نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں چند ایک شواہد یا آثار کی بنیاد پر بھی بہت دور رس سوچ کا حامل ہوسکتا ہے۔ عمومی نفسیات میں بھی the power of thin slicing بہت مشہور تصور ہے۔ یعنی یہ کہ چند ایک نکات کی بنیاد پر بھی ٹھوس سوچ پنپ سکتی ہے۔

ہم میں لگی بندھی سوچ غیرمعمولی حد تک ہوتی ہے۔ ہم عمومی معاملات میں روایتی انداز سے سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب کبھی تیزی سے سوچنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے تب ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ متعصبانہ سوچ کے باعث ہم بسا اوقات خرابی سے دوچار ہوجاتے ہیں مگر اپنا سوچنے کا ڈھنگ پھر بھی تبدیل نہیں کرتے۔ یہی وہ خرابی ہے جو ہمیں تیزی سے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم کرتی جارہی ہے۔ ہمارے بہت سے فیصلے محدود اور متعصب سوچ کا عملی مظہر ہوتے ہیں۔ روایتی اور محدود سوچ ترک کرنے کی صورت میں ہمارے لیے زیادہ سودمند ڈھنگ سے سوچنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

میلکم گلیڈویل کا سوانحی خاکہ

میلکم گلیڈویل یکم ستمبر 1963 کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ کینیڈا میں پرورش پائی۔ آج کل نیو یارک سٹی میں سکونت پذیر ہیں اور 1996 سے نیو یارک ٹائمز کے اسٹاف رائٹرز میں سے ہیں۔ گلیڈویل کے والد یونیورسٹی آف واٹرلو میں سول انجینئرنگ کے پروفیسر رہے ہیں جبکہ والدہ کا تعلق جمیکا سے ہے اور وہ سائکو تھیراپسٹ ہیں۔ میلکم گلیڈویل نے 1984 میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے گریجویشن کی ۔ 1987 سے 1996 تک میلکم گلیڈویل سائنس رائٹر تھے ۔ بعد میں انہوں نے نیو یارک میں واشنگٹن پوسٹ کے بیورو چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2005 میں امریکی جریدے ٹائم نے ان کا نام غیر معمولی اثرات کے حامل 100 افراد کی فہرست میں شامل کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے