جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9 محرم، صفر 1433ھ/ نومبر ، دسمبر 2012
محمد تنزیل صدیقی
نبوی عظمتوں کی تلاش
(اداریہ)
تخلیقِ کائناتِ عالم کے ساتھ ہی اللہ ربّ العزت نے سلسلۂ
ہدایت و رہبری کا آغاز بھی فرمادیا ۔ چنانچہ انبیاء و رسل کی بعثت ہوئی جنہوں نے انسانیت
کے ظلمت کدے کو الہام و وحی کی روشنی سے منوّر کیا اور افرادِ انسانیت پر ہدایت و ضلالت
کی راہیں واضح کردیں ۔ جب ہم سلسلۂ تنزیلِ وحی اور بعثتِ انبیاء و رسل کی تاریخ پر
نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جب جب انسانیت تاریکی و معصیت کے قعرِ مذلّت میں جا
گری تو انہیں ذلّت آمیز پستی سے عزت آمیز بلندی کا سفر طے کرانے کے لیے انبیائے کرام
علیہم السلام کے مقدس افراد کا نزول ہوا ۔ تاریخِ انسانیت میں ایسا مقام بھی آیا کہ
جب ایک ہی وقت میں ایک سے زائد انبیاء و رسل مبعوث فرمائے گئے ۔
تاہم "خاتم النبیین" اور "عہد کے نبی"
( ﷺ ) کی نبوت بقیہ نبوتوں سے کئی حیثیت میں امتیازی مقام رکھتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ اللہ
کے آخری پیغام بَر تھے ۔ ان کی نبوت اپنی تکمیلِ شریعت کے لیے کسی لاحق و سابق نبی
کی محتاج نہیں ۔ ان کا نزولِ اجلال دنیائے انسانیت پر اس وقت ہوا جب دنیا ہر طرح کی
معصیتوں سے معمور تھی اور انسانیت اپنی ہدایت کے لیے کسی رہبر کا ٥ صدیوں سے انتظار
کر رہی تھی و نیز ان کی امت کو آخری امت قرار دے کر مہلتِ ساعت کی مدت بھی دوسری امتوں
سے زیادہ دی گئی ۔
جیساکہ عرض کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کسی لاحق و سابق
نبی کی محتاج نہ تھی ۔ اسی لیے اللہ ربّ العزت نے اس امت پر اپنا فضل و کرم اور لطف
و احسان مجددّینِ امت کی شکل میں برائے ہدایت و رہبری جاری رکھا ۔ ان مجددّین کا کام
تاسیسِ دین نہیں بلکہ تجدید دین تھا ۔ یہ پیغامِ محمدی ( ﷺ ) ہی کو اپنی پوری قوت اور
مجددّانہ شان سے پیش کرتے رہے اور اپنے اپنے دور میں اصلاح و تجدید کا فریضہ انجام
دے گئے ۔ ( رحمہم اللہ تعالیٰ )
بدقسمتی سے گزشتہ دو تین صدیوں سے کسی مجدد کامل کا ظہور
نہیں ہوا ۔ گو متعدد اور بکثرت ایسے مخلصین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے طور پر تعلیماتِ
محمدی ﷺ کی نشر و اشاعت اور اثر و نفوذ میں حصہ لیا ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن
نہیں کہ اب اسلام کی بجائے فرقوں کے مجدد پیدا ہوتے ہیں ۔ خود مسلمانوں میں فرقہ پرستی
اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے کے عالم کو مجدد ماننا تو درکنار عالم تسلیم
کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
آج اس امت میں تمام قدیم و جدید فتنۂ عقائد و اعمال اپنی
حشر سامانیوں کے ساتھ یکجا ہوکر منظر شہود پر آ گئے ہیں ۔ افکارِ انسانی اپنی گمراہیوں
اور اعمالِ انسانی اپنی رذالتوں کی انتہا پر جا پہنچے ہیں ۔ ایسے میں انسانیت اپنی
تاریخ کی بدترین پستی میں جا گری ہے ۔ہلاکت و بربادی اور نکبت و رسوائی کے اس گڑھے
سے نکالنے کے لیے اب انسانیت نبوی عظمتوں کے ظہور کی محتاج ہے ۔ اب کسی مجدد کے بس
کا روگ نہیں جو نظام دجّالیّت کی ظلمت و تیرگی کو دور کرسکے ۔ تعلیماتِ محمدی ﷺ کی
روشنی میں سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزولِ ثانی ایک معلوم حقیقت ہے ۔
نبوت ایک مستقل عہدہ وہبی ہے ۔ جو کبھی سلب نہیں ہوتا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ سیّدنا عیسیٰ مسیح کی آمدِ ثانی ایک امتی کی حیثیت سے ہوگی لیکن اس سے
ان کے نبوی تشخص پر زد نہیں پڑتی وہ جب آئیں گے تو نبوی عظمتوں کی نشانیاں بھی اپنے
ساتھ لائیں گے جو قعرِ مذلّت میں گری انسانیت کو پستی سے بلندی تک لے جائے گی ، کیونکہ
ان کی آمدِ ثانی آثار و قیامت کے باب میں ساعتِ موعودہ کی ایک نشانی ہے (١)۔
بایں ہَمہ نبوی عظمتوں کا ظہور اپنے مقررہ وقت پر ہوگا جو
گویا انسانیت کے لیے براہِ راست الہام و و حی کی آخری تجلی ہوگی ۔ گو احساس کی شدت
اور جذبات کی رقّت کا اشارہ یہی ہے کہ دنیا اب اپنے اختتام کی خود ہی متلاشی ہوچکی
ہے لیکن اس کی صحیح تاریخ اور مدت کا علم صرف اللہ ربّ العزت ہی کے پاس ہے ۔
جو لوگ نبوی عظمتوں کے شہود کے منتظر ہیں ان کے لیے صحیح
روش یہی ہے کہ وہ اپنی ہمتوں اور حوصلوں کو اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کریں ۔عمل
سے دستِ کش ہوکر فارغ بیٹھ جانے والے بھی اور نبوی عظمتوں کے ظہور کے منکر بھی ، دونوں
ہی افراط و تفریط کا شکار ہے اور سلامتی صرف اعتدال میں ہے ۔
اگر دجالی گروہ آمد دجال کی تیاری کر رہا ہے تو مسیح ابن
مریم کے گروہ کے لیے کونسا طریقہ سزاوار ہے ۔ فیصلہ خود کریں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے