منگل، 25 دسمبر، 2012

المغراف فی تفسیر سورۂ ق 7

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

المغراف فی تفسیر سورۂ ق

قسط نمبر 7

مگر یہ دولتِ تفکر و ذکر ہر آدمی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ
(١) انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے ، عالم میں ساری چیزوں کے ظاہری اسباب کو دیکھتا ہے ۔
( ٢) خود کو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کے بہم پہنچانے میں مصروف کردیتا ہے ۔
(٣) خود کو ایسے لوگوں میں پاتا ہے جو فی الجملہ مختار بھی ہیں اور مجبور بھی ۔
(٤) جن لوگوں میں نشو و نما پاتا ہے انہیں دیکھتا ہے کہ جن باتوں میں وہ مختار ہیں ، ان کو اپنی طرف نسبت دیتے ہیں اور جن باتوں میں مجبور ہیں ان کو کسی قوت غیبی کی طرف منسوب کرتے ہیں تو یہ بھی کسی غیبی قوت کا قائل ہوجاتا ہے اور تقلیداً انہیں کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے ۔ یہی بنیاد ہے اللہ کے ماننے کی ، جس سے کسی انسان کا دل خالی نہیں مگر اس کے تعیین میں ، تعداد میں ، طریقِ پرستش میں ہزاروں دھوکے کھاتے ہیں ۔

(١)جو محض عامی ہیں اور سطحی عقل رکھتے ہیں وہ تو بالکل غافل رہتے ہیں اور سرو سامانِ زندگانی کی فراہمی ہی ان کی زندگی کا حاصل ہے ، اور کچھ نہیں ۔ آخرت سے انہیں محض اطمینان رہا کرتا ہے اور گاہے بگاہے اس معبود کا جس کو انہوں نے محض تقلیداً معبود تسلیم کرلیا ہے دھیان کرلیتے ہیں اور مصیبت کی گھڑیوں میں اس کو مددگار سمجھ کر پکار لیتے ہیں ، بس اس سے زیادہ ان کو اپنے معبود سے کوئی مطلب نہیں ، نہ کسی طرح کا تعلق ۔ انہیں کی شان میں وارد ہوا کہ 
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ(محمد :١٢)  
''کفار سامانِ زندگی سے اسی طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور خدائی نعمت ( اسی طرح غفلت و بے پروائی سے ) کھاتے ہیں جس طرح چارپائے ۔ ''
ان کو تفکر و غور سے صنعتِ باری تعالیٰ میں کوئی بہرہ نہیں ملتا ہے ، جیساکہ فرمایا
 وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ     ١٠٥؁
'' آسمان اور زمین میں اللہ کی قدرت کی ہزاروں نشانیاں موجود ہیں ، مگر وہ اس سے منہ موڑ کر گزر جاتے ہیں ۔ ''(یوسف : ١٠٥)
(٢) اور جن کی طبیعت میں عامیانہ تقلید سے آزادی کا مادّہ ہے اور اس سبب سے تفکر و غور کرتے ہیں ، وہ اپنی تجویز پر بھروسا کرکے نازاں ہوجاتے ہیں اور اس قوت غیبی کی تعیین و تعداد و طرقِ معرفت و تعظیم و پرستش کے باب میں طرح طرح کے من گھڑت خیالات میں پھنس کر راہِ حق سے دور کے دور ہی رہ جاتے ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہوا کہ
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ      ١٠٦؁
 '' بہیترے لوگ ایمان لاتے ہیں ، مگر مشرک کے مشرک ہی رہ جاتے ہیں ۔ '' (یوسف : ١٠٦)
اس اختلاف و طبائع کی وجہ سے عالم میں جتنے مذاہب بہ نسبت تعداد و تعیی و طریقِ عبادت ربّ العالمین کے ہیں ، ان سب کا انحصار محال ہے لیکن عموماً انسان میں جو مذاہب شائع ہیں ، وہ یہ ہیں :

(١)          اللہ تعالیٰ نے آسمان اور آسمانی چیزوں کو پیدا کیا اور زمین کو اور زمین میں جو کچھ ہے ان سب کو آسمان اور روحانیوں نے پیدا کیا ، اور انہیں کے زیرِ فرمان ہیں ، بحکم '' اَلْاَخَسُّ یَتْبَعُ الْاَعْلیٰ ''(یعنی : کم تر اعلیٰ کی پیروی کرتا ہے ) پس ہم لوگوں کے خالق اور معبود شمس و قمر و نجوم و ملائکہ ہیں اور ان سب کا خالق اور معبود اللہ ہے ۔

(٢)         آسمان اور آسمانی چیزیں بلاواسطہ خاص اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور زمین اور زمین کی ساری چیزیں مخلوقات کو اللہ ہی کی ہیں مگر بذریعہ اور بشمول و شرکت آسمان اور آسمان والوں کے جملہ تراکیب و اتصالات فلکیات سے صدور میں آتے ہیں ۔ اس لیے نجوم و روحانیت کو شرکت ہے اور ہم دونوں کو پوجتے ہیں اللہ کو بھی اور نجوم و روحانیت کو بھی ۔

(٣) ساری مخلوقات ارضی و سماوی اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے اور نظم عالمِ کون و فساد میں جو کچھ ہوتا ہے سب درحقیقت اللہ ہی کرتا ہے مگر یہ کام کواکب و ملائکہ و خاصانِ الٰہ کے حوالے ہیں ۔ جب کوئی نظم (بمعنی انتظام)وہ لوگ چاہتے ہیں خداوندِ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی اطلاع دے کر اس کو آگاہ کرتے ہیں چنانچہ اللہ ان کو وہ نظم و نسق مفوض (تفویض کرنا یعنی اختیار دینا)کردیتا ہے ۔ پس وہ سب وزیروں اور عاملوں کی طرح ہیں اس لیے ان کا بھی فی الجملہ ارضیات پر احسان ہے پس ان کی بھی پرستش اور تعظیم واجب ہے ۔

(٤)اصنام اور اوثان سب ملائکہ اور خاصانِ الٰہ کی صورتیں ہیں یا ان کی پسندیدہ چیزیں یا آثار ۔ خاصانِ خدا کی صورت اور ان کی آثار و پسندیدہ چیزوں کی پرستش اس لیے کرتے ہیں کہ وہ راضی ہوں گے اور ایک دوست دوسرے دوست کی تعظیم سے خوش ہوتا ہے اس لیے اللہ بھی راضی ہوگا اور اگر ناراض ہوگا بھی تو یہی مقرب ہم کو سفارش کرکے چھڑالیں گے ۔

(٥) اللہ تعالیٰ ہمیشہ کسی آدمی ، جانور ، درخت یا پہاڑ میں بسا کرتا ہے اور جب کسی چیز میں سماتا ہے تو اس سے بہت سے عجائبات ظہور میں آتے ہیں ۔ اس لیے جس چیز سے عجائبات ظہور میں آئیں ان کی پرستش کرنا چاہیئے کہ شاید اسی میں خدا بسا ہوا ہے ۔

(٦ ) دہریہ ہیں جو تمام چیزوں کو سبب اور مسبب مانتے ہیں ایک دوسرے سے بنتا رہتا ہے اور دوسرے کو بناتا رہتا ہے ہمیشہ سے یہ عالم یوں ہی آپس کی قوت سے بنتا چلا آتا ہے اور چلا جائے گا ۔

(٧ )مجوسی جو مستقل دو متضاد خالق مانتے ہیں ۔ تمام بھلی چیزوں کا خالق نور ہے جس کا دوسرا نام یزداں ہے اور تمام بری چیزوں کا خالق اندھیرا ہے جس کا دوسرا نام اہرمن ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے