منگل، 25 دسمبر، 2012

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی، کراچی)

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟

قسط نمبر 1

ہر معاشرے میں صرف ایک قدر ہوتی ہے ، جو تما م اقدار سے ماورا ہوتی ہے۔ہر کام کو اس ایک قدر کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔یہ تصور الخیر[Good] یا اس تہذیب کا Hyper Good  ہوتا ہے۔ تمام اقدار و روایات اس تصور خیر سے ہم آہنگ ہوں گی۔ عصر حاضر میں یہ الخیر آزادی ہے۔لہٰذا عصر حاضر کے ہر معاشرے کے تصور عدل کو اس الحق الخیر تصور آزادی[Freedom] پر پرکھا جائے گا کہ معاشرہ فرد کی آزادی میں کتنا اضافہ کررہا ہے۔جو معاشرہ آزادی کے دائرہ میں جس قدر اضافہ کرے گا وہی سب سے عادل معاشرہ ہوگا ۔بہ ظاہر یہ تصور لوگوں کو اچھا لگتا ہے اور آزادی کے اس تصور پر عدل کی اس تعریف پر اس کا اصل تاریخی فلسفیانہ تناظر واضح کیے بغیر تنقید کی جائے تو لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے ۔
حالاں کہ تاریخ کے کسی دور میں کسی انسان کو زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکا، ہائیڈیگر تو کہتا ہے کہ انسان آزادہی ہے پھر آزادی کے کیا معنی انسان کو کوئی پابند نہیں کر سکتا لہٰذا آزادی کے مطالبے بے کار باتیں ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ہر شے خدا کی رضا کے تناظر میں پرکھی جائے گی اسلامی تہذیب کا خیر اعلیٰ، بندگی ہے۔ جو عہد الست کا نتیجہ ہے۔ خدا کی رضا کیا ہے وہ تم سے کیا مطالبہ کرتا ہے اس مطالبے کی تکمیل ہی عدل [Justice]ہے۔ اس کے سوا عدل کا ہر تصورظلم ہے جہل ہے۔ مغرب میں انسان مطلق آزاد فاعل خود مختار [Absolute Free, self autonomus being] حق خود ارادیت کا حامل [Self determin] ہے انسان کسی کو جواب دہ ہستی نہیں ہے۔لہٰذا آزادی کی قدر value اور خیر Goodکے راستے میں کسی قسم کی روایتی ، الہامی، دینی، شرعی ، سماجی ، قبائلی ، گروہی، مذہبی، نسلی، اخلاقی ، قانونی، شرعی، فقہی، اجتماعی ، خاندانی ، قومی، علاقائی ، خاندانی ، لسانی ، پابندیاں برداشت نہیں کی جائیں گی، آزادی کے دائرے میں وسعت کی آزادی ہے کمی کی نہیں۔یہ شرف انسانیت کی توہین ہے۔ کیونکہ آزادی خیر مطلق ہے الحق ہے اس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور اگر کبھی جدید لبرل ریاست انسانی آزادی کوبہ ظاہر محدود کرتی ہے تو اس تحدید کے نتیجے میں مستقبل میں آزادی کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے بہ ظاہر پابندی اجتماعی طور پر مستقبل میں آزادی کے لا محدود امکانات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے اور آزادی کے لیے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کا ازالہ کرتی ہے ۔امریکہ کا قومی پرندہ عقاب ہے اگر کوئی اس کی توہین کرے ، اگر کوئی عقاب کو مار دے ، اس کے پر گھر میں رکھ دے تو آٹھ سال قید سے لے کر موت کی سزا ہو سکتی ہے، یہ ان کا تصور عدل ہے جو ان کے تصور خیر سے بر آمد ہوا ہے ۔ اس تصور عدل کو جو قبول نہیں کرے گا اسے مار دیا جائے گا۔ یہ آزادی کی نفی نہیں ہے۔کیوں کہ آزادی مطلق نہیں ہوتی کسی تصور خیر کے تابع ہوتی ہے لہٰذا اگر تصور خیر کو نقصان پہنچائے بغیر آزادی حاصل کی جائے تو کوئی سزا نہیں ملے گی ۔ اس وقت پانچ تصورات عدل مغرب میں رائج ہیں
(١) لبرل تصور عدل
(٢) لبر یٹرئین تصور عدل
(٣) اشتراکی تصور عدل
(٤) Feminist نسائی تصور عدل
(٥) کمیونی ٹیرین تصور عدل ۔

(١)لبرل تصور عدل کے مطابق  آزادی میں لا متناہی اضافہ کرتے چلے جانا فرد ،معاشرت، اجتماعیت، حکومت کا مشترکہ کام ہے اور ریاست کا بھی یہی کام ہے کہ وہ آزادی میں وسعت کوہر سطح پر ممکن بناتی رہے ۔ لبرل ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ ریاست اور مارکیٹ کے انضمام کے ذریعے آزادی کے حصول کو ہر انسان کے لیے ممکن بنادے لبرل تصور عدل مارکیٹ میں ریاست کی مداخلت کا حامی ہے۔

(٢)لبریٹرین تصور عدل بتاتاہے کہ مارکیٹ کے ذریعے آزادی کے حصول کو تمام انسانوں کے لیے ممکن بنانا ریاست کا اصل کام ہے ریاست مارکیٹ میں مداخلت نہیں کریگی ریاست کو مارکیٹ کے امور سے لا تعلق رہنا چاہیے اسے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ مطلق آزاد مارکیٹ  کے نتیجے میں دنیا سے اسباب کی کمی Scarcity اور Persecution کا نظام ختم ہو جائے گا۔

(٣)سوشلسٹ تصور عدل مساوی آزادی کے حصول کے لیے مارکیٹ کی تنسیخ اور پلاننگ کے ذریعے معاشرتی عدل اور معاشی مساوی آزادی کے حصول کو ممکن بناتاہے۔

(٤) کمیونی ٹیرین تصور عدل یہ ہے کہ کمیونٹی کے تصور خیر کی روشنی میں معاشرتی عدل کی تشریح کی جائے گی عدل وہ ہوگا جو کمیونٹی کے تصور خیر سے ہم آہنگ ہوگا۔

(٥)نسائی تصور عدل [Feminst Conception of Justice] میں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں جن کے تصور عدل ایک دوسرے سے مختلف ہیں پہلے مکتب کا خیال ہے کہ مرد و عورت کی تخلیق ایک ہی مادے سے ہوئی ہے کچھ خصوصیات مرد میں ہیں اور کچھ عورت میں مرد openess،Brave, couragious، Expressiveخصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہ مسابقت حاکمیت competition and Mastry کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عورت جذبات حسن اور دوسروں کے دکھوں کو اپنے وجود کا حصہ بناکر خود میں سمونے کا ہنر جانتی ہے وہ emotions, beauty, Compassionکا آمیختہ ہوتی ہے لہٰذا عورت و مرد میں تفریق کرنے کے بجائے یہ مکتب فکر دونوں اصناف کی اعلیٰ خصوصیات کو ملا کر آئیڈیل معاشرتی انسان کا تصور دیتا ہے جو نہ مرد ہے نہ عورت بلکہ ان دونوں کی اعلیٰ شخصی کیفیات کا اجتماعی اظہار ہے۔ایسے معاشرے میں عدل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی دوسرا مکتب فکر کہتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کی قوت وطاقت کے دائرے میں جائز حصہ دیا جائے ۔ عورتوں مردوں کی تعداد برابر ہے لہٰذا نظام عدل و قوت میں عورت کو مرد کے مساوی حصہ ملنا چاہیے تیسرے مکتب فکر کا موقف یہ ہے کہ مردوں کے غلبے کی دنیا میں جب عورتیں اپنی حصہ مانگتی ہیں تو جن اقدار کو آئیڈیلائز کیا جاتا ہے وہ مردانہ اقدار ہی ہوتی ہیں جب ایسے نظام میں عورتوں کا حصہ مانگتے ہیں تو ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نظام اس کے طریقے کہ سب ٹھیک ہیں بس عورت کو حصہ دے دیا جائے یہ رویہ مردوں کی دنیا کو درست تسلیم کرنے کا رویہ ہے عورتوں کو نئی دنیا پیدا کرنی چاہیے نہ کہ وہ مردوں کی بنائی ہوئی دنیا میں اپنا حصہ تلاش کرنے میں مصروف ہو جائیں چوتھا مکتب فکر [Post feminist] عورت کی مظلومیت کے بجائے مرد کی مظلومیت کا اعلان کرتاہے اس مکتب کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ استحصال مردوں کا ہوتا ہے معاشرہ سارا بوجھ مرد پر ڈال کر اسے کچل دیتا ہے اسی لیے مرد کی عمر عورت سے کم ہوتی ہے۔ عورت مزے کرتی ہے مرد اس سے پہلے ہی بوجھ سے مر جاتا ہے عورت رو دھو کر اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے مرد مردانگی کے باعث اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے وہ اندر ہی اندر گھلتا ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا مرد ایک مٹتی ہوئی مخلوق ہے اگلے پچاس برسوں میں اس کی آبادی صرف آٹھ فیصد رہ جائے گی مرد کم پیدا ہورہے ہیں ان کی شرح اموات بہت زیادہ ہے مسلسل مرد پر دباؤ سے مرد کا جنین کم زور ہورہا ہے مردوں کا دل عورت کے مقابلے میں زیادہ نازک ہے اسی لیے سب سے زیادہ لٹریچر مردوں نے پیدا کیا ہے عورت یہ کام نہیں کرسکتی کہ وہ سخت دل ہے مرد عورت سے اثر پذیر ہوتا ہے اسی لیے فنون لطیفہ مردانہ ہیں اس مکتب فکر کی توانا آواز Man against the wall نامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔عدل کے تصور کی تفصیل اس لیے دی گئی ہے کہ عہد حاضر میں عدل کی اصطلاح کثرت سے استعمال کی جاتی ہے اسے غیر اقداری اصطلاح تصور کرکے عدل کو ہر شے حتی کہ وحی سے بھی ماورا تصور کیا جاتا ہے اور یہ عقیدہ اختیار کیا جاتاہے کہ اخلاقیات، عدل وغیرہ وحی سے پہلے کی اقدار ہیں اور مجرد اقدار[absolute values] ہیں Rawls اور امریتا سین نے عدل کے جدید مغربی تصور پر تفصیل سے لکھا ہے عدل کا مقصد مغرب میں آزادی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں اس آزادی کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں مثلاً لبرل ازم اور سوشلزم و نیشنل ازم میں آزادی ہر فرد کے لیے آزادی پرولتاریوں کے لیے آزادی قوم پرستوں کے لیے یا آزادی کسی اجتماعیت کے لیے ،طبقے کے لیے، نوع کے لیے، قوم کے لیے، نسل کے لیے مخصوص ہے لیکن سب کا عقیدہ آزادی ہی ہے اس کے مظاہر مختلف ہیں اصول میں یہ متفق ہیں اطلاق میں متفرق ہیںیعنی آزادی کے حصول کے طریقوں میں تو اختلاف ہے لیکن آزادی کے ایمان و یقین پر کوئی اختلاف نہیں عدل کی ہر وہ شکل جو انسان یا اجتماعیت کی آزادی میں رکاوٹ پیدا کرتی اورتحدید عائد کرتی ہے وہ عدل نہیں ظلم ہے عدل کا تقاضہ محض آزادی ہے ۔اسلام میں عدل کا تصور مغرب کے تصور عدل سے یکسر مختلف ہے کیونکہ دونوں تہذیبوں کا تصور حقیقت اور تصور الخیر سراسر مختلف ہے توحید اسلام میں عین عدل ہے اور شرک سراسر ظلم بلکہ قرآن کی نظر میں سب سے بڑا ناقابل معافی ظلم شرک ہے مغرب شرک کو ظلم نہیں سمجھتا یہ انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اجتماعی امور ریاستی حکمت عملی سے شرک کا کوئی تعلق نہیں مغرب کے عدل میں آزادی کے منافی ہر عمل، عقیدہ، نظریہ ، علم اور جہل ہے ۔ عدل کا تعین اگرصرف عقل سے کیا جاسکتاہے تو لازماً عدل کی تشریح میں اختلاف ہو جائے گا اس اختلاف کو کیسے رفع کیا جائے؟ اگر عدل ایک ہے تو پھر عدل کی بہت سی تشریحات عدل کو کیسے ممکن بنا سکتی ہیں عدل کے شارحین بہت سے ہوں تو اس تنوع اور تفرد میں اجتماعیت کیسے پیدا کی جائے گی اجماع کیسے ممکن ہوگا؟ اگر عدل کو طے کرنے کا علم آفاقی ہے تو اجماع ہوسکتا ہے مگر اس کا علم تو عقل کی میزان سے نکلتا ہے عقل جو اپنی تاریخ تہذیب جذبات ثقافت کی اسیر ہے۔

امریتا سین Amartyasen نے اپنی کتاب The Idea of Justice میں انسانی عقل کے ذریعے عدل کے تعین کے سلسلے میں ایک دلچسپ حکایت نقل کی ہے تین بچے آپس میں کسی کھلونے پر گتھم گتھا تھے ایک شخص موقع واردات پر پہنچا تو اس نے تینوں کو الگ کیا اور ماجرا پوچھا ایک بچے نے جواب دیا کہ ہم تینوں اس بانسری پر لڑرہے تھے میں بانسری بجا سکتا ہوں یہ دونوں بانسری بجانا نہیں جانتے لہٰذا اس کھلونے کا حق دار جائز مالک میں ہوں اس آدمی نے بانسری بچے سے چھین کر اس کے حوالے کردی دوسرا بچہ بولا آپ نے عدل نہیں کیا یہ ظلم ہے۔ میرا موقف سن لیجیے اس نے کہا بتاؤ بچے نے کہا کہ میں سب سے غریب بچہ ہوں میرے گھر میں کوئی کھلونا نہیں ہے یہ دونوں امیر ہیں ان کے گھر کھلونوں سے بھرے ہوئے ہیں لہٰذا اس بانسری کا اصل حقدار میں ہوں۔ آدمی نے پہلے بچے سے بانسری چھین کر اس کے حوالے کردیا۔ تیسرے بچے نے کہا آپ نے پھر عدل نہیں کیا میرا موقف سن لیجیے اس نے کہا سناؤبچے نے کہا یہ بانسری میں نے بنائی ہے یہ میری ملکیت  ہے اس کا اصل مالک میں ہوںیہ میرے حوالے کی جائے ۔انسان جب بھی عقل کے ذریعے عدل تلاش کرے گا اسی طرح ٹھوکریں کھائے گا یہ تصور کرنا کہ عدل اور اخلاقیات ماورائے وحی ہے جدید مغربی تصور علم ہے جو وحی اور اللہ کے وجود کا ہی انکار کرتا ہے۔ عدل وہی ہے جو عقل کلی، حقیقت الحقائق کی وحی کے ذریعے آشکار ہوا ہے۔عدل ہمیشہ تصور حقیقت تصور الخیر یا ما بعد الطبیعیات ، ایمانیات ، اعتقادات سے نکلتا ہے۔مادہ پرست معاشرے میں عدل کا تصور سراسر مادی ہوگا زر پرست معاشرے میں عدل کا تصور زر میں اضافے کے محور پر ہوگا شہوت اور لذت پرست معاشرے میں شہوت و لذت کے راستے میں رکاوٹ عدل کے منافی ہوگی۔

انہی معنوں میں شریعت ، خدا کی رضا ہی عین عدل ہے دنیا کے ہر حصے میں انبیاء کرام آئے ہیں لہٰذا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اس الہٰی عدل اور آسمانی اخلاقیات کی کوئی نہ کوئی شکل باقی ہو اوران علاقوں کا تصور عدل---- عدل الہٰی کے قرآنی تصورات سے ہم آہنگ ہو---- ایسی تمام تعلیمات کو قرآن کی میزان فرقان پر پرکھا جائے گا جو اس کسوٹی کے مطابق ہوگی ان کو درست تسلیم کیا جائے گا۔ مغرب کے تصورات عدل کو بھی اسی اصول کے مطابق قرآن کے پیمانے پر پرکھا جائے گا اس کے سوا عدل کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ معتبر نہیں ہے۔ عدل کو پرکھنے کا پیمانہ ماورائے عدل ہے وہ زمین سے نہیں آسمان سے آتا ہے۔

جدید مسلم مفکرین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کائنات کا آغاز وحی اور نبوت کی روشنی سے ہوا ہے کائنات کے پہلے انسان اللہ کے پیغمبر تھے لہٰذا الٰہی عدل اور الٰہی اخلاقیات کا ظہور حضرت آدم کے وسیلے سے ہوا ہے لہٰذا عدل اور اخلاقیات کی اصطلاحات کو تصور حقیقت ، تصور نفس، تصور خیر ، تصور کائنات کے بغیر مجرد حق [Abstract Truth] کے طور پر قبول کرنا در اصل وحی الٰہی اور نبوت سے انکار کی شکل ہے۔

پاکستان نے تحریک آزادی کے ذریعے آزادی حاصل کی لہٰذا آزادی کا تصور ہمارے لیے ایک عظیم اصطلاح ہے ۔ ہم آزادی کو صرف غلامی کے تناظر میں دیکھتے ہیں اورآزادی کو ایک اہم نعمت تصور کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے ہم مغربی اصطلاح آزادی کے تصورات، مضمرات اور خطرات سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہم اس مغربی اصطلاح کے تاریخی تناظر اور فلسفیانہ تناظر کو نظر انداز کر کے صرف اس کے اردو ترجمے  سے اپنی تاریخ کو ہم آہنگ کرکے آزادی کے لیے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہماری آزادی کی تحریک اپنے دینی اقدار و روایا ت قرآن و سنت سے آزاد نہیں تھی بلکہ اس تحریک آزادی کا بنیادی جزو یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی آزادی نہیں ہے یہاں ہماری تہذیب معاشرت محفوظ نہیں یہ دارالحرب ہے لہٰذا ایک الگ دارالاسلام کا قیام ضروری ہیتاکہ ہم آزادی کے ساتھ اپنے دین، اقدار ، روایات پر عمل کرسکیں مغرب آزادی کے کسی ایسے تصور کو تسلیم نہیں کرتا جو تحریک آزادی پاکستان کی مذہبی بنیادوں سے اخذ کیا گیا ہو۔ مذہب آزادی نہیں پابندی کا نام ہے آزادی کا لبرل سیکولر قوم پرست سوشلسٹ عقیدہ بھی اپنی پابندیوں یعنی ارادہ عامہ [General will]کے دائرے میں ہوتاہے اس دائرے سے ماوراء آزادی نہیں مل سکتی آزادی کا ایمان قبول کرنے کی آزادی ہے آزادی کو ختم کرنے کی آزادی حاصل نہیںہے ، سرمایہ میں اضافے کرنے کی آزادی ہے سرمایہ کا نظام ختم کرنے کی آزادی نہیں ہے جمہوریت قبول کرنے کی آزادی ہے مگر سو فی صد اکثریت Popular will  کے ساتھ بھی ارادہ عامہ General will  کے خلاف حق ملکیت ، حق زندگی، آزادی اور جمہوریت کو سو فی صد رائے عامہ کے ساتھ بھی مسترد کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ UNO جمہوریت خود آمریت ہے جمہوریت خود ایک ایمان عقیدہ مذہب ہے ، مذہب تبدیل نہیں ہو سکتا ، اس کے اصول حتمی ہوتے ہیں کے منشور بنیادی حقوق کے تحت تمام انسان برابر ہیں تمام قومیں برابر ہیں لیکن اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے پانچ اراکین کو تین سو قوموں پر برتری حاصل ہے یہ پانچ قومیں اکثریت کے جس فیصلے کو ویٹو کرنا چاہیں کرسکتی ہیں حتی کہ اگر ان پانچ میں سے چار اراکین اور دنیا کی تین سو قومیں ایک فیصلے پر متفق ہو جائیں تب بھی صرف ایک رکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تمام قوموں کی رائے مسترد کردے ۔ یہ ہے آزادی اور جمہوریت کے فلسفے کا عملی ثبوت جو منشور بنیادی حقوق نافذ کرنے والی اقوام متحدہ کا زندہ عمل ہے اور دنیا کی تمام قومیں اس غیر عقلی اصول کو قبول کرتی ہیں اور اس کے تحت تمام فیصلے خوش دلی سے انجام دیتی ہیں ۔ لبرل ریاست سرمایے کی غلامی خواہش نفس کی اسیری اپنے جذبات کی بے لگام پیروی کے ہر تصور کو بخوشی قبول کرتی ہے لیکن خدا، مذہب، اقدار ، رسوم و رواج کی غلامی کو قبول نہیں کرتی۔ لبرل آرڈر میں مذہبی ریاست ، اسلامی ریاست قائم ہی نہیں ہو سکتی یہ آزادی کے تصور خیر کے منافی ہے کیونکہ مذہبی ریاست زندگی کے ہر پہلو پر کوئی نہ کوئی مذہبی حکم عائد کرکے انسان کی آزادی میں مسلسل اور مستقل کمی کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔منشور بنیادی حقو ق میں کسی مذہبی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دی گئی ہر فرد اپنی ذاتی زندگی میں یقیناً کوئی بھی مذہب اختیار کرسکتا ہے اور اس مذہب کے مطابق صرف خود عمل کرسکتا ہے اپنے بیوی بچوں کو بھی اس مذہب پر چلانے کے لیے جبر نہیں کرسکتا ایسا کرنا ظلم ہے دوسرےthe other کی آزادی میں مداخلت ہے قابل سزا جرم ہے ۔ منشور بنیادی حقوق صرف فرد کے حق کا تحفظ کرتا ہے لہٰذا اس کا مخاطب صرف فرد ہے خاندان گروہ قبیلہ نہیں۔اس تناظر میں تحریک پاکستان کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاح آزادی کا تجزیہ کیجیے تو وہ مغرب کی اصطلاح فریڈم ]نامکمل ترجمہ آزادی[سے بالکل مختلف چیز ہے۔ ظاہر ہے تحریک پاکستان کا مقصد دین کا غلبہ تھا نہ کہ مسلمانوں کو دین سے آزاد کرنا۔ تحریک آزادی کے کسی رہ نما بلکہ قائد اعظم نے بھی کبھی اسلام سے آزادی کا مطالبہ نہیں کیا ۔ پاکستان کی پوری تحریک غلبہ دین کے نقطۂ ماسکہ Grand narrativeکے گرد گھومتی تھی یہ تحریک صرف اور صرف اسلام کو الحق اور العدل سمجھتی تھی مغرب کے تصور آزادی اور اس آزادی کے نفاذ و نفوذ کو ممکن بنانا اس تحریک کا ہر گز مقصد نہیں تھا لبرل یا آزاد یا آزادی کا طلب گار وہ شخص ہے جو فرد کے انفرادی و اجتماعی دائرے کی آزادی کو لا محدود کرنا چاہتا ہے ۔ لبرل ازم صرف آزادی کی ضمانت نہیں دیتا بلکہ آزادی کے حصول کے لیے ایک نظام زندگی ،نظام معاشرت و معیشت عقائد و اقدار اور اس نظام کے نفوذ کے لیے قوت، تشدد، جبر سے لبرل اداروں کی تعمیر تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے ۔ لبرل ازم انسانیت پرست [Humanist] فلسفہ ہے ۔ مغرب میں پہلے عیسائی معاشرہ تبدیل ہوا ، آزادی کو الخیر کے طور پر پیش کیا گیا ۔ اس سیکولر تصور کی کچھ مذہبی تعبیرات دینی تشریحات بھی پیش کی گئیں انسا ن کو فسق و فجور پر اکسایا گیا ۔ تمام سطحوں پر خواہ وہ علمی، تحقیقی ، ادبی، جمالیاتی ، فکری ، فلسفیانہ ، ہی کیوں نہ ہو آزادی کو ایک آفاقی قدر کے طور پر پیش کیا گیا۔ دنیا کی تیئس تہذیبوں میں آزادی قدر[Value] نہیں صلاحیت [Ability]تھی خیر و شر میں فرق کرنے کی ، اجالے سے اندھیرے میں حد فاصل قائم کرنے کی۔مغرب میں آزادی ہر قسم کی رکاوٹوں، پابندیوں، حد بندیوں کے خاتمے کا نام ہے Freedom is the absence of limitations  مغرب میں یہ آزادی خیر کو خلق [Creation of Good] کرنے کا نام ہے۔ خیر کے تعین کا اختیا ر ہے یہ انسان کا حق ہے کہ وہ خیر کو خلق کر سکے ۔آزادی انتخاب خیر[Choice of Good] کی نہیں تخلیق خیر [Creation of Good]کی آزادی ہے ۔ جبکہ تاریخی ،روایتی ، دینی ،الہامی، معاشروں میں خیر خلق نہیں ہو سکتا وہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ونگسٹائن جیسا فلسفی بھی یقین رکھتا ہے کہ اقدار باہر سے آتی ہیں۔آزادی جب قدر تسلیم کی جائے تو ایسے معاشرے میں سب اپنے اپنے تصورات خیر تخلیق کرنے میںمطلق آزاد ہوتے ہیں ہر تصور خیر یکساں حیثیت رکھتا ہے ، گھاس کی پتی گننے والا ، شراب پینے والا، زنا کرنے والا، ، تہجد پڑھنے والا ، سب مساوی ہیں کیوں کہ سب حق آزادی[Right of Freedom]، حق خود مختاری، حق خود اختیاری[Right of self determination] استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے تصور خیر پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ روادار ،متنوع ، مختلف النوع گروہوں پر مشتمل معاشرہ ہے ۔ خیر ریاست کا نہیں فرد کا معاملہ ہے ریاست کا کام ہر شخص کی آزادی کا تحفظ ہے تمام تصورات خیر یکساں ہیںکسی کو کسی دوسرے خیر پربالاتری، برتری کی اجازت نہیں۔ سب لوگ الحق [Good]کی بنیاد پر نہیں حق [Right]کی بنیاد پر اپنے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں، اسی کا نام حقوق کی سیاست ،حقوق کی علمیت ، حقوق کی مابعد الطبیعیات اور جدیدیت کا غلبہ ہے جو ماڈرنٹی اور ماڈرنائزیشن کے ذریعے تکمیل پذیر ہوتا ہے۔اس کی ایک تنقید بھی ہے جسے پس جدیدیت یا پوسٹ ماڈرنٹی بھی کہا جاتاہے یہ اصلاً جدیدیت کا رد نہیں جدیدیت کی توسیع ہے There is modernity after post modernity ان اصطلاحات  میں فرق جاننے کے لیے درج ذیل عبارتیں پڑھیے:

آزادی کو جب ایک قدر ، ایمان کے طور پر قبول کیا جاتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کس سے آزادی  [Freedom From] اور کس لیے یا کس کے لیے آزادی [Freedom For]دنیا کی تمام روایتی مذہبی تیئس تہذیبوں میں آزادی ذریعہ ، وسیلہ صلاحیت کے طور پر ہی رہی ہے۔ ایمان کے طورپر نہیں۔ مغرب نے اسے ١٨ ویں صدی میں فلسفے کے ذریعے ایمان [Believe]اور قدر[Value] کے طور پر اختیار کیا تو اس کی فلسفیانہ اساس کانٹ کے تاریخی مضمون what is enlightenment میں مختصراً اور نہایت موثر طور پر بیان کی گئی ہے ۔ وحی سے آزادی ، پادری سے آزادی، ہر خارجی ذریعہ علم سے آزادی ،ہدایت رہ نمائی اور روشنی کے لیے خارج کی طرف دیکھنے سے آزادی کیوں کہ ہدایت اور روشنی کامنبع انسان کے اندرون میں پیغمبر باطن ( عقل )کی صورت میں موجود ہے چوںکہ سب انسان عقل رکھتے ہیں اس لیے سب برابر ہیں۔روشن خیالی تحریک تنویر تحریک نشاة ثانیہ مغرب میں اس انسان کی باز یافت کا نام ہے جو کسی خارجی ذریعہ علم کے بغیر صرف اپنے پیغمبر باطن عقل پر انحصار کرے اور روشنی و ہدایت و رہنمائی کے لیے آسمان سے وحی سے، عالم دین سے باہر رشتہ توڑ کرصرف اور صرف اپنی عقل سے رشتہ جوڑے اس عقل پر یقین و اعتماد رکھے اس عقل کی بنیاد پر خود فیصلے کرے عقل کو مختار مطلق سمجھے اور عقل کو کسی خارجی ذریعے کی ہدایت پر استعمال نہ کرے، جدیدیت، نشاة ثانیہ، جدید انسان اور روشن خیالی اس جرات مندی کا نام ہے کہ انسان خود پر انحصار اعتماد اعتبار کرکے اپنی دلیل اپنی عقلیت اور اپنی رائے کی بنیاد پر خود فیصلے کرے اور اپنے فیصلوں کے لیے عقل کے سوا کسی دوسرے ذریعے پر انحصار نہ کرے ایسا شخص روشن خیال [Enlightened] ہے۔ کانٹ لکھتا ہے:
Enlightenment is man's release from his self-incurred tutelage. Tutelage is man's inability to make use of his understanding without direction from another. Self-incurred is this tutelage when its cause lies not in lack of reason but in lack of resolution and courage to use it without direction from another. Sapere aude! "Have courage to use your own reason!"- That is the motto of enlightenment
Laziness and cowardice are the reasons why so great a portion of mankind, after nature has long since discharged them from external direction (naturaliter maiorennes), nevertheless remains under lifelong tutelage, and why it is so easy for others to set themselves up as their guardians. It is so easy not to be of age. If I have a book, which understands for me, a pastor who has a conscience for me, a physician who decides my diet, and so forth, I need not trouble myself. I need not think, if I can only pay - others will  easily undertake the irksome work for me.  
For any single individual to work himself out of the life under tutelage, which has become almost his nature is very difficult. He has come to be fond of his state, and he is for the present really incapable of making use of his reason, for no one has ever let him try it out. Statutes and formulas, those mechanical tools of the rational employment or rather misemployment of his natural gifts, are the fetters of an everlasting tutelage. Whoever throws them off makes only an uncertain leap over the narrowest ditch because he is not accustomed to that kind of free motion. Therefore, there are few who have succeeded by their own exercise of mind both in freeing themselves from incompetence and in achieving a steady pace.
For this enlightenment, however, nothing is required but freedom, and indeed the most harmless among all the things to which this term can properly be applied. It is the freedom to make public use of one's reason at every point. But I hear on all sides, "Do not argue!" The Officer says: "Do not argue but drill!" The tax collector: "Do not argue but pay!" The cleric: "Do not argue but believe!" Only one prince in the world says, "Argue as much as you will, and about what you will, but obey!" Everywhere there is restriction on freedom. [http://lancefuhrer.com/what_is_enlightenment.htm]
دوسرے معنوں میں کانٹ بتارہا ہے کہ انسان ہدایت کے لیے کسی بیرونی ذریعے کا محتاج نہیں سب اپنی عقل سے ہدایت پا سکتے ہیں سب خود کفیل ہیں کسی کے محتاج نہیں۔ ہایئڈیگر اپنی کتاب The Essence of Human Freedomمیں لکھتا ہے :
So the full concept of negative freedom amounts to independence of man from world and God [Page 5 2002 Continum London]
ایک اور مصنف لکھتا ہے :Freedom is plateform of agony and anxietyآزادی کی مغرب میں دو عملی شکلیں ہیں ۔ایک مجرد یعنی ووٹ vote دوسری ٹھوس شکل وہ ہے سرمایہ Capital آزادی جمہوریتDemocracyاور سرمایہ کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا حقوق انسانی کے ذریعے جمہوریت، جمہوریت کے ذریعے سرمایہ داری اور سرمایہ داری کے ذریعے ہی آزادی ممکن ہے اور آزادی کے دائرے میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جانا حتیٰ کہ اس دائرے کو ہی ختم کردینا آزادی کا تقاضہ ہے۔ آزادی کے اظہار کی ۔ آزادی کی وسعتوں کی لا محدود جہتیں ہیں لیکن بنیادی طور پر آزادی سرمایہ داری اور جمہوریت کے بغیر وسعت پذیر نہیں ہو سکتی اور جمہوریت اور سرمایہ داری کے ذریعے مغرب نے ایک ایسا خیر ایسا ما بعد الطبیعیاتی نظام ایسی علمیت ایسی اخلاقیات ایسا آفاقی حق ، خیر اور سچ مہیا کیا ہے جس سے بہتر خیر حق سچ معاشرہ علم حکومت ریاست تلاش کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا مغربی تہذیب اس کا فلسفہ اس کے علوم اس کے ادارے اس کے ارادے تاریخ انسانی کے سب سے بہترین نمونے ہیں ان ہی معنوں میں تاریخ کا سفر ختم ہو گیا ہے اسی فلسفے کو ہم End of the Historyکہتے ہیں چونکہ اب دنیا مغرب سے بہترتہذیب ، تمدن ، ادارے ، مقاصد ، علمیت ، پیش نہیں کرسکتی لہٰذا اب جو بھی نظام زندگی مغرب کے مقابلے پر آئے گا یا آنے کا عندیہ دے گااس کے نتیجے میں تہذیبوں کا تصادم ہو گا۔ یہ Clash of Civilizationہے دنیا میں کل تیئس تہذیبیں رہی ہیں مغرب کو صرف ایک ہی تہذیب سے مقابلے کا خطرہ ہے جو اسلام ہے لہٰذا اسلام سے جنگ آزادی کا فطری تقاضہ ہے۔ Burton Derbenاپنی کتاب ON Rawls and Political Liberalismکے صفحہ 328/329پر لکھتا ہے جو جمہوریت کو نہیں مانتا اس کی دلیل مانگتا ہے اس کو گولی مار دوOnly a fool would not want to live in such a society living in a liberal constitutional Democracy. Then I do not know how to convince him___The answer is nothing you shoot him. So I do not want to discuss it.ایک لبرل ریاست کا خیر Goodحق Rightکے نام پر آزادی Freedomہی ہے۔ وہ ہر تصور خیر کو اسی اصول ، ایمان پر پرکھے گی وہ ہر شخص کی آزادی کو دوسرے کی آزادی سے ممکنہ خطرات سے تحفظ دے گی اور ایک ایسا دائرہ مہیا کرے گی جہاں کوئی دوسرا فرد ریاست ، یا حکومت فرد کی آزادی کے دائرے میں مداخلت نہ کرسکے لہٰذا ریاست غیر اقداری ، خیر الحق Goodکے تصور سے ماورا ہونے کا اعلان کرنے کا باوجود آزادی کے سوا کسی ایسے تصور کو پنپنے کی اجازت نہیں ۔ دیتی لبرل ریاست میں آزادی میں اضافہ کرنے کی مکمل آزادی ہے آزادی میں کمی کرنے کی آزادی نہیں ہے۔جمہوریت کو اختیار کرنے کی آزادی ہے اسے ختم کرنے کی آزادی نہیں ہے۔سرمایہ داری کے ساتھ کوئی بھی حکمت عملی اختیار کرنے کی آزادی ہے جو آزادی کے دائرے میں اضافہ کرے جیسے اسلامی بینکنگ ہندو بدھ سرمایہ داری وغیرہ۔ آزادی کے دو تصورات ہیں انفرادی ( لبرل ) اور اجتماعی ( لبرل ) پہلا تصور منفی آزادی [Negative Freedom]کہلاتا ہے یہ خالص لبرل ریاست میں ہوتا ہے انفرادی آزادی کو ہر نوعیت کی اجتماعی آزادی پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔آزادی کا اجتماعی تصور مثبت تصور آزادی [Positive Freedom] کہلا تا ہے۔ یہ لبرل ، قومی، سوشلسٹ ، کمیونسٹ ریاستوں میں موجود ہوتا ہے جہاں وہ اپنی اجتماعی آزادی کے لیے ہر قسم کی انفرادی آزادی کی قربانی دیتے ہیںمنفی تصور آزادی میں ہر فرد کو اس کی قابلیت کے مطابق حصہ [Each according to his effeciency]ملتا ہے مثلاً امریکہ یوروپ وغیرہ۔مثبت تصورآزادی میں ہر فرد کو اس کی ضرورت کے مطابق[Each according to his needs] حصہ ملتا ہے ۔ اس کی مثال روس و کیو با وغیرہ ہیں ۔

لہٰذا ہر قدر، روایت، اجتماعیت، مذہب، سے آزاد ہونے کی مکمل آزادی کے حصول میں لبرل ریاست فرد کو مکمل تحفط فراہم کرے گی اس فرد کے حق کی خاطر لبرل ریاست ہر مذہب، اخلاق، تاریخی روایتی اجتماعیوں کے خلاف کارروائی کریگی تاکہ فرد کی آزادی کو ممکن بنایا جاسکے ۔ لبرل ریاست میں فرد کے حقوق [Rights of Individuals]ہوتے ہیں کسی اجتماعیت کے نہیں وہ انفرادیت کو تحفظ دیتی ہے آزادی کی کوئی مثبت تعریف [Positive Defination] ممکن نہیں اس کی منفی تعریف ممکن ہے یعنی آزادی کی راہ میں ہر قسم کی تاریخی ، مذہبی، روایتی، معاشرتی، خاندانی، قبائلی، نسلی رکاوٹوں کو ختم کرتے چلے جانا اور مکمل آزاد معاشرہ قائم کردینا جہاں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے صرف ایک رکاوٹ باقی رہے گی کہ آزادی کے منافی کسی کام کی اجازت نہ ہوگی اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں کہ آزادی ایمان ہے ایمان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی انسان آزاد پیدا ہوا ہے جب بھی اسے آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی دی جائے گی وہ صرف اور صرف آزادی ہی کو پسند کرے گا اس کی تفصیلات آپ روسو کی کتاب نظریہ معاہدہ عمرانی میں پڑھ سکتے ہیں لہٰذا لبرل ریاست ارادہ عامہ [General Will]کے ذریعے ہر فرد کی آزادی میں لا محدود اضافے کو ممکن بنانے کا کام کرتی ہے ارادہ عامہ کا مطلب ہے سرمایہ کی آزادی [Freedom of Capital] کیونکہ سرمایہ میں اضافہ کے بغیر آزادی میں اضافہ ممکن نہیں ہے لہٰذا آزادی اور سرمایہ اور سرمایہ وارادہ ٔ عامہ لازم و ملزوم ہیںرائے عامہ [Popular will]، ارادہ عامہ [General will] کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی رائے عامہ ارادہ عامہ کے تابع ہوگی فیڈرلسٹ پیپرز میں بھی میڈیسن اور جیفر سن [Madision Jefferson] نے توازن طاقت کے تین عناصر کا ذکر اسی لیے کیا ہے To prevent the over riding of the general will by the will of all ۔ چونکہ آزادی کی راہ میں تاریخی، سماجی، مادی، طبعی رکاوٹیں، معاشرتی رکاوٹیں ، قانونی رکاوٹیں موجود ہیں لہٰذا لبرل ریاست کا کام ان رکاوٹوں کو عملاَ ختم کرنا ہے اور ختم کرنے کی کوشش میں مسلسل مصروف رہنا۔سائنس و ٹکنالوجی ان رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے لبرل ریاست کا مؤثر ترین ہتھیار ہیں۔ ٹیکنو سائنس جس کا براہِ راست تعلق سرمایہ سے ہے جو آزادی کی ٹھوس شکل ہے لہٰذا سرمایہ ہی آزادی میں اضافے کو ممکن بنا رہا ہے ۔ تسخیرِ کائنات کا مشن جو اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا کائنات کے وسائل پر قبضے کے ذریعے ارض و سما پر قابو پاکر انسان کی آزادی میں لا محدود اضافے کو ممکن بنارہے ہیں۔ آزادی میں اضافہ ٹیکنوسائنس کے ذریعے ہر لمحے ممکن ہے۔ روایتی معاشرے ، تاریخی اجتماعتیں ، مذاہب عالم ، ادیانِ عالم آزادی کو قدر نہیں جانتے یعنی وہ آزادی کو آزادی کے منہاج پر نہیں پرکھتے وہ آزادی کو اپنے ایمان ما بعد الطبیعیات پر پرکھتے ہیں ہر وہ آزادی جو ان کے ایمان اور عقائد، ما بعد الطبیعیات کے خلاف ہواسے وہ برداشت نہیں کرتے وہ الخیر کو آزادی پر فوقیت دیتے ہیںاور آزادی اس الحق کے تابع ہوتی ہے ۔ قدامت پسند معاشرے مذہبی معاشرے ، مذہبی علوم ، اخلاقیات ، اقدار کے نام پر انسانی آزادی کو محدود کرتے ہیں لہٰذا لبرل معاشرے ایسے معاشروں کے دشمن ہوتے ہیں اور انسان کو غلامی سے نکال کر آزادی کی وادی میں لے جاتے ہیں لہٰذا دنیا میں جہاں بھی لبرل ازم گیا وہاں روایتی، قدیم، مذہبی ، دینی، الہامی معاشرے ختم ہوگئے لبرل معاشرے بنادیے گئے اگر لبرل ازم غیر اقداری ہے اگر سائنس و ٹکنالوجی غیر اقداری ہیں اگر جمہوریت غیر اقداری ہے تو یہ جہاں جاتے ہیں ان معاشروں کی تاریخی ، دینی، روایتی، اخلاقی، مذہبی، الہامی اقدار اصول کیوں بدل دیتے ہیں اس کا جواب لبرل ازم یعنی آزادی کا فلسفہ یہ دیتا ہے کہ وہ معاشرے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے اپنی حقیقت سے واقف نہ تھے لبرل ازم نے انہیں آزادی کا شعور عطا کیا اس لیے وہ آزاد ہوگئے انہوں نے آزاد ہونا پسند کیا کیونکہ انسان پیدائشی طور پر آزاد ہی ہے یہ تو مذہب ،روایت، اقدار قدیم معاشرے ہیں جو اس کی آزادی چھین کر اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں لیکن جیسے ہی ایک شخص کو آزادی اختیار کرنے کا موقع ملتا ہے وہ آزاد ہونے لگتا ہے وہ لبرل ہوجاتا ہے وہ آزادی سے محبت کرتا ہے لہٰذا دنیا میں لبرل ازم جہاں جارہا ہے لوگوں کو آزادی عطا کررہا ہے ۔چین، روس، سعودی عرب ، پاکستان جہاں جہاں لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری معاشرے جس حد تک بھی قائم ہوتے جارہے ہیں ۔ رفتہ رفتہ آزادی کا نور پھیلتا جارہا ہے ۔ لبرل ازم مذہب کے وجودپر اعتراض نہیں کرتا اسے کوئی فرد ذاتی زندگی میں اختیار کرلے تو لبرل ازم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ذاتی زندگی سے مراد فرد خود ہے اس کے سوا اس کے خاندان کا ہر فرد بیوی بچے The other ہیں۔لہٰذالبرل ازم میں مذہب ذاتی زندگی میں باقی رہ سکتا ہے مگر وہ مذہبی اجتماعیت کو باقی نہیں رہنے دیتا اسے عملاَ ختم کردیتا ہے تاکہ فرد مذہب کے زیرِ اثر اپنی آزادی سے محروم نہ ہوسکے۔لہٰذا لبرل ازم میں لوگ مذہبی رہ سکتے ہیں مگر مذہب ریاستی، سیاسی، معاشرتی اور حرکی قوت کے طور پر باقی نہیں رہ سکتا امریکہ میں لوگ سب سے زیادہ چرچ جاتے ہیں یہ چرچ بھی کارپوریٹ ہوچکے ہیں اس کی تفصیل نائیل فرگوسن کی کتاب Civilization کے آخری باب Work Ethicsمیں پڑھی جاسکتی ہے عیسائیت مغرب میں محض علامت ہے قوت، طاقت ، شوکت کا مظاہرہ نہیں ہے اس لیے اسے برداشت کیا جارہا ہے اگر یہ متوازی قوت بننے کی کوشش کرے تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آزادی کا عقیدہ اختیار کرنے کا لازمی نتیجہ سرمایہ داریت کا غلبہ ہے سرمایہ داری کی انفرادی اور اجتماعی شکلیں لبرل ازم، سوشلزم ، نیشنل ازم، فاشزم ہیں ان میں عقیدے کی سطح پر کوئی اختلاف نہیں آزادی مساوات ترقی تمام ازموں کے مشترکہ عقائد ہیں ان عقائد کے ہوتے ہوئے کسی مذہبی دینی روایت کا احیا جدید ریاستوں میں ممکن ہی نہیں۔
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>جاری ہے<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے