منگل، 25 دسمبر، 2012

اللہ کی بادشاہت

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا محمد علی قصوری

اللہ کی بادشاہت

قسط نمبر 1


الحمد للّٰھ نحمدہ و نستعینھ و نستغفرہ و نومن بھ و نتوکل علیھ و نعوذ باللّٰھ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھد اللّٰھ فلا مضل لھ و من یضللھ فلا ھادی  لھ و نشھد ان لا الھ الا اللّٰھ وحدھ لا شریک لھ و نشھد ان محمدا عبدھ و رسولھ صلوت اللّٰھ و سلامھ علیھ و علیٰ الھ و ازواجھ و اصحابھ و ذریاتھ و اتباعھ اجمعین الیٰ یوم الدین ارسلھ بالھدی و دین الحق لیظھرھ علی الدین کلھ و کفیٰ باللّٰھ شھیدا ، اما بعد قال اللّٰھ تبارک و تعالیٰ :
( وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْکَاثًا ) ( النحل )
'' اس بڑھیا جیسے نہیں بنو جو اپنا محنت سے کاتا  ہوا سوت خود تار تار کردیتی تھی ۔ ''
قرآن حکیم نے مندرجہ بالا تمثیل میں ایک نہایت لطیف پیرایہ میں انسانی اعمال کے نتائج کو پیش کیا ہے ۔ اگر انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان سالہا سال کی شبانہ روز محنت سے تہذیب و تمدن کا ایک بہت بڑا محل تعمیر کرتا ہے لیکن جب اس میں بسنے اور آرام و سکون حاصل کرنے کا وقت آتا ہے تو خود ہی اس عظیم الشان قصر کی اینٹ سے اینٹ بجانی شروع کردیتا ہے ۔ مندرجہ بالا تمثیل کے ذریعہ قرآن حکیم نے انسان کی ناکامیوں اور نامرادیوں کا کیسا محیر العقول نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ تاریخ کے اوراق اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہماری تمام سرگزشت ، انسانی محنتوں کے ہوشربا مدفن اور صدیوں کی جان کاہیوں کے گورستان کے سوا کچھ نہیں ۔ چند بوسیدہ عمارتیں ، چند شکستہ مزار اور چند ٹوٹے ہوئے آثار ، انسانی محنت گزشتہ کی عظمت اور اس کی ناپائیداری کا مرثیہ پڑھ کر ، ہماری گزشتہ تاریخ کے اوراق کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ جدھر نظر دوڑائو ، تہذیب کے سر بفلک ایوان خاک کے چند تودوں کی شکل میں سر بسجود نظر آئیں گے اور تمدن اور شائستگی کے دلفریب مرغزاروں کی جگہ ویرانی اور بربادی کے کھنڈروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دے گا ۔ تہذیب کے بعد تخریب اور تمدن کے بعد بربادی دنیا کا پرانا قانون ہے اور اسی لیے کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے تئیں دہراتی ہے ۔ بابل و نینوا ، مصر و ہندوستان ، ایران و یونان ، روما اور عرب سب نے باری باری تہذیب کے میدان میں قدم رکھا ۔ اپنے اپنے وقت میں تو کوس لمن الملک بجایا اور دنیا کی بساط سے رخصت ہوگئے اور اس امر کی شہادت پیش کر گئے کہ
لِکُلِّ قَوْمٍ اَجَل  ( ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے )
ہستی  ہماری  آپ  فنا  کی  دلیل  ہے
ایسے  مٹے  کہ  آپ  ہی  اپنی  قسم  ہوئے
ان قوموں میں بعض کا تو کہیں نام و نشان بھی نہیں ملتا ۔
( تِلْکَ الْاَیَّامِ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ )
'' یہ دن ہیں ہم انہیں قوموں میں پھیرتے رہتے ہیں ۔ ''
آج کل تہذیبِ مغرب بھی اسی قسم کے انقلاب انگیز دور سے گزر رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بساط بھی اب الٹنے کو ہے اور جس طرح اس کی پیش رو تہذیبیں فنا ہوگئیں اسی طرح اس کے لیے بھی پیام فنا مقدر ہوچکا ہے ۔ گو ظاہر بین آنکھوں کے لیے اس تمدن اور تہذیب میں ایسی جاذبیت ہے کہ وہ اسے فنا سے بالا تر خیال کرتے ہیں لیکن اس پر بھی مرزا غالب کا مشہور شعر صادق آتا ہے
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
خود اس تہذیب کی فکری اساس میں ہی اس کی تباہی کے جراثیم پوشیدہ ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ یہ زیادہ دیر تک زندہ رہ سکے اور اپنی پیش رو تہذیبوں کی طرح نسیا منسیا نہ ہو جائے ۔ چنانچہ علامہ اقبال مرحوم نے تہذیب مغرب کی اس اساسی کمزوری کی طرف سال ہا سال پہلے اشارہ کیا تھا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
بے شک آج سے چند سال پیشتر ہمارے اس دعوے کو مجنونانہ بڑ سے زیادہ وقعت نہ دی جاتی تھی ۔ کیونکہ بیسویں صدی کے اوائل میں تو جمہوریت کا طوطی بول رہا تھا اور انگریزی اور امریکن جمہوریتوں کو انسانی نظام زندگی کا گل سرسبد خیال کیا جاتا تھا لیکن پہلی جنگِ عظیم نے جمہوریت کاپول کھول دیا اور عامة الناس کے دلوں میں اس کے خلاف بغاوت اور نفرت کے جذبات پیدا ہونے شروع ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹلی ، جرمنی اور جاپان میں فسطائیت اور نازی ازم نے جنم لیا اور روس میں کمیونزم اور بالشوزم پھلنے پھولنے لگے ۔ کمیونزم اور بالشوزم میں ابتدا میں بہت کشش پائی گئی اور حریت و مساوات ، امیر و غریب کے امتیازات کا خاتمہ بورژوا کی تباہی اور مزدور کی سلطانی ، زمیندارہ سسٹم کی بربادی اور کاشتکار کی شہنشاہی کے نعروں نے نہ صرف عام پبلک کو ، بلکہ اکثر تعلیم یافتہ طبقوں کو بہی اس درجہ مسحور کیا کہ وہ یقین کرنے لگے کہ امریکن اور انگریزی جمہوریت اور سرمایہ داری اور جرمن و جاپان کی فسطائیت ، دونوں کی جگہ روس کی اشتراکیت ہی دنیا کو امن و مسرت کا پیغام دے سکتی ہے ۔ لیکن روس کی اشتراکیت کی عملی تصویر نے بہت جلد یہ تلخ حقیقت دنیا کے سامنے پیش کردی کہ
چو از چنگال گرگم در ربودیچو دیدم عاقبت خود گرگ بودی
روسی اشتراکیت ، برطانوی امپریلزم اور امریکی جمہوری سرمایہ داری اور جرمن نازیت سے کہیں زیادہ بنی نوع انسان کی دشمن اور اس کی آزادی اور راحت و سکون کو برباد کرنے والی ہے ۔ دنیا اب تین کیمپوں میں بٹ گئی ۔ ایک جماعت جمہوری سرمایہ داری کی حامی بن گئی ۔ اس کے خیال میں بنی نوع انسان کی حقیقی آزادی اور مسرت و اطمینان کا ضامن یہی نظام زندگی تھا ۔ دوسری جماعت فسطائیت کے حامیوں کی پیدا ہوگئی جن کے نزدیک فسطائیت ہی ، جسے وہ نیشنل سوشلزم کے نام سے موسوم کرتے تھے ، انسانی زندگی کی کفیل اور اس کی مسرت کی ضامن ہوسکتی تھی ۔ تیسری جماعت روسی کمیونزم یا بالشوزم کی حامی تھی اور وہ اس عقیدے پر راسخ تھی کہ عیشِ دوام کا راز کمیونزم میں پوشیدہ ہے ، باقی سب نظام بالکل بوسیدہ اور فرسودہ ہوچکے ہیں ۔ اس لیے وہ اس قابل ہیں کہ انہیں تلوار کی گھاٹ اتار دیا جائے ۔ اس کا لازمی نتیجہ دوسری جنگِ عظیم کی صورت میں نمودار ہوا ۔اس جنگ میں جمہوریت اور سرمایہ داری کے پہلو بہ پہلو روسی اشتراکیت نے جرمنی اور جاپانی فسطائیت کا مقابلہ کیا ۔ فریقین کے لیڈروں نے عوام کو مختلف جھوٹے وعدوں سے لڑائی پر ابھارا ۔ انسانوں نے انسانوں پر وحشی درندوں کی طرح حملے کیے اور لاکھوں بندگانِ خدا کو خاک و خون میں تڑپایا ، ھزاروں معموروں کو ویران اور ہزاروں لہلہاتی کھیتیوں اور آباد کارخانوں کو تباہ و برباد کردیا ۔ بستیاں ایسی مٹیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔ سائنس داں اپنے معموں کو چھوڑ کر اسلحہ ساز کارخانوں میں چلے گئے تاکہ ایسے ایسے آتش بار آلات ایجاد کریں جو زیادہ سے زیادہ انسانوں کو آناً فاناً موت کے گھاٹ اتار سکیں ۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ محض اس لیے کہ بنی نوع انسان کے لیڈروں نے عامة الناس کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی حریت ، فکر حریت ، عقیدئہ حریت ، تحریر وتقریر کے لیے اور ہر انسان کے لیے قوت لایموت اور ضرورت کے کپڑے ، تعلیم اور ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان کے خیال میں جرمنی ، جاپان اور اٹلی کی تباہی سے یہ سب چیزیں یکایک حاصل ہوجائیں گی ، جس طرح الہ دین کے چراغ سے چشم زدن میں ایک عظیم الشان محل تعمیر ہوجاتا تھا ۔ لیکن افسوس کہ ابھی کشتوں کے پشتے اٹھائے بھی نہیں گئے اور مقتولوں کا خون خشک بھی نہیں ہوا کہ ایک تیسری جنگ کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں جو پہلی اور دوسری جنگوں سے بہی زیادہ خوفناک اور مہلک ہوگی ۔ افسوس ! اولادِ آدم پھر اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت سے کاتے ہوئے سوت کو تار تار کر رہی ہے ۔ فہل من مدکر افسوس باغی اور سرکش انسان کی آنکھوں پر غفلت کی ایسی پٹی چڑھی ہوئی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتا اور بقول غالب مرحوم
؎ حاصل نہ کیجئے دہر سے ، عبرت ہی کیوں نہ ہو
کیا یہ مقام عبرت نہیں کہ سائنس جس کا مقصد انسانی راحت و مسرت کے لیے فطرت کے مخفی خزانوں کو بے نقاب کرنا تھا اور جس نے واقعی انسان کی راحت کی افزونی کے لیے ہزاروں ایجادات کی ہیں ، آج خود غرض لیڈروں کے ہاتھوں انسانی تباہی اور ہلاکت کے آلات ایجاد کرنے کے لیے وقف ہوچکی ہے ۔ گویا انسانی علم خود انسان کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہا ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم میں ایٹم بم معرض وجود میں آیا جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی آباد بستویوں کو پانچ منٹ میں خاک سیاہ کردیا ۔ قریباً پانچ لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور جو بچے انہیں مردوں سے بدتر بنادیا ۔ ایسی تباہی انسان کے خواب و خیال میں بہی نہ آسکتی تھی لیکن بدبخت انسان اس تباہی پر بھی سیر نہ ہوا ۔ اب اس سے بھی زیادہ خوفناک اور تباہ کن آلات ایجاد کرنے میں مشغول ہے ۔ یھ جنگ کی تیاریاں درحقیقت خودکشی کی تیاری ہے ۔

کاؤنٹ ٹالسٹائی نے مغربی دول کی مثال بھوکے بھیڑیوں سے دی ہے ۔ جن کی لاروں کی لاریں شکار کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں ۔ جب برف باری کی وجہ سے شکار ختم ہوجاتا ہے تووہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور جو بھیڑیے اس پیکار میں کام آتے ہیں انہیں کھانا شروع کردیتے ہیں ، جب وہ بھی ختم ہوجاتے ہیں تو وہ پھر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔ بہت سے ان میں سے مارے جاتے ہیں ۔ باقی ماندہ پھر اسے شکار سمجھ کر کھانا شروع کردیتے ہیں ۔ اس طرح لڑتے لڑتے صرف دو بھیڑیے رہ جاتے ہیں اور وہ بھی لڑتے ہیں تو ایک ان میں سے مر جاتا ہے ۔ دوسرا اس کی لاش کو کھا کر چند دن گزارا کرتا ہے لیکن اس کے بعد وہ خود بھوک سے مر جاتا ہے ۔ یہی حال ان مغربی ممالک کی ہوس رانیوں کا ہے ۔ پہلے تو وہ کمزور سلطنتوں کے حصے بخرے کرکے بانٹ پر لڑتے رہے لیکن جب کمزور سلطنتیں باقی نہ رہیں تو پھر انہوں نے ایک دوسرے کو تباہ کرنا شروع کیا ۔ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی اور آسٹریا اور ٹرکی حلیف تھے اور انگریز ، روس ، اٹلی ، فرانس ، جاپان اور امریکہ حلیف تھے ۔ انگریزوں اور امریکہ کو فتح ہوئی لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس کی تعمیر میں ایک دوسرے کی رفاقت کا حق اداکرتے، خود ان میں مختلف متحارب فریق بن گئے ۔ انگلستان نے فرانس کے مقابلہ میں جرمنی کو مسلح کیا اور اس کے مقابلے کے لیے تیار کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی ، اٹلی اور جاپان ایک طرف جبکہ دوسری طرف امریکہ ، فرانس اور انگلستان ایک دوسرے کے حلیف بن کر برسر پیکار ہوئے ۔ ایسی خونریز لڑائی ہوئی کہ دنیا کی تمام لڑائیاں اس کے سامنے گرد ہوگئیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ فتح سے پہلے ہی آئندہ جنگ کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوگئے اور روس ، امریکہ اور انگلستان جو ایک دوسرے کے بظاہر حلیف تھے ، ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے منصوبے سوچنے لگے ۔ چنانچہ صلح کے بعد امن اور صلح کی حفاظت کے لیے یو -این -او تشکیل دی گئی ۔

اگر ان باغی اور سرکش لیڈروں کو ہوش نہ آیا اور وہ اپنے پیروؤں کو جنگ میں دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے تو ایک مہینے میں پچاس کروڑ آدمیوں کو موت کی نیند سلا دینا معمولی بات ہوگی ۔ قصہ مختصر مغربی ممالک اس جہنم میں جسے ان کے ہاتھوں نے بنایا ہے ، جل کر بھسم ہونے کے لیے تیار ہیں ۔
قرآنِ مجید نے اس کو '' خسر '' سے تعبیر فرمایا ہے اور سورئہ العصر میں اسی کی طرف اشارہ فرمایاہے :
( وَ الْعَصْرِ ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ )
''زمانہ اس امر پر شاہد ہے کہ انسان ہمیشہ گھاٹے ( خسران ) میں رہا ہے۔ ''
پھر خسر کی تعریف یوں فرمائی :
( قُلْ ھلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالاً ،  اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھمْ فِیْ الْحَیَاةِ

الدُّنْیَا وَ ھمْ یَحْسَبُونَ أَنَّھمْ یُحْسِنُونَ صُنْعا ) (الکھف: ١٠٣-١٠٤)
'' کہہ دو ( اے پیغمبر ) کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں کے احوال سے مطلع کریں جو اپنے اعمال ( کے نتائج ) کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان میں ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تمام مساعی دنیوی زندگی میں ہی گم ہو کر رہ گئیں اور وہ ہمیشہ اس خیال میں رہے کہ وہ نہایت ہی اچھے کام کر رہے ہیں ۔ ''
فی الحقیقت انجام ناشناس پیروانِ مغرب کی مساعی بے حاصل کی اس سے بہتر تصویر نہیں کھینچی جاسکتی اور قرآنِ حکیم نے ان کی مساعی کے نتائج و عواقب کا بطور پیشین گوئی ذکر فرمادیا  ( فھل من مدکر )کوئی ہے جوسبق حاصل کرے ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خسرانِ عظیم سے بچنے کی کوئی صورت بہی ہے ؟
( فَھَلْ اِلٰی خُرُوجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ) (غافر: ١١)
'' پس کیا اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ ہے ؟ ''
اور کیا نسلِ انسانی کے لیے ایک مرتبہ اس دلدل میں پھنس کر نکلنا اور لازوال ترقی کے میدان میں گامزن ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا سراب مغرب کا طلسم باطل ٹوٹ جانے کے بعد بنی نوع انسان کے لیے کوئی تمدن باقی رہ جائے گا جسے تمدن کہا جا سکے ؟
اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر اس مرض کی اصلی علت معلوم کرنا ضروری ہے کیونکہ جب اصل مرض کی تشخیص ہوجائے تو اس کے علاج کے تعین میں اتنی دشواری نہیں ہوسکتی ۔
قرآنِ حکیم نے انسانی خسران کے اسباب و علل پر بہ شرح و بسط بحث کی ہے اور اس کے علاج پر بھی مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس کا دعوے ہے کہ سوائے اس کے کسی اور مذہب اور مدرسہ فکر  ( School of  Thought ) کے ہاں اس کا علاج ہے ہی نہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ
( مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَھ مَعِیْشَةً ضَنْکًا ) (طحہ:١٢٤)
'' جو کوئی ہمارے ذکر ( وحی کی تعلیم ) سے منہ موڑتا ہے تو اس کی معیشت تنگ اور برباد ہوجاتی ہے ۔''
اس لیے سرمایہ داری نظام اور روسی نظام اشتراکیت ، جن کی بنیاد ہی خدا سے بغاوت پر ہے ، دنیا کو کبھی بھی تباہی سے نجات نہیں دلواسکتے بلکہ مندرجہ بالا ارشاد کے تحت دیر و زود ضرور تباہی سے دوچار ہوں گے ۔ چنانچہ ہم اس کی عملی تفسیر آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ گویا موجودہ دنیا کا اصلی مرض خدا سے اعراض اور بغاوت ہے اور اس کا علاج بھی وہی ہے جو قرآنِ حکیم نے پیش کیا ہے ۔ وہ مضطرب نسلِ انسانی کے سامنے ایسی شاہراہ پیش کرتا ہے ، جس کا منتہا ، حقیقی امن اور لازوال ترقی ہے اور جس کا راستہ تعمیر و تخریب کی عزائم شکن دلدلوں سے بالکل پاک ہے ، وہ کہتا ہے :
( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَ ھوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّھ حَیَاةً

طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّھمْ أَجْرَھم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونََ ) (طحہ:١٢٤)
'' جو شخص نیکو کار ہو مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بخشیں گے اور ہم ایسے تمام لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ خود ان کے کاموں سے بھی بدرجہا بہتر دیں گے ۔''
یعنی '' حیوة طیبہ '' جس سے مراد انسان کی وہ زندگی ہے جس کی تعمیر ، عمل تخریب سے نا آشنا ہو اور جس کی راحت ، مصیبت کی کدورتوں سے پاک اور غم و اندوہ کی آمیزش سے منزہ ہو ، صرف انہی لوگوں کا حصہ ہے جو ایمان اور عملِ صالح کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کی مساعی مثمر ہوں گی ۔
پھر عملِ صالح کی یوں تشریح فرمائی :
( فَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا وَمَا لَھ فِیْ الآخِرَةِ مِنْ

خَلاَقٍ ، وِمِنْھم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِیْ الآخِرَةِ

حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، أُولَئِکَ لَھمْ نَصِیْب مِّمَّا کَسَبُواْ وَاللّٰھ

سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) (طحہ:١٢٤)
'' اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں '' اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں دے '' اور ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں : '' اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ سے بچا '' یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی کمائی (یعنی اعمال کے نتائج سے بہرہ ور ہوں گے ) کا پھل کھائیں گے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے ۔ ''
آخری آیت قابلِ غور ہے کہ کیونکر حقیقی کامرانی کو ان لوگوں کے لیے مختص فرمایا جن کے دنیوی اعمال حسنات اخروی کے اکتساب کے لیے وقف ہوجائیں ورنہ اگر دنیوی اعمال کی تہ میں خود غرضی ، نفس پروری ، حرص و ہوا ، قوم پرستی ، وطنیت یا دوسرے سفلی جذبات کار فرما ہوں تو وہ نہ صرف غیر مثمر ہوں گے ، بلکہ اپنے کر نے والے کو بھی تباہ و برباد کردیں گے ۔ قرآن جس طریقِ زندگی کی راہنمائی کرتا ہے ، اس میں اور موجودہ طریق میں یہ اساسی اور اصولی فرق ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ قرآن حکیم کو اپنے تجویز کردہ راستے کی صحت پر اس درجہ حتمی اعتماد ہے کہ روزانہ ہر اذان میں دو دفعہ یہ اعلان ہر مسجد کے منارے پر سے دہرایا جاتا ہے :
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ'' کامیابی کے واحد راستے کی طرف آؤ ۔''
یعنی فلاح اور کامرانی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور یہ وہ ہے جو قرآن کا مجوزہ راستہ ہے ، جسے اسلام کہتے ہیں ۔ اسی لیے قرآنِ حکیم نے یہ عظیم الشان دعویٰ کیا :
( ھوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَھ بِالْھدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھرَھ عَلَی الدِّیْنِ

کُلِّھ وَکَفَی بِاللَّھ شَھیْداً ) (الفتح:٢٨)
'' وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دوسرے ادیان پر غالب کر دے اور اللہ کی گواہی اس امر کے لیے ( کہ یہ دین تمام دوسرے مذاہب اور مسالک پر غالب ہوکر رہے گا ) کافی ہے ۔ ''
اس آیت میں زبردست تحدی یعنی چیلنج ہے جو ''حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ''کی تفسیر ہے اور اس تحدی کے سچے ہونے کی منطقی دلیل بھی ہے ۔

تحدی یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مذاہب یا مسالک شیوع پائیں گے وہ اسلام کے مقابلے میں خاسر و ناکام رہیں گے ۔ اسلام غالب آئے گا اور تمام بنی نوع انسان چارو ناچار اسی کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنائیں گے اور دوسرے انسانی مذاہب و مسالک مغلوب و مقہور ہوجائیں گے ۔ اس کی صحت کی منطقی دلیل '' وَ کَفٰی بِاللّٰہ شَھِیْدًا ''میں پیش کی گئی ہے ۔ یعنی جب اللہ ہمارا اور کل عالم کا خالق اور رب ہے ، تو جس طرح وہ ہماری جسمانی نشو و نما کا ضامن اور کفیل ہے اسی طرح وہ ہماری روحانی ربوبیت کا بھی کفیل ہے ۔ اسی لیے انسان کی نجات اس راستے پر چلنے سے ہوسکتی ہے جو خود خالق اکبر ، ربّ العالمین نے تجویز کیا ہے ۔ یعنی اس کا خالق اور  رب ہونا ہی اس امر کی کافی شہادت ہے کہ اس کا تجویز کردہ راستہ اور دین ، بہترین راستہ اور دین ہو ۔

قصہ مختصر دنیا کی نجات صرف اسی راستے پر گامزن ہونے میں مضمر ہے جسے '' اسلام '' سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ خدا پرستی ، راست بازی اور عملِ صالح کی راہ ہے ۔ چنانچہ خود کمیونسٹ مفکرین کو بھی اس امر کا یقین ہو رہا ہے کہ انسانیت کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے ان کی خشک مادہ پرستی سے زیادہ ایمانِ راسخ اور صلاحیتِ عمل کی ضرورت ہے ۔ ہیرلڈ لاسکی ( Herold Loski ) جو انگلستان کا بہت مشہور مفکر اور کمیونزم کا سب سے بڑا وکیل ہے اپنی تازہ ترین تصنیف Faith, Reason and Civilization 1944 میں رقمطراز ہے :
'' میرے خیال میں کوئی صاحبِ بصیرت انسان جو ہماری موجودہ تشویشناک حالت کا غائز نظر سے مطالعہ کرے گا اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ ہمیں پھر سے ایسے ایمان کی ضرورت ہے جو انسانی قلب ( Mind ) میں نئی روح پھونک دے ۔ ''
ظاہر ہے کہ انسانی قلب کو گرما نے والا ، انسانی روح کو نئی زندگی بخشنے والا ایمان اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں نہیں مل سکتا ۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شراب خانہ سازدل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>جاری ہے<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<

مولانا محمد علی قصوری ماضی قریب کے نامور مفکر عالم و رہنما تھے ۔زیر نظر تحریر انہوں نے پرنس سعید حلیم پاشا کی کتاب پر بطور مقدمہ لکھی ہے ۔ مذکورہ کتاب '' اللّٰہ کی بادشاہت '' کے عنوان سے اردو میں ایک سے زائد مرتبہ طبع ہوچکی ہے ۔ مولانا قصوری کا یہ مقدمہ ١٩٤٩ء کا تحریر کردہ ہے لیکن اس کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر '' الواقعة '' میں اس کی اشاعت نو کی جارہی ہے ۔ تاہم مولانا کے قلم سے وہ حصہ جو خاص اس دور کے تناظر میں امریکا اور روس کے حوالے سے تھا اور جس کا تعلق پرنس سعید حلیم پاشا سے تھا ، اسے حذف کردیا گیا تاکہ اس دور میں پڑھتے ہوئے کلام کی بے ربطی کا احساس نہ ہو ۔ بقیہ تحریر من و عن مولانا قصوری کے قلم سے قارئینِ '' الواقعة '' کے لیے پیشِ خدمت ہے ۔ (ادارہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے