منگل، 25 دسمبر، 2012

عالمِ اسلامی کا انتشار

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا عبد الحامد بدایونی کی کتاب '' فلسفۂ عبادات اسلامی '' سے ماخوذ

عالمِ اسلامی کا انتشار

بدقسمتی سے ممالکِ اسلامیہ کا اپنا کوئی مشترکہ نظریۂ حیات نہیں اسی لیے وہ مغرب کا شکار ہیں ۔ باہمی تباغض و تنافر کی وجہ سے شیرازہ منتشر ہے ۔ اغیار فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے کے خلاف لڑانے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ عالم اسلامی اپنے سرمایۂ حیات کو مغرب کی نذر کر رہا ہے جسے دیکھو وہ مجلس اقوام کی قیادت قبول کر رہا ہے ۔
افسوس جس ملّت نے دنیا کی قیادت کی وہ آج اپنے انشقاق و افتراق کی بدولت غیروں کے دامن میں پناہ لے کر اپنا مستقبل تاریک کر رہی ہے ، مغربی لعنتیں اختیار کر رہی ہے ۔


وطنیت کی بلائے عظیم ہر طرف عام ہے جسے دیکھو وہ وطنیت کے جذبہ سے سرشار ہے ۔ عصبیت و باہمی رقابت ترقی کر رہی ہے ۔ ان تمام تحریکات میں کفر اپنا کام کر رہا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانانِ عالم دوسری اقوام اور ممالکِ غیر سے تجارتی یا سیاسی تعلقات قائم نہ کریں یا مصنوعات و ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائیں ۔ بیشک عصر حاضرہ کی ضروریات کے لحاظ سے تعلقات قائم کرنا ضروری ہیں ، لیکن یہ کہاں کی دور اندیشی ہے کہ ہم کفّار کو اپنی سیاسیات میں اس قدر دخیل کریں کہ ہمارا سیاسی و مذہبی موقف خراب ہوجائے اور مسلمان دنیائے مغرب کے اشارات پر متحرک ہوں وہ جہاں چاہیں ممالکِ اسلامی کو استعمال کریں ۔ اغراض ان کی ہوں اور خون بہیں مسلمانانِ عالم کے ۔

شاطرانِ یورپ کے ہاتھوں میں ہماری سیاست تجارت و صنعت ہے ، ہمارے بازاروں میں مصنوعاتِ غیر ملکی پھیلی ہوئی ہیں ۔ دوسروں کی ایجادات و اختراعات سے ہمارے ممالک نے ابھی تک اتنا بھی فائدہ نہ اٹھایا کہ وہ اپنی اپنی جگہ یورپ کی اختراعات و ایجادات اپنے یہاں قائم کرتے ۔

یورپ کے لوگ کہیں تجارت کے بہانے کہیں ٹھیکوں کے ذریعہ ہمارے ممالک میں داخل ہوکر اپنے پیر جمالیتے ہیں ۔ وہ عالم اسلامی کو کسی ایک مشترک اور متحد نقطۂ نظر پر نہیں پہنچنے دیتے ۔ نہ کسی عالمگیر تحریک کو کامیاب ہونے دیتے ہیں ۔

فلسطین کے مسئلہ نے ایک عالمگیر صورت اختیار کی تھی مگر اسے بھی صیہونیت یہودیت کی نذر کردیا گیا ۔ یہ ہے اس دور کی مسلم کش سیاست کا سبق آموز حربہ جس سے ہماری آنکھیں کھلنا چاہیئے تھیں اگرچہ کفار کا یہ طرزِ عمل نیا نہیں بلکہ وہ آغازِ اسلام سے لے کر اب تک یہی طور و طریقے اختیار کرتے رہے ۔

مبارک تھے وہ جنہوں نے اپنے عزم راسخ ، عمل پیہم سے کفر کے تمام نقشوں کو خاک میں ملایا ۔ دنیا پر مسلمانوں کی سیاست چھائی وہ جہاں بھی گئے اپنے اسلامی تمدن و معاشرت کو ساتھ لے گئے ۔ اغیار ہمارے تمدّن پر عمل کرنا فخر سمجھتے تھے ۔ آج نہ ہمارا کوئی اسلامی تمدّن باقی ہے اور نہ اس کی کوشش ہے کہ ہم اپنی روایات و معاشرت کو دنیا میں پھیلائیں بلکہ ہم اپنی تمام تہذیبی و معاشرتی صورتوں کو دوسروں پر قربان کرتے جارہے ہیں ۔ یاد رکھو ! جو قوم اپنی روایات و اصول کو چھوڑدیتی ہے ، وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی ہے ۔

حج ہمیں ہر سال سبق دیتا ہے کہ ہم اپنے حالات تبدیل کریں اپنا ایک موقف قائم کریں ۔ اسلامی تہذیب و تمدّن کو زندہ کریں ہمارے پاس ایک مکمل ضابطۂ حیات موجود ہے اسے دنیا میں پھیلائیں ۔ ہم میں کا ہر چھوٹا بڑا اس جامع قانون پر عمل پیرا ہو ۔
************************************************************************

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے