اتوار، 20 جولائی، 2014

غلامی فرج و بطن

ذیقعد و ذی الحجہ 1434ھ/ ستمبر اور اکتوبر 2013، شمارہ 18


لمحہ فکریہ

غلامی فرج و بطن

ابو عمار سلیم

ہم قرآن مجید و فرقان حمید کے اس اعلان کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضرت انسان کی پیدائش کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اللہ رب العالمین نے اپنے فرشتوں سے یہ فرمایا کہ میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں ۔  وہ زمین پر میرا خلیفہ ہوگا ۔ پھر ہمیں قرآن کریم نے یہ بات بھی بتائی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مٹی سے کی ۔  گو کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی رو سے ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے کتنے عرصہ کے بعد انسان کو وجود بخشا گیا ۔ مگر کچھ تو دیگر آسمانی مذاہب کی تحریف شدہ تحریروں سے اور کچھ احادیث مبارکہ کی رو سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسان کی تاریخ کی ابتدا آج سے تقریباً دس ہزار سال قبل ہوئی ۔ موجودہ سائنس بڑی شدت سے سرگرداں ہے کہ انسان کی تاریخ پیدائش کا درست تعین ہو سکے ۔  مگر چونکہ انہیں مذہب کی بجائے اپنی عقل اور موجود شہادتوں پر اعتبار ہے اس لیے باوجود کوششوں کے وہ آج تک بھٹک رہے ہیں ۔ کبھی کوئی کھوپڑی ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں کہ یہ کھوپڑی انسانی ہے اور ایک لاکھ سال پرانی ہے ۔ ایک آدھ مرتبہ تو شائد پچاس لاکھ سال قبل کا بھی نعرہ لگایا  گیا ۔ مگر حق تو یہ ہے کہ اس راز پر سے نہ تو پردہ اٹھا ہے اور نہ شائد قیامت تک اٹھ سکے گا ۔ اصل علم صرف اللہ کی ذات کو ہے کہ وہی ذات علیم و خبیر ہے اور اس کی اس صفت پر ہمارا ایمان بھی ہے اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ بات جس کی خبر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی ہے اور نہ ہی اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اس کے بارے میں کچھ بتایا ہے ، اس کا جاننا بھی ہمارے لیے نہ تو سود مند ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔


ہم یہ بات بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ جب اللہ نے تخلیق آدم کا مژدہ سنایا تو فرشتوں میں بڑی کھلبلی مچی ۔ اس وقت تک آسمانوں میں فرشتے ہی رہتے تھے اور ان کے ساتھ ابلیس جو جن تھا مگر فرشتوں میں شامل کر لیا گیا تھا رہتا تھا ۔ اس بارے میں کوئی مصدقہ علم نہیں ہے کہ جب فرشتوں کو بتایا گیا کہ زمین پر ایک خلیفہ بنایا جا رہا ہے تو ان کو یہ بھی بتایا گیا ہو کہ اس نئی تخلیق کنندہ کی خصوصیات کیا ہونگی ۔ مگر قرآن کریم کی یہ شہادت قابل توجہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا علم ہونے پر انہوں نے اس حیرت کا اظہار کیا کہ ایک ایسی جیز جو زمین میں فساد پھیلائے گی نہ صرف یہ کہ تخلیق کی جا رہی ہے بلکہ اس کو خلیفہ کا مسند عظیم بھی عطا ہو رہا ہے ۔ انسان سے قبل اس قبیل کی کسی چیز کا علم فرشتوں کو نہ تھا جس کی خلافت آگے سے آگے بڑھائی جاتی اور پھر جب اللہ نے یہ ارشاد کیا کہ وہ میرا خلیفہ ہوگا تو بھی شائد فرشتوں کے لیے بھی یہ اچنبھے کی بات ہوگی کہ خرابی پھیلانے والا ، خون بہانے والا ، ظلم کرنے والا اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا کیسے اللہ رب العزت کا خلیفہ ہو سکتا ہے ؟ جبکہ وہ خود ہر لحظہ اور ہر دم اللہ کی حمد و تسبیح میں لگے رہتے ہیں ۔  مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے تمام خدشات اور تحفظات کا بطلان کردیا اور فرما دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بذات خود ان کو ہر چیز کا علم سکھایا یعنی حضرت آدم علیہ السلام براہ راست اللہ تعالیٰ کے شاگرد قرار پائے ۔ اور پھر اپنے اس علم کی بدولت تمام ملائکہ پر اپنی برتری اور فوقیت ثابت کر دی یہاں تک کہ ان کی اس برتری کو تصدیق کا رتبہ دینے اور گواہی بنانے کی خاطر ملائکہ کو حکم دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو کیونکہ یہ ، تم سب حمد و تسبیح کرنے اور ذکر اذکار کرنے والوں سے درجہ میں اور رتبہ میں کہیں بزرگ اور برتر ہے ۔ فرشتوں کی طبیعت اور تخلیق میں کہیں پر بھی احکامات الٰہی سے انکار کا کوئی معمولی سا ذرہ بھی نہیں ہوتا ہے اس لیے وہ سارے کے سارے اللہ کے اس حکم کی بجا آوری میں ہمارے جد امجد کے آگے سر بسجود ہوگئے ۔ فرماں برداری اور اطاعت کی یہی شان ہے کہ احکامات پر چوں چرا کیے بغیر عمل در آمد ہو ۔  یہی ان فرشتوں کی سرشت میں تھا اور انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کر دیا اور اللہ کی رضا حاصل کر لی ۔ مگر ایک ایسا خبیث بھی اس محفل میں موجود تھا جو اپنی بڑائی اور سرداری پر نازاں تھا ، نخوت اور کبر سے بھرا ہوا تھا ۔ اللہ رب العزت سے احکامات لیا کرتا تھا ، اللہ کی عظمت اور بڑائی ، اس کی طاقتوں اور قدرتوں ، اس کے علم اور اس کی ہر قسم کی شان اور برتری سے ( ہم سمجھتے ہیں کہ ) وہ بخوبی واقف تھا مگر اس کے باوجود بھی اس کے گھمنڈ نے اسے اللہ کے اس حکم سے سرتابی کرا دی ۔ دیکھ لیجئے کہ غرور اور گھمنڈ کیسی بری چیز ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کو کیسی بری اور نا قابل معافی سزا اللہ خالق کائنات نے دی کہ نہ صرف اللہ کے دربار سے مردود ہوا بلکہ اس کی تمام مخلوقات میں بھی قابل نفرت ٹھہرا اور آخرت میں اس کے لیے بہت برا ٹھکانا ہے کیونکہ اللہ کے باغی یقیناً بالیقین دوزخ کا ایندھن بننے والے ہیں اور اس میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی دوسری رائے ہو سکتی ہے ۔ یہی پیغام اللہ کے ہر رسول اور ہر نبی نے ابن آدم کو دیا کہ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہی کامیابی ہے اور اس کی رضا حاصل کرنا آدم کے ہر بیٹے بیٹی پر فرض ہے ۔ یہی کامیابی ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے ہم اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں اس لیے اپنے فرض منصبی سے دور ہونا کبھی گوارا نہیں کیا جانا چاہئے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی عزت و تکریم ابلیس مردود کو پسند نہیں آئی ۔ سخت جلن اور حسد میں مبتلا ہو گیا ۔ شائد اس نے سوچا ہوگا کہ اللہ اگر اپنا خلیفہ بنا رہا ہے تو چونکہ وہ سب سے زیادہ عابد و زاہد ہے اس لیے وہ ہی اس مسند پر بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ مگر اللہ نے اس کی خواہشات کے بر خلاف عزت و سربلندی کا یہ تاج مٹی کے بنے اس پتلے کو دینے کا ارادہ ظاہر کیا  ۔ یہ بات یقیناً اس مردود کو انتہائی ناگوار گزری ہوگی ۔ اس کے دل میں انسان سے نفرت کا بیج اسی لمحہ پھوٹ پڑا ہو گا جس کا اظہار بھی اس نے اللہ رب العزت کے سامنے بلا کم و کاست کر دیا ۔ انسان کی فطری خامیاں بتا کر حضرت آدم علیہ السلام  کو نیچا دکھانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اللہ کی شان میں یہ گستاخی بھی کر بیٹھا کہ نعوذ با للہ اللہ کا فیصلہ درست نہیں تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام ابھی پیدا ہی ہوئے تھے کہ ایک ایسا عظیم الشان دشمن ان کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔ رسم تاجپوشی کے ساتھ ہی دشمن ازلی بھی مل گیا اور وہ بھی ایسا سخت کہ اللہ کے سامنے یہ دھمکی دے رہا ہے کہ میں اس کے آگے سے بھی آؤنگا ، اس کے پیچھے سے بھی آؤنگا ، اس کے دائیں بائیں سے بھی آؤنگا اور اس کو سیدھی اور سچی راہ سے بھٹکاؤنگا اور اس کو تیرا نافرمان بناؤں گا اور اے اللہ تو دیکھ لے گا کہ تیری یہ تخلیق جس پر تجھے اتنا ناز ہے تیری ہی سرتابی کرے گی تیرے احکامات کو نہیں مانے گی جوق در جوق تیرے خلاف محاظ آرائی کرے گی ۔ ناحق خون بہائے گی ، تیری تخلیق شدہ چیزوں کو تبدیل کرے گی اور ان کی شکل بگاڑے گی اور تیری نعمتوں کا شکر بھی نہیں ادا کرے گی ۔ اللہ حاکم برحق اور کائنات کے مالک نے اسی وقت اس لعین پر تعزیرات لگائیں اور اس کو اپنے دربار میں لعین و رجیم اور مردود جیسے ناموں سے پکارا اور آسمان کی وسعتوں سے زمین پر دے مارا ۔ ساتھ ہی حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے بچنے اور اس کی بات پر کان نہ دھرنے کی ہدایت دے کر نہ صرف یہ کہ جنت میں جگہ دی بلکہ ان کے مشکل کام میں ان کا ہاتھ بٹانے ان کی طاقت میں اضافہ کرنے اور ان کی ہمرکابی کے لیے ان کی شریک حیات حضرت بی بی حوا علیہا السلام کو بھی تخلیق کر دیا۔
اس بات کے بھی کوئی واضح شواہد ہیں نہ علم ہے کہ حضر ت آدم و حوا علیہما السلام کتنے عرصہ تک جنت میں شیطانی وسوسوں کے بغیر رہے اور یہ کہ اس دشمن ازلی نے آخر ایسا کون سا حربہ استعمال کیا کہ جنت کی تمام فصیلوں کو پار کر کے ان تک پہنچ گیا اور ان کو اللہ کے احکامات سے رو گردانی پر مجبور کر دیا ۔ بہر حال یہ اس مردود کی پہلی کامیابی تھی جس کے زیر اثر ہمارے والد اور والدہ صاحبہ نے اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور اس لعین کی بات مان لی ۔ گو کہ اللہ نے ان کی اس خطا کو شرمندگی کے اظہار اور معافی مانگنے کے ساتھ ہی معاف کر دیا مگر ساتھ ہی آزمائش کی ایک لمبی اور طویل جدو جہد کا بھی آغاز ہو گیا ۔ جنت کی محفوظ اور ناقابل تسخیر حفاظتی حدود سے باہر نکال کر زمین پر بے یار و مددگار ڈال دیا  گیا ۔ یہاں ان کو شدید فطری مشکلات ، زمینی شدائد اور آزمائشوں کے ساتھ ساتھ اس دشمن ازلی کی چالبازیوں کا بھی سامنا تھا اور ان سب سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان دونوں میاں بیوی اور ان کی آل اولاد کے پاس صرف ان کا علم ، جو اللہ نے ان کو دیا تھا اور وہ حکمت جو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے ، کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔ اس کے بعد کی کہانی ہم تک سینہ بہ سینہ بھی پہنچی اور اللہ نے اپنی کتابوں اور اپنے پیغمبروں کی زبانی بھی ہمیں سبق کے طور پر بتائی ۔ ہم آج یہ بات جانتے ہیں کہ ابلیس لعین نے اللہ کے سامنے کیا ہوا اپنا وعدہ کس شد و مد سے نبھایا ہے ۔ ہمیں بھٹکانے کے کون سے راستے ہیں جو اس نے ہم پر نہیں آزمائے ہیں اور ہم ہیں کہ اس کی تمام چال بازیوں میں اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ اس کے ایسے گرویدہ ہو گئے ہیں کہ جدھر وہ ہمیں لگا دیتا ہے ہم بے خطر اس میں کود جا رہے ہیں  ۔ ہمیں نہ اللہ کا ڈر ہے نہ اس کے احکامات سے رو گردانی کے انجام سے کوئی خوف ۔ انسانی جان لینے میں ہم ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ۔ سود جیسی لعنت جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے ، ہم اس میں اس طرح ملوث ہیں گویا ہم یہ جان رہے ہیں کہ اس جنگ میں جیت تو ہماری ہی ہوگی ۔ تجارت اور آپس کے لین دین میں بے ایمانی چور بازاری اور دھوکہ دہی ہماری شان ہے ۔ بے راہ روی ، فحاشی اور عریانی ہمارے فیشن کے جدید انداز ہیں ۔ الغرض آپ زندگی کے کسی شعبہ کو لے لیں ، تجارت ہو یا معاشرت ، اخلاقی ہو یا معاشی ، مذہبی ہو یا رسم ورواج ، ہر جگہ بگاڑ کا ماحول ہے ۔ اسی ابلیس لعین نے ہمیں ہر میدان میں پچھاڑا ہوا ہے ۔ اس نے ہمارے لیے دنیا کو ایسا رنگین بنا دیا ہے کہ ہم اس کی رونق اور ہما ہمی پر بری طرح فریفتہ ہیں ۔  رنگیلی دنیا اور اس کی عیش وعشرت ، رونقیں اور گہما گہمی ، لذت کام و دہن اور خواہشات نفسانی کا حصول ہی زندگی کا مقصد بنا ہوا ہے ۔ ہماری زندگیوں میں نہ اللہ ہے نہ اللہ کے احکامات ، نہ شریعت ہے نہ شریعت کے قائم کردہ حدود ۔ سوائے ہوا و ہوس کے نہ کوئی مقصد زندگی ہے اور نہ اس کے حصول سے بڑھ کر ہمارے پاس اہداف ہیں۔
قرآن کریم فرقان حمید نے ہماری اسی طرز زندگی کے حوالے سے ہمارے لیے کہا ہے کہ '' ۔۔۔۔ جانور ہیں ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔۔۔۔ '' اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی اہم ترین ضرورتوں میں سے زندگی کی حفاظت بہت اہم ہے ۔ موسم اور گردش لیل و نہار کے شدائد کے علاوہ نقصان اور ضرر پہنچانے والے درندوں اور حشرات الارض سے بچاؤ کی خاطر انسان نے اپنے لیے محفوظ گھر اور ماحول کے علاوہ معاشرتی گروہ بندیاں ایجاد کیں تاکہ ایک وقت میں ایک جگہ پر رہ کر ایک دوسرے کی مدد سے ان خطرات سے اپنے آپ کو اور اپنی آل اولاد کو محفوظ رکھا جا سکے ۔ اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے اس نے کھیتی باڑی اور دیگر ذرائع صنعت و تجارت کے اپنائے تاکہ پیٹ کا ایندھن جلتا رہے ۔ بنیادی مقصد تو اس کے ذریعہ سے قوت کا حصول تھا تاکہ زندگی رواں دواں رہے اور کمزوری سے بچا جا سکے مگر پھر اس میں لذت کام و دہن کی آمیزش ہوئی اور پھر مختلف انواع کے رنگ برنگے اور اشتہا آمیز پکوانوں اور ہانڈیوں کا اجرا ہوا ۔ ہر علاقے کے پکوان ان کے اس علاقے کے جغرافیائی اور معاشرتی ماحول کی مناسبت سے ایجاد کئے گئے اور پھر ہر قوم اور نسل کے اپنے روایتی لذتوں اور ذائقوں نے اس میں راہ پائی ۔ مشروب ہو یا ماکول ، کھٹا ہو یا میٹھا ، نمکین اور چٹ پٹا ہو یا سیدھا سادہ اور درمیانہ ، لحمی ہو یا سبزیات پر مشتمل ، ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنا ذائقہ بنا ۔  شروع میں تو شائد یہ اپنے اپنے علاقوں اور تہذیبوں تک ہی محدود رہا مگر رفتہ رفتہ ان ماکولات و مشروبات نے جغرافیائی حدود کی پابندیاں اپنے اوپر سے ختم کیں اور دیگر علاقوں اور معاشرتوں میں اپنے آپ کو متعارف کرایا اور ان علاقوں کے لوگوں نے بھی ان ذائقوں کو اپنے یہاں جگہ دی اور ان کی پذیرائی کی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ آج کے دور میں فاسٹ فوڈ کی بھر مار نے کھانے کے طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ کچے پکے کھانے جن کی اکثریت مختلف اقسام کے گوشت پر منحصر ہے خوب کھائے جاتے ہیں ۔ ذائقوں کی بجائے فیشن سے بھر پور کھانے امریکہ ، افریقہ ، چین ، کوریا ، اٹلی یا مشرق بعیدکے ذائقوں کے ساتھ بازار میں خوب خوب مقبول ہیں ۔ اپنے علاقے کے روایتی دال روٹی والا کھانا اب Out of Fashion ہوگیا ہے ۔ آج کے اس مہنگائی کے دور میں بھی سیدھا سادہ کھانا جو پچیس ،تیس روپے میں ایک آدمی کا پیٹ بھر سکتا ہے لوگوں کے دلوں سے اتر گیا ہے ۔ برگر اور پیزا جن پر ایک دو آدمیوں کے لیے ہزار دو ہزار خرچ ہو جاتے ہیں زیادہ مقبول ہیں ۔ ان کھانوں کے طبی مضرات کے باوجود یہ اس قدر مقبول کیوں ہیں ؟ میرے نزدیک تو یہ اسی ابلیسی چال کا ایک حصہ ہے جسے اس نے ہمارے بھٹکاوے کے لیے رواج دے رکھا ہے ۔ لذت کام و دہن اور چٹخاروں کی اس دنیا میں ہمیں الجھا کر ہمیں ہماری اوقات سے بڑھ کر ہم سے اخراجات کروا رہا ہے اور پھر ان اخراجات کو اپنے لیے ممکن بنانے کے لیے ہمیں حرام اور ناجائز ذرائع آمدنی کی راہ دکھا رہا ہے ۔ تجارت میں بے ایمانی ، ناپ تول میں کمی ، دھوکہ دہی ملاوٹ وغیرہ جیسی خصیص اور ناگوار حرکتیں ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیسے کمائیں اور اپنے اور اپنے گھر والوں کو مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں قیمتی کھانے کھلائیں ، سوسا ئٹی میں اپنی وقعت اور درجے بلند کریں ۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے جوئے ، سٹے بازی ، گھڑ دوڑ اور نا جانے کتنے الا بلا ذرائع پیسے کمانے کے ایجاد ہو گئے ہیں اور پوری دنیا ان کے پیچھے سر پٹ بھاگی جا رہی ہے ۔ نہ کسی کو ان کے نقصان کا اندازہ اور نہ ہی اس کی رذالت اور شیطانی بہکاوے کا ادراک ۔ ان ساری چیزوں کی شدت اور ان کے اضافے نے معاشرے میں گوناگوں خبائث کی بہتات کر دی ہے ۔ بیماریاں جس قدر عام آج ہیں پہلے کبھی نہ تھیں ۔ جتنے پیسوں کا کھانا کھاتے ہیں اتنے پیسوں کی دوائی اس کھانے کو ہضم کرنے یا اس کھانے سے پیدا شدہ بیماری کو دور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ پیٹ کی اس غلامی نے دیکھئے کہ رسول نبی کریم صادق الوعد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کو سچ کر دیا کہ آخری زمانے میں موٹاپا عام ہو جائے گا ۔ سڑک پر جا کر کھڑے ہو جائیں اور موٹے موٹے پیٹ نکالے ہوئے لوگوں اور نوجوانوں کو دیکھ لیں ۔ خواتین کھانے میں احتیاط کرنے کی بجائے موٹاپے کو کم کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالتی ہیں ہزاروں لاکھوں Diet Control کے مد میں اور Dietition کے مشوروں کے لیے ان کے حوالے کر دیتی ہیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ ۔ میرا خیال ہے کہ ان تمام باتوں کی وجوہات اس میں مضمر ہے کہ ہم نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی سادہ زندگی گزارنے کی سنت کو ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔ ذرا غور کریں کہ وہ جن کے لیے دنیا کی آسائشیں اور ان کا حصول کوئی مشکل نہ تھا ان کے گھر میں دو دو ماہ چولھا نہیں جلتا تھا ۔ ایسا بھی وقت دیکھا گیا کہ بھوک کی شدت کو روکنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے گئے ۔ ایک ہم ہیں کہ پیٹ کی غلامی میں لگے ہوئے ہیں ۔ہمیں سکھایا گیا کہ اس دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی مسافر راستہ چلتے ہوئے کسی درخت کی چھاؤں میں ذرا دیر سستانے کے لیے رک جاتا ہے ۔ مگرہم نے تو اس درخت کے نیچے پورا ڈیرا ڈال دیا ہے بلکہ ایسا انتظام کر رکھا ہے گویا یہاں سے جانا ہی نہیں ۔ جب ہم نے ہر  ہاتھ لگ جانے والی چیز اٹھا کر اپنے پیٹ میں ڈالنی شروع کر دی اور اس میں حرام اور حلال کی تخصیص چھوڑ دی تو ہم نے کیا کیا ؟  کیا ہم نے اپنے پیٹ کی غلامی نہیں شروع کر دی ؟ اسی کو تو غلامی بطن کہتے ہیں۔

جب انسان کی زندگی کا تحفظ ہو جاتا ہے اور اس کے پاس سر چھپانے کا کوئی ذریعہ بھی ہوتا ہے تو وہ اپنا پیٹ بھرنے کی طرف توجہ دیتا ہے اور جب اس کی یہ حاجت بھی پوری ہو جاتی ہے تو اس کو اپنی نفسانی اور جبلی جنسی خواہش کی تکمیل کی طرف توجہ ہوتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے جائز اور ا پنی رضا جوئی کے راستے مقرر کر دیئے ہیں ۔ یہ جنسی ضرورت انسان کی فطرت کا ایک حصہ بھی ہے اور اس کی نسل کی افزونی اور بڑھا وے کا واحد طریقہ بھی ۔ ان دونوں مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی اللہ نے انسان کے ساتھ اس کا جوڑا پیدا کیا ہے اور دونوں کے درمیان الفت ، محبت اور مودت کا جذبہ بھی رکھا ہے ۔ اللہ نے حضرت انسان کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے کھلا اور آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس سلسلہ میں مکمل ہدایت عطا کر دی اور راستہ مقرر کر دیا ۔ اس نے زن و شو کے تعلقات قائم کرنے کے لیے نکاح کی قید لگائی کہ جس کے بغیر یہ جائز کام بھی نا جائز قرار پایا ۔ یہ حد بندی کسی انسان کی طرف سے نہیں لگائی گئی بلکہ خود اللہ رب العزت نے اس کے خدوخال درست کئے اور احکامات واضح کر دئیے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان احکامات کی خلاف ورزی قابل دست اندازی قرار پائی اور اس کی بڑی شدید سزا مقرر کی گئی ۔ مرد اور عورت کے درمیان اللہ کی طرف سے عطا کردہ الفت اور ایک دوسرے کی طرف کھنچنے کا جذبہ خود مالک کائنات اور خلاق عظیم نے انسانوں کی سرشت میں رکھا ہے ۔ ہمارے دشمن ازلی نے ہمارے اسی پاکیزہ جذبہ کو اپنے مقصد کے لیے ہمارے خلاف استعمال کیا اور کیا خوب استعمال کیا ۔ طرح طرح کے بہلاوے اور طریقے ایجاد کئے جس کے استعمال کے ساتھ ایک مرد و عورت کو ایک دوسرے کی طرف میلان دلا کر اسی جذبہ کی تسکین کے سامان فراہم کردئے ۔ اس نے اپنی انتہائی کوشش کی کہ انسان کا یہ جذبہ نکاح کے حدود میں داخل ہو کر پاکیزہ اور جائز ہونے کی بجائے گناہ میں تبدیل ہو جائے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے عورتوں کو بے باک کر دیا ۔ ان کی شرم و حیا چھین لی ۔ لباس اور ستر کے حدود و قیود سے آزاد کرا دیا ۔ انہیں گھر کی پرسکون اور محفوظ فضا سے نکال کر سڑکوں بازاروں میں لے آیا ۔ عورتوں کو طرح طرح کے بہلاوے دے کر مردوں کے خلاف صف آرا کر دیا ۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر انہیں مردوں کی قوامیت سے نکال کر اللہ کی بغاوت میں پھنسا دیا ۔ ان کا لباس اتروا کر انہیں فیشن اور جدیدیت کے چکروں میں ایسا پھنسایا کہ وہ سمجھنے لگی ہیں کہ کم لباس کے ساتھ وہ زیادہ حسین لگتی ہیں ۔ شیطان کے اس بہکاوے میں مردوں کے ایک مخصوص طبقے نے بھی شیطان کا بھر پور ساتھ دیا ہے ۔ ان خبیث طینت مردوں نے عورتوں کی عریانیت کو اپنے مالی مفادات کے لیے خوب خوب استعمال کیا اوراس کو اس قدر عام کر دیا ہے کہ اب راہ چلتے آپ کے لیے پھسلنے اور بھٹکنے کے مواقع عام ہو گئے ہیں ۔ موجودہ دور کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس کو ہر شخص تک پہنچا دیا جو اس کی طرف االتفات کرنے کو بھی تیار نہیں ۔ اسی ہیجان انگیزی نے ایسی آگ لگائی ہے جس کا ہم اپنے معاشرے میں عمومی طور پر مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ کیا نچلے طبقے کے لوگ ہوں یا کیا ہی اونچے طبقے اور اشراف کا معاملہ ہو ، ہر طرف اس کا پھیلا یا ہوا گند صاف نظر آ رہا ہے ۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ کی گرفت کا احساس بہت کم ہے یا ہے ہی نہیں ان کے لیے تو یہ گھناؤنا جنسی معاملہ صرف ایک فطری تقاضہ کی تکمیل بن کر رہ گیا ہے اور ابلیس کی مہربانیوں سے اس میں نہ تو کسی قسم کی پابندی باقی رہ گئی ہے اور نہ ہی اچھے برے کی تمیز ۔ اگر ہر ایک کے لیے نہیں تو معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ہر شخص ان پاکیزہ قیود میں بندھنے کی بجائے آزاد اختلاط اور ملاپ کا نہ صرف حامی ہے بلکہ اس پر عائد تمام پابندیاں اٹھا دینا چاہتا ہے اور یہ ہی تو غلامی فرج ہے ۔ ابلیس کا نعرہ ہے کہ فرج کو آزاد کراؤ ۔ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے کہ ہم اس کا استعمال کس طرح کریں اور کس کے ساتھ کریں ۔ یہی نعرہ ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے آج کا مغربی معاشرہ بلا حیل و حجت LGBT یعنی ہم جنس پرستی میں داخل ہو گیا ہے اور اس کے گرگے اس تحریک کے لیے مسلم معاشرہ میں بھی راہیں ہموار کر رہے ہیں ۔ مغرب میں تو اس نے ایسی وبائی شکل اختیار کر لی ہے کہ چرچ نے بھی گھٹنے ٹیک دئے ہیں ۔ مردوں کی مردوں سے اور عورتوں سے عورتوں کی شادی کے لیے پادریوں کو احکامات جاری ہو گئے ہیں کہ وہ یہ شادی چرچ میں عام شادیوں کی طرح کروائیں ۔ برطانیہ میں دو پاکستانی لڑکیوں نے آپس میں شادی کرنی چاہی تو ان کی عدالت نے انکار کردیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی یہ شادی نہیں ہو سکتی تو ان لڑکیوں نے اعلیٰ عدالت میں مقدمہ دائر کر لیا اور جیت بھی گئیں اور ابلیسی تنظیموں کی آنکھ کا تارہ بن گئیں ۔ استغفر اللہ ۔ ہم پاکستانیوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں LGBT تنظیم قائم ہو چکی ہے اور اس کے خلاف کسی بھی طرف سے نہ تو کوئی مخالفانہ کاروائیاں ہوئی ہیں اور نہ ہی اس کو بند کرنے کے لیے کسی ادارے نے کوئی نام بھی لیا ہے ۔ اللہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان تمام شیطانی چالوں اور اس کے گرگوں کی کاروائیوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین ۔ اگر ان تحاریک کے آگے بند نہ باندھا گیا تو ہمارے منہ میں خاک یہ وبا بڑی بری طرح سے پھیلے گی اور ہمیں بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ عطا کریں اور اپنی اور اپنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور اس برائی کا سدباب کریں ۔ آ مین یا رب العالمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے