اتوار، 14 اپریل، 2013

مستشرقین اور تحقیقات اسلامی2

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم : مولانا عبد القدوس ہاشمی



PDF Download Link:

چارادوار
مستشرقین یورپ کی اسلامی تحقیقات کو ہم سہولتِ مطالعہ کے لیے چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ پہلا دور ابتدائے تاریخ اسلامی یعنی ساتویں صدی مسیحی یا گر یگوری سے لے کر پندرہویں صدی مسیحی یعنی بیداری یورپ تک۔
2۔ دوسرا دور پندرہویں صدی کی ابتداء سے اٹھارہویں صدی کے اختتام تک۔
3۔ تیسرا دور انیسویں صدی کی ابتداء سے بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے ختم یعنی 1925ء تک۔
4۔ چو تھا دور 1926ء سے آج تک۔

(1) دورِ اول میں یورپ کی حیثیت شاگردوں کی سی ہے اور مسلمانوں کی حیثیت استادوں کی سی۔ یہ دور تقریبا آٹھ سو سال کے طویل زمانہ پر مشتمل ہے۔ اس دور میں مسلمان اندلس میں، صقلیہ میں اور جنوبی ایطالیہ میں حاکمانہ حیثیت رکھتے تھے ان کے بڑے بڑے علماء اور فلسفی ان علا قوں میں مو جود تھے۔ اس وقت علم اور تمدن کے ممالک مسلمان تھے۔ ان ہی کی تہذیب، تہذیب تھی اور ان ہی کے علوم، علم شمار کیے جاتے تھے۔
اس دور میں عیسائیوں اور خصوصا یو رپ کی ساری علمی زندگی پر ارباب کلیسا کا قبضہ تھا۔ پاپائے اعظم اور ان کے نائبین مسلمانوں سے مختلف علوم حاصل کرنے کی سعی کر تے تھے اور عربی کتب و رسائل جمع کر تے تھے اسلامی قو انین کا تھوڑا بہت مطالعہ اس دور کے آخری حصہ میں کیا گیا۔ طب، فلسفہ، فلکیات، زراعت اور قانون پر مسلمانوں کی تصا نیف کا تر جمہ لاطینی اور فر نچ زبانوں میں ہوا۔ ابن رشد اور جابر بن اسحاق اور ابن سینا کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔ یہ کام عموما ایطالیہ میں اور کسی قدر فرانس میں ہوا لیکن نیابت و دانائی کے ساتھ، فارابی کو “فاربس“، ابن رشد کو ”ایوی روس“، جابر کو “جبیر“ اور ابن سینا کو “اوی سینا“ بنا دیا گیا۔ اور طلباء کو یہ کبھی نہیں بتایا گیا، کہ یہ لو گ یو رپین عیسائی نہیں بلکہ مسلمان تھے۔ اگر چہ یہ راز زمانہ ما بعد میں راز نہ رہ سکا لیکن یورپ کے کچھ نہ کچھ لو گ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ لو گ یو رپین تھے اور مذہبا عیسائی تھے۔
اس دور میں مسلمانوں اور دین اسلامی سے متعلق بڑے عجیب عجیب ہیبت ناک قصے ارباب کلیسا کی طرف سے پھیلائے گئے۔ کچھ مسلمانوں کی سفاکی کے قصے اور کچھ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے متعلق بے سروپا افسانے خوب خوب گھڑے گئے اور اسی زمانہ میں یورپ والوں کو یہ بآور کرایا گیا کہ مسلمان مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے برنجی بت کو سجدہ کرنے کے لیے جا یا کرتے ہیں۔
اس زمانہ کے اجلائے مستشرقین میں سب سے اول نام “جو بروی اورلیاک“ ایک فرا نسیسی راہب کا ملتا ہے۔ یہ فرانس میں 938ء میں پیدا ہوا اور 1003ء میں بمقام وٹیکین وفات پائی۔ اس نے اندلس کے مدارس میں برسوں رہ کر تعلیم حاصل کی اور اپنی قابلیت کی وجہ سے واپس آکر فرانس و ایطالیہ میں بڑا نام پیدا کیا۔ واپسی پر وہ ایطالیہ میں مستقل اقامت گزیں رہا حتیٰ کہ 999ء میں وہ بابائے اعظم کے جلیل القدر عہدہ پر منتخب ہوگیا۔ اس نے دو عربی مدرسے بھی قائم کیے اور فلکیات و ریاضیات کی بعض کتابوں کے عربی سے ترجمے بھی کیے۔ اس کے تراجم و تصانیف کا مجموعہ 1899ء میں برلن سے شائع ہوا ہے۔ (نجیب الحقیقی۔ المستشرقون: ج 1 ص 120 طبع مصر 1964ء )
اس دور کے مستشرقین “اور لیاک“ کے علاوہ قسطنطین الافریقی المتوفی 1078ء، اوجودی سانتا، ڈی کویل، ایڈیلارڈ، پطرس، یوحنا رابرٹ، ہرمان، ڈنیل مورلے، میکل اسکاٹ، لیونارڈ، تھامس ڈی اکوین، روجر بیکن اور رینڈ لیو وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ یہ سب اندلس، صقلیہ اور دیگر اسلامی ممالک کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور بہت سی عربی کتابوں کے فر نچ اور لاطینی میں ترجمے کیے ہیں۔ تقریبا یہ سب راہب یا کلیسا کے خدام ہیں۔
اسی دور کا ایک بڑا فاضل اے تورمیدا بھی ہے جس نے ایطالیہ میں تعلیم حاصل کی۔ بہت دنوں تک عیسائی خانقاہ کا مرشد اعلیٰ رہا۔ اس کے بعد تیونس چلا گیا۔ وہاں صدق دل سے مسلمان ہو گیا اور عبدا للہ کے نام سے مشہور ہوا۔ وہیں تقریبا اسی سال کی عمر میں 1432ء میں وفات پائی۔ اس کی قبر تو نس میں باب المنارہ میں ہے۔ (حوالہ سابق ص 132)
شیخ عبدا للہ تو رمیدا کے علاوہ اور بہت سے اطالوی اور فرنچ مستشرقین نے مطالعہ کے ذریعہ دین حق کو پا لیا اور مسلمان ہو گئے ان میں سے بعض نے اسلام پر لا طینی اور فر نچ میں کچھ رسالے بھی لکھے تھے خدا جانے کہیں یہ رسالے اب کہیں مو جود ہیں یا ضائع کر دئیے گئے۔
(2) دوسرا دور جو یورپ کی بیداری پندہوریں صدی مسیحی سے اٹھارہویںصدی کے ختم تک تقریبا (400) سو سال پر مشتمل ہے دولتِ عثمانیہ تر کیہ کی اقبال مندی کا زمانہ ہے 1453ء میں قسطنطنیہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور بہت سے ممالک یورپ عثمانیوں کے زیر نگین آگئے۔ دوسری طرف یورپ میں عام بیداری پیدا ہوئی کلیسا کے خلاف بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر طرح کی سیاسی، تعلیمی اور سماجی اصلاحات شروع ہو ئیں اور ان کا لب و لہجہ بھی اسلام کے خلاف بہت تلخ ہو جاتا ہے۔ یہ تلخی عثمانی فتوحات کے خلاف جذبات نفرت کی پیداوار ہے۔ اس دور میں ان کارنامے یہ ہیں کہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر عربی کتابوں کے قلمی نسخے نکالے اور ان کو طبع کر کے شائع کیا۔ ان کے تر جمے کیے اور اس کے لیے بادشاہوں نے خزانوں کے دروازے کھول دئیے عالموں نے اپنی عمریں وقف کر دیں۔ ان کارناموں کے علاوہ خود یو رپین زبانوں میں اسلام پر اس دور میں بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور مطبع کی ایجاد نے ان کتابوں کی بکثرت اشاعت کو آسان کر دیا۔
اس دور میں یو رپین اقوام نے مشرق کی سر زمین ایشیا و افریقہ پر قبضہ جما یا۔ مستعمرات اور یو رپین مقبوضات کا یہی زمانہ ہے۔ انڈونیشیا، ملایا، ہندوستان، صومالیہ اور جنوبی و مغربی و مشرقی افریقہ پر نیدر لینڈ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور اطالیہ کے تسلط کی ابتداء اس دور میں ہوئی۔ جن علاقوں پر ان استعمار پسندوں نے قبضہ کیا تھا ان میں سے اکثر میں مسلمانوں کی بڑی بڑی ہی نہیں بلکہ اکثریت کی آبادیاں تھیں۔ قبضہ اور تسلط قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کی زبانیں سیکھی جا ئیں ان کے عقائد و روایات سے واقفیت حاصل کی جائے۔ ان کو آپس کے اختلافات میں الجھایا جائے۔ ان میں مذہبی تغشف کو کم کرنے کے لیے ان کے یقین کو شک سے بدل دیا جائے۔ ان کے ایمان و عقیدہ کو وہم اور غیر ثابت شدہ حقیقت قرار دیا جائے۔
ان مقاصد کے لیے یو رپین ممالک خصوصا فرانس و جرمنی نے بڑی جدو جہد کی۔ اس وقت ان کے سا منے اہم ترین مسئلہ ایک یہ بھی تھا کہ دولت عثمانیہ کی قوت کو کسی طرح توڑا جائے اس کام کے لیے یہ ضروری تھا کہ عربوں اور ترکوں کے مابین منافرت اور دشمنی پید ا کردی جائے اور نہ صرف پیدا کردی جائے بلکہ اس منافرت کو دوامی صورت دیدی جائے، اس مقصد کے لیے فرانس کے بادشاہ لو لیس 14 نے بے دریغ دولت صرف کر دی مستشرقین اور مشرق شناسوں کو بڑی بڑی رقمیں دے کر ان سے عربی قومیت، عربی تمدن، عربی رسم و رواج اور عربوں سے متعلق دوسرے امور پر کتابیں لکھوائی گئیں عربوں کی تعریف و توصیف کے گیت گائے گئے۔
اس زمانہ کے مستشرقین کا بہت بڑا طبقہ یہ بآور کرانے کی دھن میں لگا ہو ا نظر آتا ہے کہ اسلام سے پہلے ہی عرب بڑی عزت و شان کے مالک تھے۔ اسلامی تاریخ عربوں کے مجدو شرف کی تاریخ کا محض ایک باب ہے۔ اب تک جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں وہ مسلمانوں کی تاریخ ہوتی تھی۔ عربوں کی الگ تاریخ کوئی نہیں لکھتا تھا لیکن اس دور کی آخری دو صدیوں میں عربوں کو ترکوں کے خلاف تیار کرنے کی منظم جدو جہد یو رپین حکومتوں نے مستشرقین کے ذریعہ شروع کی۔ عربی ممالک میں تحقیقاتی وفود کی ابتداء ہو ئی آثار قدیمہ نکالے جانے لگے اور عربوں کو وطن قومیت کے لیے تیار کیا جانے لگا۔ جس کا نتیجہ تقریبا سو سال کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں خاطر خواہ نکلا۔
اس دور کی آخری دو صدیوں میں اسلام کے خلاف کتابوں اور رسالوں کی تالیف و اشاعت کا کام ایطالیہ اور فرانس تک محدود نہ رہا بلکہ ان ہی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے ذریعہ یورپ کے دوسرے ممالک تک پھیل گیا۔ خصوصا جر منی اور نیدر لینڈ میں مطابع قائم ہو ئے اور لوگ اس سلسلہ میں کام کر نے لگے۔ آخر میں انگلستان میں تعلیمی اور اشاعتی ادارے قائم ہو گئے۔
اس دور کے مشاہیر مستشرقین میں اولین نام مسٹر جی پو سٹل کا آتا ہے یہ نار منڈی کے ایک قصبہ باونٹوں میں 1505ء میں پیدا ہوئے اور 1581ء میں وفات پائی۔ ان کو بادشاہ وقت نے جاگیر بھی دی تھیں۔ انہوں نے ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے سفر کیے بہت سی قلمی کتابیں خریدیں اور عربی و عبرانی زبان دانی اور مسلمانوں کے عقائد و رسوم پر متعدد کتابیں لکھیں۔ یہ ایک مذہبی پیشوا تھے اور مذ ہب عیسوی میں بعض باتیں پیدا کر نے کے جرم میں حکومت فرانس نے انہیں قید کر دیا تھا۔ ان کی وفات بھی قید خانہ میں ہو ئی۔ ان کے علاوہ اس دور کے مشاہیر مستشرقین میں بی ویٹیبر (1213- 1367)، بی ڈی بر بیلو (1625 - 1695)، انطون گا لان (1646 - 1815)، پادری ریٹا ورڈو (1647 - 1720) اور پادری بار تیلمی (1716 - 1795) وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں اسلام پر کتابیں لکھیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جبکہ کلیسا کا طلسم ٹو ٹا اور اس دور کے آخر میں کچھ ایسے مستشرقین بھی پیدا ہو ئے جنہوں نے اپنے پیشتر و مستشرقین کی تر دید کی۔ ساتھ ہی کچھ نہ کچھ نئے شبہات بھی پیدا کر دیے۔
(3) تیسرا دور انیسویں صدی کی ابتداء سے 1925ء تک ہے۔ اس دور میں عربی کتابوں کی تصحیح اور اشاعت کا کام زیادہ وسعت کے ساتھ پیدا ہوا۔ یورپ کی تقریبا ہر بڑی یونیورسٹی میں عربی اور اسلام کے مطالعہ کے لیے خاص شعبے قائم ہو ئے۔ عربوں اور تر کوں کے ما بین منافرت پیدا کر نے کی مہم بہت تیز کر دی گئی۔ اسلامی کتابوں کے ترجمے بکثرت شائع ہو ئے۔ اس زمانہ میں اسلامی تحقیقات کے نام سے مسلمانوں کے اندرونی اختلافات اور جدید فرق اسلامیہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ عربی قلمی کتابوں کی تشریحی فہرستیں شائع ہوئیں۔ تقریبا ہر ملک میں ایشیائی سوسائٹیاں وجود میں آئیں۔
اس دور کے مستشرقین عربی متون کی تصحیح اور علوم ریاضیہ و تجربیہ کے تراجم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دو مقاصد کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ (اول) عربوں اور غیر عربوں میں تفریق کے لیے عربوں کی تعریف و توصیف اور غیر عرب مسلمانوں پر الزامات کا التزام اور (دوم) مسلمانوں کی روایات اور ان کی تاریخ کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی مساعی۔
اس دور میں قرآن مجید کے متعدد تراجم ہوئے قرآن مجید کے الفاظ کی فہرستیں اور لغات القرآن بکثرت تیار کیے گئے۔ مسٹر جی فلوگل (1802 - 1870) اور مسٹر ہملٹین المتوفی 1824ء مترجم ہدایہ اسی دور کے علماء ہیں۔
اس دور کے مشہور مستشرقین میں سے ایڈ وردر یہبا سٹک (1819 - 1891)، مسٹر ہیوز مصنف “ڈکشنری آف اسلام“، تھامس کارلائل، ولیم ہوک مارلے، ایڈ ورڈ مہلر، ایل اسمنٹ، پادری ڈروم، سی ای ولسن، گولڈ زیہر، پادری کموشکو، جان جاک سدیو، لیو نے کا یتا نی، پادری فا کاری، لازینون، بلا شیر اور نا لنیو وغیرہم ہیں۔
مشہور پروفیسر پامر اور ان کے نامی گرامی شاگرد کرنل لارنس آف عربیا اسی دور کے بزرگ ہیں۔
(4) چوتھا دور جو 1926ء میں امیر کاتیانی کی وفات سے اب تک ہے۔
اس دور میں تحقیقات اسلامی کا کام جن مستشرقین نے کیا ان میں نو لدیکے اور ان کے شاگرد علامہ بروکلمان اور پروفیسر سخائو کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح تھامس آرنلڈ، مسٹر جیکسن، مونٹ گمری واٹ، پر وفیسر گویام، لی اسٹونج، مسٹر لیمب، مسٹر انڈوسن، پروفیسر مارگو لیتھ، ڈینی راس، مسٹر اولیری، مسٹر لوکارٹ، مسٹر برائون، مسٹر ہملیٹن گب، مسٹر لنڈائو اور مسٹر لولیس وغیرہم نے تحقیقات اسلامی کا کام کیا اور کررہے ہیں پادری زویمر المتوفی 1952ء بانی رسالہ مسلم ورلڈ بھی اس دور کے ہیں۔ جن کے متعلق خود مستشرقین کی یہ رائے ہے کہ ان کے تعصب نے ان کی تصنیفات کا علمی مرتبہ ہی ختم کر دیا۔ اس دور میں تحقیقات اسلامی کا دائرہ فقہ، اصول فقہ تک وسیع ہو گیا۔ اسلامی فرقوں کے حالات اور ان کے افکار کی طرف تو جہ بڑھا دی گئی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی ان موضوعات پر کچھ نہ کچھ کام مستشرقین نے کیا ہے۔ مگر اس عہد میں توجہ ان موضوعات اور تصوف اسلامی کی طرف زیادہ بڑھا دی گئی ہے۔
اس دور میں ایک بات یہ بھی پیدا ہو گئی کہ بڑی حکومتیں خدا بیزاری اور مذہب سے نفرت کے اصول پر قائم ہوئیں۔ اس طرف توجہ 1925ء کے بعد سے ہوئی اور 1945ء کے بعد تو خدا بیزار مملکتوں کا مسلسل پر و پیگنڈا خود عیسائیت کے لیے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا۔ اس لیے باستشنائے چند مستشرقین یورپ کا لب و لہجہ اسلام کے خلاف یاوہ گوئی میں نسبتًہ نرم ہو گیا۔ اور اس وجہ سے مذاہب کی کانفرنسوں، تقریروں، اور مقالات صلح و آشتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس صورتحال کا اثر سب پر نہیں پڑا۔ پادری سموئل زویمراور ان کے ہمنوا پوری قوت کے ساتھ اسلام قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے خلاف لکھتے رہے وہ اپنے لب و لہجہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکے۔ مگر پھر بھی دیگر مستشرقین کا ایک بڑا طبقہ اس خطرہ کو محسوس کر کے اپنی تحریروں کو مصلحتا کسی قدر  نرم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
مقاصد
کسی ذی ہوش آدمی کا ارادی عمل بغیر علّت غائی یعنی مقصدِ عمل کے ممکن نہیں ہے اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہوسکتا کہ مستشرقین کا عمل تحقیقات اسلامی کسی مقصد کے بغیر ہو تا رہا ہے یا ہو سکتا ہے یقینا یہ ساری محنت اور حکومتوں اور اوقاف کی طرف سے اتنے بڑ ے پیمانہ پر کام بھی، کوئی مقصد رکھتا ہے اور یقینا ان اعمال کا کو ئی مقصد ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تلاشِ علم ہو سکتا ہے لیکن یہ خیال اس لیے محض با طل ہو جا تا ہے کہ ہم قدیم زمانہ سے اس کام میں زیادہ تر ان ہی حضرات کو منہمک پاتے ہیں جو عیسائیت کے پُر جوش مبلغ ہیں اور آج تک اکثریت ان ہی مبلغین کی، اس کام میں مشغول نظر آتی ہے، جو دین مسیحی کے بہترین مبلغ ہیں۔ ذرا ان چند ناموں پر غور کیجئے یہ سب مسیحی پادری ہیں اور مدتوں تک مرتاض راہب رہ کر انہوں نے تر بیت پا ئی ہے:
پادری الیا نو المتوفی 1589ء
پادری ریلو المتوفی 1848ء
پادری مارٹن المتوفی 1880ء
پادری بلن المتوفی 1891ء
پادری ایوجی المتوفی 1895ء
پادری کو ش المتوفی 1895ء
پادری ژی کوپر المتوفی 1904ء
پادری جو لیان المتوفی 1911ء
پادری بروبر المتوفی 1919ء
پادری میکارتھی المولود 1913ء
پادری بولومواے المتوفی 1929ء
پادری زیموفین المتوفی 1928ء
پادری ڈیورنڈ المتوفی 1928ء
پادری مالون المتوفی 1938ء
پادری لامنس المتوفی 1938ء
پادری کولنگیٹ المتوفی 1938ء
پادری لاپیرے المتوفی 1950ء
پادری مونٹوڈے المولود 1880ء
پادری ہنری چارلس المولود 1900ء
پادری فلیش المولود 1904ء
یہ سب مبلغ (مشنری) اور پادری ہیں اور کلیسا کے مذہبی عہدہ دار ہیں۔ انہیں بیش قرار تنخواہیں کلیسا اور اوقاف کلیسا سے ملتی رہی ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایک مسیحی راہب اور کلیسا کا عہدے دار کلیسا کی تنخواہ لے کر اسلام پر تحقیقات کسی مقصد اور کسی جذبہ کے ما تحت کر سکتا ہے۔ اور یورپ کی استعماری حکومتوں نے ان پر جو کروڑوں رو پے خرچ کیے یا کر رہی ہیں ان کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ عربی زبان سے ریاضیات، فلکیات، کیمیا، طب، نباتیات اور حیوانیات کی کتابوں کے ترجمے کرنے والوں کو شاید یہ کہہ دیا جائے کہ محض تلاشِ علم کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں لیکن ایسے حضرات بہت ہی کم ہیں اور ہمارے مو ضوع سخن سے اس مقالہ میں یہ لو گ خارج ہیں اسلامی عقائد، قرآن حکیم، اسلامی تاریخ، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور اسلامی تصوف پر تحقیقات کر نے والے ان مسیحی خانقاہ نشینوں اور مبلغوں کا مقصد صرف تلاشِ علم و ہنر کیسے ہو سکتا ہے؟
مستشرقین کی اسلامی تحقیقات کا مقصد جو ان تحریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ، استعمار کے لیے راستہ کی ہمواری اور مسلمانوں میں تفریق پھیلانے کی جدو جہد کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اس مقصد کے لیے وہ بڑے خلوص اور تندہی سے کام کرتے ہیں تحقیق کے نام سے منافقوں اور اسلام دشمن اشخاص کے قدیم اقوال ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالتے ہیں اور چو نکہ عرب عیسائیوں اور یہودیوں کے اکثر نام مسلمانوں کے سے ہو تے ہیں۔ اس لیے بڑی آسانی کے ساتھ وہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مسلمان حکومتوں نے ہمیشہ سے آزادی رائے دی ہے۔ اس لیے ہزاروں یہودیوں اور عیسائیوں نے طرح طرح کی فضول اور مضر تحریریں لکھی ہیں اور آج یہ تحریریں اسی طرح پیش کی جاتی ہیں۔ جیسے کسی مسلمان عالم دین کی لکھی ہوئی کتاب ہو۔ اس کے علاوہ خود مسلمانوں میں کچھ لا مذہب اور زندیق قسم کے افراد بھی داخل یا پیدا ہوتے رہتے ہیں، یہ لوگ ان کی تحریروں پر خاص تو جہ کرتے ہیں مثلا یشار بن بود، ابونواس جیسے مشاہیر فُسانی اور زناوقہ کی تحریریں “کتاب الاغانی“، “کتاب اخوان الصفا”، ابو نعیم کی “کتاب الفتن“ اور اس قسم کی دوسری کتابوں سے مواد لیتے ہیں۔ بعض بالکلیہ جعلی کتابیں جو کسی قدیم مصنف کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ مثلا عبداللہ بن ابن داود کی طرف منسوب کتاب “المصحف“، زبیر بن بکار کی طرف منسوب “کتاب نسب قریش“، بو علی سینا کی طرف منسوب “رسالہ حشر الاجسار“ وغیرہ ان کے مقاصد کے لیے بڑی کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متونِ کتاب کی طباعت و اشاعت میں انہوں نے جو کام کیا ہے۔ فہرست سازی اور اشاریہ نویسی میں جو محنتیں انہوں نے کی ہیں وہ لائق صد آفریں ہیں ان کی محنت و مساعی سے بہت سی نایاب اور قیمتی کتابیں چھپ کر ہمارے لیے قابلِ حصول ہو گئیں۔ لیکن جہاں انہوں نے تر جمہ و تحشیہ کا کام کیا ہے یا  کتاب لکھی ہے۔ وہاں کبھی بالارادہ اپنے جذبہ عداوت کے ماتحت اور کبھی محض اپنی جہالت سے کتاب کو کیا سے کیا بنا کے بھی رکھ دیا ہے اور عجیب عجیب گل کھلائے ہیں مثال کے لیے مشہور مستشرق فلوگل کو لیجئے انہوں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ چھاپا الفاظ کی فہرست مرتب کی اور 1842ء میں ایک وسیع لغت الفاظ قرآن مجید کا شائع کیا۔ اس لغت میں انہوں نے 39 الفاظ کے غلط عربی مادے لکھ دئیے اور نتیجتا معانی بدل ڈالے مثال کے لیے ان پانچ الفاظ کو دیکھیے:
(1) اثرن کا مادہ “ا- ث- ر” قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ث- و- ر” ہے۔
(2) المخاص کا مادہ “خ- و - ص“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل ” م- خ -ص “ ہے۔
(3) استبقوا کا مادہ “ب- ق -ی“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “س - ب- ق“ ہے۔
(4) وقرن کا مادہ “ق - ر-ن“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ق -ر-ر” ہے۔
(5) مقیلا کا مادہ “ق - و- ل“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ق- ی- ل“ ہے۔
اس تبدیلی سے معانی بالکل بد ل گئے۔ یہ وہ مسٹر فلوگل ہیں جن کو مستشرقین کے نزدیک سندِ مستند کا مقام حاصل ہے۔
چونکہ ہمیشہ سے یہ اعتراض مسیحیت پر کیا جاتا رہا ہے کہ انجیل مقدس کے نام سے جو کتاب پیش کی جاتی ہے وہ حضرت عیسیٰ کی غلط اور فرضی سوانح عمری ہے۔ اس میں ایک الفاظ بھی وحی الٰہی کا نہیں ہے اور یہ اعتراض بالکل صحیح ہے۔ دنیا میں کہیں وحی الٰہی کا ایک لفظ بھی بجزنا قرآن مجید کے مو جود نہیں ہے۔ یہ امر واقعہ ہے اس کا کوئی جواب عیسائی مبلغین کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے مستشرقین نے اپنی تحقیقات اسلامی کا سارا زور اس پر لگا دیا ہے کہ قرآن مجید بھی اصلی نہیں ہے اور قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے وہ عجیب عجیب دلاول پیدا کرتے ہیں۔ مثلا علامہ گولڈ زیہر اپنی کتاب “مذاہب التفسیر الاسلامی“ میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ایک لفظ کی صحت بھی قابلِ اعتماد نہیں۔ کیونکہ ابتدا جب اسے لکھا گیا تھا تو حروف پر نقطے نہیں تھے۔ اس لیے لو گوں نے نہ جانے کیا لکھا تھا اور پڑھا۔
ذرا غور فرمائیے اس فاضل مستشرقین نے کیا بات پیدا کی ہے۔ جس قوم میں مادر زاد اندھے حافظ رہے ہوں اور جس میں آج تک استاد سے شاگرد کی طرف علم کی منتقلی بذریعہ صوت آواز ہو اس میں نقطہ کی اہمیت کیا ہے۔ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے آواز سنتے تھے یا لکھی ہو ئی تحریر وں سے قرآن مجید یاد کرتے تھے۔ اور آج تک کسی مسجد اور کسی مدرسہ میں قرآن مجید بغیر معلم کی آواز کے بلیک بورڈ پر لکھ کر پڑھا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی آواز مد، سکون، وقف، سکتہ یہ سب کچھ بذریعہ روایت محفوظ ہے اس کے لیے حروف اور نقطہ کی ضرورت بھی کہاں پڑتی ہے؟
شاید علامہ گولڈ زیہر کا مقصد یہ ہے کہ جب وحی آتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اسے لکھوا کر اس لیے محفوظ فر ما دیتے تھے کہ لوگ آکر مسجد میں رکھے ہو ئے اس نو شتہ کو پڑھ لیا کریں اور آپ کسی کو زبان سے کچھ نہیں سنایا کرتے تھے۔
یہی ہو تا تو حضرت عبدا للہ بن ام مکتوم نا بینا صحابی نے قرآن مجید کیسے یاد کیا اور ناحرف شناس تو بہت سے حافظ قرآن صحابہ میں مو جود تھے۔
اسی طرح کی مہمل دلیلوں اور مغالطوں کے ذریعہ حضرات مستشرقین یہ ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ تورات شریف اور انجیل مقدس کی طرح قرآن مجید بھی دنیا سے ناپید ہو گیا۔ اسی طرح سیرت طیبہ، اسلامی تاریخ اور فقہ اسلامی میں طرح طرح کے شک پیدا کر نے کی کبھی بالارادہ کو ششیں کرتے ہیں اور کبھی نقصِ مطالعہ اور غرورِ علم و فضل کی آمیزش سے ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں:
سنئیے ایک مبلغ اور مستشرق ہیں “لوئی ونڈر مین“ انہوں نے ایک علمی مجلس میں یہ اعتراض کیا کہ ام المومنین بی بی خدیجة الکبریٰ کے گھر حضرت زبیر اکثر جاتے تھے۔ اور کبھی کبھی وہیں سو بھی جایا کرتے تھے۔ ام المومنین ان کے سر میں کنگھی بھی کر دیتی تھیں حالانکہ اسلام میں کسی عورت کا غیر مرد سے اس طرح خلا ملا جائز نہیں ہے۔
"اس عتراض کے بعد جب انہیں بتا یا گیا کہ حضرت ام المومنین بی بی خدیجة الکبریٰ حضرت زبیر کی حقیقی پھوپھی تھیں اور ان ہی نے بچپن سے ان کو پا لا تھا کو ئی غیر نہ تھیں" تو نہایت معصومیت سے فرمایا اچھا یہی بات ہوگی۔”
مثالوں سے بات بڑی طویل ہو جائے گی اس لیے اب میں اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ
(1) عیسائیوں اور یہودیوں کو ہمیشہ ہی سے اس کا صدمہ رہا ہے کہ اسلام نے شام و عراق، مصر و مراکش وغیرہ میں کیوں قدم جما لیے اس کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے تلوار کے ساتھ ساتھ قلم سے بھی کام لیا اور کام لے رہے ہیں اور ہمیشہ کام لیتے رہیں گے۔ مسلمانوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ان سے کو ئی شکایت نہیں ہے۔ شکایت کرنا بزدلی ہے اور چوکنا رہنا ہوشیاری و دانائی۔
(2) عیسائی مبلغین جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں وہ کسی مذہب کے مبلغ نہیں ہیں۔ کبھی وہ استعماری حکومتوں کے ہر اول دستہ تھے اور اب یورپین تہذیب و تمدن کے نقارچی ہیں جنہیں بیش قرار تنخواہیں سیاسی مصالح اور تجارتی مقاصد کی تکمیل کے لیے دی جاتی ہیں یہ مبلغ بھی ہوتے ہیں اور کبھی کوئی اور روپ بھی دھار لیتے ہیں۔
(3) کسی کی بات کو بغیر تنقیح و تحقیق قبول نہیں کیا جا سکتا اس لیے مستشرقین کے علم و فضل سے مرعوب ہو کر کوئی بات قبول نہیں کی جا سکتی۔ رہی اچھی اور سچی بات تو یہ دوست سے ملے یا دشمن سے کلمة الحق ضالة المومن اینما وجدت فہو احق بہا۔
(کلمہ حق مومن کا کھویا ہوا مال ہے۔ جہاں کہیں مل جائے مومن ہی اس کا زیادہ حق دار ہے)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے