اتوار، 5 مئی، 2013

نزول عیسی علیہ السلام قسط 2 آخری

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1434ھ/ فروری، مارچ 2013

نزول عیسیٰ علیہ السلام قسط 2 آخری قسط 1 کے لئے کلک کریں PDF Download link

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

سنن ترمذی کی ایک اہم اسرائیلی روایت

احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں قرآن پاک کی تفسیر نہایت سہل ہوگئی ہے، اس کی تائید میں محرف زدہ اناجیل بھی ہے اور گمشدہ توریت بھی۔ امام ترمذی نے اپنی “الجامع” کے کتاب المناقب میں ایک موقوف اثر روایت کیا ہے۔ وھو ھذا:
“حدثنا زید بن اخزم الطائی البصری حدثنا ابو قتیبة حدثنی ابو مودود المدنی حدثنا عثمان بن الضحاک عن محمد بن یوسف بن عبد اﷲ بن سلام عن ابیہ عن جدہ قال: “مکتوب فی التوراة صفة محمد و صفة عیسی  ابن مریم یدفن معہ۔” فقال ابو مودود و قد بقی فی البیت موضع قبر قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن غریب ھکذا قال عثمان بن الضحاک بن عثمان المدنی۔
یعنی: ”توریت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں یہ لکھا تھاکہ دونوں ایک ہی جگہ مدفون ہوں گے۔”
اس حدیث کے راویوں میں زید بن اخزم الطائی کو نسائی و دارقطنی نے ثقہ کہا ہے، ابن حبان انہیں مستقیم الحدیث کہتے ہیں۔
ابو قتیبہ مسلم بن قتیبہ کے لیے یحییٰ بن معین “لیس بہ بأس” کہتے ہیں۔ ابو داود و دارقطنی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔
ابو مودود المدنی کی وثاقت پر امام احمد، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو دائود، ابن حبان وغیرہم متفق ہیں۔
عثمان بن الضحاک کو ابن حبان نے ثقہ کہا جبکہ ابوداود نے تضعیف کی۔
محمد بن یوسف مقبول راوی ہیں اور زمرئہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یوسف صغار صحابی ہیں اور ان کے دادا عبدا ﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ معروف صحابی ہیں اور معلوم ہے کہ ”الصحابة کلھم العدول”۔

منکرین نزول مسیح کے چند اعتراضات

٭منکرین نزول عیسیٰ کی طرف سے ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ساعتِ موعودہ کا نظریہ درحقیقت عیسائیوں سے آیا ہے، جبکہ انہیں غور فرمانا چاہیئے کہ اناجیل و دیگر کتب سابقہ میں کی متعدد تعلیمات اسلام میں بھی شامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی متعدد پیشینگوئیاں توریت وانجیل میں مرقوم ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ظن و تخمین کو اپنی دلیل بنانے کی بجائے علم صریح کی پیروی کریں۔

٭منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم خاتم النبین ہیں لہٰذا نزول عیسیٰ سے ان کی صفت خاتمیت پر زد آتا ہے۔ لیکن یہ اعتراض بھی غیر دانشمندانہ ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہورِثانی بحیثیت نبی کے نہیں ہوگا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی “شان خاتمیت“ تو اس امر سے واضح ہے کہ

“والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فا تبعتموہ و ترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل و لو کان حیاً و ادرک نبوتی لاتبعنی“ (رواہ  الدارمی  فی  کتاب  المقدمة)
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر تمہارے درمیان موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم سب ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو یقینا تم سیدھی راہ سے گمراہ ہوجائو گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میرے (زمانۂ) نبوّت کو پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔“

جبکہ عیسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی بھی نہیں ہیں، ان کا دورِ اول “شریعت موسوی“ کی تبلیغ میں گزرااور اب دورِثانی “تجدید شریعت محمدی” کے لیے وقف ہوگا۔ نیز بحیثیت نبی ان کا نزولِ ثانی نصِ قرآنی کے بھی خلاف ہے کیونکہ اللہ ربّ العزت نے (وَ رَسُوْلاً  اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ) (آل عمران :49) فرما کر ان کی رسالت کو صرف بنی اسرائیل کے لیے خاص فرمادیا ہے۔ لہٰذا ان کا نزولِ ثانی بحیثیت امام عادل یا بالفاظِ دیگر امتِ محمدیہ کے آخری مجددِ کامل کی حیثیت سے ہوگا۔

مولانا ابو الکلام آزاد مو لانا ثناء اﷲ امرتسری کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں (1):
“بلاشبہ روایات میں نزول مسیح علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے اور صحیحین کی روایات اس باب میں معلوم ومشہور ہیں۔ اس سے کسے انکار ہے لیکن اس معاملہ کا تعلق قیامت کے آثار و مقدمات سے ہے نہ کہ تکمیل دین کے معاملہ سے نیز انہی روایات میں تصریحات موجود ہیں کہ حضرت مسیح کا نزول بہ حیثیت رسول کے نہیں ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اس تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہی رہا ہے کہ دین ناقص نہیں اور اپنے تکمیل کے لیے کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔” (تحریک آزادی:242)
“صحیح بخاری“ کی حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت “حکماً مقسطاً” ہوگا نہ کہ بحیثیت نبی۔ (صحیح البخاری، کتاب، باب کسر الصلیب و قتل الخنزیر)

٭منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے ایک دلچسپ انکشاف یہ بھی ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام فطرت کے خلاف ہے اور (لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲ) لیکن ان کے بارگاہِ عقل و فکر میں اس عاجز کا عاجزانہ سوال یہ ہے کہ وہ ربِ تعالیٰ کی خلقت اور قدرت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ جو وہ یوں فیصلے صادر کریں؟ أفلا یتدبرون۔

یہاں یہ ذکر بے محل نہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سری نگر میں ہوئی تھی اور وہیں ان کی قبر بھی موجود ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں اس نے ایک کتاب موسوم بہ “مسیح ہندوستان میں” لکھی۔ نیز اپنی کتاب "کشتی نوح“ میں لکھتا ہے:
“مسیح فوت ہوچکا اور سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے۔” (ص 103)
اوراس قبر کی تائید میں اس نے ایک یہودی عالم کی تائید نقل کی ہے اور “شہد شاہد من بنی اسرائیل- ایک اسرائیلی عالمِ توریت کی شہادت دربارئہ قبر مسیح “کے عنوان کے تحت وہ تائیدی عبارت حسب ذیل ہے:
“میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ایک نقشہ پاس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے، اور وہ ہے بنی اسرائیل کے اکابر کی قبروں میں سے اور میں نے دیکھا یہ نقشہ آج کے دن جب لکھی میں نے یہ شہادت ماہ انگریزی جون 12، 1899 ئ۔ سلمان یوسف یسحاق تاجر۔” (ص 103)
قارئین گرامی غور فرمائیں دعویٰ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قبر کا ہے اور دلیل بنی اسرائیل کے اکابر کی ایک قبر سے دی جارہی ہے۔ مرزا صاحب کے اس دعویٰ کی تردید میں مولانا عبد الحلیم شرر اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے قلمی کاوش کی ہے، جس سے مرزا صاحب کاابطال ہوجاتا ہے۔

ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی امت کو چھوڑ کر کشمیر کی وادیوں میں چلے جانا خود ان کے منصبِ نبوت کے بھی خلاف ہے، بقول خود: “میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔” (متی  24:15)
و قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن: ( وَ رَسُوْلاً  اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ) (آل عمران : 49)

اب ذرا مرزا صاحب کی دریافت کردہ قبر کی حقیقت بھی سنتے چلیے۔ جناب بشیر احمد صاحب اپنی کتاب “بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم“ میں لکھتے ہیں:
“کشمیر کا مولوی عبد اﷲ وکیل جس کا ذکر مرزا صاحب کی کتاب رازِ حقیقت میں موجود ہے اور جس نے کشمیر میں قبر مسیح کے مفروضے کو تقویت دینے کے لیے شواہد اکٹھے کیے بہائی مبلغ بن گیا۔ مرزا قادیانی نے جب دعویٰ کیاکہ اس کو خدا نے وحی کی ہے کہ خانیار سری نگر میں حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے تو اس کے جواب میں عبد اﷲ وکیل نے ایک کتابچہ شائع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ صریح جھوٹ ہے اس جعلی نظریے کا خالق ہی وہ اور خلیفہ نوردین جمونی تھے۔” (بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم: 224، مطبوعہ اسلامک اسٹڈی فورم راولپنڈی)

نتیجہ دلائل:

سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول سے متعلقہ دلائل سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا نزول بہ ساعتِ موعودہ حق ہے اور اس کا انکار محض وادی جہل و ضلالت میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہے۔ انسانی ایمان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ جو امور اس کی مزعومہ فکر وفہم کے مطابق ہو اسے قبول کرلے اور جو امور اس کے نزدیک خلاف فطرت وامر مستبعاد ہو اس کا انکار کردے۔ بلکہ کمال ایمان تو یہ ہے کہ ہر وہ امر جو “نصوص صریحہ” سے ثابت ہو اسے تسلیم کرلے، خواہ اس کی عقل تائید کرے یا نہ کرے کیونکہ ایمان تسلیم و تصدیق کا نام ہے آزمائش و پیمائش کا نہیں۔

ایک ذاتی تاثر:

قرآن پاک کی تفسیر وتفہیم محض زورِ علمی سے ممکن نہیں، اس کے لیے کسی صاحبِ ذوق کا ہونابہت ضروری ہے جس کا دل رب تعالیٰ کی خشیت سے لرزاں وترساں ہواور جس کی زندگی تقویٰ شعاری سے مزین ہو، گناہگار قلوب اس کے قطعا مستحق نہیں ہوسکتے کہ وہ کلام الٰہی کی تفسیر میں اپنے زورِ فکر وفہم کو لگائیں۔ مجھے اپنے عجز کا مکمل اعتراف ہے، میری حیثیت تو اس قدر بھی نہیں کہ صاحبان زہد وتقویٰ کا خدمت گزار ہی بن سکوں۔ بایں ہمہ اس اعتراف ذاتی کے بعد ( اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ) سے متعلق اپنے ایک ذاتی تأثر کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہائش دی پھر انہیں دنیا میں اتارا اس طرح انہوں نے “توفی بالموت” سے قبل دو عالم دیکھے۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کا ہے ان کی ولادت دنیا میں ہوئی پھر ان کا رفع الی السماء ہوا اب ان کا دوبارہ نزول ہوگا تاکہ ( کل نفس ذائقة الموت ) کا الٰہی حکم ان پر وارد ہو۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی “توفی بالموت” سے قبل دو عالم ملاحظہ فرمائے۔ یہ بھی کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ سیدنا آدم “آغازِ تخلیق دنیا“ کا سر عنوان ہیں اور سیدنا مسیح علیہ السلام “خاتمہ تخلیق دنیا” کی ایک علامت۔
ھذا ماعندی والعلم عند اﷲ۔

حواشی

(1) الرحمان پبلشنگ ٹرسٹ کراچی کی جانب سے “انتظارِ مہدی ومسیح“ سے متعلق جو کتاب طبع ہوئی ہے، اس میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا گیا ہے، اس کے محترم مقدمہ نگار نے مولانا ابو الکلام آزاد کو بھی منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام میں شمار کیاہے، مولانا آزاد کے جس مکتوب کا اقتباس انہوں نے نقل فرمایا ہے اس مکتوب سے جو ابہام پیدا ہوتا تھا اس پر مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے مولانا آزاد سے استفسار کیا جس کے جواب میں مولانا آزاد کے قلم سے جو تصریحات نکلی ہیں وہ غالباً محترم مقدمہ نگار کی زیر نگاہ نہیں آئیں وگرنہ شاید وہ مولانا آزاد کو منکرین نزول عیسیٰ میں شمار نہ فرماتے۔ والعلم عند ﷲ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے