اتوار، 5 مئی، 2013

اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ صدیق کی معیت

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ صدِّیق کی معیت

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

PDF download link @ alWaqiaMagzine
چودہ صدی قبل جب گم گشتگانِ راہِ انسانیت کو ( کلمة اللّٰہ ھی العلیا ) کا پیغام سنانے کی پاداش میں دو نمائندگانِ حق کو ہجرت کرنی پڑی تو یہ انسانی تاریخ کی سب سے عظیم ہجرت تھی، جس کا ایک فرد امام الانبیاء اور دوسرا امام الاصدقاء تھا۔ ایک خیر البشر تو دوسرا افضل البشر بعد الانبیاء۔ ایک سیّد الانبیاء و المرسلین تو دوسرا سیّد الاصدقاء و الصالحین۔ روئے زمین پر نہ کسی سفر کے لیے ایسے عظیم مسافر ملے اور نہ ہی ایسے بلند مقاصد۔ انسانی افکار و اذہان اس “سفرِ ہجرت“ کی رفعتوں کا اندازہ صرف اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ نے اس سفر ہجرت کا ذکر اپنے قرآنِ عظیم میں بایں الفاظ کیا:
( اِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَ یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ وَ لاَ تَضُرُّوہُ شَیْئاً وَ اللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر ۔ ِلاَّ تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذأَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ وَ أَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَ جَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ السُّفْلَی وَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَ اللّٰہُ عَزِیْز حَکِیْم ) (التوبة: 39 - 40)
اگر تم (اللہ کی راہ میں) نہ نکلے تو وہ (اللہ) تمہیں عذاب دے گا، دردناک عذاب۔ اور تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ اور تم اس کو کچھ ضرر نہ دے سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر تم نے اس (رسول) کی مدد نہ کی تو بلاشبہ اللہ نے اس (رسول) کی مدد کی تھی جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا، نکال دیا تھا۔ دو میں سے دوسرا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے اور جب اس نے کہا اپنے صاحب سے غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ سو اللہ نے اس (صدیق) پر اپنی سکونت کو نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکر سے کی جو نظر نہ آتے تھے اور کلمۂ کفر کو گرا دیا اور اللہ کا کلمہ وہ تو ہے ہی بلند، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے ہر فردِ وابستگانِ ایمانی کو بتا دیا اسے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) اور صدیق (رضی اللہ عنہ) کی معیت عزیز ہے۔ اگر پوری دنیائے انسانیت ان دو نمائندگانِ حق سے اعراض کر گزرے تب بھی اسے اس اعراض کی کچھ پرواہ نہیں وہ ان کی مدد کے لیے تنہا کافی ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ یہ پورا خطاب اہلِ ایمان سے ہے۔ اہلِ ایمان سے جو تہدیدی اندازِ تخاطب رکھا گیا ہے اس میں صدیق (رضی اللہ عنہ) کے سوا تمام اہلِ ایمان شامل ہیں اور سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یہ استثنائے خاص انہیں خود اللہ ربّ العزت نے دیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کی وہ تمام آیات جو اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے تہدیدی طور پر نازل ہوئیں ہیں ان تمام مقامات پر صدیقِ اکبر (رضی اللہ عنہ) کو استثناء حاصل ہے کیونکہ انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی دائمی معیت حاصل ہوگئی ہے اور معیتِ الٰہی کا یہی تقاضا ہے۔
پھر اس سفرِ ہجرت میں ایسا مقام بھی آیا کہ جب شمعِ حق کا یہ پروانہ سرچشمۂ ہدایت پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ اس کے دل کی بے چینیاں رہ رہ کر اٹھتی تھیں اور اس کے احساس میں رک رک کر تلاطم بپا ہوتا تھا کہ کہیں میرے مولاو ہادی کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔ وہ لوگ عظمتِ صدیق (رضی اللہ عنہ) کی رفعتوں کو کبھی نہیں سمجھ سکتے جو کہتے ہیں کہ قلبِ صدیق (رضی اللہ عنہ) کا یہ سارا اضطراب خود ان کی اپنی ذات کے لیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو صدیق (رضی اللہ عنہ) کے قدم غارِ حرا میں پہلے داخل نہ ہوتے کہ ہر اذیت رساں سے پہلے خود نمٹ لیں۔ سینۂ صدیق (رضی اللہ عنہ) “سرِ مبارک“ کا تکیہ نہ بنتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صدیق (رضی اللہ عنہ) اگر “آئینِ محبت“ سے اتنے ہی بیگانے ہوتے تو کائناتِ انسانی کے اس عظیم سفر کے لیے اللہ ان کا انتخاب کبھی نہ فرماتا۔ یہ انتخاب ہی تو تھا جس نے صدیق (رضی اللہ عنہ) کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی دائمی معیت سے ہمکنار کیا۔ لیکن منکرینِ عظمتِ صدیق (رضی اللہ عنہ) اس بات کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔
روبازی کن عاشقی کارِ تو نیست
صدیق (رضی اللہ عنہ) کی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) سے معیت کا انکار ربّ تعالیٰ کی حق آفرینی اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی صداقت کا انکار ہے۔
الغرض قلبِ صدیق (رضی اللہ عنہ) کا یہ سارا اضطراب خود ان کی اپنی ذات کے لیے نہ تھا۔ یہ جو کچھ بھی تھا محبت کے رسوم و آداب کے عین مطابق تھا۔ قلب کا اضطراب، احساس کی بے چینی، جذبات کی رقت اور خیالات کا ارتعاش پیدا نہ ہوتا تو مقام تعجب ہوتا۔ ان کے قلبِ سلیم پر جو کچھ گزری وہ عین تقاضائے محبت تھا۔ اسی لیے اذنِ الٰہی سے لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو اس طرح جنبش ہوئی :
( لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا )
غم نہ کر، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اور یہ معیت (معنا) کیا ہے؟ صدیق (رضی اللہ عنہ) کی یہ معیت اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کے ساتھ دائمی، ازلی اور ابدی معیت ہے۔ انکارِ صدیق (رضی اللہ عنہ)، انکارِ توحید و رسالت ہے۔ عام انسانی نوعیتوں کی طرح یہ کوئی غیر ابدی “معیت“ نہیں۔ اس “معیت“ کی رفعت و عظمت اور وسعتِ لا محدود کا اندازہ اس امر سے کرو کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) اور صدیق (رضی اللہ عنہ) کا بچپن ایک ساتھ گزرا۔ جوانی اور بڑھاپے کی ساعتیں ہمرکابی میں طے ہوئیں۔ ربط و قرب کا یہ عالم تھا کہ دونوں کی زندگیاں ایک دوسرے کا عکس بن گئیں۔ ایک کو اگر زمانے نے “صادق“ و “امین“ کہا تو دوسرے کو “صدیق” اور “عتیق“۔ جب “صادق“ نے اپنی صداقت کی حجت و برہان دنیا پر پیش کی تو اس کی تصدیق بھی “صدیق“ نے کی۔ “صادق“ کی صداقت کی گواہی “صدیق“ سے بڑھ کر کون دے سکتا تھا۔ ( جَاء بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہِ) (الزمر: 33)
اس حیاتِ فانی کے بعد دونوں کے جسمِ اطہر بھی ایک ہی مقام پر محو استراحت ہیں۔
قلبِ صدیق (رضی اللہ عنہ) تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی معیت میں اس محو تھا کہ اس کی اثر پذیری دیکھنا چاہو تو غزوئہ تبوک کے موقع پر دربارِ رسالت میں دیکھو جب صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی معیت قبول کی اور تمام اثاث البیت کو رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کے قدموں میں نچھاور کردیا۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس!
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس معیتِ دائمی کا انعام بھی کیا دیا؟ ارشادِ ربانی ہے :
( کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِیْ) (المجادلة: 21)
گو یہاں بظاہر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا کوئی ذکر نہیں لیکن چشمِ باطن اگر وَا ہو تو علم ہوگا کہ یہاں وہی “قانونِ محبت و معیت“ کار فرما ہے۔ “رسل“ کا ذکر علیٰ وجہ الترجیح ہے اور “صدیق“ چونکہ فردِ واحد ہے اس لیے اس کا خصوصی ذکر نہیں فرمایا، مگر “فتح دائمی“ اور “غلبۂ ازلی“ کی نعمت سے صدیق (رضی اللہ عنہ) بھی بہرئہ ور ہوئے۔ رسول اور نبی کا واضح فرق یہ ہے کہ رسول زمین پر اللہ کی حجت ہے ناممکن ہے کہ اسے کوئی مغلوب کرلے۔ نبی شہید ہوسکتے ہیں مگر رسول کبھی شہید نہیں ہوتے۔ حجت و برہان کی یہی صداقت آفرینی تھی کہ کلمۂ رسالت (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) نے جب خالد (رضی اللہ عنہ) کو “سیف اللہ“ کہا تو شہادت کی تمام تر خواہشات اور جسم پر میدانِ غزا کی تمام تر نشانیوں کے باوجود وہ جامِ شہادت نہ پی سکے کیونکہ وہ اللہ کی تلوار تھے، اس کی حجت و برہان کی ایک علامت۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) کی “معیت دائمی“ میں داخل ہوچکا ہو وہ “فتح دائمی“ اور “غلبۂ ازلی“ کی نویدِ جانفزا  ( کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِیْ) سے محروم رہے؟ چنانچہ واقعات و حقائق ثابت کرتے ہیں کہ جنابِ صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کو اپنے عہدِ خلافت کی ہر ہر آزمائش میں سرخروئی ہوئی اور ہر ہر مقام پر تائیدِ ایزدی نے انہیں فتح و نصرت کی نوید سنائی۔ یہاں تک کہ بقیہ خلفائے ثلاثہ کے برعکس انہیں شہادت نہیں ملی بلکہ وہ اپنی عمرِ طبعی کے مطابق اسی مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے جس میں مبتلا ہو کر جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی تھی۔ رسول (صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) اور صدیق (رضی اللہ عنہ) ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سردارِ اہلِ جنت، ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما)


عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال: کنت عند النبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  فأقبل أبوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما، فقال: "یا علی ہذان سیدا کہول أہل الجنة و شبابہا بعد النبیین و المرسلین۔" (رواہ الترمذی، ابن ماجة، مسند أحمد، مسند البزار، صحیح ابن حبان، مسند أبی یعلی، المعجم الکبیر للطبرانی، المعجم الاوسط للطبرانی، المعجم الصغیر للطبرانی، الاحکام الشرعیة للاشبیلی، شرح السنة للبغوی، شرح مشکل الآثار للطحاوی، مصنف ابن ابی شیبة، معجم الصحابة لابن قانع، السنة لابن ابی عاصم، اللطیف لشرح مذاہب أہل السنة و معرفة شرائع الدین و التمسک بالسنن لابن شاہین، الکنی و الاسماء للدولابی، فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل، کتاب الفوائد لابی بکر الشافعی، مکارم الاخلاق للخرائطی)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے پاس تشریف فرما تھا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نظر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے فرمایا: “اے علی ! یہ دونوں انبیاء و مرسلین کے بعد اہلِ جنت کے بوڑھوں اور جوانوں کے سردار ہیں۔“
یہ روایت نہایت کثرت سے محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کی ہے۔ اس کی اسانید بھی زیادہ ہیں، جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ امام ترمذی اور علامہ البانی اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضلِ رحمن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ کی سوانح “کمالاتِ رحمانی“ میں ہے:
“آپ اولاد سے ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تھے اور فرمایا کہ اولادِ ابی بکر صدیق کو بھی سیّد کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ جیسے ہم سیّد ہیں کہ اولادِ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ ہاں ان کو بھی سیّد کہتے ہیں۔”
(”کمالات رحمانی“ از مولانا حافظ شاہ تجمل حسین دیسنوی صفحہ 23 مطبوعہ دارالاشاعت رحمانی خانقاہِ مونگیر)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے