ہفتہ، 23 فروری، 2013

نزول عیسیٰ علیہ السلام

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013

نزول عیسیٰ علیہ السلام

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

"تحقیق و تدقیق" کے اس عہدِ زریں میں جن مسائل کی طرف اَز سَر نو"زحمت تحقیق" گوارا کی گئی ہے، ان میں سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوةٰ والسلام کے نزول کا معاملہ بھی ہے۔ اہل سنت والجماعت میں یہ مسئلہ تقریباًاجماعی رہا ہے، گو ارباب علم کی ایک مختصر سی جماعت اس کی منکر بھی رہی ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں اس موضوع سے متعلق صحائف دینی و مذہبی کی روشنی میںغیر جانبدارانہ روش اختیار کرتے ہوئے مختصر اًمعروضات پیش خدمت ہیں۔

سید نا عیسیٰ علیہ ا لسلام سے متعلق عقا ئد اربعہ:

سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جب دنیا سے تشریف لے گئے تو ان کی ذات سے متعلق چار عام بنیادی عقائد تھے، وہ عقائدِ اربعہ درج ذیل ہیں:

٭ بغیر والد کے ولادت

٭مصلوب ہونا یا ہوکر زندہ ہوجانا

٭الوہیت مسیح

٭ رفع الی السماء اور نزول ساعتِ موعودہ

صداقتِ عیسیٰ کی گواہی

یوحنا کی انجیل میں ہے:

"لیکن جب وہ مددگار آئے گاجس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گایعنی روح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔" (١٥:٢٦)

"مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے- لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا- وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔"(١٦:١٢-١٤)

برناباس کی انجیل میں ہے:

"اسی کے ذریعے ہمارے خدا کی معرفت اور تمجید ہوگی، اور میرا سچا ہونا معلوم ہوگا، اور وہ ان سے انتقام لے گا جو مجھے بشر سے کچھ بڑھ کر بتائیں گے۔"(باب ٧٢)

اناجیل کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جو عظیم المرتبت ہستی مقام نبوت پر فائز ہوگی وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے متعلق شکوک وشبہات اورظن وتخمین کی جگہ دنیا کو علمِ حق ویقینِ صریح سے آشنا کرے گی ۔ چنانچہ جب اس ہادی عالم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا ظہورِ مبارک ہوا، تو ان کی تعلیمات میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق عقائدِ اربعہ پر قول فیصل بھی ظاہر ہوا۔

سید نا عیسیٰ علیہ ا لسلام کی معجزانہ ولادت

قرآنِ عظیم نے ولادتِ عیسوی سے متعلق یہودیوں کے الزامات و اتہامات کا دوٹوک انکار کیابلکہ سیدہ مریم علیہا السلام کی پاکی اور حضرت مسیح علیہ السلام کی غیر معمولی ولادت کا ذکر خاص انہی الفاظ وپیرایے میں کیا جو انجیل میں مرقوم ہے:

(قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِيًّا  20؀قَالَ كَذٰلِكِ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا  ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا  2١؁ ) (سورة مریم :٢٠-٢١)

"مریم نے فرشتہ سے کہا: یہ کیونکر ہوگا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی؟- اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ: روح القدس تجھ پر نازل ہوگااور خداتعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی۔" (لوقا  ١:٣٤)

سرسیّد احمد خان، ڈاکٹر توفیق صدقی، غلام احمد پرویز اور بیشتر منکرینِ حدیث کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت کا صریح ذکرقرآنِ کریم میں نہیں۔ نواب محسن الملک کے نام سرسید اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :

" حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت میں کوئی نصِ صریح قرآن مجید میں موجود نہیں ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔" (مکتوباتِ سرسید :١/٥٠٧)

مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں :

" بلاشبہ قرآن میں یہ الفاظ کہیں نہیں ملتے کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ یعنی کوئی ایسی مثبت تصریح نہیں جو اپنے منطوق میں ظاہر و قطعی ہو۔ اُس کی جتنی آیتوں سے اس طرح کے اشارات نکل رہے ہیں، اگر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرلیا جائے، تو ہر آیت کے مطلب کے لیے ایک دوسرا جامہ بھی تراش لیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مرحوم سرسیّد احمد خاں اور ڈاکٹر توفیق صدقی وغیرہما نے کوشش کی ہے لیکن جب تمام بیان پر بہ حیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے اور محل کے قدرتی مقتضیات اور قرائن بھی پیشِ نظر ہوں، تو بلا تأمل تسلیم کرلینا پڑتا ہے کہ قرآن اس اعتقاد کے حق میں ہے۔ اس سے منکر نہیں۔" (ترجمان القرآن :٢/٤٤٤)

علّامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

" قد سألنِی بعض الملاحِدة ہل جاء التصرِیح فِی الحدِیث بِان عِیسی بن مریم علیہِ السلام تولد مِن غیر أب ؟ قلت : نعم أخرج عبد بن حمید الکشِی فِی مسندہ أنبانا عبید اللہ بن موسی قال : أنبانا اِسرائِیل عن أبِی أِسحاق عن أبِی بردة بن أبِی موسی عن أبِیہِ قال : " أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم أن ننطلِق مع جعفر بن أبِی طالِب اِلی أرض النجاشِی فذکر الحدِیث و فِیہِ قال النجاشِی لِجعفر : ما یقول صاحِبک فِی اِبن مریم ؟ قال : یقول فِیہِ قول اللہ عزّ وجل و ہو روح اللہ و کلِمتہ أخرجہ مِن العذراء البتول التِی لم یقربہا بشر ۔ قال : فتناول النجاشِی عودا مِن الأرض و قال : یا معشر القِسِیسِین و الرہبان ما یزِید ہولائِ علی ما تقولون فِی اِبن مریم مرحبا بِکم و بِمن جِئتم مِن عِندہ فأنا أشہد أنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم و أنہ الذِی بشر بِہِ عِیسی ابن مریم ، و لو لا ما أنا فِیہِ مِن الملک لاتیتہ حتی أحمِل نعلیہِ "امکثوا فِی أرضِی ما شِئتم " الحدِیث ۔ قلت : ہذا حدِیث اِسنادہ صحِیح و اللہ أعلم ۔" (عون المعبود:)





سید نا عیسیٰ علیہ ا لسلام کا مصلوب کیا جانا :

قرآنِ کریم نے سیدنا مسیح علیہ السلام سے متعلق اس خیالِ فاسد کی بھی واضح الفاظ میں تردید کردی کہ انہیں مصلوب کیاگیا:

( وَ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ) (النسآء:١٥٧)



الوہیتِ مسیح :

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کی بھی صاف لفظوں میں تردید کردی گئی :

(اسْمُهُ الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ   45؀ۙ )(آل عمران:٤٥)



( اِنَّ اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ   59؀ )(آل عمران:٥٩)



(اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ59؀ۭ ) (الزخرف:٥٩)



نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام قرآن کی نظر میں :

لیکن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ عقائدِاربعہ کے آخری اور سب سے اہم عقیدے سے متعلق قرآن کیا کہتا ہے؟

(اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ  ۚثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ  55؀ ) (سورة آل عمران:٥٥)



آیت میں (اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ ) فرمایا گیا، لفظ توفی "وفا" سے مشتق ہے، جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انہی معنوں میں وفات کا لفظ موت کے لیے بھی اصطلاحاً مستعمل ہے کیونکہ موت انسان کے تمام تر علائق کا دنیا سے خاتمہ کردیتی ہے ۔لیکن قرآن کریم میں "توفی" کا لفظ کہیں بھی موت کے لیے استعمال نہیں ہوا، چنانچہ فرمایا گیا ( حتیٰ یتوفھنّٰ الموت ) یہاں موت اور توفی ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں، کیونکہ یہ دونوں لغوی اعتبار سے ہم معنی یا مترادف نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"لفظ التوفی فی لغت العرب معناہ  الاستیفاء و القبض و ذٰلک ثلاثة انواع احدھا  توفی النوم ، و الثانی توفی الموت و الثالث  توفی الروح و البدن جمیعاً۔"(الجواب الصحیح  : ٢/٢٨٣،بحوالہ حیات عیسیٰ عیہ السلام :٧٧ مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)

"لغت عرب میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں ایک توفی نوم یعنی نیند اور خواب کی توفی اور دوسری توفی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کرلینا،تیسری توفی الروح والجسد یعنی روح اور جسم کو پورا پورا لے لینا۔"

اس کے بعد فرمایا (رَافِعُكَ اِلَيَّ ) اس میں جو "رفع" ہے، وہ آیت کی تفسیر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رفع بمعنی بلندیٔ درجات بھی آیا ہے۔ لیکن زیربحث آیت میں "رفع" کے ساتھ "الی" بھی شامل ہے، جس کا غالب قرینہ یہی ہے کہ ﷲ رب العزت نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا، اس کی تائید "تفسیر القرآن بالقرآن" کے اصول کے تحت قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی ہوتی ہے۔

(وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا     ١٥٨ )(سورة النسآء:١٥٧-١٥٨)



آیت میں پہلے یہود ونصاریٰ کے" اتباع الظن" کی تردید کی گئی ہے اور یہ تردید "بل"کہہ کر کی گئی ہے،    (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ: "اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے اپنی طرف ان کا درجہ بلند کیا ہے۔ تو"بل" کا فائدہ ختم ہوجائے گااور معنوں میں ایک بے ربطی پیدا ہوگی، آخر قرآن واضح لفظوں میں کیوں نہیں کہتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ قرآن نورِ مبین ہے، محکم اور قول فیصل ہے۔ پھر آخر یہ ابہام کیوں؟

اس کے برعکس (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) کا ترجمہ :"اور انہیں ہر گز قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہنے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔" عین مناسب اور دیگر صحائفِ مذہبی کے مطابق ہے۔ مولانامحمد ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں:

"یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ الیہ کی ضمیر اس طرف راجع ہے کہ جس طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسدِ مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑ ھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف قتلوہ اور صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔"(حیات عیسیٰ علیہ السلام:٣٥)

منکرینِ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو چاہیئے کہ وہ ( بل رفعہ اللہ الیہ ) کی صحیح تشریح فرمائیں وگرنہ اتباع حق کی پیروی اختیار کریں۔

(وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا     ١٥٩؀ۚ ) (سورة النسآء :١٥٩)



آیت میں فرمایا گیا : "اور جو فرقہ ہے کتاب والوں میں سو اُس پر یقین لاویں گے اُس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا اُن کا بتانے والا۔" (ترجمہ از شاہ عبدالقادر محدث دہلوی)

( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ )(سورة الزخرف :٦١)



آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو علامات قیامت میں سے فرمایا گیا ہے، بعض ارباب علم کے نزدیک اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن دنیا میں قدرت الٰہیہ سے معجزات کاصدور کچھ کم نہیں ہوا، معجزات کا صدور جب بھی ہوا ہے تو اس کی غرض وغایت اس کے سوا اور کیا تھی کہ مادہ پرست انسانوں کو ان کی عاجزی سے آگاہ کردیا جائے اور جتلا دیا جائے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو کارخانۂ ہستی کوچلارہی ہے۔ طوفان نوح (علیہ السلام) کیا ایک معجزئہ عظیم نہ تھا؟ آتش نمرود میں سیدنا خلیل اللہ علیہ الصلوةٰ و السلام کا زندہ سلامت رہنا کیا ایک امر مستبعاد نہ تھا؟ قوم لوط (علیہ السلام) پر غیر معمولی عذابِ الٰہی کیا ایک غیر معمولی واقعہ نہ تھا؟ کیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا باذن الٰہی دریائے نیل کے شوریدہ پانیوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنا، اس کے درمیان سے اپنی قوم کو صحیح سلامت گزار لینا اور فرعون و آل فرعون کا اس دریا میں غرق ہوجانا، انسانی عقل کے لیے اس کے عجز کا اظہار نہ تھا؟ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ "الساعة" کے معنی میں صرف سیدنا مسیح علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو علامت قیامت قرار دیاجائے؟ آخر کیوں سیدنا مسیح علیہ السلام کی مکمل ذات اور بالخصوص ان کے نزول کو مراد نہ لیا جائے؟ کیا اللہ غالب عزیز وحکیم نہیں ہے؟  أفلا یتدبرون۔

نزول عیسیٰ علیہ ا لسلام احادیث صحیحہ کی نظر میں :

قرآن کریم کے بعد احادیث صحیحہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بکثرت احادیث میں"امارات الساعة" کے بیان میں نزول مسیح ابن مریم علیہما السلام کی روایات موجود ہیں۔ عام طور پر منکرین نزول عیسیٰ علیہ السلام یہ دجل و تلبیس دیتے ہیں کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے بابت احادیث کتب حدیث کے تیسرے درجے کی کتابوں میں مرقوم ہیںاور سب کی سب پائے ثقاہت سے گری ہوئی ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق احادیث تقریباً تمام معتبر کتب احادیث میں بکثرت مرقوم ہیں۔ "صحیح بخاری"میں نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق چار احادیث ہیں:

١۔ باب قتل الخنزیر من کتاب البیوع

٢ ۔ باب کسر الصلیب من کتاب المظالم

٣ ۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھما السلام من کتاب أحادیث الأنبیائمیں دو حدیثیں ہیں۔

صحیح مسلم میں کتاب الایمان اور کتاب الفتن و اشراط الساعة میں متعد د احادیث نزول مسیح علیہ السلام موجود ہیں۔

سنن أبی دائود میں کتاب الملاحم کے مختلف ابواب میں احادیث نزول مسیح ابن مریم موجود ہیں۔

سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے کتاب الفتن میں بھی یہ احادیث موجود ہیں۔

امام محمد بن علی الشوکانی (م ١٢٥٠ھ) نے اپنی کتاب  " التوضیح فی تواتر ماجاء فی الاحادیث فی المھدی و الدجال و المسیح " میں نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ٢٩ احادیث بیان کی ہیں۔ فرماتے ہیں:

" ان الاحادیث الواردة فی المھدی  المنتظر متواترة و الاحادیث الواردة فی الدجال متواترة و الاحادیث الواردة فی نزول عیسیٰ علیہ السلام متواترة۔" (التوضیح فی تواتر ماجاء فی الاحادیث فی المھدی والدجال والمسیح ، بحوالہ عون المعبود شرح سنن أبی داود:٤/٢٠٥)



 امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی (م ١٣٢٩ھ) فرماتے ہیں:

" فلا یخفیٰ علیٰ کل منصف ان نزول  عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام الی الارض حکماً مقسطاً بذاتہ الشریفة ثابت بالأحادیث الصحیحة و السنة المطھرة و اتفاق اھل السنة و انہ الاٰن حی فی السماء لم یمت بیقین و اما ثبوتہ من الکتاب فقال اللہ عز وجل رداً علی الیھود المغضوب علیھم الزاعمین انھم قتلوا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ( و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ ) ففی ھذہ الاٰیة الکریمة اخبرنا اللہ تعالیٰ ان الذی اراد الیھود قتلہ و اخذہ و ھو عیسیٰ بجسمہ العنصری لا غیر رفعہ اللہ الیہ و لم یظفر و امنہ بشیئٍ کما وعدہ اللہ تعالیٰ قبل رفعہ بقولہ ( و ما یضرونک من شی ئٍ ) و برفع جسدہ حیا فسرہ ابن عباس کما ثبت عنہ باسناد صحیح ۔ فثبت بھذا ان عیسیٰ علیہ السلام رفع حیّا و یدل علی ما ذکرناہ الأحادیث الصحیحة المتواترة المذکورة المصرحة بنزولہ بذاتہ الشریفة التی لا تحتمل التاویل ۔ و قال اللہ تعالیٰ ( و ان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ) ای قبل موت عیسیٰ علیہ السلام کما قال ابو ھریرة و عبد اللہ بن عباس وغیرھما من الصحابة و السلف الصالحین و ھو الظاھر کما فی تفسیر ابن کثیر فثبت ان عیسیٰ  لم یمت بل یموت فی اٰخر الزماں و یومن بہ کل اھل الکتاب و قد ذکر اللہ تعالیٰ فی کتابہ ان نزولہ الی الارض من علامات الساعة قال اللہ تعالیٰ ( و انہ لَعِلْم للساعة ) و قال الامام ابن کثیر فی تفسیرہ :

" ان الضمیر عائد الی عیسیٰ علیہ السلام فان السیاق فی ذکرہ و ان المراد نزولہ قبل یوم القیٰمة کما قال تعالیٰ ( و ان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ) ای قبل موت عیسیٰ علیہ السلام و یویٔد ھذا المعنی القرأة ( و انہ لَعَلَم للساعة ) یعنی بفتح العین و اللام ای امارة و دلیل علیٰ وقوع الساعة و قال مجاھد ( و انہ لعلم للساعة ) ای اٰیة للساعة خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیٰمة و ھکذا روی عن أبی ھریرة و ابن عباس و أبی العالیة و أبی مالک و عکرمة و الحسن و قتادة و الضحاک وغیرھم و قد تواترت الاخبار عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیٰمة اماما عادلا حکما مقسطا ۔"انتہی

فھذہ الاٰیات الکریمة و النصوص الصریحة الثابة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  تدل دلالة واضحة علیٰ نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام من السماء الی الارض عند قرب الساعة "۔(عون  المعبود  شرح  سنن  أبی  داود:٤/٢٠٥)   

"کسی منصف پر مخفی نہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی ذات شریفہ کا بحیثیت حاکم مقسط نزول الی الارض احادیث صحیحہ اور سنت مطہرہ سے ثابت ہے اور اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے۔ بے شک وہ اس وقت آسمان پر زندہ ہیں یقیناً انہیں موت نہیں آئی۔ اور جیسا کہ اس کے ثبوت میں اللہعزو جل نے قرآن میں یہود (جن پر اللہکا غضب ہوا) کے گمان کی کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو قتل کیاہے، کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا   ١٥٧؀ۙ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) (ترجمہ: "اور یقیناًانہیں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا") پس اس آیت کریمہ میں ﷲتعالیٰ نے ہمیں خبر دی کہ بے شک جو ارادہ یہودیوں نے ان کے قتل کرنے کا اور انہیں پکڑنے کاکیاانہی عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اللہ نے کسی دوسرے کے جسم عنصری کو اپنی طرف نہیں اٹھایا اوریہودی کامیاب نہیں ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو ذرا تکلیف بھی نہ پہنچاسکے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رفع سے قبل ان سے وعدہ فرمایاتھا: ( و ما یضرونک من شیئٍ ) (ترجمہ:"اور وہ آپ کو ذرا سے بھی تکلیف نہیں پہنچاسکتے") اور ان کے جسم کو زندہ اٹھالیا یہی تفسیر ابن عباس نے کی ہے جیسا کہ ان سے باسناد صحیح ثابت ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھالیا گیا اور اسی پر ہماری ذکر کردہ احادیث صحیحہ متواترہ مذکورہ مصرحہ دلیل ہیں کہ ان کی ذات شریفہ کا نزول ہوگا جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ  ) (ترجمہ:"اور یہ کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا جو ان کی موت سے قبل ان پر ایمان نہ لے آئے")۔اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل کہا گیا ہے جیسا کہ ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس اور ان دونوں کے علاوہ دیگر صحابہ اور سلف صالحین نے کہا ہے اور ابن کثیر کی تفسیر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کی موت آخری زمانے میں ہوگی اور ان پر تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کے نزول الی الارض کو علامات قیامت میں شمار کرتے ہوئے فرمایا:( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ )۔امام ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"بے شک اس میں ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاتی ہے۔ اس سیاق میں ان کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ ان کا نزول قیامت کے دن سے قبل ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل مراد ہے اور انہی معنوں کی تائید میں یہ قرأت ہے:( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) یعنی عین اور لام پر زبر کے ساتھ، جس کا مطلب قیامت ہے اور وہ و قوع قیامت کی دلیل ہیں۔ مجاہد کہتے ہیں:( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ) اس آیت میں  للساعة سے یوم قیامت سے قبل خروج عیسیٰ بن مریم مراد ہے اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے ابو ہریرہ، ابن عباس، ابو العالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ، ضحاک وغیرہم سے۔ اور بلاشبہ تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے یہ خبر منقول ہے کہ انہوں نے خبر دی کہ یوم قیامت سے قبل عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بحیثیت امام، عادل، حاکم، مقسط ہوگا۔" انتہی

پس ان آیات کریمہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے منقول نصوص صریحہ ثابتہ اس امر پر واضح دلیل ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول آسمان سے زمین کی طرف قیامت کے قریب ہوگا۔"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے