منگل، 11 ستمبر، 2012

اسرائیل وجۂ تسمیہ اور تاریخ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012


 علّامہ ابو الجلال ندوی رحمہ اللہ

اسرائیل
وجۂ تسمیہ اور تاریخ
 قسط ١  قسط2
قرآنِ پاک کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حضرت آدم اور حضرت اسرائیل  کے علاوہ کسی فرد کی نسل کو اُس کی طرف ''بنی'' کا لفظ مضاف کر کے نہیں مخاطب کیا ہے۔ اسی طرح  ''آل''  کا لفظ حضرت داؤد  کے سوا کسی اَور کی طرف مضاف کر کے مخاطب نہیں کیا ہے   بنی آدم سے مراد تو دُنیا بھر کے اِنسان ہیں۔ اِسرائیل ،حضرت یعقوب کا نام تھا ' پورے قرآن میں یا بنی یعقوب نہیں۔

اِسرائیل  اور  یہود

جو شخص بھی بائیبل کا مطالعہ کرتا ہے' اُس کو معلوم ہے کہ حضرت سلیمان  کے مرنے کے بعد بنی یعقوب دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ایک گروہ جس میں یعقوب کے ١٢ فرزندوں میں سے ١٠ فرزندوں کی اولاد داخل تھی،اُس نے ایک باغی یربعام کو اپنا بادشاہ مانا، جس نے دینِ سامری کو ازسرِنَو حیاتِ تازہ بخشی، اَور گئو سالہ پرستی کو رِوَاج دیا،اُس کے بعد کے جا نشینوں نے اور بھی کئی گم راہیوں کو رِوَاج دیا۔یربعام  اَور اُس کے متبعین کا نام سفرِ ملوک  اَو ر سفرِ ایّام میں اِسرائیل اَور بنی اِسرائیل ہے۔
اِن گم راہ بنی اِسرائیل کے مسلک والے عہدِ قرآن تک عرب میں موجود تھے،جن کی بابت سورہ ''نسائ'' میں ہے کہ
يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ] النسائ 51[
دوسرا گروہ جس نے حضرت سلیمان کے جانشینوں کی حکومت تسلیم کی اُن کا ذِکر سفرِ ملوک و ایّام میں ''یہودا'' کے نام سے ملتا ہے اور جانشینانِ سلیمان کا ذِکر ''شاہانِ یہوداہ'' کے نام سے ملتا ہے۔اِس گروہ کے لوگ بھی عرب میں تھے،اِن کا قرآنی نام ''یہود'' (بقرة:١١٣ ،١٢٠ ، مائدہ:٢٠ ،٤٥ ، ٦٧  ، ٨٥، نور :٣١) اَور'' الذین ہادوا '' (بقرة:٦٢،نسائ:٤٥،١٥٨،مائدہ:٢٤،٢٧،٤٢،انعام:١٢، نمل:١١،حج:٧) ہے۔سورہ سبا میں خدا نے ان کو ''آلِ داود'' کہہ کر اور جمعہ :٦ میں ( یا ایہا الذین ہادوا ) کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

یا بنی اِسرائیل کا لفظ استعمال کرکے خدا نے قسمِ اوّل کے لوگوں کو(بقرة:٤٠،٤٧،١٢٢،مائدہ:٥ اور صف:٦٥ میں) مخاطب کیا ہے۔یہ تمام آیتیں مدنی ہیں۔ طہ:٨٠ مکّی ہے،اِس میں بھی یا بنی اِسرائیل ہے لیکن اِس آیت میں حضرت موسیٰ کا قول ہے،اُن کے زمانہ میں تمام بنو یعقوب کا یہی نام تھا۔اعراف، یونس، شعرائ، سجدہ میں قصّے کے اندر بنی اِسرائیل کا ذِکر ہے۔زخرف میں حضرت  موسیٰ  کی بابت مثلا لبنی اِسرائیل وارِد ہے۔ احقاف میں بنی اِسرائیل میں سے ایک شاہد کا ذِکر ہے جس نے مثل قرآن کی شہادت دی تھی۔اِن میں سے کسی آیت میں بنی اِسرائیل مخاطب نہیں ہیں۔بقرة،مائدہ اور صف میں یا بنی اِسرائیل کہہ کر خدا نے گم راہ بنی اِسرائیل کو مخاطب کیا ہے۔

آلِ داود تو مکّہ میں مخاطب ہوئے کیونکہ سبا  مکّی سورة ہے۔یا بنی اِسرائیل کہہ کر خد ا نے صرف مدنی سورتوں میں مخاطب کر کے ان سے کلام کیا ہے۔

بنی یعقوب میں ایک گروہ اَور تھا جو روح ،فرشتے اور جنّات کا قائل نہ تھا،اِس کو صدوقی کہا جا تاتھا۔ اِس عقیدہ والے بنی اِسرائیل عرب میں موجود تھے۔ مومنون: ٨٢ -٨٣ اور نمل:٦٧-٦٨ میں قیامت کے برخلاف جو اقوال منقول ہیں وہ انہیں کے ہیں۔
''وہ لوگ قیامت کی بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم سے اور ہمارے آبا سے اس کا وعدہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے' نہیں ہے یہ مگر اگلوں کے اساطیر'' (مومنون:٨٣؛نمل:٦٨) ۔
 یہ اقوال اُن کے ہیں جن کی بابت خدا نے فرمایا کہ
''تو کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا،ان کے پاس وہ بات آئی ہے جو اُن کے آبائے اوّلین کے پاس نہیں آئی تھی'' (مومنون:٦٨) ۔
قرآن میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو متداول بائیبل میں نہیں ملتیں،مثلاً حضرت ابراہیم کا آگ میں ڈالا جانا،عہدِ موسیٰ میں ساحروں کا ایمان لانا 'اور حضرت موسیٰ کا ایک عالم سے ملنے کے لیے مجمع البحرین تک سفر کرنا۔قرآن کی ایسی باتوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور شاید سورہ نمل کے زمانہ میں کیا گیا ،یہ تو بائیبل میں نہیں ہے،جس کی وجہ سے خدا نے سورہ نمل میں فرمایا کہ
''یہ قرآن بنی اِسرائیل کو اس چیز کااکثرحصہ سناتا ہے جس کے متعلق وہ باہم اختلاف رکھتے ہیں '' (نمل:٦٦)۔
 سورہ نمل کے نزول کے بعد سے خدا نے بنی اِسرائیل کو قرآن میں مخاطب کرنا شروع کیا۔
سورہ نمل میں خدا نے فرمایا
 (  وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ   ) (نمل:٧٠)۔
لَا تَكُنْ کا نون حذف کر کے دیکھو۔ یہی بات نحل:١٢٧ میں  دُہرائی ہے۔نحل ایسے زمانہ میں اُتری جبکہ آنحضرت ۖ تو مکّہ میں تھے اور مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے، چنانچہ نحل:٤١،١١٠ میں جو کہ مکّی آیتیں ہیں: ( الناس ہاجروا ) کا ذِکر ہے۔نمل:٧٠،نحل:١٢٧ میں جس مکر کا ذِکر ہے اس کا مفصل تذکرہ انفال:٣٠ میں ہے۔ نمل اور نحل دونوں مکّی دَور کے آخر میں نازل ہوئیں۔اِن سورتوں میںبھی خدا نے بنی اِسرائیل کو مخاطب کر کے کوئی بات نہیں کہی ہے۔

سورہ اِسرائیل کی ٤ آیتوں میں بنی اِسرائیل کا لفظ وارِد ہے۔ اسرائیل٢،٤،١٠١،١٠٤۔ اِن آیتوں میں اگرچہ ''یا بنی اِسرائیل'' نہیں ہے لیکن آیت:٨ میں صریحاً بنو اسرائیل مخاطب ہیں۔چونکہ باعتبار نزول پہلی سورہ ہے جس میں خدا نے بنی اِسرائیل کہہ کر مخاطب کیا ہے، اِ س لیے اِس کو سورہ بنی اِسرائیل کا نام دیا گیا۔ مومن:٧، زخرف:٤٣، رعد : ٤٠ ، یونس : ٤٦ کے بعد نمل : ٧٢ ، نحل : ١١٢ ، ١١٣ ، مومنون: ٧٥ تا ٧٧،٩٣ تا٩٥ ، دخان:١٠  تا ١٦، فرقان :٧٧  کو غور سے پڑھو ۔ابتدائی ٤ سورتوں کی ترتیب نزول دوسرے دلائل سے ہم نے مقرر کی ہے، پانچ سورتیں جس ترتیب سے اُتریں وہ آپ کو خود یہ آیتیں بتا دیں گی۔سورہ فرقان : ٦٠ اور اِسرائیل : ١١٠ کا مقابلہ کرو تو دونوں آیتیں تقریباً ہم زمانہ اور ہم سبب معلوم ہوں گی،اِس طرح ایک حد تک ہم بالکل صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سورہ اِسرائیل مکّہ کے آخری ایّام میں نازل ہوئی۔

اِسرائیل

مکّی اور مدنی کئی سورتوں میں بنو اِسرائیل کا ذِکر وارِد ہے لیکن سورہ بنی اسرائیل میں تاریخ ِ اِسرائیل کے دو نہایت درد انگیز حوادِث کی طرف اِشارہ ہے ،اِس لیے خصوصیت کے ساتھ اِس کو یہ نام دیا گیا: ''بنی اِسرائیل'' ۔قرآن میںجہاں جہاں بنو اِسرائیل کا ذِکر آیا، سب آیتوں کو جمع کرنے کے بعد ہم صرف اِتنا جان سکتے ہیں کہ یہ اُس قوم کا نام ہے جس کے اندر حضرت موسیٰ  اور حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیا مبعوث ہوئے تھے۔اِس قوم کے کس مورث کا یہ نام تھا؟ اور اِس نام کا مطلب کیا ہے؟ اِن سوالوں کا جواب ہم کو قرآن پاک کسی آیت سے واضح طَور نہیں ملتا۔لفظ ''بنی'' کے بغیر ''اِسرائیل'' کا نام دو آیتوں میں آیا ہے۔اِن آیتوں پر غَور کیجیے، کچھ انداز مل جائے گا:
١۔ (  كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ  ) (آلِ عمران: 93)
''کھانے کے لایق ہر چیز فرزندانِ اِسرائیل کے لیے حلال تھی سِوائے اُس چیز کے جس کو توراة کے نزول سے پیشتر اِسرائیل نے خود پر حرام کر لیا تھا۔''
اِس آیت سے اِس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اِسرائیل کس مورِث کا نام یا لقب تھا۔ سورة  مریم میں خدا نے چند انبیا کے ذِکر کے بعد فرمایا کہ
٢۔ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ  ۡ وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا  ۭ) (مریم:٥٨)
''یہ ہیں وہ لوگ جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے جیسے انبیا جو نسلِ آدم میں سے تھے اور اُن میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی ذریت سے اور اُن میں جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور برگزیدہ فرمایا تھا۔''
اِس سے پہلے جتنے انبیا کا ذِکر ہے، ذریت آدم تو سب تھے۔ نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کو حضرت ادریس  کے سوا کسی کو تطبیق نہیں دے سکتے۔حضرت موسیٰ  اور حضرت ہارون کی بابت معلوم ہے کہ بنی اِسرائیل میں سے تھے۔حضرت موسیٰ  کا نسب نامہ بتوسط حضرت یعقوب، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم  تک منتہی ہوتا ہے۔قرآن کی آیتوں سے ہم اِس قدر جان سکتے ہیں کہ ذُریتِ ابراہیم میں سے ایک کا جس کی نسل سے حضرت موسیٰ تھے، اِسرائیل لقب تھا۔یہ بات ہم کو بائیبل سے معلوم ہوتی ہے کہ اِسرائیل ،حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، اِس لیے بنو اِسرائیل اور آلِ یعقوب ،دونوں مرادِف الفاظ ہیں۔

بنو اِسرائیل

لفظ اِسرائیل کا مطلب بیان کرنے سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ١٢ فرزندوں کے سنین ولادت کا تعین کرلینا مناسب ہے۔متداوِل بائیبل میں اُن کے سنین ولادت مذکور نہیں ہیں، لیکن ایک کتاب سفرِ ہٰیاشار ہے 'جس کا حوالہ موجودہ بائیبل کے پانچویں صحیفہ سفر یوشع (٠:١٣) (١) اور٢ سمویل (١:١٨) (٢) میں آیا ہے۔ اِس کے باوجود یہ کتاب نصرانیوں کے متروکات میں داخل ہے۔اِس کتاب میں ہر ایک کی عمریں اور سنین وفات مذکور ہیں۔جن کی مدد سے ہم اُن کے سنین ولادت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔


نام
سال ولادت قبل ورود مصر
سال وفات بعد از ورود مصر

عمر /سال
١۔ راوبن

٤٦

٧٩

١٢٥

٢۔ شمعون

٤٥

٧٥

١٢٠

٣۔ دان

٤٤

٨٠

١٢٤

٤۔ لاوی

 ٤٤ 
٩٣  
١٣٧  
٥۔ یہودا

 ٤٣
٨٦ ١٢٩ 
٦۔ نفتالی

 ٤٣ 
٨٩  
١٣٢  
٧۔ جاد

 ٤٢ 
 ٨٣ 
 ١٢٥ 
٨۔ آشر

 ٤١ 
٨٢  
 ١٢٣ 
٩۔ ایشاکر

 ٤١ 
 ٨١ 
 ١٢٢ 
١٠. زبولون

 ٤٠ 
 ٨٤ 
 ١١٤ 
١١. یوسف

 ٣٩ 
 ٧١ 
 ١١٠ 
١٢. بن یامین

 ٣٠ 
 ٨٥ 
 ١١٧ 



بنو اِسرائیل انہیں ١٢ بزرگوں کی نسل کا نام ہے۔اِن بزرگوں اور اِن کی نسل کی بیٹیوں کی اولاد بھی بنو اِسرائیل میں داخل تھی،اِن کے موالی بھی بنی اِسرائیل میں شمار کیے جاتے تھے۔ (٣)

مفہوم  اِسرائیل

٣٠ قبل ورود مصر میں جبکہ جناب بن یامین ابھی پیدا نہ ہوئے تھے،حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی تمام اولاد اور موالی سمیت ایک مقام لوز میں کچھ عرصہ مقیم رہے،یہاں اُنہوں نے ایک جگہ کو خدا کی عبادت کے لیے مخصوص کیا اور اُس کا نا مبیت ِ ایل (خانہء خدا)  رکھا۔جن کی بنا پر یہ مقام بعد میں اِسی نام سے مشہور ہوگیا۔مقام لوز کیبیت ایل میں ایک روز آپ مشغول ِعبادت تھے کہ ربّانی تجلی نے آپ پر بارشِ انوار کی اور غیبی آواز نے آپ سے فرمایا:
''(آج سے) تیرا نام اِسرائیل ہوگا (٤)۔ میں ہوں خدائے قادر'تو بُرومند ہوگا اور بہت ہوجائے گا۔تجھ سے گروہ اور گروہ درگروہ پیدا ہوں گے اورتیری صلب سے بادشاہ جنم پائیں گے۔اور یہ زمین جو میں نے ابراہیم و اسحاق کو دی تھی تجھے اور تیرے بعد تیری نسل کو دوں گا۔'' (تکوین: ٣٥: ١٠، ١١،١٢) (٥)
اِس بشارت کے بعد حضرت بن یامین پیدا ہوئے۔ اُن کا نام اُن کی ماں نے بن اونی (میرے دُکھ کا فرزند) رکھا تھا،کیونکہ وہ اُن کے مرضِ موت کی حالت میں پیدا ہوئے۔لیکن حضرت یعقوب نے اُن کا نام بن یامین یعنی ''فرزند میثاق'' یا عہد کا فرزند رکھا تھا۔اِس بشارت کے بعد ساتویں برس ١٦ کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام بن کر بکے۔ ٢٠ برس کی عمر میں خدا نے اُن کو مصر کے سیاہ و سپید کا مالک بنادیا۔اِس موقع پر حضرت یوسف  کے ایک تَوراتی لقب کا ذِکر مناسب ہے کیونکہ اِس سے لفظ اِسرائیل کے معنی کی تعین میں مدد ملے گی۔مصریات کے علما جانتے ہیں کہ مصر پر ایک زمانہ میں ایک ''ہکسوس'' (حق شاشو چرواہا بادشاہ) حکومت کرتا تھا۔ مانیتھو (Manetho) نے اُس کا نام  Salatis (سلاطیس ) بتایا ہے۔اِس نام کے آخیر میں جو ''سین''ہے وہ شخصی ناموں کا یونانی لاحقہ ہے۔ اِس لاحقہ کو حذف کر نے کے بعد سفر تکوین میں پڑھو:
''یوسف ھوا ھشلیط عل ھارض '' (تکوین٤٢:٦) (٦)

''یوسف ہی اس سرزمین کا سلطان ہے۔''
اِس بیان کے ساتھ حضرت یوسف  کے ایک اور لقب کو دیکھو۔روعی ابن یشرئیل (چوبان ،اِسرائیل کی چٹان) (تکوین:٤٩:٢٤) (٧)۔سلاطیس کے فوری جانشین کا نام Bnoni (بن اونی)،حضرت بن یامین کے اُس نام سے ملتا جلتا ہے جو اُن کی ماں نے تجویز کیا تھا۔ حضرت موسیٰ  نے ایک موقع پر بنی اِسرائیل سے فرما یا تھا:
( يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ  ) (المائدة:٢٠)
''اے میری قوم! اﷲ کے اِس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے کہ تم میں انبیا مبعوث کیے اور تم کو ملوک بنایا اور تم کو وہ دیا جو دُنیا میں کسی اور کو نہیں دیا۔''
حضرت یعقوب کو اِسرائیل کا لقب دے کر خدا نے اُن کو بادشاہوں کے باپ ہونے کی بشارت دی اور یہ بشارت اُن کے ایّامِ حیات میں ہی پوری ہونے لگی۔ خدا نے حضرت یوسف کو مصر کی بادشاہی دی۔اُن کی اولاد نے کچھ دِنوں مصر میں اِس طرح گزارے کہ پوری قوم کا فرد فرد ایک بادشاہ تھا۔یہ کیسا نظامِ حکومت رہا ہوگا؟ اِس سوال کا جواب اپنے قیاس سے حاصل کر لیجیے کیوں کہ ذرائع معلومات نابود ہیں۔ اِن حالات کے پیشِ نظر لفظ اِسرائیل کا مطلب سمجھیے۔

اسرائیل کا مطلب

اِسرائیل کے نام کی عبرانی صورت یشرایل ہے۔یشرایل کا مطلب ہے نصرانی روایتوں اور ترجمے کے مطابق (خدا سے کشتی لڑنے والا) یا خدا کے پاس قوت پانے والا ہے لیکن یہ لفظ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔

(١) ایل سے خدا

(٢) یشر اگر مادہ''ی ش ر ''ہے ''تو راست جانا، راست بولا''۔ اور اگر مادہ ''ش ر ہ '' ہے اور یہ فعل مضارع ہے اور( بی شاریم یشرو) کے مطابق ترجمہ کیا جاسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے '' حکومت فرماتا ہے۔'' اس لیے اسرائیل کے دو(٢) معنی ہیں:

(١)یشر ایل =  صدق اللہ  =  اللہ صادق  =  خدا سچا ہے۔

(٢)یشرایل =  للہ الملک =  اللہ مالک ، اللہ حاکم  =  خدا ہی حاکم ہے۔
اس خاندان میں چھوٹے چھوٹے جملوں کو جو صحیح عقیدہ ظاہر کرتے ہوں، اشخاص کے نام بنانے کا عام دستور تھا۔جیسا کہ یشمع ایل (اسماعیل) کے نام سے ظاہر ہے۔اِس نام کا عربی ترجمہ ہے:

( اِنَّ رَبِّی لَسِمِیعُ الدُّعَاء )
''بے شک میرا رب دُعا سنتا ہے۔''

 بعینہ یشرایل کا بھی ایک کلمہ عقیدہ ہے۔چونکہ یشرایل کا خطاب اس وعدہ کے ساتھ دیا گیا کہ آئندہ تمہاری نسل سے بادشاہ پیدا ہوں گے۔ اس لیے دوسرے مفہوم کو ترجیح ہے۔یشرایل کے معنی ہیں'' حاکم ہے تو خدا ہی'' ( اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ  ) ( یوسف  : ٤٠،٦٨)
 یہ نام اس عقیدہ کو ظاہر کرتا ہے کہ '' حکومت کا حق صرف خدا کو ہے۔'' خدا ہی کی حکومت ہونی چاہیے۔ بادشاہوں کو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کے حکم کے مطابق حکومت کرنی چاہیے۔

بنو اِسرائیل مصر میں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مہذب دُنیا ، عرب کے قرب وجوار میں محدود تھی۔دِجلہ وفرات کے دوآبہ میں سومیریوں کا دَور ختم ہو کر سامیوں کا دَور شروع ہوگیا تھا۔مصر پر بنو حام حکومت کرتے تھے۔مصر و عراق کے درمیان ارضِ کنعان واقع تھی جو عراق اور مصری دونوں تمدنوں سے متاثر تھی۔ریگستانِ عرب کے جنوب میں اِن دونوں تمدنوں سے الگ تھلگ یمنی تمدن ترقی پارہا تھا۔ عراق، کنعان،مصر اور جنوبی عرب کے تمدنوں میں بڑا فرق تھا لیکن یہ تمام قومیں شرک و بت پرستی میں یکساں منہمک تھیں۔ حضرت ابراہیم  ،عراق کے ایک شہر میں پیدا ہوئے ،آپ نے اپنے وطن میں توحید کی تعلیم شروع کی لیکن قوم نے آپ کی تعلیم قبول نہ کی،آپ کو ہجرت کرنی پڑی'اور آپ کنعان میں آبسے۔آپ نے اور آپ کے بھتیجے حضرت لوط  نے اِس علاقہ میں توحید کی تعلیم شروع کی،لیکن صرف معدودے چند افراد آپ کو ملے۔

اﷲ نے آپ کو دو فرزند دیے ، اسماعیل اور اسحاق۔ حضرت اسماعیل کو آپ نے جنوب سے شمال کو جانے والے تجارتی قافلوں کے ایک اہم مرحلے کے پاس بسایا، جس کو اب ہم مکّہ کہہ سکتے ہیں۔حضرت اسماعیل  اور اُن کے فرزند ریگزارِ عرب اور جنوبی عرب کے لوگوں کی اِصلاح و ہدایت پر مامور رہے۔کنعان میں جو کہ عراق و مصر کے تمدنوں کا سنگم تھا،حضرت ابراہیم  ،حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب، تین  پُشتوں نے خدا کا پیغام سنایا۔٢١٥ برسوں کی جدوجہد کے باوجود اِس دیار میں کسی نے توحید کی تعلیم قبول نہ کی اور اِس لیے قبول نہ کی کہ یہ انبیا حاکمانہ اقتدار نہیں رکھتے تھے۔ جنوبی عرب کی طرف حضرت اسماعیل کی کوششیں کامیاب ہورہی تھیں۔عراق سے حضرت ابراہیم  مایوس ہو چکے ،کنعان میں دوسو برس رائیگاں گئے۔اِس لیے اب خدا نے اپنے پیغام کی تبلیغ کے لیے مصر کو چُنا اور ایسے اسباب پیدا کردیے کہ سارا خاندانِ یعقوب مصر میں جابسا اور وہاں ٤٣٠ برس مقیم رہا۔

عہدِ موسیٰ

ولادت موسیٰ علیہ السلام سے پیشتر مصر میں اِنقلاب ہوا۔ہکسوس کا خاتمہ ہوگیا۔نئی حکومت قائم ہوئی،اُس نے بنی اِسرائیل پر سخت مظالم کیے۔فرعون کی بد قسمتی کہیے کہ اُسے پیدائش سے پہلے ہی نسلوں کو مار ڈالنے کا وہ طریقہ نہیں معلوم ہوا تھا جسے یورپ اور امریکا کے غلامانِ بے دام اپنے پورے حاکمانہ اقتدار کے زورسے ہندوستان اور پاکستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ توانا اور عمدہ نسل کے پیدا کرنے کی طاقت سے محروم ہوجائیں اور یورپ اور امریکا کو پہلے کالے امریکیوں اور کالے آسٹریلیوں کی طرح ہم کو بھی نیست و نابود کر کے ہماری سرزمین پر اپنی نسل پھیلانے کے مواقع مل جائیں،چونکہ فرعون کو یہ طریقہ معلوم نہ تھا' اِس لیے اُس نے بنی اِسرائیل کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کی تجویز سوچی اور اُس پر عمل درآمد بھی کرنا شروع کیا لیکن خدا نے کمزوروں پر احسان کرنے اور مقبوضاتِ فرعون میں سے ایک بڑے حصّے پر اِن کمزوروں کو وارِث بنانے کا اِرادہ کیا (سورہ قصص ،آیت:٥) اَور اِس کام کی تکمیل کے لیے حضرت موسیٰ کو مبعوث فرمایا۔اُن دِنوں وہ سرزمین جس میں بعد میں بنو اِسرائیل آباد ہوئے فراعنہ مصر کے مقبوضات میں شامل تھی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّہ سے قرآن پاک کا بڑا حصّہ بھرا ہوا ہے ،اُن کے زمانے کے جس قدر حالات ضروری ہیں اُن کو اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر شریف 'بعثت کے وقت ٤٠ برس کی تھی۔٨٠ برس کی عمر تک آپ نے مصر میں رہ کر بنو اِسرائیل کو 
منظم کیا اور فرعون اور قومِ فرعون کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی۔ فرعون جب راہِ راست پر نہ آیا تو آپ نے فرعون سے درخواست کی کہ ہم کو ملکِ مصر سے نکل جانے کی اجازت دی جائے۔ فرعون کو خوف تھا کہ یہ لوگ مصر سے جب باہر جائیں گے تو یقینا فرات و مصر کے درمیانی علاقہ پر قابض ہوجائیں گے،اِس لیے اُس نے بنی اِسرائیل کو ملک سے نکل جانے کی بھی اجازت نہ دی۔لیکن ا ﷲ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فرعون کی اسکیم کو ناکام کردیا اور فرعون اور اُس کا پورا لشکر جس میں زیادہ تر اسی علاقہ کے لوگ تھے جس میں بنو اِسرائیل بعد میں آباد ہوئے،سمندر میں غرقاب ہوگئے اور بنو اِسرائیل پار اُتر آئے۔

مولانا ابو الجلال ندوی کا یہ غیر مطبوعہ مضمون ہمیں ان کے نواسے جناب یحیٰ بن زکریا صدیقی نے دیا ہے جس کے لیے ادارہ '' الواقعة '' ان کا شکر گزار ہے ۔ اس میں بعض حواشی م.ص .ف.رفعت صاحب کے قلم سے ہیں ۔ جس کی نشاندہی اسی مقام پر کردی گئی ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ)
حواشی
(1)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (یَشُوع، ١٠:١٣) میں اِس طرح درج ہے: '' أَلَیْسَ ھٰذا مَکْتُوبَاً فِ سِفْرِ یَاشَرَ''  ]رفعت[

(2)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر صموئیل الثانی ١:١٨ ) اِس طرح درج ہے: ''وَ قَالَ أن یَتَعَلَّمَ بَنُو یَہُوذَا نَشِیدَ أَلْقَوسِ ھُوَ ذَالِکَ مَکْتُوب فِی سِفْرِ یَاشَرَ ''] رجوع کریں ص:٤٨٣، الکتاب المقدس ،طبع ''دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط''۔سال اشاعت:١٩٩٢ء ] [رفعت[

(3)         ''سفر ہایاشار'' کا انگریزی ترجمہ ١٨٨٧ء میں جے۔ایچ۔پیری اینڈ کمپنی نے سالٹ لیک سٹی، ریاست ہائے متحدہ امریکا سے شائع کیا تھامترجم کا نام درج نہیں ہے۔ حضرت یعقوب کا اولاد کا ذکر باب ٣٦میں صفحات ١٠٠۔١٠١ میں درج ہے۔اس سے قبل اِس صحیفہ کا عبرانی متن اور لاطینی میں ترجمہ لندن سے ولیم اینڈ نارگیٹ کی جانب سے١٨٥٧ء میں شائع کیا گیاتھا۔ مصحح اور مترجم کا نام ہے 'یوہان ولیم ڈونالڈ سن۔ ]رفعت[

(4)         سفرِ تکوین کے جامع نے موحدوں اور مشرکوں کی متضاد روایتوں کو جمع کردیا ہے۔تکوین (باب:٣٥) کی روایت کے مطابق یہ لقب مقام لوز کے بیتِ ایل میں خدا نے حضرت یعقوب کو دیا۔لیکن باب:٣٢ کی روایت یہ ہے کہ ایک رات ایک مقام میں جسے بعد میں چل کر حنوایل (خدا کاسامنا) کہا گیا،ایک شخص رات بھرحضرت یعقوب  سے کشتی لڑتا رہا۔اُس نے دیکھا کہ وہ حضرت یعقوب  پر غالب نہیں آسکا تو اُس نے آپ کی عرق النسا مڑوڑ دی،جس کی وجہ سے آپ لنگڑے ہوگئے۔ یہ ہے وجہ اِس بات کی کہ بنی اسرائیل اُس نس کو جو ران کے اندر ہوتی ہے نہیں کھاتے کیونکہ اس نے یعقوب کی و ہ نس مڑوڑ دی تھی۔یہ شخص جب یعقوب کے مقابلہ سے عاجز آگیا تو اُن سے اجازت چاہی کہ مجھے جانے دو۔ حضرت یعقوب  نے کہا تجھ سے برکت لیے بغیر تو چھوڑوں گا نہیں، مجبوراً اُس نے برکت دی اور آپ کا لقب اِسرائیل تجویز کیااور وجہ بتائی کہ: ''  شریت عم الوہیم و عم انوشیم و توکل '' (تکوین:٣٢:٢٨) ''تو نے خدا کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ زور مارا ،اور تو ہی غالب رہا۔''

(5)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیات (سفر تکوین ٣٥:١٠۔١١) اِس طرح درج ہیں:''وَقَالَ لَہُ اﷲُ أسْمُکَ یَعْقُوبُ لَا یُدْعَی أسْمُکَ فِیمَا بَعْدُ یَعْقُوبَ بَلْ یَکُونُ أسْمُکَ اِسْرَائِیلَ فَدَعَا أسْمَہُ اِسْرَائِیلَ۔ وَقَالَ لَہُ اﷲُ أَنَا أﷲُ الْقَدِیرُ۔أَثْمِرْ وَ أکْثپرْ۔ؤُمَّة وَجَمَاعَةُؤُمَمٍ تَکُونُ مِنْکَ وَمُلُوک سَیَخْرُجُونَ مِنْ صُلُبِکَ۔''        ص:٥٨، الکتاب المقدس ،طبع ''دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط'' سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[

(6)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر تکوین ٤٢:٦)، اِس طرح درج ہے:''وَکَانَ یُوسُفُ ھُوَ الْمُسَلَّطُ عَلَی الْأَرْضِ'' ص:٧١، الکتاب المقدس ،طبع ''دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط''۔سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[

 (7)        عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر تکوین ٤٩:٢٤)، اِس طرح درج ہے:''۔۔۔ ھُنَاکَ مِنَ الَّاعِ صَخرِ اِسْرَائِیلَ'' ص:٨٥، الکتاب المقدس ،طبع ''دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط''۔سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[
(جاری ہے) 

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے