ہفتہ، 1 مارچ، 2014

بنگلہ دیش کا حیا باختہ ناٹک

رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

بنگلہ دیش کاحیا باختہ ناٹک

عرفان صدیقی

بنگلہ دیش (Bangladesh) میں ایک بار پھر اضطراب کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ مجیب الرحمن کی بیٹی کے دل و دماغ میں ایک بھٹی مسلسل دہک رہی ہے۔ پاکستان اور اس سے نسبت رکھنے والی ہر شے اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ بھارت کو وہ اپنا نجات دہندہ خیال کرتی ہے۔ جن دنوں میں ایوان صدر میں جناب محمد رفیق تارڑ کا پریس سکریٹری تھا حسینہ واجد بطور وزیر اعظم پاکستان کے دورے پہ تشریف لائیں۔ صدر سے ان کی ملاقات کے دوران میں بھی موجود تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی باہمی تعلقات کے بجائے مسلسل بھارت کی وکالت کرتی رہیں۔ اگر کسی کو تعارف نہ ہو تو ان کی باتیں کلی طور پر بھارتی سفیر کی باتیں لگتی تھیں۔
PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine
انہوں نے اپنے دلائل کا زور اس نکتے پہ مرکوز کردیا کہ پاکستان کشمیر کو بھلا کر بھارت کے ساتھ تجارتی، ثقافتی اور اقتصادی روابط قائم کرے ، دوستانہ اقدامات کے ذریعے اعتماد بڑھایا جائے پھر انہوں نے لفظوں کا بناؤ سنگھار کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔ بولیں دیکھئے صدر صاحب ! آپ کے اور ہمارے استاد بتایا کرتے تھے کہ اگر امتحانی پرچے میں کوئی مشکل سوال ہو تو اسے چھوڑ کر باقی آسان سوال حل کرلئے جائیں ۔ صدر تارڑ نے برجستہ جواب دیا لیکن وزیر اعظم صاحبہ ! اگر سارے آسان سوالوں کے مجموعی نمبر بھی پاس ہونے کے لیے کافی نہ ہوں تو کیا کیا جائے۔ حسینہ واجد (Sheikh Hasina Wajed ) کھسیانی ہنسی ہنس کے رہ گئیں۔ شاید اسی دورے میں جب ان کی ملاقات وزیر اعظم نواز شریف سے ہوئی تو انہوں نے آئی ایس آئی کے خلاف شکایات کا دفتر کھول دیا کہ وہ ہمارے سیاسی مخالفین کی پرورش کررہی ہے۔
حسینہ کے دل میں پاکستان کے حوالے سے ایک بغض زہریلے سانپ کی طرح پھنکارتا رہتا ہے۔ وہ ان علامتوں سے بھی نفرت کرتی ہیں جن کا کسی بھی دور میں پاکستان سے کوئی رشتہ و پیوند رہا۔ جماعت اسلامی ان کا خصوصی ہدف رہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بالعموم جماعت کی سیاسی رفاقت خالدہ ضیا(Khaleda Zia) کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (Bangladesh National Party) سے رہی جو عوامی لیگ  (Awami League)کی سب سے بڑی حریف ہے ۔ آج کل بھی جماعت اسلامی اپوزیشن کے اس سیاسی اتحاد کا حصہ ہے جس کی قیادت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کر رہی ہے ۔ حسینہ جماعت کا یہ قصور معاف کرنے پہ تیار نہیں۔
کئی مسائل میں گھرے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ٢٠١٠ء میں ایک نام نہاد ٹریبونل قائم کیا جسے جنگی جرائم کے ٹریبونل کا نام دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ان افراد کو کڑی سزائیں دی جائیں گی جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ١٩٧١ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی فوج سے مل کر جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے رہے۔ انصاف کی کارفرمائی کے اس مشن میں پہلا ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم ہے ۔ جن کی عمر اس وقت ٩١ سال ہوچکی ہے، جو مختلف النوع بیماریوں میں مبتلا ہیں اور وہیل چیئر کے بغیر چل پھر بھی نہیں سکتے۔ پروفیسر صاحب کو جنگی جرائم کا مرتکب پایا گیا لیکن عدالت نے ان کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے انہیں صرف ٩٠  سال قید کی سزا سنائی۔ پروفیسر صاحب کوئی دو سال سے قید میں چلے آ رہے ہیں۔ دوسرا نشانہ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد بنے جنہیں موت کا سزاوار ٹھہرایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں قائم کیا گیا ٹریبونل ایک مضحکہ خیز تماشے کے سوا کچھ نہیں ، انسانی حقوق کے تمام معتبر اداروں نے اسے انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے۔ ٹھوس شواہد کے بغیر صرف من گھڑت بیانات سے کام چلایا جا رہا ہے اور یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ جماعت اسلامی کو نشانہ عبرت بنانا ہے ۔ حسینہ واجد اسے عوامی مقبولیت کا ایک ہتھیار خیال کرتی ہیں کہ سستے جذبات کو ابھار کر سیاسی مقبولیت حاصل کی جائے۔ بنگلہ دیش کے قیام کو بیالیس سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران حسینہ واجد نے متعدد بار انتخابات جیتے اور وزارت عظمی کے منصب پہ فائز رہیں لیکن انہیں جنگی جرائم کے احتساب کا خیال نہیں آیا ۔ ٢٠٠٨ء کے انتخابات میں انہوں نے یہ نعرہ لگایا۔ کامیابی کے دو سال بعد انہوں نے یہ نام نہاد ٹریبونل قائم کردیا۔ اب جبکہ انتخابات میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں حکومت کے اشارے پر اس نے انڈے بچے دینا شروع کردیئے ہیں۔
جماعت اسلامی کبھی دہشت گرد تنظیم نہیں رہی ۔ اس نے ہمیشہ سیاسی جدوجہد کا پر امن راستہ اختیار کیا۔ ١٩٧٠ء کے انتخابات میں بھی اس نے اسی جمہوری عمل کا انتخاب کیا۔ اسے عوامی لیگ (Awami League)کے بعد سب سے زیادہ ووٹ بھی ملے۔ اس کے مطالبات کی نوعیت بھی سراسر سیاسی تھی۔ بہت سی دوسری جماعتوں کی طرح وہ بھی مجیب الرحمن کے چھ نکات کو قومی سا لمیت کے منافی خیال کرتی تھی۔ پوری انتخابی مہم کے دوران اسے عوامی لیگ کے اوباشوں کے پرتشدد حربوں کا مقابلہ کرنا پڑا ۔  ڈھاکہ میں مولانا مودودی کا جلسہ الٹ دیا گیا اور وہ تقریر نہ کرسکے ۔ جب سیاسی راہیں بند ہوگئیں ۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے بندوق کا راستہ پسند کیا اور آپریشن کا آغاز ہوا تو یہ کوئی یکطرفہ یلغار نہ تھی۔
ایسٹ بنگال رجمنٹ بغاوت کرچکی تھی اور مسلح دستے پاک فوج کے خلاف مورچہ بند ہوچکے تھے ۔ بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی ، جدید ہتھیاروں سے لیس میدان میں آچکی تھی۔ پھر وہ موڑ بھی آیا جب بھارتی فوج خود بھی مشرقی پاکستان میں گھس آئی اور باغیوں کے شانہ بہ شانہ ایک بڑی جنگ کی کیفیت پیدا کردی ۔ ان حالات میں پاکستان سے محبت کرنے والے بنگالی پاکستانیوں کو دو میں سے ایک راستہ چننا تھا۔ ایک یہ کہ کیا وہ شورش، بغاوت، قتل و غارت گری کی اس یلغار کا حصہ بن جائیں جسے جنگ آزادی کا نام دیا جا رہا تھا اور جو بھارت کی سرپرستی میں لڑی جا رہی تھی یا وہ نتائج سے بے نیاز ہو کر اپنا وزن پاکستان کی وحدت و سا لمیت کے پلڑے میں ڈال دیں۔جماعت اسلامی اور بہت سے دیگر محب پاکستان لوگوں نے دوسرا راستہ چنا، تاریخ کا فیصلہ یہ ٹھہرا کہ بغاوت جیت گئی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستانی فوج کے تجاوزات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت کی سرپرستی میں قائم الشمس اور البدر دستوں نے بھی حدیں عبور کی ہوں گی لیکن کیا ایسٹ بنگال رجمنٹ(East Bengal Regiment) اور مکتی باہنی (Mukti Bahini)پھول برساتی رہیں۔ جیت اور ہار سے قطع نظر، مکتی باہنی کے جنگی جرائم حد و شمار سے بھی باہر ہیں۔ حسینہ واجد اگر معاملے کو انسان کشی کے حوالے سے دیکھ رہی ہیں تو ان سفاک درندوں کو بھی کٹہرے میں لائیں جو ان کی حکومت کا حصہ ہیں۔
حکومت پاکستان کو یہ معاملہ سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ لاکھوں بہاری آج بھی جو اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں وہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہونا چاہئے۔ اب جنگی جرائم کے نام پر جو ناٹک شروع ہوگیا ہے اسے صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ قرار دے کر منہ دوسری طرف نہیں پھیر لینا چاہئے۔ جن لوگوں نے بیالیس برس قبل پاکستان کے لیے جانیں لڑائیں، انہیں اگر ہم بچا نہیں سکتے تو کیا ان کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے؟ کیا عالمی اداروں کو اس حیا باختہ ناٹک کی طرف متوجہ بھی نہیں کر سکتے۔
( بشکریہ روزنامہ "جنگ")

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے