اتوار، 16 فروری، 2014

جمال الدین افغانی ۔ تصویر کا دوسرا رُخ

رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

جمال الدین افغانی ۔ تصویر  کا  دوسرا  رُخ

Sayyid Jamal ad Din al Afghani; The another face

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

جمال الدین افغانیSayyid Jamāl ad-Dīn al-Afghānīاسلامی تاریخ کے انتہائی غیر معمولی اور متاثر کن شخصیت رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے دور کے تقریباً ہر بڑے اسلامی خطے میں اپنی جگہ بنائی اور وہاں کی سیاست و معاشرت میں اثرا نداز ہوئے ۔ جس سے ان کی عبقریانہ صلاحیتوں کا بَر ملا اظہار ہوتا ہے ۔ انہوں نے ایران ، افغانستان ، ہندوستان ، مصر اور خلافتِ عثمانیہ میں اپنا وقت گزارا ۔ ہندوستان میں ان کا عرصۂ قیام بہت کم رہا ۔ یہی وجہ رہی کہ یہاں کہ اہلِ علم ان کی شخصیت کے ہَمہ گیر پہلوؤں سے اس قدر واقف نہیں ۔ اسلامی ممالک میں صرف خطۂ حجاز ہی ان کے اثر و نفوذ سے محروم رہا ۔ اسلامی خطوں کے علاوہ جمال الدین افغانی نے یورپ اور روس میں بھی کچھ عرصہ گزارا ۔ وہ ایک متحرک شخصیت کے حامل تھے جہاں بھی گئے تحریک برپا کرتے گئے ۔ان کی شخصیت ہَمہ گیر بھی تھی اور اس کے پہلو ہَمہ جہت بھی ۔ برصغیر پاک وہند کے مسلمان عام طور پر انہیں ایک مصلح و مجدد کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ اس کے بَر عکس عالم عرب خصوصاً مصر کے راسخ العقیدہ علماء ان کے شدید مخالف ہیں ۔ کیونکہ جمال الدین افغانی کی زندگی کا بیشتر عملی حصہ بھی مصر ہی میں گزرا ہے۔ گو ان کی " پُر اسرار شخصیت " کے " اسرار " اب برصغیر کے اہلِ علم پر بھی کھلتے جا رہے ہیں ۔ مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی نے بھی اپنی کتاب " مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش" میں بھی جمال الدین افغانی کی شخصیت کے اس دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جدید تحقیقات کے نتیجے میں کئی چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں ۔ ذیل کے مضمون میں تصویر کے اسی دوسرے رُخ کو دکھانا مقصود ہے ۔
PDF download link @ AlWaqiaMagzine 
جمال الدین افغانی کے ایک تذکرہ نگار شیخ علی الوردیٰ نے اپنی کتاب " لمحات اجتماعیة فی تاریخ العراق الحدیث " ( ٣ /٣١٣)  میں لکھا ہے : " افغانی کا لقب ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہونے کے ساتھ بدلتا رہا ۔ ہم نے اسے مصر و ترکی میں افغانی کا لاحقہ استعمال کرتے دیکھا ۔ ایران میں وہ حسینی تھا ۔ بعض اوراق جو ضائع ہونے سے بچ گئے ان سے اس کے دوسرے لاحقات بھی واضح ہوتے ہیں ۔ مثلاً استنبولی ، کابلی ، روسی ،طوسی اور اسد آبادی ۔ لقب کی طرح اس کا لباس و حلیہ بھی اپنے مقام کی نوعیت کے اعتبار سے بدلتا رہا ۔"
پاک و ہند میں جمال الدین افغانی یا جمال الدین اسد آبادیSayyid Jamāl ad-Dīn Asadābādī کے نام معروف ہوا ۔ پیرس سے نکلنے والے رسالے " العروة الوثقیٰ " میں مدیر السیاسة کی حیثیت سے ان کا نام جمال الدین الحسینی الافغانی مرقوم ہوتا تھا ۔ خیر الدین زرکلی نے " الاعلام " ( ٦/ ١٦٩)   میں لکھا ہے : " ان کے ایک ( نصرانی ) مرید ادیب اسحاق کے زیر ادارت نکلنے والے جریدے " مصر " میں جمال الدین کی تحریریں مظہر بن وضاح کے نام سے شائع ہوتی تھیں ۔ "
اس کے علاوہ جمال الدین افغانی جن لاحقوں سے معروف ہوا ان میں جمال الدین استنبولی اور جمال الدین حسینی عبد اللہ بن عبد اللہ بھی ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو " جمال الدین الافغانی " از ڈاکٹر علی عبد الحلیم محمود )۔ محمد مبارک نے اپنے مقالے " الفرسان الثلاثة " میں اس کا اصل نام آیت اللہ مارزندرانی لکھا ہے ۔
جمال الدین افغانی کی سوانح کا پہلا مرحلہ ان کی وطنیت اور خاندان کے حوالے سے ہی نہایت متضاد بیانات کا حامل ہے ۔ موصوف کے ایک عقیدتمند سوانح نگار قاضی عبد الغفار بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "ان کے خاندان ، مقام ولادت اور قومیت کے متعلق بہت الجھی ہوئی بحث ہمارے سامنے ہے ، بہت سے متضاد بیانات ہیں ۔ نفی اور اثبات کی ایک صبر آزما آویزش ہے جس سے بچ کر نکلنا بہت ہی مشکل نظر آتا ہے ۔ " ( آثار جمال الدین افغانی : ١)
جمال الدین افغانی نے اپنی جائے ولادت " اسد آباد " بتایا ہے اور یہاں یہ امر خالی از دلچسپی نہیں کہ "اسد آباد " ایران ، افغانستان اور آذر بائیجان کے ٣٣ مقامات کا نام ہے ۔ موصوف کے ایرانی الاصل ہونے کے سب سے بڑے مدعی مرزا لطف اللہ خاں ہیں جو خود کو جمال الدین افغانی کا بھانجا بتاتے ہیں ۔ تاہم اس قضیے کے بارے میں دلیپ ہیرو نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے ، وہ نہایت معنی خیز اور جمال الدین افغانی کے کردار سے بہت مطابقت رکھتا ہے ۔ ملاحظہ ہو : " جمال الدین افغانی مختلف صلاحیتوں کی حامل ایک مذہبی شخصیت تھی ، ایک محقق ، فلسفی ، مدرس ، صحافی اور سیاستدان ۔ وہ مغربی ایران میں ہمدان کے اطراف میں اسد آباد کے مقام پر ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہوا ۔ تاہم اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کا مقام ولادت مشرقی افغانستان میں کنڑ کے قریب اسدآباد کا مقام ہے و نیز اس کے والدین سنی تھے ۔ اس نے سنی پسِ منظر کا دعویٰ اس لیے کیا تاکہ اسے مخاطبین کا وسیع حلقہ مل سکے ۔ " ( Islamic Fundamentalism:49 )
عمر رضا کحالہ نے اپنی مشہور کتاب " معجم المولفین " ( ٣ /١٥٥)   میں " أعلام الشیعة " کے حوالے سے جمال الدین کا جائے ولادت اسد آباد ہمدان تحریر کیا ہے ۔
اب آخر میں رابرٹ ڈریفس کا بیان ملاحظہ کیجیے جس کے بعد یہ خیال یقینی ہوجاتا ہے کہ افغانی کا اپنی وطنیت کو چھپانا اس کے مقاصدکی تکمیل کے لیے بہت ضروری تھا ۔ رابرٹ ڈریفس لکھتا ہے : " ١٨٣٨ء میں غالباً فارس میں جنم لینے والے جمال الدین نے خود کو افغانستان نژاد ظاہر کر نے کے لیے الافغانی کا لقب اپنایا ۔ افغانی الاصل ہونے کا دعویٰ کرنے کے ذریعے وہ فارسی اور شیعہ ہونے کی دونوں شناختوں کو چھپانے کے قابل ہوا تاکہ سنی اکثریتی مسلم دنیا میں وسیع تر پیمانے پر مقبولیت پاسکے ۔ افغانی کی جائے پیدائش کے قریب اس کا پہلا بھیس موجود تھا ۔ ممتاز برطانوی مستشرق علی کدوری( Eli Kedourie ) کے مطابق افغانی کے پیروکاروں ( بشمول راشد ردا اورعبدہ ) نے " سچائی کی کفایت " سے کام لیا ۔ افغانی زندگی بھر بھیس بدلتا رہا ۔ اگرچہ اسے بجا طور پر ساری اسلامی دنیا پر محیط پین اسلامی سیاسی و سماجی تحریک کی نظری بنیادیں مہیا کرنے والا سمجھا جاتا ہے ، لیکن وہ ایک غیر راسخ العقیدہ مفکر تھا جو ایک فری میسن ، صوفی ، سیاسی کارکن اور سب سے بڑھ کرایک ایسا شخص بھی تھا جو بقول کدوری " مذہب کے سماجی استحصال " پر یقین رکھتا تھا ۔ " ( اسلامی بنیاد پرستی کی تاریخ : ١٤ مترجمہ یاسر جواد )
یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ہم نے موصوف کے ساتھ " افغانی " لا حقہ بربنائے شہرت لگایا ہے نہ کہ بربنائے تحقیق ۔ اسی طرح یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ اکثر مستشرقین نے افغانی کے شیعہ و سنی ہونے کے بحث کو طول دیتے ہوئے اسے شیعہ قرار دیا ہے ۔ سنی مورخین اسے سنی اور شیعہ مورخین اسے شیعہ قرار دیتے رہے ہیں ۔ جبکہ علی عبد الحلیم محمود نے " جمال الدین الافغانی" ( صفحہ ٦٨ ) ، مصطفےٰ فوزی غزال نے " دعوة جمال الدین الافغانی فی میزان الاسلام " ( ص ٨٠) اور محمد مبارک نے اپنے مقالے " الفرسان الثلاثة " میں قرائن سے اسے بابی ثابت کیا ہے ۔ جبکہ یہ بات تو مشرق و مغرب کے اہلِ علم میں یکساں معروف ہے کہ وہ فری میسنر تھے ، اس کے بعد ان کے مسلکی انتساب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی ۔
افغانی کی وطنیت اور خاندان کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کا معاملہ بھی سوانح نگاروں کے لیے متنازع بیانات کا حامل ہے ۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے مشرق و مغرب میں یکساں مقبولیت پائی ۔ تین براعظموں میں جس کے فکری و نظری اثرات مرتب ہوئے ہوں اس کے حالات کے اس قدر اہم پہلو بھی آج تشنۂ تحقیق ہیں ۔ افغانی کے سوانح نگاروں کی حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ اپنے شخصی حالات کے بیان میں خود افغانی کے ہی اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے اور افغانی کے اہم ترین پیروکار بھی بقول عِلی کدوری " سچائی کی کفایت " سے کام لیتے ہیں ۔
افغانی نے ١٩ برس کی عمر میں ١٨٥٦ء میں ہندوستان کا سفر کیا ۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا انتہائی پُرآشوب عہد تھا ۔ اس دور میں افغانی نے اپنے قدوم میمنتِ لزوم سے ارضِ ہند کو مشرف کیا ۔ اس سفر میں ١٩ برس کے اس نوجوان کے لیے یقینا حصولِ علم کی غرض بھی شامل رہی ہوگی ۔ کیا برصغیر کا کوئی مؤرخ ہے جو افغانی کے ہندوستان میں قیام کی مدت اور اس کی تفصیلات سے آگاہ کرسکے ؟ کیا یہ انتہائی حیرت انگیز امر نہیں کہ ایسا عہد جس میں برصغیر میں نوابغ و نادرئہ روزگار شخصیات کی کثرت رہی ہو، ہمیں افغانی کے کسی ہندی استاد کا علم نہیں ہوتا ؟کس کا خزینۂ علم تھا جس کی کشش اس انتہائی پُرآشوب عہد میں بھی ایک ١٩ سالہ نوجوان کو افغانستان سے ہندوستان کھینچ لائی ؟ اس کا جواب ہمیں افغانی کے ایک شاگردسلیم عنحوری سے ملتا ہے ۔ سیّد رشید رضا مصری نے اپنی مشہور کتاب " تاریخ الاستاذ الامام "میں افغانی کے حالات کے ضمن میں سلیم عنحوری کا مضمون بھی شامل اشاعت کیا ہے۔ سلیم عنحوری نے " شرح دیوان سحر ھاروت " میں لکھا ہے : " افغانی نے یہاں کے علمائے براہمن و اسلام سے علوم شرقیہ اور تاریخ اخذ کیا اور سنسکرت زبان میں تبحر حاصل کیا۔" (تاریخ الاستاذ الامام :١/٤٣) ۔ علمائے براہمن کے ساتھ اسلام کا لاحقہ برائے وزن بیت ہی معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سی خالی نہیں کہ افغانی کو مختلف زبانوں کے سیکھنے کا خاص شوق تھا اور اسے مختلف زبانوں مثلاً عربی ، فارسی ، ترکی ، انگریزی ، سنسکرت ، روسی وغیرہا پر عبور حاصل تھا ۔
افغانی کا فری میسنر ہونا اب محتاج ثبوت نہیں رہا ۔ ان کے عقیدتمندوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ وہ فری میسنر تھے ۔ ١٨٧٦ء کے لگ بھگ وہ اطالوی لاج Luce De Orient کے ممبر بنے ۔ ١٨٧٧ء تا ١٨٩٧ء انہوں نے مصر کی ماسونی تنظیموں سے روابط استوار کیے ۔ بعض دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ افغانی نیل لاج قاہرہ کے بھی ممبر تھے جو نیشنل گرینڈ لاج مصر کے ماتحت چل رہی تھی ۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی کوکب شرق لاج کے بھی ممبر بنے ، یہ لاج برطانوی گرینڈ لاج کی منظوری سے قائم ہوئی تھی ۔ مشہور مصری دانشور محمد صابری کے بقول افغانی نے برطانوی قونصل مقیم قاہرہ رافیل بورگ کے ایماء پر کوکب شرق لاج کی رکنیت اختیار کی تھی ۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی نے ٢٤ جنوری ١٨٧٧ء کو اس لاج کے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی اور اگلے سال جنوری ١٨٧٨ء میں انہیں اس لاج کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس سے خفیہ برطانوی اداروں سے ان کے روابط بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔ ٣ فروری ١٨٧٩ء کو گرینڈ لاج انگلینڈ کے تحت قائم گریشیا لاج کے ممبر بنے ۔ افغانی چونکہ کئی فری میسن لاجوں کے ممبر بنے اس لیے ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مکمل علم نہیں ہوتا تاہم وہ ایک اعلیٰ درجے کے مستعد فری میسن تھے اور مصر کی فری میسنری سے ان کے قریبی رابط تھے ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بشیر احمد کی کتاب " فری میسنری : ٢٣٤-٢٣٩)
افغانی کا ماسونیت سے تعلق اس قدر گہرا اور نمایاں ہے کہ اس سے انکار ممکن نہیں تاہم افغانی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ افغانی اصلاحی و تعمیری مقاصد کے لیے فری میسنر بنے تھے اور وہ فری میسنز کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ لیکن فری میسنر اتنے بے وقوف نہیں ہوتے کہ کوئی انہیں استعمال کرلے ۔ اس کے بَرعکس وہ ضرور افغانی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ۔ بشیر احمد بھی افغانی کے ایسے ہی ہمدردوں میں سے ہیں مگر انہوں نے اپنی کتاب " فری میسنری " میں افغانی کے خلاف ثبوت زیادہ مہیا کیے ہیں اور اس کا دفاع انتہائی کمزور لہجے میں کیا ہے ۔
سلطان عبد الحمید جن کی بے گناہی تاریخ نے ثابت کردی ہے ۔ استعمار کی بات نہ ماننے ہی کی بنا پر انہیں مسندِ خلافت سے دستبردار ہونا پڑا ۔ وہ بھی افغانی سے نالاں تھے ۔ سلطان عبد الحمید کی ذاتی ڈائری شائع ہوچکی ہے ۔ اس سے بھی افغانی کی زندگی پر غیر معمولی روشنی پڑتی ہے اور بعض اہم حقائق ظاہر ہوتے ہیں ۔ بشیر احمد نے اپنی کتاب " فری میسنری " میں سلطان عبد الحمید کی ڈائری کا ایک اقتباس نقل کیا ہے ملاحظہ ہو : " ان کے ہاتھ ایک منصوبہ لگا جو برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر میں تیار ہوا تھا اس منصوبے میں دو آدمی بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے تھے ایک جمال الدین افغانی اور ایک انگریز جو اپنا نام بلنٹ Blunt بتاتا تھا ۔ منصوبے میں کہا گیا تھا کہ ترکوں سے خلافت کی قباء لے لی جائے اور مکہ کے شریف حسین کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا جائے ۔ "( ص ٢٣٩)
سلطان عبد الحمید لکھتے ہیں : " میں جمال الدین افغانی کو قریب سے جانتاتھا جب وہ ١٨٧٩ء میں مصر میں تھے ۔ وہ بہت خطرناک آدمی تھے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ایک بار انہوں نے میرے سامنے تجویز رکھی کہ وہ وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کو روس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتے ہیں مجھے خوب علم تھا کہ افغانی ایسا کرنے پر قادر نہیں وہ انگریز کے آدمی تھے اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں انگریز نے میری جاسوسی کے لیے تیار کیا تھا میں نے فوراً انکار کردیا میں نے ابو الہدیٰ الاصیادی الجلی کے ذریعے انہیں استنبول آنے کی دعوت دی اور پھر انہیں نکلنے نہ دیا اور یہیں ان کی وفات ہوئی ۔ "
افغانی کے عقائد و نظریات بھی علما کے درمیان ہمیشہ موضوعِ بحث رہے ۔ وہ نبوت کو کسبی عہدہ سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ علما نے ان پر الحاد کا فتوی لگایا ۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: احمد امین مصری کی کتاب " زعما ء الاصلاح فی العصر الحدیث") ۔ان کا جو مختصر تحریری سرمایہ دستیاب ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت ادیان کے قائل تھے ۔ یہ امر بھی علمائے اسلام کی ان سے بد ظنی کا سبب بنی ۔ ذاتی کردار و اعمال کے اعتبار سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان کے ایک شاگرد ادیب اسحاق نے لکھا ہے کہ وہ شراب نوشی کیا کرتے تھے ۔ ( تاریخ الاستاذ الامام : ١/٢٤)
افغانی کی زندگی کا یہ دوسرا اور پوشیدہ پہلو اب نمایاں ہوتا جارہا ہے ۔ سیّد رشید رضا مصری کی کتاب " تاریخ الاستاذ الامام " میں بھی افغانی کی زندگی کے کئی اہم پہلو مذکور ہیں ۔ راسخ العقیدہ علماء نے اس کی سخت مخالفت کی ہے ۔ علمائے ازہر نے افغانی کے الحاد پر متفقہ فتویٰ بھی دیا ہے ۔ مفتیانِ کرام میں شیخ محمد بن احمد علیش مالکی اور شیخ فہد الرومی نمایاں ہیں ۔ موخر الذکر نے " منھج المدرسة العقلیة فی التفسیر " میں افغانی دبستانِ فکر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ شیخ مصطفےٰ صبری نے " موقف العقل و العلم و العالم من ربّ العالمین " اور شیخ خلیل فوزی الفلیباوی نے " السیوف القواطع " میں افغانی پر سخت تنقید کی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے معاصر مخالف علماء میں مفتی حنفیہ مصر شیخ محمد بخیت اور شیخ حسن فہمی کا نام بھی ملتا ہے ۔ زمانۂ حال کے ایک عرب عالم شیخ  مقبل بن ہادی الوداعی نے اپنے فتاویٰ " تحفة المجیب علی اسئلة الحاضر و الغریب " میں افغانی کوائمہ ضلال میں شمار کیا ہے ۔
دوسری طرف جو تحقیقی ذخیرہ سامنے آیا اس سے بھی افغانی کا کردار مشکوک تر ہوتا چلا گیا ۔ اس سلسلے میں ایرج افشار اور ڈاکٹر اصغر مہدوی کی مساعی سے " مجموعہ اسناد و مدارک چاپ نشدئہ سید جمال الدین افغانی " تہران سے ١٩٦٣ء میں شائع ہوئی ۔ اس میں افغانی کی وہ یادداشتیں ہیں جو قیام تہران کے دوران الحاج محمد حسین امین دارالضرب کے گھر رہ گئی تھیں ۔ صاحبِ خانہ افغانی کے خاص احباب میں سے تھے ۔ اس کے علاوہ پروفیسر نکی کیڈیNikki Keddie استاد ادبیات ایران کیلی فورنیا یونیورسٹی امریکا کی ایک اہم کتاب "Sayyid Jamal al-din al-Aghani: A Political Biography"یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس سے ١٩٧٢ء میں منظر شہود پر آئی ۔ اس میں بھی افغانی کے حوالے سے بعض اہم شواہد پیش کیے گئے ہیں۔
K.Paul Johnson کی کتاب  The masters revealed: Madam Blavatsky and the myth of the Great White Lodge  میں افغانی سے متعلق اہم انکشافات ہیں ۔ یہ کتاب ١٩٩٤ء میں نیویارک ( امریکا ) سے شائع ہوئی ہے ۔ اس میں Madam Helena Petrovna Blavatsky  ( ١٨٣١- ١٨٩١)اور ان کے عظیم سفید لاج کے ساتھ جمال الدین افغانی کے حوالے سے اہم انکشافات درج ہیں ۔
جمال الدین افغانی ١٨٣٨ء میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ٩ مارچ ١٨٩٧ء میں ہوا ۔ یہ پورا عہد جدید اسلامی تاریخ کا اہم ترین عہد تھا ۔ افغانی کی خفیہ سرگرمیوں نے اس عہد کی اسلامی تاریخ پر اپنا بھر پور اثر ڈالا۔
برصغیر میں ایک طویل عرصے تک افغانی مسلم ہیرو کی حیثیت ہی سے متعارف رہا ۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور علامہ اقبال جیسے عالم و مفکر بھی افغانی کے مداح رہے ۔ لیکن جب حقائق واضح ہوئے تو مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی جیسے صاحبِ علم کو بھی افغانی کے لیے اپنا زاویۂ فکر تبدیل کرنا پڑا ۔ یہ حقائق ممکن ہے کہ بہتوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوں مگر مومن کے لیے اس کی اصل عقیدت اسلام سے ہے نہ کہ شخصیات سے۔ وہ شخصیات کو اسلام کے تناظر میں دیکھتا ہے نہ کہ اسلام کو شخصیات کے تناظر میں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے