جریدہ
"الواقۃ" کراچی، شمارہ 7 ذوالحجہ
1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012
محمد احمد
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک. تدارک کی تمنا
قسط نمبر 2۔۔۔ قسط نمبر 1 پڑھئے
اس پر فتن دور میں ہماری ریاست کے ستونوں( مثلا ً مقننہ ، عدلیہ ، اور منتظمہ ) کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک اظہر من الشمس عدالت عظمیٰ کے احکامات نہ ماننا اور اس کی توہین اور بے توقیری پر ملک کے مقتدر طبقہ Elitesکا ڈٹ جاناہے۔ مندرجہ بالا قرانی آیات کا بالواسطہ اشارہ عدلیہ کے ضعف ایمان کی جانب ہے۔ پس مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔ ایک اور قرآنی تقاضہ ملاحظہ کیجئے:
اس پر فتن دور میں ہماری ریاست کے ستونوں( مثلا ً مقننہ ، عدلیہ ، اور منتظمہ ) کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک اظہر من الشمس عدالت عظمیٰ کے احکامات نہ ماننا اور اس کی توہین اور بے توقیری پر ملک کے مقتدر طبقہ Elitesکا ڈٹ جاناہے۔ مندرجہ بالا قرانی آیات کا بالواسطہ اشارہ عدلیہ کے ضعف ایمان کی جانب ہے۔ پس مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔ ایک اور قرآنی تقاضہ ملاحظہ کیجئے:
"اے محمد ﷺ ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اس میں اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔" ( سورة النساء : ٦٥ )
اس آیت کا حکم صرف حضور ﷺ کی زندگی تک محدود نہیں ہے
بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ لائے ہیں اور جس طریقہ پر
اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی کے تحت آپ ﷺ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے مسلمانوں کے درمیان سند ہے اور سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن
ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ ہے۔ ایک حدیث میں
اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایاہے:
'' تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔ ''
معاشرہ میں چلن کچھ ایساچل پڑاہے کہ جو فرعون
وقت ہو ، یا جس کو قارون کی طرح اپنی دولت پر گھمنڈ ہو یا ہامان کی طرحEstablishment پر بھرپور اختیار ہونے کے
ساتھ ساتھ مرد و زن کے بڑے بڑے مخلوط اجتماعات کراتے ہوئے Modernity کی بے قابو سونامی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو '' جسد
جمہوریت '' میں جان پڑ جاتی ہے۔ اب ان بلائوں کے سد باب کے لیے '' صحیح اور مدبر
لیڈر شپ کہاں سے دستیاب ہو ؟'' کے جواب میں سب چپ سادھ لیتے ہیں۔ آیئے قران کی
روشنی میں اس کا حل تلاش کیا جائے۔
" لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔ " ( سورة الحجرات: ١٣)
اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اصلاح کی گئی
ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمی فساد کا موجب رہی ہے۔ یعنی رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور
قومیت کاتعصب۔ قدیم ترین زمانے سے آج تک
ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد مختلف قسم کے منفی
دائرے کھینچتا رہا ہے اور ان ہی محرکات نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین دائرة السوء ( Vicious
Circles) برپا کرتے ہوئے سوسائٹی کو اور کرپٹ کر دیا
ہے۔ ان دگر گوں حالات میں اپنا رہبر اور رہنما وہی بن سکتا ہے جو دوسروں سے بڑھ کر
اللہ سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی اور پاکیزگی کی راہ پر چلنے
والا ہو۔
امن و امان کی فضا میں پروردہ ایک ریاست کے لیے انتہائی
ضروری ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ فرد سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ ریاستی منصب دار تک ہر
شخص کے دل کا بحیثیت ایک ادارہ اور انصاف کرنے والے منصفین کا فردا ً فردا ً ادب و
احترام دل میں بس جانا چاہئے تاکہ وہ صرف لبوں تک
(Lip Service)
محدود نہ ہوجائے۔ اب اولین درجہ پر جج حضرات پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفوس میں سورة
حجرات کی تقویٰ سے متعلق ہدایات جانگزیں فرماتے ہوئے انصاف کا ترازو سنبھالیں۔ یاد
رہے کہ ایسے مبارک افراد جو ذہین ترین بھی ہوتے ہیں بلا تخصیص مذہب ،بنی نوع
انسانی میں ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ چراغ کے تیل سے تمثیلاً استنباط کرتے ہوئے رب
کائنات کا منشا ء مندرجہ ذیل ارشاد ربانی سے پوری طرح واضح ہوجاتاہے :
" جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے اس کو آگ لگے نہ لگے ( اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔" (سورة النور:٣٥)
کرپشن ایک لعنت کی طرح معاشرہ پر مسلط ہے اس لیے ضرورت
اس بات کی ہے کہ اس سے جنگی بنیاد پر ( On War Footing) نمٹا جائے اور اس ضمن میں قران کریم کا یہ حکم ہے کہ
'' اور تم لوگ آپس میں نہ تو ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اس کو اس غرض سے پیش کرو کہ تم کو دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقعہ مل جائے۔'' (سورة البقرہ: ١٨٨)
اس آیت کا ایک مفہوم تویہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر
ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ اور دوسرا یہ کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال
دوسرے شخص کا ہے ، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس
بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا
سکتے ہو ، اس کا مقدمہ عدالت میں مت لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت مقدمہ کی
روداد کے مطابق وہ مال تمہیں دلوادے۔حاکم کا یہ فیصلہ غلط بنائی ہوئی روداد سے
دھوکہ کھا جانے کی سبب سے ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کرنے کے
باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہیں ہوگے بلکہ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام
ہی رہے گا۔ ( یہاں ہدایت الٰہی کا اطلاق
بعینہ بار کے ارکان پر اتنا ہی ہوگا جتنا کہ بنچ کے جج حضرات مکلف ہونگے۔)مزید
وضاحت کے لیے حضور ﷺ فرماتے ہیں:
" میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اس طرح سے اپنے بھائی کی کوئی چیز میرے فیصلے کے تحت تم نے حا صل کرلی تو تم دراصل دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے۔"
ایک اور حدیث مبارک کا ایک حصہ ملاحظہ کریں،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
" سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سایہ کے نیچے جگہ دے گاجس دن صرف اس کے عرش کا سایہ ہوگا (پہلا شخص) عدل کرنے والا حکمران۔" (صحیح بخاری)
اللہ رب العزت کے نزدیک ادنیٰ عادل جج یا مجسٹریٹ ، اور
عادل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے درمیان ان کے دنیاوی مراتب کی کوئی اہمیت و
تخصیص نہیں کہ یہ ان کے لیے عرش کے سایہ کے فیصلہ کی بنیاد بن سکے۔ اس لیے ہر
انصاف کی ترازو پکڑنے والے مسلمان کو اپنی کم تر حیثیت نظر انداز کرتے ہوئے اپنے
پالنے والے کے اس بیان کردہ نعمت عظمیٰ کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنانے اور
عملی میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی انتھک اور جاںگسل جدوجہد میں اپنا حصہ (وقت
ضائع کیے بغیر) ڈال دینا چاہئے۔چونکہ بنچ
اور بار انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اصولی بنیادوں پرایک دوسرے کی معاونت
کے پابند ہیں اس لیے عدالت میں تعاون کرنے والے وکلا اپنی حسن نیت کی برکت اپنے
اللہ سے عرش بریں کے سایے تلے عادل و فاضل ججوں کے درمیان جگہ ان شا ء اللہ پالیں
گے۔
ہم نہیں جانتے کہ ہماری صفوں میں ان مذکورہ بالا صفات
کی شخصیات ہیں بھی کہ نہیں۔ اگر وہ ہیں تو اغلبا ً وہ کم تعداد میں ہوں یا نہ ہونے
کے برابر ہوں اور غلبہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں اب تک نہ آئے ہوں ۔ دراصل ہمارے
وطن میں غلبۂ اشرار کم ہو ہی نہیں سکتا جب تک خدائی جنگ کی سیز فائر (Cease
Fire) کروانے کے لیے اس ملک کے باسیوں کے قلوب
رجوع الی اللہ کرتے ہوئے اپنے مقتدر طبقوں کو جنگ بندی اور اصلاح احوال پر پوری
شدت سے اور پوری درد مندی سے مجبور نہ کر لیں۔ ان شا ء اللہ اس مضمون میں بیان
کردہ آیات قرانی برہان قاطع ہیں۔ روز روشن کی مانند ہر خاص و عام کو نظر آرہا ہے
کہ پاکستان فیصلہ خداوندی کے مطابق نرغہ اغیار میں ہے۔ حکمرانوں کو ایک طرف اپنے
برگزیدہ کلام کے بارے میں خداوند تعالیٰ
فرماتے ہیں :
" یہ ایک نصیحت ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔" (سورة المزمل: ١٩)
تو دوسری جانب
جھڑکتے ہوئے فرمایا :
"بے شک اللہ کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ " (٢٢ :٨)
لگتا ہے کہ حکمران اپنے لیے خود ساختہ مگر دائمی استثنا
ء کے حصول کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اور بر
افروختہ بلاؤں نے ان مقتدر طبقوں کا بشمولیت سودی گماشتوں کے سرعت رفتار سے تعاقب
جاری رکھا ہوا ہے۔ ہرانسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔، مگر استثناء کے عشق میں مبتلا
گروہ اپنے رب کے حضور قیامت والی پیشی کے دن اپنے معیوب سفاکانہ طرز عمل کا مظاہرہ
کرنے سے باز نہیں آئے گا ۔ مالک الملک کا ہم پر احسان ہے کہ وہ دنیا میں یوم
الحسرت کا مشاہدہ اپنے متلو (یعنی تلاوت کیے جانے والے ) الفاظ میں کرا رہے ہیں :
'' کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے ( اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور خوب سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔( جواب میں ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ بس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے لیے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔" (سورة السجدہ: ١١٢ - ١١٤)
حکمرانوں کی دیرینہ خواہش بہر صورت الیکشن جیتنے کی
ہوتی ہے۔ کامیابی کی صورت میں مناسب لیپا پوتی سے یہ لوگ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال
دیتے ہیں۔ اور گاڑی پرانے طرز پر ہی چلتی رہتی ہے۔ آخرت سے لا پرواہی کا قبیح ترین
انجام قران پاک میں بیان ہو چکا ہے۔ حالا ت میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ اس لیے
مسلمانوں کے روڈ میپ (Road
Map)
اگر مغربی ماہرین کے توسط سے بنیں گے تو اسلامی معاشرہ مذکورہ بالا بلاؤں
کے تعاقب و مزاہمت کو نہ روک پائے گا۔ پہلی تبدیلی کا ایک خوش آئند حوالہ کلام پاک
کے بابرکت الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:
'' اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کر لیتا ہے۔ لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔'' (سورة آل عمران: ١٧٩)
حزب اختلاف کے لیے خوش خبری ہے اگر وہ اپنے زمینی نقشہ
جات کی مطابقت (Alignment) مکمل طور پر اسلام پر رکھیں اور بلا خوف و خطر
عمل پیرا ہوجائیں۔ اس ضمن میں رب قدوس کے دو پالیسی احکام یہ ہیں:
١۔''اس فرمانبرداری (الاسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔'' (سورة آل عمران: ٨٥)
٢۔'' اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آچکی ہیں ، اگر ان کو پا لینے کے باوجود پھر تم نے لغزش کھائی ، تو خوب جان رکھو اللہ سب پر غالب اورحکیم و دانا ہے۔(ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں تو) کیا اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آموجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟۔ '' (سورة البقرة: ٢٠٨- ٢١٠)
یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی
ہے کہ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش اس بات پر ہے کہ وہ حقیقت کو بغیر دیکھے
مانتا ہے کہ نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی
کا ااختیار رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیا ر کرے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء
کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں ، حتیٰ کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور
اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں
کردیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل
بے معنیٰ ہو جاتی ہے اور امتحان میں کابیابی اور ناکامی کا کوئی مفہوم باقی نہیں
رہتا ہے۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو جب اللہ اور
اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر دیا جائے
گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکانے کی ساری قدر و قیمت اس وقت تک ہے جب حقیقت
تمہارے حواس سے پوشیدہ ہو اور تم اسے صرف دلیل سے تسلیم کرکے اپنی دانش مندی کا
اور محض فہمائش سے اس کی پیروی اور اطاعت اختیار کرکے اپنی اخلاقی طاقت کا
ثبوت دو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے
آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ اللہ اپنے جلال کے ساتھ تخت پر متمکن ہے اور اس
ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے
انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور تمہاری یہ ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے
ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے تو اس ایمان اور
اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟۔ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بد سے بدتر مجرم
بھی انکار اور نافرمانی کی جراء ت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے
کی مہلت صرف اس وقت تک ہے جب تک پردہ کشائی کی وہ ساعت سامنے نہیں آتی۔ اور جب وہ
ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش۔بلکہ وہ تو فیصلہ کا وقت ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
پاکستان ، مدینہ منورہ کی بنی ہوئی اسلامی مملکت کے بعد
پہلی نیشن اسٹیٹ (Nation State)
ہے۔ جس کی بیخ کنی پر شیطانی قوتیں متحد و متفق ہیں ۔ ہم نے اپنے اس مقالے میں
متعدد قرآنی حوالے پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے اللہ کے پاک کلام کو حرز جاں بنائے
بغیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہمارے خلاف برپا جنگ سے چھٹکارا عبث ہے۔ مفکر
پاکستان نے مختصرا ً بتا دیا
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قراں زیستن
یعنی قران کو حرز جاں آپ اسی وقت بنا سکتے ہیں جب اسے
لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی
جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں تب و ہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔مکہ ، حبش اور
طائف کی منزلیں بھی آپ کو دیکھنی پڑیں گی اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک
کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی آپ کو معاملہ ہوگا
اور یہود و منافقین بھی آپ کو ملیں گے۔ اور مئولفة القلوب سے لے کر سابق الاولون
تک سبھی قسم کے انسانی نمونے آپ دیکھ لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ اس کی جس جس منزل
سے آپ گزرتے جائیں گے قرآن کی کچھ سورتیں اور آیات بھی آپ کے سامنے آکر آپ کو
بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل پر اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئیں تھیں۔پھر
اسی کلیہ کے مطابق قرآن کے احکام اس کے معاشی و تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف
پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصو ل و قوانین انسانی سمجھ میں آ ہی نہیں
سکتے جب تک کہ وہ ان کو برت نہ لے۔ نہ وہ شخص اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی
انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی
ہے جس کے سارے اجتماعی ادارے اس کی بتائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
سودی مسائل کے ضمن میں اللہ کے نیک بندے خوش گمان ہیں
کہ ہمارے عادل ججز فیصلہ کن اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ
مزید تجزیہ کرلیا جائے ۔ اولاً عدالت عظمیٰ ملک کے توہین عدالت کے تمام قوانین ،
رولز اور پروسیجرز کا تفصیلی جائزہ لے کہ یہ بنیادی قسم کے قوانین ہر لحظہ بے اثر
ہوتے جارہے ہیں تو کیوں۔اگر آئینی چپقلش حل ہونے میں نہ آرہی ہوں تو توہین عدالت
کی لاٹھی برسا کر کام نکالا جاسکتا تھا مگر اہانت عدالت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے
لے کر صف اول کے ممتاز بار کے ارکان کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے ۔ غرضیکہ آئین
بازیچئہ اطفال بن چکا ہے ۔ پارلیمانی روایات کا خاصہ آئین و قوانین کا تقدس اور سر
بلندی برقرار رکھنا ایسا ہے جیسا مملکت کے سبز ہلالی کو اونچے سے اونچا رکھنا مگر
عمل کی دنیا میں منفی سوچ بروئے کار ہے اور فروغ پارہی ہے۔ قرآنی اشارہ '' بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی
نہیں ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔'' (سورة
الحج:٤٦) فعل تعقل کا انتساب دل سے کیا گیا ہے جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقل کا
محل قلب ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فہم و ادراک کے
حصول میں دل و دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔
ہم مزید آیات قرآنی کا مطالعہ ایک گہرے غور و فکر کی
خاطر کرتے ہیں کہ ججز کو اپنے لیے روشن لائحہ عمل مرتب کرنا دشوار نہ ہو۔ رب
کائنات کا ارشاد ہے :
''وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع و فرمانبردار ہیں۔مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہوکر تمہاری باتوں کے خلاف مشورہ کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سر گوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پرواہ نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانیاں پائی جاتیں۔''
''یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں حالانکہ یہ اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ( تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔'' (سورة النساء :٨١ ، ٨٢ ، ٨٣)
رب کریم ججز کو کیا خوب آگاہ فرما رہے ہیں کہ ہم واقف
ہیں کہ کون سے سازشی کردار تمہاری عزت و حیثیت کو معاشرہ میں مجروح (Character
Assasination)
کرنے کے درپے ہیں۔ تم ان سے خوف نہ رکھو اور نہ ہی پرواہ کرو۔ تمہارا
بھروسہ صرف اور صرف باری تعالیٰ پر بلا شک و تشکیک ہونا چاہئے۔ رہے سازشی ، اللہ
سبحانہ و تعالیٰ خود ان شک و شبہ والے نفوس سے نمٹ لیں گے۔ تم اللہ کی رسی کو
مظبوطی سے تھامے رکھو۔ کتمان حق سے بچو اور اعلاء کلمة الحق دل و جان سے بلا کسی
خوف و تردد کے کرتے رہو۔یہ لوگ میرے احکام سے غور و خوض سے اعراض برتتے ہیں اور جھوٹی افواہ سازی کا ایک طوفان بپا کیے
ہوئے ہیں ۔ یہ کام اپنی بے حد و حساب سودی رقومات سے مختلف النوع ذرائع ابلاغ (Multimedia) استعمال کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ اگر ان میں امن و اصلاح ،
اخلاق اور ایمان کی رمق ہوتی تو وہ یہ افواہ گڑھنے کی بجائے ایسی اطلاعات اللہ کے
رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار افراد کے علم میں لاتے تاکہ وہ اپنی مثبت صلاحیتوں
سے احسن نتائج اخذ فرماتے۔ مگر ہو رہا ہے اس کے برعکس۔ یہ مالک کی رحمت و مہربانی
کا تقاضا ہے کہ تمہیں شیطان کے چنگل سے نکالتا رہاہے۔ وُقعت و سرفرازی منبر و
محراب مصطفیٰﷺ کو ہی زیبا ہے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس
لیے لازم ہے کہ ججز کرسئی عدالت کو بمع توہین عدالت کے ،ایک نوجوان مجسٹریٹ کے Summary
Trial سے
زیادہ اہمیت نہ دیں راہ نجات اپنے آپ کو دین متین کی خدمت میں وقف کردینے میں ہے۔
پھر شعور حاصل ہوگا توتوہین عدالت تو دراصل توہین رسالت ہی ہے۔ پھر مفکر ملت کا یہ
سمجھانا کیسا عقل و فہم کو '' سراجا ً منیرا ً '' کرے گا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
اس مقالہ کا مرکزی موضوع سودی طرز معیشت سے مکمل
علیحدگی اور خدائی جنگ سے مکمل امن و امان کی طرف مراجعت ہے۔ اس لیے کہ سازشی
کرداروں کے کرتوتوں کے متعلق رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں :
''افسوس ان کے حال ، (ان کی زبان پر ہے)۔ اطاعت کا اقرار اور اچھی اچھی باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اپنے عہد میں اللہ سے سچے نکلتے تو انہی کے لیے اچھا تھا۔اب تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا ۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اس سے پھر گئے ان کے لیے شیطان نے ان کی روش کو سہل بنا دیا اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کررکھا ہے۔'' (سورة محمد: ٢٠ - ٢٥)
ملکی زبوں حالی کا بھر پور اندازہ ہر خاص و عام کو ہو
چکا ہوگا۔ قرآن دو راستے تجویز کرتا ہے ۔ اگر ملت کے قدم مضبوطی سے سیدھے راستے پر
گامزن ہوگئے تو تا دم آخر نقشہ بروز قیامت یہ ہوگا:
'' اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو پڑھو میرا نامہ اعمال ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے ۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا عالی مقام جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑے ہونگے (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے۔ '' (سورة الحاقہ: ١٩ -٢٤)
وگرنہ........جب چڑیاںچگ گئیں کھیت تو جاٹ کھڑاپچھتائے
'' اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ' کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتااور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا (حکم ہوگاکہ) پکڑو اسے جہنم میں جھونک دو اور اس کی گردن میں طوق ڈالدو اور اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی یار ہے نہ غمخوار اور نہ ہی زخموں کے دھون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔'' (سورة الحاقہ: ٢٥ -٣٧)
اے اللہ ! ہم کمزور ہیں ، بس اپنی رضا جوئی میں ہمارا
ضعف اپنی قوت سے دور کردے اور کشاں کشاں ہمیں خیر کی طرف لے جا اور الاسلام کو
ہماری پسند کا منتہا بنا دے۔ ہم ذلیل ہیں تو ہمیں عزت دے اور ہم محتاج ہیں تو ہمیں
رزق دے۔ اے اللہ ! ہمارے دل ، ہماری مہار اور ہمارے اعضا تیری مٹھی میں ہیں اور تو
نے ہمیں ان میں سے کسی کا مالک نہیں بنایا۔ پس جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا
ہے تو ، تو ہی بس ہمارا ولی بن جا اور ہمیں سیدھے رستے پر لے جا۔ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے