جمعہ، 18 اکتوبر، 2013

سوشل میڈیا کی شر انگیز حقیقت والدین اورنوجوانانِ ملّت کے لیے لمحہ فکریہ

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013
سوشل میڈیا کی شر انگیز حقیقت
والدین اورنوجوانانِ ملّت کے لیے لمحہ فکریہ

محمد عالمگیر ( سڈنی ، سٹریلیا )ترجمہ :ابو عمار سلیم

حال ہی میں آسٹریلیا (Australia) کے انگریزی روزنامہ  The Sydney Morning Herald میں ایک خاتون کی انتہائی دکھ بھری داستان شائع ہوئی کہ اس کو مرد حضرات کس طرح میل اور فون کے علاوہ بہ نفس نفیس اس کے گھر کے دروازے تک آکر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں کیونکہ گندی ذہنیت رکھنے والے کسی شخص نے ایک My Space نامی ویب سائٹ پر اس کا اشتہار چلایا تھا۔ اسی قسم کے ایک اور واقعہ کی خبر جو ایک اور گھٹیا  ویب سائٹ Face Book  کے بارے میں تھی شام کی خبروں میں ٹیلی ویژن پرنشر ہوئی۔خبروں کی تفصیل میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ بلیک میلنگ کے اس گھناؤنے جرم میں امریکہ (USA) اور آسٹریلیا کے ہزاروں بدمعاش اور غنڈے ملوث ہیں مگر سوائے معدودے چند کے پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اخبار نے اس واقعہ کی تفصیل دیتے ہوئے یہ بتایا کہ اس عورت کے چہرے کی تصویر اور شخصیت کی تفصیل فیس بک سے اٹھائی گئی تھی اور My Space  پر چپکائی گئی تھی۔
PDF Downlad link @ AlWaqiaMagzine/a-fact-of-evil-kind-social-media

اپنے بچوں اور ناتی پوتوں سے گفتگو کے دوران مجھے علم ہوا کہ اسی طرح کا ایک اور ویب سائٹ Bebo   کے نام سے موجود ہے جو بنگلہ دیشی نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے ویب سائٹ مثلا ً  Hi5 اور WAYN کے نام سے بھی موجود ہیں جو آسٹریلیا اور امریکہ میں بے تحاشہ دولت سمیٹ رہے ہیں۔اور اگر اس آمدن میں دنیا کے دیگر علاقوں سے سمیٹی گئی دولت کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک ناقابل یقین صورت حال سامنے آتی ہے۔ جب میں اس کی کھوج میں لگا تو مجھے پتہ چلا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں (اسکول اور کالج کے طالب علم) جنہیں میں جانتا بھی ہوں اسی قسم کے خفیہ یا نیم خفیہ یا کھلے ہوئے ویب سائٹ کو اپنی شخصی تفصیلات اپنی رضامندی سے فراہم کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ لالچ ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے بارے میں یہ تفصیلات فراہم کرتے ہیں تو اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے کمپیوٹر کے ذریعہ سے مفت گپ شپ بغیر کسی روک ٹوک کے کر سکتے ہیں یا پھر کسی دوسرے کی ہونے والی گفتگو کو ان کی اطلاع کے بغیر  چپکے چپکے سن سکتے ہیں۔

اس صورت حال کی سب سے پیچیدہ شکل وہ ہے جس سے آج کی مسلم دنیا گذر رہی ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پچھلے دنوں مسلم عرب دنیا میں بی چینی کی جو تحریک شروع ہوئی اس کو منظم کرنے میں فیس بک نے ایک انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔اس کا انداز ایسا تھا کہ اندر ہی اندر ایک ایسی فضا قائم کردی جائے جو بالآخرانتہائی شدید طاقت کے ساتھ پھٹ پڑے اور جمہوریت کا راستہ ہموار ہوجائے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریک کو آخر Spring   یعنی بہار کا نام کیوں دیا گیا تھا؟۔ اس کے اندرونی مطلب کو جاننے کے لیے صہیونیت کے بڑوں کے پروٹوکال  (Protocols of the Learned Elders of Zion ) کو دیکھنا پڑے گا جس میں صہیونیوں کے دنیا پر حکومت قائم کرنے کا پلان درج ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے پلان کا ایک حصہ ایسے بیان ہوتا ہے کہ “ہم ان کی عوام کو سڑکوں پر نکال لائیں گے اور انہی کے ذریعہ سے ہم ان کی تباہی کوان کا مقدر کردیں گے۔” ان کے اس اصول کو مد نظر رکھ کر پیچھے مڑ کر سب سے پہلی عرب بیداری یا بے چینی پر نظر ڈالیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ انہی یہودیوں نے مسلمانوں کے اندر انقلابی نظریات داخل کئے اور اس جدوجہد کو بڑھاوا دیا جس کے نتیجہ میں قومیت کا پر فریب نعرہ ایجاد کیا گیا اور انتہائی کمزور مسلمانوں کی حکومت کے خلاف بغاوت کا اجرا کیا گیا۔ مختصراً یہ کہ اس تحریک نے کمزور مسلم حکمرانوں کے پیر اکھاڑ دئے اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خود غرض لیڈروں کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے الگ الگ قومیتوں کی بنیاد رکھ لی اور اس کے سربراہ بن بیٹھے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے انہیں خود غرض  اور طاقت حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے لیڈروں نے بپھری ہوئی عوام کا رول ادا کیا ۔ اور وقت نے پھر یہ ثابت کردیا کہ یہی لوگ ان مغربی یہودیوں کے آلہ کار تھے جو اپنے  اپنے علاقوں میں ان یہودیوں کی مرضی کے مطابق کاروائیاں کر رہے تھے۔

بہار میں پھول تو کھلتے ہیں مگر یاد رہے کہ گلاب کے پھول کانٹوں کے بغیر نہیں ہوتے۔اس پہلی بیداری کی تحریک نے خلافت اسلامیہ کو تباہ و برباد کردیا۔جس کا خمیازہ مسلمانوں نے بھگتا۔اور چونکہ اس تحریک میں عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت نہیں کی تھی اس لئے اس تحریک کو عوامی تحریک یا بہت بڑی اجتماعی تحریک نہیں کہہ سکتے۔

تقریباً ایک صدی قبل آنے والی بہار  کے پھلنے پھولنے اور گذر جانے کے بعد آج قومیت کا بھوت تقریبا اتر گیا ہے اور اب ایک عالمی صہیونی نظام کی آمد کے لئے اسٹیج بالکل تیار ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ فیس بک کے یہ وحشی ،فحش اور غیراخلاقی عوام اپنے حقوق یعنی جمہوریت کے لئے ہاتھ پیر ماریں۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں عوام کو بھڑکایا جارہا ہے کہ وہ صدیوں سے جاری ان اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو قوت کے ساتھ دبا کر ختم کر دیں جن کی بنیاد اسلامی تعلیم اور اللہ کے احکامات پر مبنی ہیں۔ اورنہ صرف اقدار اور تہذیب بلکہ معاشرہ کے وہ تمام امن و امان قائم رکھنے والے اعضاء مثلاً انتظامیہ ، فوج ، پولیس ، اور عدلیہ کو بھی مکمل طورپر مفلوج کر دیا جائے۔اس میں نہ تو کوئی شک کی بات ہے اور نہ ہی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ فیس بک نے عوام کو اس حال تک پہنچانے میں بہت اہم مر کزی کردار ادا کیا ہے۔ 

یکے بعد دیگرے مشرق وسطیٰ کے ممالک  نیٹو کے ذریعہ سے روندے جارہے ہیں۔ یہ صہیونیوں کا ہی ایک فوجی بازو ہے۔ ان ممالک میں آج کی شہری زندگی جس قدر غیر متوازن اور ڈانواڈول ہوگئی ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ مثال کے طور پر اسی جمہوری حق کے نعرہ کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک بڑے  دھرنے کا ڈرامہ رچایااوراسلام آباد میں  حکومتی پارلیمنٹ کے گلے میں پھندا لگا کر پوری انتظامیہ کو مفلوج کردیا اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر کے اسٹاک ایکسچینج کا دیوالیہ نکال دیا۔اسی طرح بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے ڈھاکا میں شاہ باغ پر قبضہ جما لیا ہے اور ایک ماہ ہونے کو آیا ہے کہ وہاں سے متوازی حکومت چلا رہے ہیں۔ حکومتی اداروں اور لوگوں کی زندگیوں میں بھی دخل اندازی کر رہے ہیں اور اپنے احکامات جاری کر رہے ہیں یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسی حکومت چلا رہے ہیں جسےDefactoحکومت کہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ فیس بک کے بلاگ استعمال کررہے ہیں اور اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور اسلام کے خلاف شدیدنفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں اور یہ تمام کاروائی ہندوؤں اور ہندوستانی صہیونی ایجنٹوں کی زیر نگرانی ہورہا ہے۔

صہیونی پلان کے مطابق ان علاقوں میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے کا کوئی امکان نہیں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس دفعہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر جو عوام کو باہر نکالا تو اس سے ان کا مقصد جمہوریت کی ترویج کا نہیں تھا بلکہ یہ اس کو صرف اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے استعمال کررہے تھے کہ جس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہ رہے تھے۔انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جمہوریت اسلام کے معاشرتی اقدار اور مزاج سے لگا نہیں کھاتی ہے۔اس لئے  قومیت کا نعرہ لگا کر امت مسلمہ کو ٹکرے ٹکرے کردیا اورپھر جمہوریت کا راگ الاپ کر ان تمام نئی وجود میں آنی والی قومیتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا۔اس لئے جب عوام سڑکوں پر نکل کر جمہوریت کا نعرہ لگا کر خوشی خوشی واپس ہوتے ہیں تو اپنے گمان میں وہ خوبصورت گلاب جیت کر واپس آرہے ہوتے ہیں مگر در حقیقت وہ اپنے ساتھ ایسے کانٹے لے کر آرہے ہوتے ہیں جو ان کے راستوں میں اگتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے پارٹی کی بنیاد پر یا مذہب کی بنیاد پر یا زبان کے تعصب کی بنیاد پردور کردیتے ہیں اور یہ خلیج بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

اوپر جو کچھ بھی تحریر ہوا ہے وہ صرف اس پورے شدید بگاڑ کا ایک خلاصہ ہے جو میرے جیسے ان والدین کے لیے ہے جو اپنی سادگی میں حقیقت حال سے ناواقف ہیںاور سکون سے سوئے ہوئے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ آج کا نوجوان ہماری توقع سے کہیں زیادہ ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے۔اس لئے یہ انتہائی ضروری اور اہم ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں اور آپس میں رابطہ برقرار رہے اور ان کی ہدایات کا سلسلہ جاری رہے اور ان چیزوں کو جو  اسلام سے متصادم ہوں ، دور کردیا جائے یا روک دیا جائے۔ اسی لئے میری والدین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے ان تمام بچوں کو جن کی عمریں ان چیزوں کے سمجھنے کی حدود میں ہے، اس مضمون کی ایک کاپی پڑھنے کے لئے دیں۔اس کے ساتھ والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی  میں بچوں کی رہنمائی بھی کریں اور اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی ایسا ہی کام کرنے کے لئے ترغیب دیں۔

طالب علموں سے گذارش
یہ بات ہر ایک کے علم میں ہے کہ فی الوقت بہت ساری ایسی ویب سائٹ موجود ہیں جو بڑی ہی سستی تفریح فراہم کر رہی ہیں۔حق تو یہ ہے کہ ایسی کسی ویب سائٹ پر جانا نہ صرف وقت کا ضائع کرنا ہے بلکہ اپنی ذہنی صحت کو بھی مجروح کرنے کے برا بر ہے۔ یہ ویب سائٹ صرف اخلاقی بگاڑ پیدا کرسکتی ہیں اور لوگوں کو بے شرمی اور فحاشی کی طرف مائل کرتی ہیں۔چونکہ ان سے کسی قسم کی اخلاقی اور تہذیبی راہنمائی کی امید نہیں ہے اسی لئے یہ انتہائی زہریلی اور مخرب الاخلاق قسم کی واہیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ میرا سوال ان نوجوانوں سے یہ ہے کہ “ وہ کون سے عوامل تھے جن کے تحت آپ لوگوں نے اپنی تصویریں اور اپنی شخصی اور ذاتی تفاصیل کو ان کے حوالہ کردیا اور ان کے ممبر بن گئے؟۔” آپ لوگوں نے شائد یہ سوچا ہوگا کہ گھر بیٹھے بیٹھے اپنے دوستوں سے گپ شپ کرنے کا یہ ایک آسان ذریعہ ہے یا پھر یہ کہ بے تحاشہ مصروفیت کے اس دور میں جہاں دوستوں سے ملنے کا وقت نکالنا کار دارد ہے ، تو پھر یہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ سے دوستوں سے دوستی قائم رکھنے کا سلسلہ چلتا رہے گا اور والدین کو بھی اس میں کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوگا اس لئے کہ نہ آپ کوئی غلط کام کر رہے ہیں اور نہ آپ کے دوست۔شائد آپ لوگوں کی سوچ درست ہو مگر نیچے درج شدہ  باتوں کے اوپر غور کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

ا۔ان ویب سائٹوں کے ممبر صرف آپ اور آپ کے قریبی حلقے کے دوست ہی نہیں ہیں ۔ اسلام کے دشمن اور آپ کے ملک کے دشمنوں کو بھی اس میں گھسایا گیا ہے تاکہ وہ آپ کو گمراہ کریں۔

ب۔آپ کی تصویریں اور شخصی تفاصیل بہت سارے ایسے لوگوں کی پہنچ میں بھی ہیں جن کو آپ ذاتی طور پر نہ جانتے ہیں اور نہ ہی آپ کو ان کی کسی ارادے کا علم ہے۔ آپ کی یہ تصاویر اور ذاتی معلومات دنیا بھر کے مقامی اور بین الاقوامی انٹلیجنس کے اداروں کی نظروں میں ہیں۔

ج۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کو اپنے انتہائی قریبی دوستوں کے ارادوں کا بھی حقیقی علم نہیں ہوسکتا ہے۔

د۔آپ کی حد تک تو یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ آپ ایسی کسی حرکت میں ملوث نہیں ہونگے جہاں آپ اپنے دوستوں کو نقصان پہنچائیں مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ کوئی اور آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور آپ کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپے گا۔

ڈ۔آپ میں سے ہر لڑکا اور ہر ایک لڑکی ان زیر زمین گروپوں کے چالاک اور شاطر گرگوں کے زد پر ہیں جو بہلا پھسلا کر لوگوں کو اپنے گروہ میں شامل کرتے ہیں اور پھر ان سے غلط کام کرواتے ہیں۔ان کا دائرہ کار ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے پھیلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

ذ۔یہ بھی بہت ممکن ہے کہ آپ کے اپنے ہی انتہائی قابل اعتماد دوست آپ کو کسی دوسرے لڑکے یا لڑکی کے ساتھ  غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث کردیں۔

ر۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کے علم کے بغیر ہی آپ کی تصاویر کہیں سے اٹھا لی جائیں اور ان کو کسی دوسرے کی تصویر کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں ملا کر جھوٹی داستانوں کے ساتھ عام کردی جائیں۔اور دوسرے ممبر آپ کی ان داستانوں کو عام کردیں۔

ز۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ کو آپ کے علم کے بغیر کسی دوسرے کی گفتگو میں شامل کردیا جائے  اور ایسے حالات پیدا کردئے جائیں کہ آپ کے اپنے الفاظ میں آپ ہی کی زبان سے ایسی باتیں ادا ہورہی ہوں جو انتہائی نامناسب ، لچر اور بے ہودہ ہوں اور آپ نے اصل میں یہ سب کچھ بولا ہی نہ ہو۔

س۔اگر یہ سب کچھ واقعی ہوجائے تو آپ چاہے کتنے ہی نیک اور پارسا کیوں نہ ہوں آپ پر کوئی اعتماد نہیں کرے گااو ر آپ کی شہرت کو زبردست د ھچکا لگے گا۔جس کے آپ متحمل نہیں ہوسکتے۔

ش۔اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ آپ اپنے دوستوں سے جب گفتگو کریں تو آپ کی بات چیت محفوظ ہو اور کوئی دوسرا آپ کی باتیں نہ سنے۔ آپ اگر کسی کو میل بھیجیں تو اس کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کی جانب سے دوسرے کا میل ایڈریس کسی اور کے پاس نہ چلا جائے۔ اس کے لیے  Cc یاBCCاستعمال کریں تاکہ آپ کے پیغامات صرف ان ہی لوگوں کے پاس جائیں جن کو آپ جانتے ہوں۔اپنے علاوہ دوسروں کے ایڈریس کو بھی محفوظ رکھیں۔

ص۔آپ انتہائی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنا کام کررہے ہوں مگر پھر بھی اس بات کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ اتنی دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بھی آپ ایسے کسی مقامی یا بین الاقوامی جال میں پھنس جائیں۔ اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ ہوجائے تو آپ کو اور آپ کے اعتماد کو انتہائی شدید دھچکا لگا نے کے لیے ایسا ایک واقعہ بھی بہت کافی ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ تیز رفتاری کی وجہ سے سڑک پر کوئی حادثہ سے آپ دوچار ہوجائیں۔ بڑی سمجھداری اور حاضر دماغی سے گاڑی چلانے کے باوجود اگر ایسا حادثہ رونما ہوتا ہے  تو بڑا شدید ناقابل تلافی نقصان بھی ہوسکتا ہے اور جان جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔

ض۔آپ اپنی انتہائی شرافت اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی غلط کام کا ارتکاب نہ کریں، مگر صرف اپنے نام کو ایسی کسی ممبرشپ میں مندرج کرنے  کے بعد آپ اپنی طرف سے چاہے کچھ نہ کریں مگر ایسی تمام غلط حرکتوں کے آپ بھی ذمہ دار بن جائیں گے جو اس سائٹ سے دوسرے لوگ انجام دے رہے ہونگے۔اور پھر جب حکومتی سطح پر کوئی انتدابی کاروائی ہوئی تو پھر تو سب ہی پکڑے جاتے ہیں۔

ط۔یہ جان لیں کہ ایسی کسی مخرب الاخلاق سائٹ کا ممبر بن جانے کے بعد اپنی تصاویر وغیرہ ان میں شائع کرانا ہی بذات خود ایک اخلاقی جرم ہے۔ کوئی بھی دیکھنے والا آپ کے عمل میں کوئی اچھی بات نہیں دیکھے گا اور آپ یا لوگ چاہے کتنی ہی مرتبہ کتنی ہی شدت سے اپنا دفاع کریں ، آپ کی بات میں کوئی وزن نہیں ہوگا۔

ظ۔ہماری سمجھ میں تو یہ بات ہی نہیں آتی کہ کوئی اپنی ذاتی زندگی کو کس طرح ایسے عام کر سکتا ہے کہ اس کی باتیں اور اس کی تصاویر ایسے درندہ صفت لوگوں کی زد میں آجائے جہاں وہ آپ کے بارے میں گندی اور گھٹیا باتیں بنائیں اور انہیں مشہورکریں۔

ع۔اگر آپ ایسا کچھ کریں تو آپ کی ذاتی شرافت اور غیرت کہاں جا مرے گی؟۔آپ کی خاندانی نیک نامی اور آپ کے والدین کی برسوں کی کمائی ہوئی عزت کس طرح آنا فاناً ملیا میٹ ہوجائے گی۔

غ۔اور ذرا سوچیں کہ کسی دن کوئی آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور آپ کے والدین اور دیگر گھر والوں کی موجودگی میں آپ کی عزت کا جنازہ نکال دے۔

ف۔ممکن ہے کہ آپ کو میری بات ناگوار ہورہی ہو تو آپ یہ مضمون پھاڑ کر پھینک دیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یقیناً آپ ہی کا نقصان ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو ایسی کم علمی اور کم عقلی سے محفوظ رکھیں۔اور اگر آپ اس مضمون کو سمجھ لیں اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیں تو اس میں نہ صرف آپ ہی کا فائدہ ہے بلکہ آپ محفوظ بھی رہیں گے ۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔ سوچیں کہ اسلام کا آپ پر کیا حق ہے ، آپ کی خاندانی ذمہ داریاں کیا ہیں ، آپ کے معاشرہ ، آپ کے گرد و پیش اور آپ کے ملک کی طرف آپ کا اخلافی فرض کیا ہے۔

بطور ایک بزرگ کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے آپ کو آپ کی زندگی کایہ سارا آرام اور آسائشیں اس لئے نہیں فراہم کی ہیں کہ وقت کے یہ دجالی گدھ آپ کو نوچ کر کھا جائیں۔ ہم آپ ، سب مل کر ایک انتہائی آرام دہ اور خوبصورت زندگی کا لطف اٹھارہے ہیں اس لیے اب یہ ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے اور جائز طور پر اس کا اعتماد بھی ہوناچاہئے کہ ہماری آنے والی زندگیاں ،گذشتہ یا موجودہ زندگیوں سے اچھی اور بھرپور ہوں۔اپنی زندگیوں میں سے ہر اس بات کو دور کرلیا جائے جو ہمیں یا ہمارے معاشرے ، ہمارے دوست اور احباب کے لئے نقصان دہ ہوں۔ اپنی زندگیوں کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال لیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم تعلیم فرما گئے ہیں۔ اپنے دین اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی طرف  توجہ زیادہ کرلی جائے کیونکہ دنیا کی یہ زندگی اور یہاں کی چہل پہل صرف چند روزہ ہے۔ دجالی نظام جو اس وقت رائج ہے اس کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس سے خود بھی بچا جائے اور دوسروں کو بھی آگاہ کیا جائے تاکہ ایک مثالی معاشرہ قائم ہو۔

 ہماری دعا ہے کہ اللہ کرے ہم اپنی زندگیوں سے وہ ساری گندگی کو جو کہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہیں

ایسے نکال پھینکیں جیسے دجال اور اس کا ٹولہ اچھے اقدار کو نکال پھینکتا ہے۔ شیطان کی کوشش انسانیت کو درست راہ سے بھٹکادینا ہے ، تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کی درستگی کے ساتھ شیطان کو بھرپور شکست سے دوچار کریں۔آخرت میں ابلیس یقیناً ذلیل وخوار ہوگا اور ہم میں سے جس کسی نے اس کا ساتھ دیا وہ بھی اسی کے ٹولے کا حصہ شمار ہوگا اور اسی درجے میں عذاب کا مستحق ہوگا۔ اللّٰھم احفظنا منھم۔ آمین یا رب العالمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے