جمعرات، 17 اکتوبر، 2013

طلبِ استعانت کا قرآنی تصور

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

طلبِ استعانت کا قرآنی تصور

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

استعانت کیا ہے ؟

“ استعانت" عربی زبان کا لفظ ہے ، “ عون “ سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہیں : مدد و اعانت ۔ تاہم استعانت و معاونت میں فرق ہے ۔ استعانت کے معنی ہیں :
“ اپنی پیش آمدہ مصائب و بلا پر کامل یقین کے ساتھ کسی سے مدد چاہنا ۔ “
“ آخرت کی بھلائی چاہنا یا وہ امور جو حس و ادارک سے بالا تر ہیں ان میں کسی سے مدد چاہنا ۔ “
امام بغوی فرماتے ہیں :
علی ما یستقبلکم من أنواع البلاء و قیل: علی طلب الآخرة ۔” (معالم التنزیل، للامام البغوی المتوفی ٥١٠ھ ، طبع دار طیب للنشر و التوزیع ١٤١٧ھ )
PDF Download link  @ AlWaqiaMagzine/quraanic-concept-of-asking-isteanat-the-help-form-allah 
قاضی محمد سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں :
“ معاونت میں وہ امور داخل ہیں کہ معین و معاون ، دونوں ایک دوسرے کی اعانت کے احتیاج رکھتے ہوں۔ درزی کو موچی کی ضرورت ہے ، موچی کو درزی کی ۔ کاشتکار کو بزاز کی ضرورت ہے ، بزاز کو کاشتکار کی ۔ یعنی سلسلۂ احتیاج بہر دو جانب موجود ہے ۔ زید خالد کا کام بناتا ہے اور خالد زید کا ۔ یہ سلسلہ عالم مادی پر ختم ہوجاتا ہے ۔ استعانت ان امور میں ہے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہیں اور ان کا تعلق صرف قدرت الٰہیہ سے ہوتا ہے ۔ مصائب کا دور کرنا ، نوائب کا ہٹانا ، عطیہ انعامات و سعادات ، مرادوں کا پورا کرنا ، آرزؤں کا بر لانا ، گناہان و تقصیرات ماضیہ سے در گزر ، مستقبل کی اصلاح و فلاح آخرت کی بہبودی ، دنیا کی سلامتی ، حیات و ممات ، عطیہ مال و اولاد ، کشائش رزق ، افزائش عمر وغیرہ وغیرہ کی استعانت خاص ربّ العالمین ہی کا خاصہ ہے ۔ " (معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنیٰ :١٨٣)
بدقسمتی سے اردو زبان کی تنگ دامانی اس لفظ کا کوئی مترادف نہیں رکھتی ۔ اسی لیے عموماً مترجمین نے اس کا ترجمہ " مدد " سے کیا ہے ۔ کہاں “ استعانت " میں قدرت الٰہیہ کی کاملیت اور اس کی وحدانیت کا مکمل اظہار اور کہاں لفظ “ مدد “ سے اس کی عمومیت پر استدلال ۔ سورئہ فاتحہ کی آیتِ مبارکہ ملاحظہ ہو :
(اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُۭ)
“ ہم تیری ہی عبادت کرتے اور صرف تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں ۔ “
یہی وہ عمومی ترجمہ ہے جو تقریباً تمام مترجمین نے کیا ہے ۔ لیکن اس کی وجہ سے استعانت کی جو گہرائی تھی وہ کہیں مفقود ہوگئی اور مقام عبودیت کو سمجھنے کی کنہ بھی کہیں کھو گئی ۔

مدد تو ایک انسان بھی دوسرے انسان کی کر دیتا ہے اور طلبِ مدد توحید کے منافی بھی نہیں ۔ جبکہ استعانت کا تقاضا کسی غیر الٰہ سے کرنا نہ صرف تصور توحید کے منافی بلکہ شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ ( وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُۭ)فرما کر اللہ نے استعانت کو صرف اپنے لیے مخصوص فر ما دیا ہے اور یہ کلمۂ حصر ہے ۔ جب انسان اپنے ہی طرح کے کسی دوسرے انسان سے مدد و اعانت کا طلب گار ہوتا ہے تو جانتا ہے کہ یہ انسان ضروری نہیں ہے کہ میری طلب پوری کر ہی دے بلکہ یہ شخص اگر مدد کرے گا بھی تو اللہ ہی کی توفیق سے ۔ جبکہ تمام تر یقین اور کسی الوہی تصور کے ساتھ جب مدد کی التجا کی جاتی ہے تو وہ صرف طلبِ اعانت کی ایک شکل نہیں رہ جاتی بلکہ ایک عقیدہ بن جاتا ہے اور یہ عقیدہ صرف اللہ ربّ العزت ہی سے وابستہ کیا جانا چاہیئے ۔

انسان اس مادّی دنیا میں مختلف قسم کے مصائب و مشکلات کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔ کچھ مشکلات کا تعلق اسی مادّی دنیا کے مختلف مظاہر سے ہوتا ہے ۔ اس میں لوگ باہم ایک دوسرے کی مدد کرکے ان مشکلات سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ جبکہ بعض اقسام مصائب ایسی ہیں کہ جن کو رفع کرنے کی طاقت صرف ربّ العزت کی ذات گرامی کو حاصل ہے ۔ انہیں دور کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔
مثلاً ایک شخص بیمار ہوتا ہے ہم اسے دوا دے سکتے اور اس کی صحت یابی کے لیے دعا کر سکتے ہیں مگر شفا دینا صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

یہ عام انسانی مشاہدہ ہے کہ ایک آدمی بظاہر قریب الموت ہوگیا لیکن اللہ نے اسے شفا دی اور وہ واپس زندگی کی رعنائیوں میں لوٹ آیا جبکہ ایک آدمی اپنی معمولی سی بیماری کو نظر انداز کرنے کے سبب تھوڑے ہی دنوں میں موت سے ہمکنار ہوگیا ۔

اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی بالکل غیر اصولی طور پر اپنی موٹر سائیکل یا کار چلاتا ہے ۔ اس کی غیر ذمہ دارانہ روش سے دوسرے افراد حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور وہ خود پوری زندگی محفوظ رہتا ہے جبکہ دوسری طرف ایک ایسا آدمی ہے جو ٹریفک کے اصول و ضوابط کے عین مطابق ڈارئیو کرتا ہے مگر حادثے کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ حادثے کا وقوع پذیر ہونا انسانی طاقت سے باہر ہے۔

اسی طرح کوئی شخص اولاد کی نعمت سے محروم ہے ۔ وہ علاج معالجہ کرا سکتا ہے لیکن اولاد اسے صرف ا للہ ہی کے اذن سے ملے گی ۔ نہ دنیا کا کوئی حکیم اسے اولاد دے سکتا ہے اور نہ ہی قبر کی کوئی ایسی چوکھٹ ہے جو کسی بے اولاد شخص کے گھر کی ویرانی دور کرنے پر قدرت رکھتی ہے ۔

یہی “ استعانت “ ہے جس کا اختیار صرف اللہ ربّ العزت کے پاس ہے دنیا کا کوئی انسان اس طلب کی تکمیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کمی کو رفع کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔

المستعان

“ استعانت “ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اللہ ربّ العزت کے اسمائے صفاتی میں ایک نام “ المستعان “ بھی ہے ۔ قرآنِ کریم میں یہ اسم مبارک دو مرتبہ آیا ہے ۔ ایک مرتبہ سورئہ یوسف ( آیت : ١٨ ) میں اور دوسری مرتبہ سورئہ الانبیاء ( آیت ١١٢) میں ۔

استعانت کے معنی کو بخوبی سمجھ لینے کے بعد یہ جان لینا ضروری ہے کہ “ المستعان “ صرف اللہ ہے ۔

قاضی سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں :
“ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کے حق بندہ پر دو ہیں ۔ عبادت اور استعانت ۔ جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو کم کرے گا ، دوسرے کو دے گا ۔ دوسرے کو ایسے حق کا اصلی یا حقیقی یا عارضی یا مجازی مالک سمجھے گا وہ شرک کے گہرے گڑھے میں گر جائے گا۔“ (معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنیٰ : ١٨٤)
امام جعفر صادق ، قاضی ابو بکر ابن العربی ، امام قرطبی ، امام محمد بن ابراہیم الوزیر الیمانی اور حافظ ابن حجر عسقلانی ( رحمة اللہ علیہم ) نے اس اسم مبارک کو اسمائے اللہ تعالیٰ میں شمار کیا ہے ۔

طلبِ استعانت کا قرآنی تصور

قرآنی اصطلاح “ استعانت “ سے واقف ہونے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن طلبِ استعانت کے لیے کونسا نسخہ تجویز کرتا ہے؟ ارشادِ ربّانی ہے :
(وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ  ) (البقرة:٤٥)
“ استعانت حاصل کرو صبراور صلاة کے ذریعے سے ۔ “
قرآن نے صبر اور صلاة کو طلبِ استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔

١ - صبر

“ صبر “ ان صفات حسنہ میں سے ہے کہ جس کی کمی اور زیادتی ، تشنگی اور تکمیل براہِ راست ایمان کو متاثر کرتی ہے ۔ “ صبر “ کا شمار ان صفات میں ہے جو بہت وسیع المعنی ہیں ۔ قرآن نے دعا کی اس قدر تاکید نہیں کی جس قدر صبر کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ انسان اپنی کسی بھی نیکی اور اچھی صفت کی وجہ سے اللہ کی قربت و معیت حاصل نہیں کر سکتا مگر اللہ نے صابرین کو یہ درجہ عطا فرمایا کہ انہیں اپنی معیت نصیب فرمائی :
( ان اللّٰہ مع الصابرین )
اگر “ صبر “ ہوگا تو معیت کے مظاہر بھی جلوہ گر ہوں گے ورنہ وہ صبر ، صبر نہیں عین تلبیسِ شیطانی ہے ۔ تاہم یہاں یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ ربّ العزت کی معیت کی نوعیت عام انسانی معیت کی طرح نہیں یہ اس کی شان کے مطابق ہی ہے ۔ ہمیں اس کی نوعیت کی فکر کرنے کی بجائے اپنے اندر صبر کی صفت پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیئے ۔

صبر کیا ہے ؟

سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
“ الصبر صبران : صبر عند المصیب حسن، وحسن منہ الصبر عن محارم اللّٰہ۔” (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر الدمشقی)
سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے صبر کے اجزاء بیان کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے انسان یہ خواہش بھی نہ رکھے کہ جو مصیبت اسے پیش آئی ہے وہ دور ہوجائے لا تحب زوالھا ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں “ ہجرِ جمیل “ ،” صفحِ جمیل “ اور “ صبرِ جمیل “ کا ذکر فرمایا ہے۔ “ ہجرِ جمیل “ کسی کو اذیّت پہنچائے بغیر الگ ہوجانے کا ، “ صفحِ جمیل “ پیشانی پر آثارِ غضب لائے بغیر معاف کردینے کا اور “ صبرِ جمیل “ کسی بھی مخلوق کے سامنے حرفِ شکایات لائے بغیر مصائب کو جھیل جانے کا نام ہے ۔چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو حالتِ مرض میں یہ سنایا گیا کہ امام طاؤس مریض کے کراہنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ مخلوق سے شکوہ ہے ۔ تو امام احمد نے وفات تک ایک آہ نہ کی۔” (العبودیة)
خود راقم کا روّیہ یہ ہے کہ اسے جب کبھی کوئی مصیبت پیش آئی تو اس مصیبت کو دور کرنے کی فکر کرنے کی بجائے اس گناہ پر نظر ڈالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں یہ مصیبت آئی ہے ۔ کیونکہ (وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ  182 ) ( آل عمران : ١٨٢ ، الانفال : ٥١ ، الحج :١٠)پر ایمان کامل ہے نا ممکن ہے کہ اللہ کسی بندے پر زیادتی کرے ۔ اس لیے کہ ہر مصیبت ہمارے کسی معاصی ہی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ جب  معصیت کو ترک کردیا جائے گا تو مصیبت سے بھی نجات مل جائے گی ۔

جس طرح انسان کا ہر عمل ایک نتیجہ رکھتا ہے بعینہ اس کی ہر صفت .....خواہ حَسنہ ہو یا رذیلہ ...... ایک تاثیر بھی رکھتی ہے اور طبائعِ انسانی کی عام جولانیوں کی طرح جس جس طرح انسان اپنی کسی صفت کی تحصیل و تکمیل کرتا جائے گا ویسے ویسے اس کی تاثیر اس کے فکر و عمل میں رونما ہوتی جائے گی ۔

انسان جس قدر صابر بنتا جائے گا اسی قدر اس صفتِ حسنہ کی تاثیر بھی اس کے فکر و عمل کی دنیا کو روشن کرتی جائے گی ۔ اسی قدر معیت الٰہی کی نعمت بھی اسے ملتی جائے گی ، اسی قدر طلبِ سعادت کی حرص بڑھتی جائے گی ، راہ شقاوت سے دوری بھی آتی جائے گی اور اسی قدر استعانت کی قوت بھی اسے نصیب ہوگی ۔

٢ - صلاة

صلاة جسے پاک و ہند کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نماز کہتی ہے طلبِ استعانت کا دوسرا مؤثر ذریعہ ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :
( اقم الصلاة لذکری )
“ مجھے یاد کرنا چاہو تو نماز قائم کرو ۔ “
قیام صلاة اور ادائے صلاة میں بڑا فرق ہے ۔ ایک نماز وہ ہے جو کامل تضرع و تذلل کے ساتھ ربّ تعالیٰ کی باردگاہِ صمدیت میں ادا کی جاتی ہے ۔ اس کے ارکان کی تکمیل کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ تکمیلِ نماز کے لیے صرف اعضائے جسمانی ہی کو پانی سے دھویا نہیں جاتا بلکہ اپنے فکر و نظر کو بھی طاہر اور قلب و احساس کو بھی پاکیزہ کیا جاتا ہے ۔ جبکہ ایک نماز وہ بھی ہے جو محض رسمِ عبدیت کے طور پر جلد بازی کے ساتھ ادا کردی جاتی ہے اور جس کی ادائیگی کے دوران ہجوم افکار کی آمد ہوتی ہے ۔ بظاہر یہ دونوں ہی نماز ہیں مگر اپنے احساس اور تأثر کے اعتبار سے دونوںمختلف ہیں ۔

حاصلِ نتیجہ

“ استعانت “ توحید کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا اور ربّ العزت کے ارکانِ عبادت میں سے ایک رکنِ عبادت ہے ۔ طلبِ استعانت صرف اللہ ہی سے کی جائے گی ۔ جس طرح دوسری تمام عبادتیں صرف اللہ ہی سے مخصوص ہیں اسی طرح استعانت بھی صرف اللہ ہی کے لیے ہے ۔ عام انسانی مدد کی نوعیت دوسری ہے وہ استعانت میں داخل نہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے