ہفتہ، 29 جون، 2013

خون ناحق

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

خون ناحق

محمد جاوید اقبال

سورہ روم میں رب تعالیٰ کا فرمان ہے:
( ظَھَرَ الْفَسَادُ فیْ الْبَرّ وَ الْبَحْر بمَا کَسَبَتْ أَیْدی النَّاس لیُذیْقَھُم بَعْضَ الَّذیْ عَملُوا )
“ زمین اور سمندر میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کے باعث تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اپنے  اعمال کا مزہ چکھائے ۔“ (الروم :41)
 اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو زمین میں اپنا نائب بنایا تھا اور اس کی ہدایت کے لیے ہردور اور ہرملک میں رسول اور نبی بھیجے۔ اس کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد اچھے انسان کی طرح رہنے پر تیار نہ ہوئی اور جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کرتی رہی ۔ اس کاسبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم کے سبب لوگوں کو ان کے گناہوں پر فوراً گرفت نہ کرتے تھے۔ بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتے تھے۔لیکن مغرور انسان یہ سمجھتے تھے کہ ان کی گرفت کبھی ہوگی ہی نہیں۔سورہ شوریٰ کی تیسویں آیت کا مفہوم ہے:
“ تم پر جو مصیبت آتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور کتنے گناہ تو ہم معاف ہی کر دیتے ہیں۔"


PDF download link @ Al Waqia Magzine
آج بنی نوع انسان پر جومصیبت آئی ہوئی ہے وہ یہودیوں کی عالمی حکومت ہے۔جس کے سبب ہم بنگلہ دیش میں محب وطن بنگالی مسلمانوں کے خلاف حسینہ واجد کی مکروہ اور سنگ دل حکومت کا جبر و تعزیز دیکھ رہے ہیں۔ چالیس سال پرانے معاملات پر بغیر کسی ثبوت اور گواہ کے سزا دینا انصاف کا مذاق اڑاناہے۔ اس پر کئی مسلم ممالک نے احتجاج کیا ہے۔ لیکن حسینہ واجد بھارت اور اسرائیل کے چنگل میں اتنی بے بس ہے کہ مسلسل جماعت اسلامی کے سینیئر رہنمائوں کو سزائیں سُنائے جا رہی ہے ۔ اسی اقتدار کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان میں اس قدرٹارگٹ کلنگز ہو رہی ہیں۔ بلوچ ، پشتون ، مہاجر اور سندھی کے نام پر یا شیعہ سنی فرقوں کے سبب۔ اور حکومت کی طرف سے اس قدر بے پروائی اور لا تعلقی کا مظاہر ہ کیا جارہا ہے جیسے ملک میں امن و امان قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ ہر روز اخبار قتل عام کی سرخیوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ شیعہ سنی قتل عام رکا تو مسیحی مسلمان فساد شروع ہوگیا۔ صاف نظر آتا ہے کہ  پس پردہ یہود کی بین الاقوامی سازشیں کردار ادا کر رہی ہیں۔ روزانہ مختلف چینلز اموات کا گوشوارہ یوں نشر کرتے ہیں گویا کرکٹ میچ کا اسکور نشر کیا جارہا ہو۔ ملک میں امن عنقا ہوگیا ہے۔ حالانکہ جب توہین رسالت کا مجرم گرفتار ہوجائے تو پھر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک وکیل مقرر کیا جاسکتا ہے جو مجرم کو قانون کے مطابق سزا دلانے کی کوشش کرے ۔ ہمارے مسلمان بھائیوں نے بڑی قربانیاں دے کر یہ قانون منظور کروایا ہے ۔ اب مزید قربانیاں غیر ضروری ہیں۔ صرف قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کی  ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی سازشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے ہماری محبت سے بہت خار کھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے دل حب رسول سے سرشار رہیں گے اسلام پر عمل کرنے کا جذبہ کم نہ ہوسکے گا اور نہ اس طرح کا لبرل ازم عام ہوسکے گا جس نے یورپ کوشیطانوں کی بستی بناکر رکھ دیا ہے۔ رب تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اُس نے ہمیں شراب پینے اور سور کا گوشت کھانے سے بچالیا۔ جس کے سبب امریکہ اور یورپ میں ہم جنس پرستی اور جنسی اباحیت عام ہو ئی ہے۔
خون ناحق کا ایک خونچکاں باب پاکستان پر ہونے والے ڈرون حملے ہیں۔ حالانکہ پاکستان ان ڈرونوں کو گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن امریکہ سے مفاہمت کے سبب جوابی کاروائی سے گریزکرتاہے۔ اس طرح ہمارے بے شمار بھائی اوربہن امریکی بربریت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
یہ قومی بدنصیبی ہے کہ پہلے ہمارے ارباب اختیار نے افغانستان پر حملہ برداشت کیا اور افغانستان کی مدد کرنے کے بجائے حملہ آور امریکہ کی عملی حمایت کی۔ اس کے بعد خود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملے ہوئے اور ارباب بست و کشاد نے ان کا دفاع کرنے کے بجائے خموشی اختیار کرلی۔
کیونکہ کراچی منی پاکستان ہے اور یہاں کے باشندے سیاسی طور پر بیدار ہیں ، لیکن یہاں کی عوام نے ڈرون حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بے گناہ اموات پر من حیث المجموعی خاموشی اختیار کی اس خود غرضی کی سزا یہ ملی کہ عالمی طاقتوں نے اسے اپنا مرکز توجہ بنا لیا جس کے نتیجے میں یہاں خون خرابے کاعذاب اترا اور اب تک جاری ہے۔ ہرروز درجنوں افراد جن کا فرقہ وارانہ اور علاقائی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کراس فائرنگ کی زد میںآکر مرجاتے ہیں۔ قاتلوں کے گروہوں کو بندے مارنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً بے خبر اور غیر متعلق راہ گیر زد میں آکر ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ سندھ کے عوام نے بھی اسی طرح خود غرضی کا مظاہرہ کیا اور سزا کے طور پر یہاں طوفانی بارشوں کا عذاب اترا اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں کو بے گھری کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہم اس طرح عمل اور سزا میں براہ راست تعلق کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بے اختیار قرآن پاک کی یہ آیت یاد آجاتی ہے:
( وَ مَا أَصَابَکُم مّن مُّصیْبَةٍ فَبمَا کَسَبَتْ أَیْدیْکُمْ وَ یَعْفُو عَن کَثیْرٍ )
“ تم پر جو مصیبت آتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور کتنے گناہ تو ہم معاف ہی کردیتے ہیں۔” (سورہ شوریٰ: 30)
اب تو سیکولر اور لادین طبقے بھی قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم اختتام وقت کی گھڑیوں سے گزر رہے ہیں اور بلائیں عذاب کی صورت اتررہی ہیں۔ خاص طور پر کراچی ائیرپورٹ پر امریکی فوج کو اڈہ قائم کرنے اجازت دینا اور سی پورٹ کے قریب پی این ایس سی عمارت کے پاس امریکہ کو قونصل خانہ بنانے کے لیے جگہ فراہم کرنا ملکی دفاع کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنا ہے۔سینیٹر رضا ربانی کو بھی سوال کرنا اس وقت یاد آیا ہے جب پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرنے ہی والی ہے اور الیکشن کی افراتفری میںکسی کو اس اہم موضوع پر عوامی مظاہروںکاخیال ہی نہیں آئے گا۔ کاش جماعت اسلامی قیادت کی اس گھڑی میں کراچی کے دفاع کے لیے حرکت میں آتی۔ 
فرقہ وارانہ فسادات کا سب سے بُرا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ امت کی یکجہتی ختم ہوجاتی ہے اور کامیابی کی امید مدھم پڑجاتی ہے۔ پھر دشمنوں کے ہاتھ میں پروپیگنڈے کا ایک موثر ہتھیار آجاتاہے۔ وہ اپنی طاقتور پروپیگنڈہ مشنری کے بھونپو سے اعلان کرنے لگتا ہے کہ مسلمان اتنے خونخوار اور سنگدل ہیں کہ اپنے ہی بھائیوں کو نہیں بخشتے ۔ لہٰذا ان سے نجات کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ ان کا جڑسے صفایا کردیا جائے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمنان دین ہاتھ دھو کر امت مسلمہ کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ چودہ مسلم ممالک پر حملہ آور ہوچکے ہیںاور لاکھوں مسلمان مردوزن کا قتل عام کرچکے ہیں۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ یہ اختلافات اور تنازعے ہمیںورثے میں ملے ہیں۔ مگرافسوس کہ اسلاف سے تحقیق کی جو روایت چلی آئی تھی وہ ہم نے دو تین نسلیں قبل گنوادی۔ اس پر دلگیر ہوکر اقبال نے کہاتھا:
شیر مردوں سے ہوا بیشہئ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
اگر ہم کسی سے متاثر ہوئے بغیر قرآن و حدیث کی بنیادپر تحقیق جاری رکھتے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان عالیشان کو کبھی نظرانداز نہ کرسکتے:
( وَ لاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تَذْھَبَ ریْحُکُمْ ) (الانفال : 46)
“اور تنازعے نہ کھڑے کرو کہ پست ہمت ہو جائو اور تمہاری ہوا اکھڑجائے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ہمارے لیے مسلمان بننے کا جو کم سے کم معیارقائم کرگئے تھے وہ یہی تھا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔لیکن آج ذرا سے اشتعال پر ہم اپنے مسلمان بھائی سے بد کلامی پر اترآتے ہیں اور اشتعال بڑھے تو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے واضح کردیا تھا کہ مسلمان کا قاتل جہنمی ہے اور ہمیشہ جہنم میں جلتا رہے گا۔ پھر تو کسی مسلمان کا قتل یا تو آخرت سے انکار کے باعث ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی صداقت میںشک کے سبب اور عقیدے میں یہ دونوں خرابیاں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہیں۔
اسی طرح مختلف زبان بولنے والوں کا قتل بھی خون  ناحق ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جانے کا باعث کیونکہ زبانیں سب اچھی ہیں اور بقول حبیب جالب
کوئی اگر برُی ہے تو بندوق کی زبان
خواہ دوسری زبان والے ہمیںقتل کریں ہم صرف اپنا دفاع کریں گے ۔ مگر ہم اس بنیاد پر وہ زبان بولنے والے دوسرے لوگوں کو قتل نہیں کرسکتے کیونکہ مسلمان کا قتل جہنم میں لے جانے کا باعث ہے۔ جو اقلیتیں پاکستان میں رہ رہی ہیں انہوں نے اپنی خوشی سے یہاں رہنا قبول کیا ہے۔ اس لیے ان کے حفاظت اور ان کے حقوق کا تحفظ ہمارا قومی فریضہ ہے۔
ہم ایک عیسائی یا ہندو کے جرم کی سزا دوسرے عیسائی یاہندو کو نہیں دے سکتے کیونکہ قران کریم کا کلیہ ہے کہ
“کوئی بوجھ اُٹھانے والے دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ “
  ہمیں چاہیئے کہ مجرم کو سزا دلانے کے لیے قانون کو حرکت میں لائیں۔ بے شمار مسلمانوں نے قربانیاں دے کر توہین رسالت کو جرم قرار دلوایا ہے۔ اس لیے ہمیں اس قانون کے نفاذ کی پرُامن کوشش کرنی چاہیئے۔ وکیل مقرر کرنا چاہیئے تاکہ وہ مجرم کو سزا سے بچ کر نکلنے نہ دے ۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمان بھائیوں کو شعور عطا فرمائے۔ آمین !

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے