ہفتہ، 29 جون، 2013

غَلَبَةِ الدَّ یِن

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

غَلَبَةِ الدَّ یِن

ابو عمار سلیم

ہمارے آقا و مولا سید المرسلین خاتم النبین صادق الوعد و الامین حضرت احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ایک بہت اہم دعا ہے جو آپ نے اپنی امت کو تعلیم کی ہے اور جو اکثر و بیشتر نمازوں کے بعد دہرائی بھی جاتی ہے۔ ہم میں سے اکثر کو یہ دعا یقینا زبانی یاد بھی ہوگی اور ہم اس کو دہراتے بھی ہونگے ۔اس دعا کا ایک حصہ کچھ اس طرح ہے “ اَللّٰھُمَّ اِنّی اَعُو ذُ بِکَ مِن غَلَبَة الدَّیِنِ وَ قَھرُ الرّجَال” مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں عربی زبان سے کوئی واقفیت نہیں ہے اس لیے ہمارے ہاتھوں اس دعا کا حال بھی و ہی ہے جیسا کہ ہم دیگر قرآنی آیات کا کرتے ہیں۔

PDF Download link @ Al Waqia Magzine
طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ہم انتہائی سرعت کے ساتھ اپنی زبانوں سے ادا کردیتے ہیں مگر نہ اس کا مطلب سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے الفاظ ہمارے دلوں پر کوئی نقش چھوڑتے ہیں۔ اس پیاری سی دعا کا مطلب کچھ یوں ہے کہ “اے  اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے قہر و غضب سے۔” اس کے ترجمہ کی طرف اگر بغور دیکھیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس میں راہنمائی کے بڑے بہترین اصول ملیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ یعنی “ایک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں"  والا معاملہ نظر آتا ہے۔ حضور نبی اکرم خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کی بعثت سے پہلے کا تمام عربی ادب اپنے اندر انداز بیان کی رنگینی اور زبان کی مکمل چاشنی کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ادبی محاسن لیے ہوئے نظر آتا ہے جس کا فقدان دیگر زبانوں میں بہت نمایاں ہے۔ اسی لیے عرب اپنے علاوہ دیگر تمام دنیا کو (عجمی) گونگے سمجھتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ عرب کا یہ معاشرہ جس میں پڑھنے لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا بلکہ اس وقت تک ان کا رسم الخط بھی نہ تو متعین اور مدون ہوا تھا اور نہ ہی ان کے شعراء و ادیبوں کا کام مخطوط شکل میں موجود تھا۔ سب کا سب لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھا اور اسی طرح سینہ بہ سینہ آگے چلتا جاتا تھا مگر اس کے بیان میں اور نہ ہی اس کے انداز میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی تھی۔ شائد کہ الفاظ کو محفوظ کرنے کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے حافظے کو بہت وسیع کردیا تھا اور تمام کا تمام کلام ان میں سے اکثر لوگوں کو ازبر تھا۔ اسلام کی آمد سے کچھ ہی عرصہ قبل عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا اور لوگ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ مگر جب قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا تو پھر تو گویا عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا جو اس قدر اثر انگیز تھا کہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اور وہ تھا گفتگو اور بیان کا ایک نیا انداز۔ ایک نئی طرز کا اجرا جس میں کم سے کم الفاظ میں معانی کے پورے کے پورے دفتر بند ہوں۔ جملوں کی ایسی بناوٹ اور ایسے الفاظ کا چنا ؤ جو تھوڑے ہوں ، اختصار پیدا کریں مگر جب معنی سامنے آئیں تو ایک موجیں مارتا ہوا سمندر ہو۔ پورے کا پورا قرآن مجید اسی انداز گویائی کا آئینہ دار ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ اس وقت کا معاشرہ باوجود قرآن کے اس واشگاف چیلنج کے کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر لے آ ؤ ، بڑے بڑے شعراء  اور زبان دانی کا دعویٰ کرنے والے گونگے ہوگئے۔ سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ سب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ “ محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم جو کلام سناتے ہیں وہ اس دنیا کی چیز ہے ہی نہیں۔ نہ یہ شاعری ہے نہ نثر ، نہ جادو کے الفاظ ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کہانت کی بات ہے۔ یہ تو ایسا کلام ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔” اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کی اس جادو بیانی کے ساتھ ساتھ آقائے دوجہاں افضل البشر سید المرسلین افصح اللسان صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی اپنی زبان دانی اور زور بلاغت نے مل کر ایک نئے دور کی ابتدا کی۔ آج ہمارے بزرگوں کی کاوشوں اور سمجھداریوں کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کی تمام گفتگو اور تقاریر و وعظ کا ذخیرہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ان کو زبان دان حضرات دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو اس کے اختصار کے باوجود اس میں معنی کی گہرائی کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں ۔ کم سے کم الفاظ میں اپنا مطلب بیان کرنے کا اس سے بہتر کوئی اندازہ مقرر نہیں کیا جا سکتاہے۔ اوپر درج شدہ دعا کے الفاظ میں بھی اختصار کے باوجود عقل و دانش کے گوہر پوشیدہ ہیں۔ آیئے ہم ان کا جائزہ لے کر اس دعا کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کو جان لینے کے بعد اس دعا کو زیادہ پر اثر طریقہ سے ادا بھی کریں اور اس دعا میں پوشیدہ پیغام کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوار لیں۔

دعا کے الفاظ میں اللہ کی پناہ مانگی جارہی ہے قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر سے۔ لوگوں کا قہر و غضب اور ان کی زیادتیوں اور چیرہ دستیوں سے ہم سب لوگوں کا واسطہ وقتا فوقتا پڑتا ہی رہتا ہے۔ معاشرہ کے قوی الجسم ہوں یا قوی المال ہوں۔ رتبہ میں بڑے ہوں یا دماغی خناث میں بڑھے ہوئے ہوں اپنے سے کمزوروں اور کم حیثیت اور ناتواں لوگوں پر بے محابہ ظلم و ستم کرتے ہیں۔ اکثر ظلم ہم دیکھتے بھی ہیں اور بہت سے مظالم ہم اپنی جانوں پر برداشت بھی کرتے ہیں۔ان مظالم اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کی چیر پھاڑ ہمیں بری بھی لگتی ہے اور ہم ان سے اللہ کی پناہ بھی مانگتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ دعا ہمیں سمجھ میں تو آتی ہے اور جہاں ایسے ظلم و ستم سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے وہیں اس بات کا اعادہ بھی ہے کہ ہم خود ایسے کسی ظلم کے مرتکب نہ ہوں اور لوگ ہماری زیادتیوں سے بچے رہیں۔ یہاں تک تو اس دعا کے حصے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ مگر دعا کے پہلے حصے سے ہم کچھ زیادہ نامانوس ہیں۔ سمجھتے تو ہیں کہ قرض سے پناہ مانگی جارہی ہے ، مگر کیوں؟۔ قرض لینا دینا انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے یہاں تک ہمارے آقا و مولا  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلمنے بھی اپنی حیات مبارکہ میں قرض لیا ہے اور ایسے کئی واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ تو پھر ہمیں کیوں قرض سے پناہ مانگنے کی دعا تعلیم کی جارہی ہے۔ 

جہاں تک قرض کا تعلق ہے یہ انسانی ضرورت سے منسلک ہے اور اکثر و بیشتر اس کا تعلق روپیہ پیسہ کے حصول سے ہوتا ہے۔ انسان جب اپنی آمدن یا پس اندازی اور اپنی موجودہ حاجت اور ضرورت کے درمیان فرق محسوس کرتا ہے تو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل سے بڑھ کر دائیں بائیں سے حاصل کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ عزیز و اقارب کی طرف رجوع کرتا ہے یا پھر دوست و احباب کے آگے اپنی حاجت رکھتا ہے اور جب کہیں سے کچھ نہ ملے تو پھر ایسے ذرائع ڈھونڈھتا ہے جس کے ذریعہ سے اس کی مراد پوری ہوجائے۔ادھار لیتا ہے کہ وقت مقررہ پر ادائیگی کردے گا اور ضرورت ہو تو کچھ گروی بھی رکھ دیتا ہے تاکہ قرض دینے والے کے پاس ضمانت موجود رہے۔ اور جب اس کو اس کی ضرورت کے مطابق رقم مل جاتی ہے تو اپنی حاجت کی تکمیل کرلیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرض لینا گناہ ہے یا کوئی غیر اخلاقی حرکت ہے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ انسانی معاشرہ میں اکثر و بیشتر انسان اپنی ضروریات کی خاطر دوسروں کی مدد کا محتاج ہو جاتا ہے۔پہلے عزیز و اقارب کی طرف دیکھتا ہے پھر دوست و احباب کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور جب کچھ بھی ممکن نہ ہو تو اپنی کوئی چیز فروخت کرتا ہے یا ضمانت کے طور پر رہن رکھ دیتا ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ ہو پائے تو پھر ایک راستہ سود پر رقم کی وصولی کا ہوتا ہے۔ کوئی ضرورت مند اوپر درج شدہ کسی بھی طریقہ سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہوجائے تو اب جو صورت حال ہوگی یعنی اس قرض کی ادئیگی اور حسب وعدہ اس کی واپسی۔ اسی صورت حال کا اس دعا میں تذکرہ ہے۔ یعنی قرض کی واپسی کا جو دبا ؤ انسان پر رہتا ہے اس کے غلبہ سے بچنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے آگے ہاتھ پھیلایا جارہا ہے ۔ اس کی مدد مانگی جارہی ہے کہ اللہ اس بوجھ سے سبکدوش کرے اور حسب وعدہ بغیر کسی جھنجھٹ کے فارغ ہوجایا جائے۔ اور اگر بین السطور غور کیا جائے تو اس خواہش کا اظہار بھی موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی کسی صورت حال سے دوچار ہی نہ کرے کہ ہمیں قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور ایسا ناروا بوجھ ہماری جانوں پر آپڑے جس کی ادائیگی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کردے۔

ہم یہاں پر ذرا سا توقف کرکے اوپر کے بیان کے اس حصے کو تھوڑا سا اور پھیلا کر دیکھتے ہیں جس میں رقم کی وصولی کا ذریعہ سود کو بتایا گیا ہے۔ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ سود انسانی معاشرہ میں موجود تمام برائیوں میں سے سب سے مہلک اور خطرناک ہے۔ یہ شیطان کا پھیلا یا ہوا ایسا جال ہے جس کے تانے بانے خود اسی نے بنے ہیں اور انتہائی چابک دستی سے بنے ہیں۔ اس میں اس نے انسان کی ضرورت اور اور اس کے حصول کو ایک ایسے گناہ کے ساتھ جوڑ دیا ہے جس کا ارتکاب اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے جنگ پر آمادہ ہونے کے برابر ہے۔ سود انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے رائج رہا ہے اس لیے کہ اس کے ڈانڈے انسان کی لالچ اور ضرورت کے بین بین ہے ۔ انسان جب اپنی ضرورتوں کے درمیان اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے جب ہی اسے قرض کے لیے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ عزیز و اقارب سہارا دیدیں تو  فبھا وگرنہ اس کا حصول بغیر غلط راستہ اختیار کیے ہوئے ممکن ہی نہیں رہتا۔ چوری چکاری اور چھینا جھپٹی جیسی کسی بات کا بھی امکان ہو سکتا ہے مگر ہم اس کو فی الوقت چھوڑ دیتے ہیں اور توجہ کو صرف سود تک محدود رکھتے ہیں۔ شیطان نے انسان کی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے اپنے ایسے گرگے اور چیلے معاشرہ میں پھیلا رکھے ہیں جو ہر ضرورت مند کو انتہائی چالاکی سے اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ آپ کو ہزار کی ضرورت ہو تو وہ آپ کو دس ہزار دینے پر آمادہ ہونگے۔ شرائط و ضوابط ایسے خوشنما بنا دئے جائینگے کہ ان کے اندر چھپی ہوئی خباثت اور شرارت نظر ہی نہ آئے اور ہم یہ جانتے ہی ہیں کہ بنیا ہمیشہ سے یہ کہتا چلا آیا ہے کہ “ارے بیاج کو چھوڑو وہ میں تم سے کب مانگ رہا ہوں بس تھوڑے سے پیسے میرے سود والے دے دو اور اصل رقم بے شک اپنے پاس رکھو۔”اور پھر اصل رقم کی نسبت سودکے تھوڑے سے پیسے دینا کہیں زیادہ آسان نظر آتا ہے۔ پھر نہ اصل رقم اترتی ہے اور نہ سود کی جونک پیچھا چھوڑتی ہے تا وقتیکہ کہ سارا خون نہ چوس لے۔ آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں شیطان نے اس کی ایک اور بہت سائنسٹفک اور خوشنما شکل بینک کی صورت میں عنایت کی ہے اور بینکوں نے انسانوں کو لبھانے اور ترغیب دے کر لالچ میں پھنسانے کے ایسے ذرائع تشکیل دے دئیے ہیں جو ایک عام آدمی کی تو بات ہی کیا اکثر و بیشتر علماء کو بھی لبھاتا ہے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ بینک آپ کو کس کس قسم کی سہولتیں دینے کا وعدہ کرتے ہیں اور اپنی کتنی ہی پراڈکٹ کو آپ کی ضرورتوں کی تکمیل کا مداوا بتاتے ہیں۔ سیونگ بینک ہوں یا پی ایل ایس اکا ؤنٹ ، ماہانہ آمدانی کی اسکیمیں ہوں یا سالانہ دوگنا منافع ، فکسڈ ڈیپازٹ ہوں یا سیونگ سرٹیفیکٹ ، انشورنس ہو یا گارنٹی ، پرائز بانڈ ہوں یا مکان بنانے کے لیے قرضہ کی سہولت یا پھر ایسی ہی کوئی اور چیز ، سب کی سب اسی شیطانی کوششوں کی ایک صورت ہے۔ اور اس پر سے مستزاد یہ کہ اکثر چیزوں میں بینک اور اسی طرح کے دوسرے ادارے کسی نہ کسی عالم اور دینی شخصیت کا فتویٰ بھی ساتھ میں منسلک کرکے آپ کو تسلی دیدیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے ، جائز ہے اور شریعت کے عین مطابق ہے۔اور اس پر مستزاد یہ کہ شیطان آپ کی آتش شوق کو خوب خوب بھڑکاتا بھی ہے ۔ اخباروں میں ، چلتے پھرتے راستے میں اشتہاروں اور بل بورڈ کے ذریعہ ، ٹی وی پر دلآویز اور ذہنوں کو مسخر کرنے والے اشتہارات کے ذریعہ آپ کو یہ بآور کرا یا جارہا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں ۔ ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی کیا ۔ دودھ زندگی کے لیے ضروری ہے مگر خالی دودھ کیوں ، ہم نے اس میں فلاں صحت بخش چیز کا اضافہ کیا ہے یہ پی لیں اور صحت بنائیں۔ اٹھارہ یا بیس انچ کا ٹی وی کیوں ۔ ارے ذرا پینتالیس انچ کا ڈیجیٹل ٹی وی تو دیکھیں تو پتہ لگے گا کہ ٹی وی کیا ہوتا ہے۔ کب تک یہ چھوٹی سی کھٹارہ گاڑی چلائیں گے ؟۔ پیسے نہیں ہیں کہ گاڑی بدل سکیں تو ہمارے پاس آئیے ہم نے آپ ہی کی خاطر ایسی اسکیم چلائی ہے کہ آپ بغیر پیسوں کے امیروں والی گاڑی ہم سے لے جائیں اور اپنی شخصیت میں چار چاند لگالیں۔ ہمارا یہ کریڈٹ کارڈ لے لیں تو آپ کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔ جیب میں پیسے نہ بھی ہوں تو بھی جو چیز جب چاہیں اس کارڈ سے خرید لیں ، ادائیگی بعد میں ہوتی رہے گی۔ ہم جانتے بوجھتے اس فریب کو قبول کرلیتے ہیں اور اس کے دام میں جا پھنستے ہیں۔ اور بقول ایک شیطان کے گرگے میکاولی کے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلا ؤ کہ وہ سچ لگنے لگے۔ تو آج ہم یقین کی اسی حد کو چھو رہے ہیں جہاں یہ غلط کام بالکل ٹھیک اور شریعت کے عین مطابق نظر آتا ہے۔ کتنے ہی لوگ مجھ سے جھگڑ چکے ہیں کہ “ آپ کو کس نے کہدیا کہ بینک کا انٹریسٹ سود ہے۔”اور ایک صاحب نے کہہ  دیا کہ “غریب آدمی آخر گزارا کیسے کرے ؟ جو چار پیسے اس کے پاس ہیں وہ اس پر منافع حاصل کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ بھوکا مر جائے۔”  استغفراللہ کہ میں ایسا چاہوں۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے مزاج سے یہ سوچیں کہ جس گزارے کی آپ بات کر رہے ہیں وہ کیاہے۔ کیا گزارے کا یہ مطلب ہے کہ ایک عالی شان مکان میں رہا جائے، چمچماتی بڑی سی گاڑی میں پھرا جائے، جب جو دل چاہے خرید لیا جائے ، اپنی کسی خواہش کو نہ مارا جائے چاہے اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  کے مقابلے میں تیر و تلوار لے کر ہی کیوں نہ آنا پڑے ۔ ایک مثال دیکھتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ آپ کے دفتر میں ایک صاحب ہیںجو آپ کے ہی ہم عمر ہونگے، ان کی تنخواہ آپ سے کہیں کم ہے ، مگر ان کے بچوں کی تعداد بھی اور دیگر ضروریات بھی آپ ہی کے برابر ہیں۔  آپ دونوں کے زندگی گزارنے کے انداز میں ایک تفاوت اور فرق نمایاں ہوگا۔تو اب ذرا سوچئے کہ اس لفظ گزارے کا اطلاق کس پر کیا جائے اور کس طرح کیا جائے۔ اگر وہ صاحب اپنی زندگی کی گاڑی کو مکمل اطمینان اور خوش اسلوبی سے بغیر کسی فالتو، غیرضروری  اخراجات کے امن اور سکون کے ساتھ چلا رہے ہیں تو ان کا گزارا ٹھیک ہورہا ہے یا وہی صاحب آپ کی مسابقت کریں اور اپنے لیے وہ تمام سہولیات حاصل کریں جو آپ کے پاس ہیں، تو کیا ان کا گزارا ٹھیک ہوگا یا وہ سود لے کر آپ کے برابر آجائیں تو درست ہوگا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ہماری آمدن کیا ہے اور اس کے ساتھ ہماری ضروریات کہاں تک جا سکتی ہیں۔ ہم جس وقت اپنی چادر سے باہر پیر نکالیں گے تو ہمیں بیرونی امداد کی ضرورت پیش آئے گی ۔ اور جب ہم نے یہ سوچ لیا کہ ہمارا گزارہ نہیں ہورہا تو اخراجات پورے کرنے کے لیے ہمیں بینک میں بھی جانا پڑے گا سود بھی لینا پڑے گا اور اس کی ادائیگی کے بوجھ تلے دبنا بھی ہوگا ۔ اللہ کے بھی دشمن بنے رسول کی بھی ناراضگی مول لی اور اس کے بعد آخرت کی بھلائی کا خیال دل میں لا نا حماقت نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا۔گزارا ایک ایسا لفظ ہے جس کا اطلاق کسی بھی پر سکون اور مطمئن زندگی پر کیا جاسکتا ہے۔ ایک مطمئن اور پر سکون زندگی جس میں محبت بھی ہو اور اللہ کی رضا بھی ہو ، یقینا شیطان کے اکساوے اور بے چینی پیدا کرنے والی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ جب ہم ہر وقت اس کوفت میں مبتلا رہیں کہ میرے پاس دوسروں سے بہت کم ہے، دوسروں کی زندگیاں زیادہ پر آسائش اور پر سکون ہے تو یقینا ہم ایک اضطراب کا شکار ہو جائیں  گے۔اور اپنی اس کم مائیگی کے احساس کو دور کرنے کے لیے اپنی چادر سے باہر پیر پھیلائیں گے تو پھر گونا گوں مشکلوں اور مصیبتوں میں پھنستے چلے جائیں گے۔ ضرورت یا ، زیادہ بہتر لفظ لالچ ہوگا ، پوری تو ہو جائیں گی مگر قرض کا دبا ؤ آپ کو آ دبوچ لے گا۔اور پھر ایک کے بعد ایک نہ جانے کتنے اور بکھیڑے آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ دن کا سکون بھی گیا اور رات کا چین بھی۔ آپ نے اگر اپنے پیر ضرورت سے بھی زیادہ ہی پھیلا لیے تو پھر آپ کے چین سکون کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ نے اپنی گزران کو اپنے ذرائع حصول سے اور اپنی آمدن سے ملا لیا تو آپ ہزاروں لاکھوں لوگوں سے زیادہ اچھا گزارا کر رہے ہونگے۔ اس لیے کہ زندگی میں سامان کی آسائش یقینا اہم رول ادا کرتی ہے مگر دل کا سکون اور ذہنی پریشانی سے فراغت بھی اچھی گزران کی علامت ہے۔ زیادہ پیسے کمانا اور اپنے کاروبار کو اپنی محنت سے پھیلانا نہ تو ناجائز ہے اور نہ شریعت میں اس کی ممانعت ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسی بات کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے کاروبار پر محنت کریں اور آپ کا کاروبار ترقی کرے اسی کے ساتھ آپ کی آسائشیں اور مراعات بڑھتی جائیں تو انتہائی جائز اور قابل تحسین ہوگا۔ خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ، اپنی ذات پر بھی خرچ کریں اور اپنی آمدن میں دوسروں کا بھی حصہ رکھیں اور ان پر اخراجات اس لیے کریں کہ اللہ راضی ہوگا تو آپ نے دنیا میں بھی عیاشی کی اور آخرت کی تمام عنایات آپ ہی کے لیے ہونگی۔ بقول قرآن مجید (لا نرید منکم جزا و لا شکورا ) کے مصداق آپ کی یہ دنیاوی عنایات آپ کے اُخروی بھلائی کا ذریعہ ہونگی۔

دعاکے یہ الفاظ یہی تعلیم دے رہے ہیں کہ قرض کے دبا ؤ سے بچو یعنی ایسا قرض نہ لو جس کی ادائیگی وعدہ کے مطابق نہ ہوسکے یا جو ہماری قوت اور استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ یعنی اگر قرض لینا انتہائی ناگزیر ہو جائے تو اس بات کا اندازہ کیا جائے کہ اپنی استطاعت کیا ہے ، اسی کے مطابق قرض لیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ آمدن تو صرف چند ہزار میں ہے مگر قرض لاکھوں میں چلا جائے۔ یہ نہ تو دانشمندی ہے اور نہ اس کو کسی قسم کی پلاننگ کا نام دے سکتے ہیں۔ایسی صورت میں لوگ قرض کی ادائیگی کرنے کی خاطر گائے کا سینگ بھینس میں اور بھینس کا سینگ گائے میںپھنسانے کی کوششوں میں اپنی صلاحیتیں صرف کر دیتے  ہیں اور قرض اکثر و بیشتر اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔قرض کا یہ دبا ؤ نہ صرف ذہنی پریشانی میں اضافہ کرے گا بلکہ صحت بھی تباہ کرکے رکھ دے گااور پھر قرض لے کر واپس نہ کرنے کی عادت پڑ گئی تو پھر تو خدا کی پناہ پتہ نہیں کیا ہوگا۔ قرض در قرض کے شیطانی اور سودی چکر میں پڑ گئے تو دنیا بھی گئی اور دین کا بھی خسارہ ہوا۔قرض کے اس دبا ؤ کا تعلق پھر انسان کے قہرو غضب سے بھی ہے۔ جس کا قرض ادا نہ کیا تو وہ تو یقینا اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق آپ کی زندگی کو اجیرن کردے گا۔ گویا قرض کا چکر دشمنیاں بھی پیدا کردے گا اور اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔آپ لوگوں سے چھپتے بھی پھریں گے ، جھوٹ بولنے کا گناہ بھی کریں گے اور اپنا چین و سکون بھی غارت کریں گے۔ تو کیا ایسی کسی صورت حال سے دوچار ہونے سے بہتر نہیں ہے کہ انسان قرض کے گورکھ دھندوں میں ہی نہ پڑے اور اپنی زندگی کو اپنی استطاعت اور آمدن کے بین بین رکھے۔ یہ دعا ہمیں اسی بات کی تعلیم دے رہی ہے۔ قربان جائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی عقل سمجھ اور دانش پر۔ آپ یقینا افضل البشر ہیں اور آپ کی عنایات اور کرم نوازیاں ہم پر ہمیشہ جاری و ساری ہیں ۔ یہ دعا اور اس جیسی دیگر ہزاروں دعائیں ہماری زندگی کی بھلائی اور ہماری اُخروی زندگی میں درجات کی بلندی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہم ان سب کو اپنا کر یہاں کی تنگی اختیار کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں تو آخرت ہمارے لیے آسان ہوجائیگی۔ ان شاء اللہ۔ آمین ثم آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے