اتوار، 23 جون، 2013

LGBT ایک گھناؤنی شیطانی کارروائی

جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013، شمارہ  12-13

LGBT 
ایک گھناؤنی شیطانی کارروائی

ابو عمار سلیم

آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو بلاشبہ تاریخ انسانی کے ادوار میں سب سے آخری دور ہے۔ ہمارے نبی اکرم سیّد المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے قرب قیامت کی جن نشانیوں کی اطلاع دی تھیں ان میں سے علماء کرام اور اصحاب علم کی اکثریت کی رائے کے مطابق تقریباً تمام نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں ما سوائے ان بڑی نشانیوں کے جو قیامت کے بالکل متصل ہیں۔ وہ لوگ جو علم آخر الزماں کے اوپر عبور رکھتے ہیں اور جنہوں نے قیامت کی پیش گوئیوں کی احادیث کے ساتھ ساتھ دنیاوی حالات اور ان کے بدلتے ہوئے رجحانات کا مطالعہ کیا ہے وہ اس رائے پر متحد ہیں کہ ہم ظہور دجال اور یاجوج ماجوج کے فتنوں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ اس کے بعد سیدنا حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تشریف آوری اور جناب مہدی علیہ السلام کا ظہور جیسے چند ایک واقعات کا رونما ہونا باقی رہ جائے گا اور پھر یہ دنیا اور کائنات لپیٹ دی جائے گی اور وہ حادثہ رونما ہوگا جس کے لیے انسان کو شروع دن سے تیار کیا جارہاہے مگر اس کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن ابلیس جس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر اس رب العزت کی عزت کی قسم کھا کر یہ اعلان کیاتھا کہ
“میں اس  انسان کے آگے سے ، اس کے پیچھے سے، اس کے دائیں سے ، اس کے بائیں سے آؤنگا  اور اسے گمراہ کروں گا اور ثابت کروں گا کے یہ اس حیثیت اور اس عہدہ کے قابل نہیں ہے جو تو اسے عطا کر رہا ہے ۔ اے اللہ تو ان میں سے بیشتر کو اپنا شکر گذار نہیں پائے گا۔”
PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine
اپنی اس قسم کو نبھانے کی خاطر اس نے کیا نہیں کیا۔ انسان کو کن کن سرکشیوں میں نہیں ڈالا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جو نازل ہی انسانیت کی بھلائی اور فائدے کے لیے ہوئے تھے ، اسی انسان کے ہاتھوں پامال کروایا۔ اللہ کے رسولوں کو انہی کی قوموں کے ہاتھوں قتل کروایا۔ معاشرہ میں ایسی برائیاں پیدا کردیں کہ پورا معاشرہ اس حد تک بدبودار ہوگیا کہ اللہ نے پوری کی پوری قوموں کو ایسا تہس نہس کیا کہ ان کا نا م و نشاں مٹا کر رکھ دیا۔ بڑے بڑے جبار اور سرکش لوگ ، اللہ اس کے رسولوں اور عوام الناس کے درمیان میں لا کر کھڑے کردئیے۔ رسولوں کی دعوت و تبلیغ کے کاموں میں رخنہ ڈالا اور لوگوں کو مختلف حیلہ بہانوں سے بہلا پھسلا کر راستہ سے بھٹکایا ۔انسان سب کچھ جانتے بوجھتے اور اللہ کے غیض و غضب کا علم رکھنے کے باوجود ، قوموں کی تباہی اور بربادی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی اس دشمن کے جال میں پھنستا رہا ہے ۔ الغرض دیکھا جائے تو انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ اللہ پاک کی مقدس کتابوں میں اور تمام انبیا علیھم السلام کی تعلیمات میں اس دشمن انسان کی کارروائیوں سے خبردار کردیا گیا ہے۔ مگر یہ دشمن بھی اس قدر چالاک اور ہوشیار ہے کہ انسان کو ہر مرتبہ درست راستہ سے پھسلا دیتا ہے۔ اور اس کی ترغیبات اور طریقہ کار اس قدر دل لبھانے والے ہیں کہ انسان بلا کھٹکے اور بغیر کسی خطرے کے ادراک کے اس میں جا پھنستا ہے اور اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے۔ شیطان کی پیش کردہ تاویلات اس قدر منطقی لگتی ہیں کہ ان کی موجودگی میں کسی گناہ کے ارتکاب کا احساس ہی نہیں ہوتا اور آخرت کا خیال تو ویسے بھی ذرا کم ہی آتا ہے۔
آج کا دور اگر تاریخ انسانی کے آخری دور سے متصل ہے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شیطان کے پاس اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے بہت تھوڑا وقت باقی رہ گیا ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ منطقی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ابلیس اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو انتہائی تیز رفتار ی سے بڑھائے گا اور انسان کو بھٹکانے کے لیے اس کی مساعی مزید پیچیدہ ، مزید گہری اور انتہائی طاقتور ہونگی۔ اپنے گرد و پیش نظر دوڑانے سے اس خیال کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ فی الحقیقت ایسا ہی ہے۔ اس لعین و مردود نے معاشرے میں جن برائیوں کو پھیلا دیا ہے اور جس تیزی سے لوگ ان برائیوں میں ملوث ہو رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ عنقریب وہ اپنا ترپ کا پتہ چلنے والا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کر رکھا ہے ، ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ بہت واضح اور سامنے کی برائی آج برائی نہیں لگتی ہے۔ خوبصورت اور دل نشیں انداز میں لپٹا ہوا ایک گناہ کا کام سامنے آتا ہے تو لوگ جوق در جوق اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ انہیں اس میں اپنا فائدہ تو نظر آتا ہے مگر اس کام کے اخلاقی بے راہ روی اور دینی بگاڑ کی طرف نظر نہیں جاتی ہے۔اگر شیطان کی ان ترغیبات کی فہرست تیار کریں تو یقیناً ایک طویل فہرست تیار ہوجائے گی۔ وہ اگلے وقتوں کی ایسی برائیوں کو جن پر ان برائیوں میں مبتلا لوگوں کو سزائیں ملیں اور شاید انسان نے کچھ عرصہ کے لیے انہیں چھوڑ بھی دیا ، اس لعین مردود نے ان برائیوں کو نئے سرے سے نئے انداز میں نئے لبادے اوڑھا کر بڑی شد و مد سے پیش کیا اور ان کو اس قدر جاذب نظر بنا دیا کہ انسان اس کو اپنانے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا ہے۔ان برائیوں میں سے سود کا تو ذکر ہی کیا ، یہ تو شیطان کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے جو انتہائی شدت سے انسان کے رگ و پے میں دوڑ رہا ہے اور جس سے بچنے کے لیے آج کوئی تیار نہیں ہے ، جوا یا قمار بازی کو اپنی مختلف شکلوں میں ایسی تیزی سے پھیلا دیا گیا ہے کہ اس کو لوگ جوا سمجھتے ہی نہیں۔ قرعہ اندازی سے چیزوں کا حصول ہو یا کسی کھیل کے میدان کی سٹہ بازی ہو ، گھڑ دوڑ میں رقمیں لگی ہوں یا اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار ہو ہر ایک عنصر آج کے دور کی ایک ضرورت بن گئی ہے۔ لوگ ان چیزوں کو اپنی ضروریات کے جلد اور آسان حصول کا ایک بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور جب ان کے فوائد گنتے ہیں تو ان سے منسلک برائیاں بڑی معمولی لگتی ہیں پھر لوگ عموماً اس بات کا تکیہ کر لیتے ہیں کہ ا للہ بہت غفور ہے بہت رحیم ہے وہ معاف کر دے گا۔بہ نظر غائردیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی تو دجال کی وہ جنت ہے جو دراصل اللہ کی جہنم کی آگ ہے۔ اسی سے تو دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان کے انکار سے جو تکلیف اور مشکلات ہونگی اور زندگی جس عذاب سے گزرے گی وہی دراصل دجال کی جہنم ہے جو حقیقتاً اللہ کی جنت ہے ۔ اکبر الہ آبادی مرحوم کو تو شکوہ تھا کہ عورتوں کا پردہ مردوں کی عقل پر پڑ گیا مگر آج کے دور میں مرحوم ہوتے تو دیکھتے کہ عقلوں پر پردہ عورتوں مردوں ، بوڑھوں جوان ، چھوٹے بڑے سب کے اوپر پڑا ہوا ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ہر طرف شیطان اور اس کے چیلے چانٹوں کا راج ہے۔ جو اللہ اور ر سول کی بات کرتا ہے وہ نکو بن جاتا ہے۔ دین کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ، نماز روزے ، حج اور عمرے بھی بہت ہورہے ہیں مگر ان کی حقیقت کیا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اوپر سے دعویٰ ہے کہ اللہ ہمیں عذاب دے کر کیا کرے گا۔ وہ تو اپنا کفر کرنے والوں کو پکڑے گا ہم بفضل بار ی تعالیٰ شرک تو نہیں کرتے۔ ہم تو اللہ کو ایک مانتے ہیں اور اس کی وحدانیت کے گواہ ہیں۔ حضرات جان لیجئے کہ اللہ کا کفر صرف اللہ کی ذات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے احکامات سے رو گردانی اور کسی بھی گناہ پر مداومت بھی کفر کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ اے کاش کہ ہم سمجھ لیں اور اللہ سے ڈریں ۔ توبہ کریں اپنی اصلاح کریں۔اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے دباؤ میں آکر اللہ کی نار اضگی نہ مول لیں۔
یہ بات تو برسبیل تذکرہ نکل آئی ۔ ہم تذکرہ کر رہے تھے شیطان کے مکر و فریب ، اس کے کید اور گناہ کی طرف دعوت کا ۔ آج کے جدید دور میں شیطان نے انسان کو بڑی شدت سے ایک ایسی برائی کی طرف مائل کردیا ہے کہ جس کے ازالے کے لیے پہلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک جلیل القدر رسول کو بھیجا اورپھر اس قوم کو ایسی سزا سے دوچار کردیا کہ آج تین ساڑھے تین ہزار سال کے بعد جب ان کے کھنڈرات مل رہے ہیں تو ان باقیات سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ سزا کس قدر شدید تھی۔ میرا اشارہ سدوم کے شہر اور ان کے باسیوں کی طرف ہے۔ ان کی طرف سیدنا حضرت لوط علیہ السلام کو بھیجا گیا تھا کہ ان لوگوں کو ہم جنس پرستی سے روکا جائے۔ مگر قرآن گواہی دے رہا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے ان عظیم الشان پیغمبر کو کس طرح تکلیفیں دیں اور کس طرح ضیق میں گرفتار کیے رکھا۔ بالآخر اللہ کے غیض و غضب نے ان کو آ پکڑا کہ راتوں رات ان کی بستی ایسی تباہ ہوئی کہ جو بیٹھا تھا وہ بیٹھا رہا ، جو لیٹا تھا وہ لیٹا رہا۔ کسی کوبھاگنے کی اور جان بچانے کی کوشش کرنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ پوری کی پوری بستی ماسوائے ایمان والوں کے ڈھیر ہوگئی۔ اس شدید سزا کے بعد تو حضرت انسان کو عقل آجانی چاہئیے تھی۔ بنی آدم کچھ عرصہ کے لیے اس قبیح حرکت سے شاید باز بھی آگئے ہونگے مگر شیطان مردود جو ہمارا ازلی دشمن بھی ہے اور انتہائی مکار اور چالاک بھی ہے، اس نے اس سزا سے ایک اور نتیجہ نکالا کہ اللہ تعالی کو یہ فعل بد اس قدر ناگوار ہے کہ ایسی سخت سزا اس نے انسان کو دے دی، تو یہ فعل قبیح انسان میں پھر سے جاری کردے تاکہ انسان پھر سے ایسی سزا کا دنیا میں بھی سزاوار ہو اور آخرت تو خیر ہے ہی حساب کتاب کے لیے۔ میری بات کا آپ کو یقین نہیں آرہا ہے تو آج کے حالات حاضرہ کی خبریں پڑھ لیں اور دیکھ لیں کہ دنیا میں اس حوالے سے کیا ہورہا ہے۔ Homosexuality  اس وقت پوری دنیا کا سب سے بڑا فیشن بن گیا ہے۔ مردوں کا مردوں کے ساتھ جنسی ملاپ ، عورتوں کی عورتوں کے ساتھ جنسی کارروائی اب نہ تو شرم کی بات ہے اور نہ چھپانے کی کوئی چیز۔ آج شیطان نے انسان کو یہ سکھایا ہے کہ یہ تو تمہارا حق ہے کہ اپنے جسم کو جس طرح سے چاہو استعمال کرو۔ اگر اپنی دانشمندی ، اپنا علم اور اپنی محنت دوسروں کو ان کے فائدے کے لیے دیا جاسکتا ہے یا اس کے ذریعہ سے مالی منفعت حاصل کی جاسکتی ہے تو اپنے جسم کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے پر پابندی کیوں ہو۔اپنی شخصی آزادی کو استعمال کرو اور جس کے ساتھ چاہو زندگی گزارو۔ کسی کو اس کا اختیار نہیں ہے کہ تمہیں اس سے روکے اور جناب حضرت انسان نے انتہائی فرمانبرداری سے اس کی اطاعت میں اپنا فائدہ دیکھا اور آنکھ بند کر کے اس کے پیچھے چل پڑے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہم جنس پرستی انسانی معاشرہ میں شیطان کی مہربانیوں سے ہر دور میں موجود رہی ہے۔ لوگوں کا اپنی ہی جنس کی طرف رجحان مختلف شکلوں میں رہاہے۔ چین سے لے کر شمالی امریکہ تک ، افریقہ سے لے کر اسکینڈینیویا کے ممالک تک، مشرق سے مغرب اور شمالاً جنوباً ہر علاقے میں یہ برائی موجود رہی ہے۔ کہیں کم کہیں زیادہ ۔ کہیں چھپ چھپا کر اور کہیں بر ملا۔پرانے دور کی تہذیبوں کے آثار اور ان کی تصاویر اور برتنوں پر کیے ہوئے کاموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کارروائیاں ڈھکے چھپے انداز میں مختلف انسانی تہذیبوں میں موجود رہی ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ فعل بد ایک معاشرتی برائی ہی سمجھا گیا اور اس کو ڈھکے چھپے انداز میں لوگوں کی نظروں سے چھپا کر اختیار کیا گیا۔ بہت ہی پرانے دور کی یونانی شاعرہ سیفو Sapho نے جو لیسبوس Lesbos کی رہنے والی تھی نہ صرف یہ کہ اپنی شاعری کے ذریعے سے بلکہ اپنے حلقہ اثر کے ذریعے سے بھی عورتوں میں ہم جنس پرستی کو بڑی شد و مد سے رواج دیا اور اسی تحریک نے آج Lesbianism  کے گناہ کو عورتوں میں مقبول بنا رکھا ہے۔ بہت ساری تہذیبوں میں نو عمر لڑکوں کو اپنی خدمت کے لیے رکھنا ، خصوصی محفلوں میں ان کا ناچ گانا دیکھنا اور سننا انہیں بری عادتوں کی تسکین کا ذریعہ تھا۔ آج بھی میکسیکو ، اسپین جنوبی امریکہ اور افریقہ کے بعض علاقوں میں اس کام کو معززین کی سماجی بڑائی کی نشاندہی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ وہ کام جو پہلے برا سمجھا جاتا تھا آج کھلے عام ہورہا ہے۔ موجودہ دور میں ابلیس لعین و مردود نے ان فعل بد کے اختیار کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا ہے۔ ان کو ایک تنظیم میں ڈھال لیا ہے اور وہ آج ببانگ دہل اس بات کا اقرار کر رہے ہیں اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم GAY ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تنظیم بھی بنا لی ہے اور وہ تنظیم LGBT کہلاتی ہے جو کہ مخفف ہے ، Lesbians , Gays , Bisexuals, Transgender کا ۔ پوری دنیا میں اس کا شور و غلغلہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بڑا ظلم ہورہا ہے اور معاشرہ ان کو ان کا جائز مقام نہیں دے رہا۔ انہیں برا کیوں سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک انسان کی جسمانی ضرورت ہے اور اس کو اس بات کا اختیار ہونا چاہئیے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس کو اپنی زندگی کس طرح اور کس کے ساتھ گزارنی ہے۔ ان کی اسی کارروئیوں نے ان کے بہت سے مداح بھی پیدا کردیئے اور ان کے حق میں بولنے والے ان کا ساتھ دینے والے بھی پیدا ہوگئے۔ ان کے لیے ملکی قوانین میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور ان کے لیے الگ سے عائلی قوانین جیسی چیز کا اجراء کیا جارہا ہے۔ تاکہ معاشرہ کے ان مجرموں کو معاشرہ میں ایک باعزت مقام دلایا جائے۔ دیکھیے کہ ابلیس مردود نے کس خوبصورتی سے ایک ایسے فعل بعد کو جسے انسان اگر کرتا تھا تو شرماتا تھا آج ایسی جگہ پہنچا دیا ہے کہ یہی فعل شنیع عزت اور وقار کا ذریعہ بن گیا۔LGBT کے لیے مغرب میں نہ صرف یہ کہ ہمدردی کے جذبات امنڈ پڑے ہیں بلکہ معاشرے میں انہیں ان کا مقام دلانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ اور تو اور جناب عزت مآب پوپ صاحب نے بھی ان کے حق میں بیان دے دیا۔ دنیا کے صدور اور وزرائے اعظم بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ دنیا کی مختلف اسمبلیوں میں قراردادیں پاس ہوئیں اور قوانین میں ترامیم کی گئیں کہ ان کو معاشرے میں باعزت مقام ملنا چاہئے۔ ہزاروں کی تعداد میں اسکول اور کالج جانے والے بچوں نے اپنے گھر والوں کے سامنے یہ اعلان کردیا کہ وہ Gay ہیں۔ قانون نے فٹا فٹ ان کے گرد حفاظتی دیواریں کھینچ دیں کہ کوئی ان بچوں کے ساتھ تشدد اور زبردستی نہیں کرسکتا۔ امریکہ بہادر کی فوج نے اب سے قبل ایسے لوگوں کو کبھی پسند نہیں کیا تھا مگر آج یہ اعلان کردیا کہ ہم نہ کسی سے اس سلسلہ میں کچھ پوچھتے ہیں اور نہ کسی کو کچھ بتاتے ہیں یعنی Dont ask dont tell  کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔اور تو اور برطانیہ کی پارلیمان میں جس میں مسلمان ممبروں کی بھی ایک اچھی تعداد موجود ہے نے اعلان کردیا کہ ہمیں بھی ان لوگوں کا بطور میاں بیوی کے رہنا برا نہیں لگ رہا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مسلمان اپنے کلام ربانی کے احکامات کے خلاف بیان دے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔مغربی معاشرہ جس میں اس قسم کی جنسی ملاپ رکھنے پر پابندی تھی اور اس کی سزا موت تھی جو یا تو سولی پر چڑھا کر دی جاتی تھی یا پھر آگ میں ڈال کر۔ آج وہی معاشرہ ان مجرموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ان کو مراعا ت دے رہا ہے اور ان کو اپنا جگر گوشہ جان کر اپنے سے الگ کرنے کو تیار نہیں۔ عیسائی دنیا نے عورتوں کی عورتوں سے اور مردوں کی مردوں سے شادی کو قبول کرلیا ہے اور یہ شادیاں چرچوں میں اپنے پورے روایتی رسومات کے ساتھ بڑے دھوم دھڑکے سے کی جارہی ہیں۔ اور تو اور ان ہم جنس جوڑوں کو بچے لے کر پالنے کی اور میڈیکل دنیا کی ترقیاتی شکل کو استعمال کرکے پیدائشی عمل کو اختیار کرنے کی گنجائش بھی نکال لی گئی ہے۔ حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا پورے معاشرے کی طرف سے انہیں مکمل تحفظ حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ ان کو مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ اس معاشرے میں بھی انجیل اور تورات کے ماننے والا ایک بہت بڑا طبقہ اس گناہ کے کام کو برا سمجھتا ہے اور اس کو کسی قسم کی پذیرائی دینے کو تیار نہیں ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اس برائی کے آگے بند باندھنے سے عاجز ہیں۔ ایران کے صدر نے بڑے وثوق کے ساتھ اپنے دورہ امریکہ میں یہ اعلان کیا کہ ایران میں کوئی Gay نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اعلان درست ہو۔ ایران ، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے علاوہ بہت سے مغربی ممالک میں بھی ایسے لوگوں کے لیے سزائے موت کا قانون موجود ہے مگر شاید اس کا اطلاق کبھی نہیں ہوا۔ پتہ نہیں مستقبل میں کوئی پکڑا جائے تو اس قانونی شق کا اطلاق ہوگا یا نہیں۔
بد قسمتی سے نوبت بایں جا رسید کہ مغربی مسلم معاشرے میں ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیاں تک ہوئیں اور نہ معلوم کس قماش کے علماء نے ان کے باقاعدہ نکاح تک پڑھائے ۔ اب خبر ملی ہے کہ ایسی کوششیں کی جارہی ہیں کہ ان ہم جنس پرستوں کے لیے الگ مساجد کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کا اس سے بڑھ کر مضحکہ اور کیا ہوگا ؟
مجھے یقین ہے کہ میرے قاری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ گناہ کا یہ کام جو اللہ کے نزدیک انتہائی برا ہے آج اپنی پوری شدت سے معاشرہ میں گھستا چلا جارہاہے۔ شیطان کے پجاری اور اس کے چیلے اسے بڑی ہوا دے رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ پورے کے پورے انسانی اقدار اور تہذیب کو چاٹ جائے اور اس فعل بد کو چھوٹے اور بڑے سب قبول کرلیں اور مرد میاں بیوی کا جوڑا یا عورت میاں بیوی کا جوڑا دیکھنے میں کوئی بری بات نہ لگے۔ وہ معاشرہ جہاں بچوں کے اندراج کے لیے باپ کے نام کا ہونا ضروری نہیں سمجھا جا رہا ہے یا بغیر شادی کے عورت مرد کا برسہا برس تک ایک ساتھ رہنا اور بچے پیدا کرنا معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے وہاں عین ممکن ہے کہ آج سے چند برسوں کے بعد یہ بھی ایک معمولی بات ہو جائے گی ۔ برائی جب معاشرے میں ہر جگہ پھیل جاتی ہے تو پھر وہ برائی نہیں لگتی۔ آپ اپنے معاشرہ پر ہی نظر ڈال لیں۔ آج ہمارا جو معاشرتی چال چلن ہے وہ کیا آج سے دو سو برس پہلے کے گزر جانے والے بزرگوں کو قابل قبول ہوتا۔ میرے اور آپ کے پانچ پیڑھی قبل کے بزرگ آج اگر اس معاشرہ میں اچانک آجائیں تو کیا دیکھیں گے ؟ بغیر پردے کی خواتین ، اس سے بڑھ کر بے دوپٹے کی دوشیزائیں جو بے حیائی اور فحاشی کی حد تک جسم کی زیبائش کر رہی ہوں، اور اس سے بھی آگے جاکر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے لڑکے اور لڑکیوں کے غول کے غول ، غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث مرد و حضرات۔ بغیر ٹوپی پہنے نوجوانان، گالم گلوچ کرتے ہوئے آوارہ لڑکے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا دیکھیں گے۔ کیا یہ سب کچھ اس دور میں ہوتا تھا۔ غور کریں اور دیکھیں کہ آپ کے بچپن میں معاشرہ جن اقدار کو لے کر چل رہا تھا کیا آج بھی ان اقدار کی کوئی اہمیت ہے؟۔ بات ایک دفع بگڑتی ہے تو بس بگڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ جس برائی کے آگے شروع میں ہی بند نہ باندھے جائیں وہ ایک سیل رواں کی طرح ہر ایک چیز کو بہا کر لے جاتی ہے۔ جو بچی کھچی چھوٹی موٹی قدریں ہمارے پاس ہیں خدارا ان کی قدر کیجئے اور بگاڑ کو روکنے کی کوشش کیجئے۔ آج ہم اس قدر بے بس ہیں کہ ہر برائی کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اس کو دل سے برا جانتے ہیں خواہ یہ ایمان کا کمتر ترین حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ شروع میں ہی ہتھیار ڈال دیئے جاتے ہیں۔ برائی کو رکاوٹ نہیں ملتی ہے تو وہ پھلتی پھولتی اور لوگوں کی زندگیوں میں در آتی ہے۔ کیا عجب کہ پیس ٹی وی کے جناب عبدالرحیم گرین کے الفاظ میں:” ہمارے بچپن میں برطانیہ میں ہم جنس پرستی گناہ کا کام سمجھا جاتا تھا ، جب ہم جوان ہوئے تو یہ معاشرے میں قابل قبول ہوگیا اور کیا پتہ کہ ہمارے بڑھاپے تک پہنچتے پہنچتے یہ کام نہ کرنے والا قابل سزا سمجھا جانے لگے۔” ہر برائی اسی طرح پھیلتی ہے اور اگر اس خباثت کو ہم نے نہیں روکا تو خدا نخواستہ ہمارا معاشرہ جو بڑی حد تک اس سے محفوظ ہے اس کے پنجوں میں آجائے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اس برائی کے ساتھ ساتھ دیگر گناہ کے کاموں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے کی توفیق عطا کریں۔ ہمارے علماء اور امت کے سر بر آوردہ لوگوں کو اتنی طاقت اور عملی جد وجہد کرنے کی صلاحیت مل جائے کہ وہ امت کو اس برائی کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرلیں اور ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہو جائے تاکہ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ ان شاء اللہ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے