اتوار، 30 جون، 2013

سیّد ابو تراب رشد اللہ راشدی سندھی۔ حیات و خدمات

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

سیّد ابو تراب رشد اللہ راشدی سندھی۔ حیات  و  خدمات

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اقلیم سندھ کے سادات کی ایک شاخ خانوادہ راشدی اپنی دینی خدمات ،علمی عظمت ، روحانی بر کات اور مجاہدانہ قربانیوں کے اعتبار سے ممتاز اقران وامثل رہا ہے ۔اس خانوادہ علم و فضل میں ہر دور میں کبار اصحاب رشد و ہدایت و حاملین علم و فضیلت گزرے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی علم پروری سے دین و علم کی بہتیری خدمات انجام دیں ۔
خانوادہ راشدی کے موسس اعلیٰ حضرت پیر محمد راشد شاہ المعروف بہ روضہ دھنی (1170ھ / 1757ء- 1223ھ / 1818ء) کا سلسلہ نسب حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے جا ملتا ہے ۔ پیر محمد راشد شاہ کے چار صاحبزادے تھے ۔ اوّل الذکر پیر سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا مشہور بہ تجر د دھنی (1183ھ / 1779ء - 1246ھ/ 1831ء) نہ صرف صاحب علم و فضل تھے بلکہ مجاہدانہ عادات و خصائل کے مالک بھی تھے ۔ سید احمد شہید رائے بریلوی کے ہم مسلک و رفیق خاص تھے ۔ان کی تحریک جہاد کے ایک اہم رکن اور" حروں" کے روحانی پیشوا تھے ، بلاشبہ ان کے لاکھوں مرید تھے ، جو ان پر اپنی جان نچھاور کر نے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔

PDF download link @ Al Waqia Magzine
سید حمید الدین ممدوح گرامی کے متعلق لکھتے ہیں :
“ باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک میں اس جیسا شیخ و مرید کو ئی نہیں ۔قریباً تین لاکھ بلوچ مرید ہیں ۔ رجوع خلق عام ہے۔ جاہ و جلال میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو دو کرم اور اخلاص و مروت میں بھی شہرہ آفاق ہیں ۔” (سید احمد شہید :290)
پیر صبغت اللہ اپنے والد گرامی کے بعد دستار وراثت روحانی کے مستحق قرار پائے ، اسی وجہ سے وہ پیر پگاڑو ، کے لقب سے معروف ہو ئے ۔ پیر صبغت اللہ نے اپنے بھائی پیر محمد یٰسین شاہ پیر جھنڈو اول کو اپنے والد کی وصیت کے مطابق جھنڈا دیا جو شاہ افغانستان تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے سندھ میں اشاعت دین اسلام کی خاطر پیر محمد راشد شاہ کی خدمت میں ازراہ عقیدت پیش کیا تھا۔ پیر محمد یٰسین جھنڈا لے کر دوسری جگہ چلے گئے اور پیر جھنڈا کے تلقب سے زبان زد خواص و عوام ہوئے ۔ سیّد محمد یٰسین شاہ سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے از حدشائق و حریص تھے ۔ ان کے ملفوظات میں بصراحت موجود ہے :
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی سنت کے علاوہ کسی طریقے سے نجات حاصل نہیں ہوگی ۔ “ ( بحوالہ خطبات راشدیہ : 292)
ان کے بعد ان کے صاحبزادے پیر فضل اللہ شاہ سجادہ نشیں ہو ئے ، ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی پیر سید رشید الدین شاہ 1287ھ میں “صاحب العلم الثالث" بنے ۔ پیر رشید الدین صاحب علم و فضیلت اور حامل زہد و تقویٰ تھے ۔ پیر رشید الدین کے پر پو تے علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رقمطراز ہیں :
“ ہمارے پر دادا جناب داعی الی اللہ ، المجاہد فی سبیل اللہ ، حامی السنة ، ماحی البدعة ، جامع العلوم ، صاحب فیوض و کمالات ، مجسمہ سنت ، پیکر اخلاق ، السید رشید الدین شاہ بن السید محمد یٰسین شاہ بن السید محمد راشدشاہ راشدی المتوفی 1317ھ نے اپنی پوری عمر دین کی خدمت اور دعوت الی الحق میں صرف کر دی ۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جماعت تیار کی اور ان سے بیعت لی ، آپ نے سندھی زبان میں رسالہ بنام “تو حید نامہ “ لکھا ، جس میں آیات و احادیث کا دریا بہا دیا ہے جس سے سندھ کے گوشے گو شے میں تو حید پھیلنے لگی ، کئی پجاریوں اور بدعتیوں نے توبہ کی اور آپ کے حلقہ اہل توحید میں داخل ہو ئے نیز آپ نے اسماء اللہ الحسنیٰ کا سندھی زبان میں تر جمہ کیا ۔علامہ شیخ فتح محمد نظامانی نے تفسیر مفتاح رشد اللہ کے مقدمہ میں آپ کو مجدد القرآن الرابع شمار کیا ہے ۔”(عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات :105-104) 
پیر رشید الدین شاہ نے 1317ھ میں داعیِ اجل لبیک کہا ۔ ان کے بعد ان کے عالی قدر صاحبزادے سیّد ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی سندھی ان کی مسندِ علم و فضیلت کے وارث ہوئے اور “ صاحبِ العلم الرابع “ بنے (1) ۔ سطورِ ذیل میں انہیں کے خدمات گوناگوں اور اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنا مقصود ہے ۔
سید ابو تراب رشد اللہ جن کا ذکر خیر کرتے ہوئے ممدوح کے حفیدِ سعید عالم جلیل القدر علامہ سید بدیع الدین شاہ الرشدی کا قلم معجز رقم یوں انشاء پر داز ہو ا :
“ جد امجد ،عالم ربانی ، محدث حقانی ، حامی الشرعیہ ، قامع البد عة ،مرجع العلماء ،زین الکملاء ، ابو تراب السید رشد اللہ الراشدی المتوفی 1340ھ ۔” (عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات : 105) 
اور مخدوم محمد عثمان نورنگ زادہ نے مقدمہ "تفسیر تنویر الایمان" میں بایں الفاظ تعارف کروایا :
“ فاضل اجل بے عدیل، مفسر آیات قرآنی، محدث لاثانی ،فقیہ ربانی ،مجمع اشتات علوم نقیلہ منبع فہوم عقیلہ وارث علوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم آیت من آیات اللہ ، داعی الخلق الی اللہ ۔” (عقیدہ توحید اور علمائے سلف کی خدمات : 105) 
سید ابو تراب رشد اللہ شاہ کی ولادت 1277ھ / 1860ء (2) کو اپنے آبائی گائوں "پیر جھنڈو “ میں ہو ئی ۔ زہد و اتقا کے ماحول میں پرورش ہو ئی اور علم پروری کے سائے میں پروان چڑھے ۔ابتدائی تعلیم قاضی عبدالغنی کھڈ ہری ، قاضی فتح محمد نظاماتی قیصرانی وغیر ہما سے حاصل کی ۔ حدیث کی تعلیم شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی  اور شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے حاصل کی ۔
ڈاکٹر غلام مصطفےٰ قاسمی کی روایت کے مطابق سید ابو تراب رشد اللہ کے لائق احترام اساتذہ میں مولانا عبید اللہ سندھی  بھی شامل ہیں ،چناچہ وہ لکھتے ہیں :
“ و سمعت من صاحب الفضیلة مولانا السید وھب اللّٰہ صاحب العلم : ان جدہ المحدث ابا تراب و ان کان وحیداً فی العلوم النقلیة و لکنہ قرأ علی العلامة ( عبید اللّٰہ ) السندی سلّم العلوم فی المنطق ۔ و سمعت من شیخی العلامة الکورائی السندی انی قرأ ایضاً علی العلامة المولف ( عبید اللّٰہ السندی ) شیئاً من ترجمة القرآن و غیرھما ۔ “(التمھید لتعریف ائمة التجدید : ج )
اس تحریر سے پتا چلتا ہے کہ سید ابوتراب رشد اللہ سندھی نے مو لانا عبید اللہ سندھی سے قاضی محب اللہ بہاری کی مشہور زمانہ کتاب “ سلم العلوم “ ترجمہ “قرآن پاک “ اور اس کے علاوہ بھی کچھ کتابیں پڑھیں تھیں ۔
اسی طرح ڈاکٹر سید صالح محمد شاہ بخاری نے اپنی مرتبہ کتاب “ کلام رشد اللہ “ میں مولانا عبید اللہ سندھی کو علم حدیث میں سید ابو تراب رشد اللہ کا استاذ لکھا ہے ۔ (کلام رشد اللہ : 11)
یہاں یہ ذکر بے محل نہیں کہ مو لانا سندھی نے متعدد تحریروں میں جہاں بھی سید ابوتراب رشد اللہ کا ذکر خیر کیا وہاں ان کا ذکر بحیثیت تلمیذ رشید نہیں کیا ، و نیز سید ابو تراب مو لانا سندھی سے عمر میں تقریباً 12 برس بڑے بھی تھے ۔و اللّٰہ اعلم بحقیقتہ
بقول ڈاکٹر ابو سلما ن شاہجہاں پوری مو لانا عبید اللہ سندھی نے بھی سید ابو تراب رشد اللہ سندھی سے علمی استفادہ کیا تھا ۔ بایں ہمہ دونوں بزرگوں کے در میان جو تعلق تھا وہ ہمارے عام نظام تعلیم کے مطابق استادی وشاگردی کا نہیں تھا ، تاہم دو نوں بزرگوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ۔جہاں تک ڈاکٹر صالح محمد بخاری کی تحریر کا تعلق ہے تو وہ ہمارے خیال سے محلِ نظر ہے ۔
سیّد ابو تراب کو اپنے عہد کے دو جلیل القدر محدثین سیّد نذیر حسین دہلوی اور شیخ حسین محدث یمانی سے اجازئہ حدیث حاصل تھا ۔ یہ دونوں ہی محدثینِ کرام مولانا عبید اللہ سندھی کے بھی استاذِ حدیث تھے ۔ ان دونوں کی موجودگی میں مولانا عبید اللہ سے اخذِ حدیث کی وجہ ناقابلِ فہم ہے ۔ مزید براں یہ کہ مولانا عبید اللہ سندھی کو علم حدیث میں کوئی امتیازی مقام بھی حاصل نہیں ۔
مو لانا عبید اللہ سندھی کی زندگی کا بیشتر حصہ غریب الوطنی میں گزرا، تاہم ان کی زندگی کے وہ ایام جو اطمینان و سکون کے ساتھ بسر ہو ئے ان کا غالب حصہ پیر جھنڈا ہی میں گزرا ہے ۔
سید رشد اللہ شاہ کو سندھ میں علمی پسماندگی کا بڑا احساس تھا ، اسی لیے جب مو لانا عبید اللہ سندھی نے مدرسہ دارالرشاد ، کی تجویز پیش کی تو شاہ صاحب فوراً تیار ہو گئے ۔ چنانچہ 1319 ھ / 1901ء میں ، مدرسہ دارالرشاد نے اپنی عملی مساعی کا آغاز کیا ۔ چنا نچہ اسی طرف اشارہ کرتے ہو ئے مو لانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں :
“ اسست “ دار الرشاد “ فی “ بیر جندا “ قریباً من حیدر آباد السندیة بمشارکة السید الامام ابی تراب رشد اللّٰہ ابن شیخنا الامام رشید الدین ۔ “ (التمھید لتعریف ائمة التجدید : 23 )
مدرسہ قائم کرنے کے لیے تمام تر سر مایا سید رشد اللہ شاہ نے فراہم کیا اور اس کے تمام اخراجات کے کفیل وہی تھے ۔سات برس تک مو لانا عبید اللہ سندھی کامل اختیارات کے ساتھ علمی اور انتظامی امور کے سر براہ رہے ۔یہ مدرسہ جلد ہی کامیابی کے منازل طے کرنے لگا ۔ یہاں بلند پایہ ارباب علم تدریس کی زمہ داریاں نبھاتے اور مدرسے کے معائنے اور امتحان کے لیے رفیع المرتبت علماء کو مدعوکیا جاتا جن علمائے اعلام نے مدرسے کو اپنی شرف آوری کی عزت بخشی ان میں حسبِ ذیل کے اسمائے گرامی شامل ہیں :
1۔ علامہ شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری
2۔ مولانا محمود الحسن دیو بندی
3۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری
4۔ مولانا اشرف علی تھانوی
5۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد وائس چانسلر “علی گڑھ یو نی ورسٹی” علی گڑھ
6۔ مولانا حافظ محمد احمد صاحب مہتمم “ دار العلوم “ دیوبند
7۔ مولانا غلام محمد صاحب مدرس “ مدرسہ نعمانیہ “ لاہور
8۔ مولانا محمد میاں صاحب ناظم “ جمعیت علمائے ہند “
“مدرسہ دارالرشاد“ کی بدولت اقلیم سندھ میں شمع علم فروزاں ہو ئی ۔جس کی کرنوں نے چار دانگ عالم کو منور کیا ۔ اس کے خوش نصیب طلبائے کرام نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد خود مسند علم و فضیلت آراستہ کی ۔ بایں طور مدرسے کا حلقہ فیض و افادہ وسیع تر ہو ا ۔ حتیٰ کہ اسے “ ام المدارس “ کہا جانے لگا ۔ مدرسہ دارالرشاد سے جو فضلاء ، فارغ التحصیل ہو کر مسند علم و فضیلت کے وارث ہو ئے ان میں مفسر قرآن مو لا نا احمد علی لاہوری ، مو لانا امید علی سندھی ، پیر سید احسان اللہ شاہ راشدی ، سید ضیاء الدین صاحب العلم ،مو لانا سید عبداللہ سر بازی ، مولانا عبداللہ لغاری سندھی ، مولانا محمد اکرم ہالائی ، مفتی عبدالقادر سندھی وغیرہم شامل ہیں ۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے ایک انجمن بنام “انجمن سوادِ اعظم “ قائم کی تھی ۔ اس انجمن کا مقصد سندھ کے علماء میں فکری اشتراک پیدا کرنا تھا ۔ نیز مسلمانوں کے جملہ مسائل کے حل کے لیے یک جہتی شرعی حل پیش کرنا تھا ۔ چنانچہ اس انجمن کے تحت مشترکہ فتاوے جاری کیے جاتے تھے ۔ اندرونِ سندھ اس کا سب سے بڑا مرکز پیر جھنڈا تھا جبکہ کراچی کا قدیم مدرسہ واقع کھڈہ مارکیٹ بھی اس کا مرکزی ادارہ تھا ۔ مولانا ابو تراب رشد اللہ اس انجمن کے اہم ترین رکن تھے ۔
سید ابو تراب رشد اللہ بڑے صاحب عزیمت بزرگ تھے ۔ تحریک خلافت کے زمانے میں انہوں نے تحریک کی کامیابی کے لیے بڑی سر گرمی سے حصہ لیا ۔حکومت وقت کی جانب سے آپ کو اس راہ سے منحرف کر نے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ۔ لیکن آپ کے پایے استقامت میں جنبش تک نہ ہوئی حتیٰ کہ آپ کو پابند سلاسل بھی کیا گیا ۔ فروری 1920ء میں لاڑکانہ میں “خلافت کانفرنس “ کا انعقاد ہو١۔ جس میں حضرت مو لانا ابو الکلام آزاد ، مو لانا عبدالباری فرنگی محلی ، شوکت علی وغیرہم جیسے زعماء شریک ہوئے ۔ اس کانفرنس کی صدارت پیر رشد اللہ نے کی اور صدارتی خطاب بھی کیا ، یہ صدارتی خطاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تحریک خلافت میں سر گرمی سے حصہ لینے کی وجہ آپ کو پیر صاحب خلافت والے کہا جانے لگا ۔
پیر سید رشد اللہ مجاہد آزادی تھے ۔ ان کا مسلک و مشرب کتاب و سنت تھا مگر اپنے نقطۂ نظر کے مخالفین کا بھی وہ بے حد احترام کرتے تھے ۔ان کے طرزِ عمل میں جمود و عصبیت کی جگہ توسع و اخلاق تھا ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری لکھتے ہیں :
“ حضرت پیر صاحب العلم الرابع اور ان کے اخلاف کے دیوبندی بزرگوں سے تعلقات بہت اچھے رہے ، ریشمی رومال سازد کیس میں ان کے رابطے کا بہ ایں الفاظ ذکر آیا ہے “ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ پیر رشد اللہ کا رابطہ دیوبند کے سازشیوں سے بھی تھا “ اس کے علاوہ ان کا وہابی ہونا بھی بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن وہ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم سے عقیدت اور راست کتاب و سنت سے تمسک پر فخر کرنے والے بزرگوں کا خانوادئہ علمی و دینی تھا ۔ حنفی دیوبندی اسکول سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔“ (مولانا عبید اللہ سندھی : 64)
خانوادہ راشدی کی وہ اہم خصوصیت جس نے اس خانوادہ عالی مرتبت کو سندھ کے دیگر خانوادوں سے ممتاز کیا ان کا بیش قیمت خزینہ علم و حکمت یعنی کتب خانہ ہے ۔اس خاندان میں کتابیں جمع کرنے کی ابتداء سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید سے ہوئی جو خاندان راشدی کے موسس اعلیٰ پیر محمد راشد شاہ کے والد گرامی تھے ۔ موصوف نے مختلف جگہوں سے کمیاب و نادر مخطوطات کو حاصل کر کے اپنے کتب خانے کی زینت بنا یا ۔ذخیرہ کتب کا از حد شو ق تھا اور اس کی تکمیل کے لیے آئے دن مختلف مقا ما ت کا دورہ کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ کتابیں باندھ کر کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکوئوں نے کتابوں کے اس گٹھے کو مال سمجھ کر لو ٹ لیا اور آپ کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا ۔ سید بقا شاہ لکیاری کی شہادت کے بعد یہ کتب علمیہ کا مختصر خزینہ سید محمد راشد شاہ کی تحویل میں آیا ۔ان کے دور میں کوئی خاص اضافہ تو نہ ہوا لیکن انہوں نے کتابوں کو بڑی حفاظت سے رکھا ۔ پیر راشد شاہ کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا ۔ایک حصہ پیر پگاڑا اوّل سید صبغت اللہ شاہ راشدی کی ملکیت میں آیا اور دوسرا حصہ صاحب العلم الاوّل پیر محمد یسٰین شاہ کے زیر تحویل آیا ۔ان دونوں ہی بھائیوں نے کتب خانے کی خوب حفاظت کی اور اس کے خزینوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔
پیر محمد ےٰسین شاہ سے یہ کتب خانہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا صاحب العلم الرابع سید ابو تراب رشد اللہ شاہ کی تحویل میں آیا ۔ سید رشد اللہ کا دور کتب خانے کی تاریخ کا زریں دور تھا ۔ ممدوح نے نہ صرف کتابوں کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے ضروری انتظامات کیے بلکہ اس میں اضافے کے لیے بھی اپنے تمام تر ذرائع استعمال کیے ۔ فراہمی کتب کے سلسلے میں تجار کتب سے آپ کا خصوصی رابطہ رہا کرتا تھا ۔ جن میں مولانا زین العابدین آروی (3)،  شیخ شرف الدین یحییٰ کتبی، مو لانا غلام رسول سورتی وغیرہم بالخصوص لائق تذکرہ ہیں ۔
سید رشد اللہ نے حصول کتب کے لیے زر کثیر خرچ کیا ۔ اکثر نوادرات مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، مصر ، شام ، استنبول ، بغداد، دمشق اور اندرون ہند مختلف بلاد و اماکن سے قیمتاً حاصل کیے یا پھر ان کی کتابت کروائی ۔1322ھ میں حج بیت اللہ کی ادائیگی کی غرض سے حرمین شریفین تشریف لے گئے اس سفر شوق میں قاضی فتح محمد نظامانی اور مولوی عنایت اللہ بھی شریک تھے ، جن کا کام مکہ مکر مہ و مدینہ منورہ کے کتب خانوں میں نوادرات کی تلاش تھا ۔
مولوی عنایت اللہ بیان کرتے ہیں کہ قیام مکہ معظمہ کے دوران کسی مکتبے میں امام محمد بن علی شوکانی رحمة اللہ علیہ کی “ ارشادالفحول “ کا قلمی نسخہ ہماری نظر سے گزرا ۔ مالک مکتبہ سے قیمت دریافت کی گئی تو اس نے دوسو روپے بتائی ۔ شاہ صاحب کو جب علم ہو ا تو انہوں نے ہر قیمت پر اسے خریدنے کا حکم دیا ، بالآخر اسے دو سو روپے میں خریدا گیا ، بعد ازاں یہ کتاب جب مطبع سے طبع ہو کر آئی تو اس کی قیمت صرف دو روپے تھی۔ (  ہفت روزہ الاعتصام (لاہور) :7 مارچ 2003ء)
سندھ کے مشہور عالم دین و محدث شیخ محمد ہاشم ٹھٹھوی کاکتب خانہ جب ان کے اخلاف نے فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو شاہ صاحب نے ہزاروں روپے کے عوض اسے خرید کر کتب خانہ پیر جھنڈا کی زینت بنا یا ۔ شاہ صاحب نے اپنے کاتبین مقرر کر رکھے تھے جن کا کام نادر کتابوں کی کتابت کر کے کتب خانہ پیر جھنڈا کے خزینوں میں اضافہ کر نا تھا ۔
سیّد ابو تراب رشد اللہ کے معاصرین میں ایک جلیل القدر محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی تھے ۔ جو اپنے ذوقِ کتب کی وجہ کر عرب و عجم میں یکساں مقبول تھے اوران کا کتب خانہ نوادرِ علمی کے اعتبار سے ہندوستان بھر میں اپنی امتیازی شان رکھتا تھا ۔ ان کے پاس مصنف ابن ابی شیبہ کا مکمل قلمی نسخہ تھا ۔ جو اس وقت برصغیر میں غالباً واحد مکمل قلمی نسخہ تھا ۔ سیّد ابو تراب اور علامہ شمس الحق دونوں ہی ایک سلسلۂ علم سے مستفید یافتہ تھے ۔ ان کے دونوں کے اساتذئہ گرامی میں سیّد نذیر حسین دہلوی اور شیخ حسین یمانی کے نام مشترک ہیں ۔ دونوں کی ہم ذوقی نے بھی دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب سیّد ابو تراب رشد اللہ کو مصنف ابن ابی شیبہ کے عظیم آبادی نسخے کا علم ہوا تو انہوں نے اس نسخے کی پہلی جلد اپنے لیے کتابت کروائی ۔ کتابت کی خدمت قاضی فتح محمد نظامانی نے انجام دی ۔ سیّد ابو تراب رشد اللہ کے نسخے کے اوّلین صفحے پر یہ عبارت درج ہے :
“ کتبہ العبد الضعیف فتح محمد النظامانی من نسخة ارسلھا المولیٰ ابو الطیب محمد شمس الحق العظیم اٰبادی صاحب غایة المقصود شرح سنن ابی داود وغیرھا فی تاریخ 7 من شہر شعبان المعظم 1317ھ ۔”
سید ابو تراب رشد اللہ نے اپنی متعدد تحریروں میں علامہ شمس الحق کا ذکر کیا ہے ۔ جو افسوس کہ مرحلۂ طباعت سے نہیں گزریں ۔ مستدرک الحاکم کا جو قلمی نسخہ پیر رشد اللہ کے کتب خانے کی زینت ہے اس میں محدث ابو تراب کے قلمی حواشی موجود ہیں ۔ ان میں بھی علامہ عظیم آبادی کا ذکر خیر ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان بزرگوں کے مابین کس درجے کے مخلصانہ علمی روابط ہوں گے ۔
دیار سندھ کے اس جلیل القدر عالم نے نہ صرف یہ کہ خزائن علمیہ کو جمع کیا بلکہ اس کی حفاظت اور مستفدین کے لیے افادے کا بھی انتظام کیا ۔ دور و نزدیک کے تشنگان علم آتے اور اس چشمہ علم سے سیراب ہو تے ۔ مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں :
“ گوٹھ پیر جھنڈا ضلع حیدر آباد میں راشدی طریقے کے پیر صاحب العلم کے پاس علوم دینیہ کا بے نظیر کتب خانہ تھا میں دورانِ مطالعہ وہاں جاتا رہا اور کتابیں مستعار بھی لاتا رہا ، میرے تکمیلِ مطالعہ میں کتب خانے کے فیض کو بڑا دخل تھا ۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا رشید الدین صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوا ، میں نے ان کی کرامتیں دیکھیں ۔ ذکر اسماء الحسنیٰ میں نے انہیں سے سیکھا ۔ وہ دعوت توحید و جہاد کے ایک مجدد تھے ۔ حضرت مولانا ابو تراب رشد اللہ صاحب العلم الرابع سے علمی صحبتیں رہیں ، وہ علم حدیث کے بڑے جید عالم اور صاحبِ تصانیف تھے ۔ “ (بحوالہ مولانا عبید اللہ سندھی از ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری : 56)
مخدوم امیر احمد فرحت فرخ آبادی اپنے مضمون “ سندھ کے دینی کتب خانے “ میں “ کتب خانہ پیر رشد اللہ سندھی “ سے متعلق لکھتے ہیں :
“ یہ کتب خانہ پیر جھنڈو شریف واقع ضلع حیدر آباد میں ہے پیر صاحب نے یہ کتب خانہ چودھویں صدی ہجری کی ابتداء میں قائم کیا تھا ۔ انہوں نے اس کتب خانہ پر بے پناہ روپیہ خرچ کیا لندن کی لائبریری انڈیا آفس سے کتابوں کی فوٹو کاپیاں منگوائیں ۔ ترکی اور مصر کے کتب خانوں سے نایاب کتابوں کی نقلیں اپنے اخراجات پر کاتب بھیج کر کرائیں ۔ قدیم کتب خانے گرانما یہ سر مایہ سے خرید کر شامل کیے اور اس طرح اس کتب خانہ میں نوادرات کا ایک ذخیرہ جمع کیا ۔” (سہ ماہی “ الزبیر “( بہاول پور ) 1967ء: 202) 
سید رشد اللہ سندھی کی وفات کے بعد ان کا بیش قیمت کتب خانہ جو تقریباً 25 ہزار کتب پر مشتمل تھا ان کے دو نوں صاحبزادوں سید ضیاء الدین شاہ اور سید احسان اللہ شاہ میں برابر تقسیم ہو گیا ۔پیر ضیاء الدین شاہ کے صاحبزادے پیر وہب اللہ شاہ نے اپنے حصے میں آنے والی کتابیں 1990ء میں کراچی نیشنل میوزیم کو فروخت کر دی تھیں ۔
اس کے بر عکس سید احسان اللہ شاہ کا کتب خانہ روز افزوں ترقی پذیر رہا ۔انہیں کتابوں کی تلاش و جستجو کا شوق وراثت میں منتقل ہو ا تھا ۔ان کے بعد ان کا کتب خانہ ان کے دونوں صاحبزادوں سید محب اللہ شاہ راشدی اور سید بدیع الدین شاہ راشدی میں تقسیم ہوا ۔ یہ دونوں ہی حامل علم و فضیلت تھے۔ کتابوں سے ان کے بے پناہ شغف نے دونوں حصوں کو عظیم الشان کتب خانے میں بدل دیا ۔گو اب دونوں ہی اپنے خالق کے جوار رحمت میں جا چکے ہیں تاہم ان کا کتب خانہ آج بھی شائقین علم کے لیے استفادے کا اہم مر کز ہے ۔ان کے اخلاف نے شائقین کتب کے لیے اپنے گراں قدر کتب خانے کے فیض کو عام کر رکھا ہے ۔جز اھم اللہ تعالیٰ
کتب خا نہ راشدی کے متعلق حافظ محمد نعیم صاحب (کراچی) کا ایک تفصیلی مضمون  ہفت روزہ الاعتصام ( لاہور) میں طباعت پذیر ہو چکا ہے ، یہ مضمون تین اقساط پر محتوی ہے اور نہایت قیمتی معلومات پر مشتمل ہے ۔ (ملاحظہ ہو :  ہفت روزہ “الاعتصام “:7 مارچ ، 14 مارچ ،21 مارچ 2003ء)
سید ابو تراب رشد اللہ بڑے جری ، بیباک اور حق گو تھے ۔ عقیدہ توحید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر ذرا سی مداہنت برداشت نہیں کر تے تھے ۔آپ کے چچازاد بھائی سید نصر اللہ بن ہدایت اللہ بن محمد ےٰسین راشدی نے وجودی اور ہمہ اوستی مسلک اختیار کر لیا تھا ۔ آپ نے ان کے عقائد ونظریات کی تر دید کی اور ضرورت پڑنے پر ان سے تحریری مناظرہ بھی کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ بالآخر سید نصر اللہ نے سید رشد اللہ کے دلائل و براہین کو درست تسلیم کر کے عقیدہ صحیحہ کی طرف رجوع کر لیا تھا ۔
سید ابو تراب رشد اللہ صاحب قلم بھی تھے ۔آپ نے مختلف علوم و فنون پر سندھی ، اردو ،فارسی اور عربی میں 70 سے زائد کتابیں تصنیف کیں ۔ ان میں سے بیشتر کتابیں شاہ صاحب کے ورثاء کے پاس موجود کتب خانے میں محفوظ ہیں ۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ ہماری آنکھیں ہنوز اس خزینہ علمیہ کے شرف زیارت سے محروم ہیں الا ما شاء اللہ۔ بایں وجہ ان تصنیفات سے مکمل آگاہی بھی نہ ہو سکی ۔ بہر حال حضرت شاہ صاحب ممدوح کی جو تصانیف ہمارے احاطہ علم میں آسکیں ان کا تعارف درج ذیل ہے :
1۔ کشف الستار عن رجال معانی الآثار
علامہ طحاوی کی شرح معانی الآثار کے رجال پر لکھی گئی علامہ بدر الدین عینی کی کتاب “معانی الاخیار فی اسماء رجال معانی الآ ثار “ کا اختصار ہے ۔ دار الاشاعت دیو بند سے 1349ھ میں طبع ہو ئی۔ اس کا قلمی نسخہ 1326ھ کا تحریر کردہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔
2۔ الاعلام برواة الامام
مسند ابی حنیفہ کے ان رجال کے احوال پر مشتمل ہے جن کا “تقریب التہذیب “ میں ذکر نہیں ۔اس کا قلمی نسخہ 1326ھ کا تحریر کردہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔
3۔ تر جمہ تجرید بخاری
علامہ مبارک زبیدی کی “تجرید صحیح بخاری “ کا سندھی تر جمہ ۔ اس کا قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
4۔ سمر آخرت تر جمہ سفر السعادة
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی کی مشہور کتاب “ سفر السعادة “ کا سندھی تر جمہ ۔اس کا قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی کی زینت ہے ۔
5۔ عین المتانة فی تحقیق تکرار الجماعة
یہ کتاب مو لانا رشید احمد گنگوہی کی “الشمس الامعہ فی کراھة الجماعة الثانیہ” کے جواب میں ہے، مصنف نے قرآن حکیم و احادیث و آثار کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ جماعت ثانیہ بلا کراہت جائز و درست ہے ۔یہ کتاب غیر مطبوعہ ہے اور اس پر تکمیل کتاب کی تاریخ 19 ذی الحجہ 1330ھ در ج ہے ۔
6۔ الفارقة بین اہل اللّٰہ و بین المارقة
اس کتاب میں پیر و مرید کے لیے مختلف ہدایات درج ہیں ۔ تعداد صفحات 13، حکیم محمد حنیف ہاشمی کے زیر اہتمام 1331ھ میں طبع ہو ئی ۔
7۔ الاعتناء بمسئلہ الا ستوائ
مسئلہ استواء سے متعلق اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ سلف صالحین کا مسلک درست و صائب ہے اور ابن حجر ہیتمی نے جو کچھ موئولین کی تائید میں لکھا ہے اس کی تر دید کی ہے ۔
8۔ کشف الریب عن مسئلة علم الغیب
کتاب و سنت اور فقہا ئے کرام کی تصریحات سے ثابت کیا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ ہی کی صفت ہے اور صرف وہی ہے جو تمام امور غیب پر مطلع ہے ۔
9۔ الاسماء الحسنیٰ
یہ کتاب سندھی میں ہے اور مدرسہ دارالرشاد ضلع حیدر آباد کے سلسلہ دینیات کی پہلی کتاب ہے ، تعداد صفحات 32، مطبع رفاہ عام سے 1329ھ میں طبع ہو ئی ۔
10۔ ارشادالمریدین و ھدایة المتقین
یہ کتاب بھی سندھی میں ہے تعداد صفحات 88، مطبع رفاہ عام سے طبع ہو ئی ۔
11۔ المعونة الصمدیة فی رد اوھام الھدیة الاسدےة
سید اسد اللہ شاہ ٹکھرائی نے ایک رسالہ انبیائے کرام واولیائے عظام کے لیے علم غیب کے اثبات پر لکھا ہے ۔ یہ کتاب اس کی تردید میں ہے ۔یہ کتاب سندھی میں ہے ۔ 1333ھ کا تحریر کردہ اس کا ایک قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
12۔ تحقیق حدیث انا احمد بلا میم
اس میں مذکورہ روایت کے تمام طرق کو جمع کر کے ان کی سند پر کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ روایت بالکل موضوع ہے ۔
13۔ نشاط الرغبین فی تخریج احادیث صراط الطالبین
سید محمد ےٰسین شاہ راشدی کی کتاب “صراط الطالبین “ میں مذکوراحادیث کی تخریج ہے ۔اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ 1308ھ کا تحریر کردہ نیشنل میوزیم کراچی میں موجود ہے۔ نیز 1365ھ کا کتابت کردہ ایک نسخہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں بھی ہے ۔
14۔ شابیب العسجد فی تخریج احادیث مکاتیب مرشدنا الارشد
سید محمد راشدشاہ کے مکاتیب میں موجود احادیث کی تخریج کی ہے ۔عربی میں ہے ۔ 1300ھ کا تحریر کردہ ایک قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔نیز ایک قلمی نسخہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں بھی ہے ۔ 
15۔ تحقیق حدیث فرق ما بیننا و بین المشرکین العمائم علی القلانس 
اس میں مذکورہ حدیث کی تحقیق وتخریج کی گئی ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ سیّد محب اللہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 18، سن کتابت 1363ھ۔
16۔ درو دعباد الوجود
سید نصر اللہ راشدی کی “ مجمل العلوم “ کے جواب میں ۔
17۔ المجاھدة فی رد مشاھدة الوجود
سید نصر اللہ کی “ مشاہدة الوجود" کی تر دید میں ۔
18۔ فیض الودود اتم من فیض الوجود 
سید نصر اللہ کی “فیض الوجود “ کے رد میں ۔
19۔ درج الدرر فی وضع الیدین فی الصلاة علیٰ الصدر
یہ کتاب عربی میں ہے ، اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا سنت ہے ۔ اس کتاب میں فاضل مولف نے سندھ کے مشہور عالم و محدث مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے فقہی مؤقف کی تردید کی ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ تعداد صفحات 98، سن تالیف 1334ھ ۔
20۔ البقریٰ المصلیٰ الجمعة فی القریٰ
عربی میں ایک رسالہ جمعہ فی القریٰ کے اثبات میں لکھا ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
21۔ تنقید المعقول فی تسوید المجھول
سندھی میں ایک رسالہ جس میں آخرِ وقتِ ظہر کے مسئلے کو رد کیا ہے ۔
22۔ ترجمہ “ حصن حصین “
سندھی میں دعا و اذکار کی مشہور کتاب “ حصن حصین “ کا ترجمہ کیا ہے ۔
23۔ تزدیہ الباب
یہ کتاب فارسی میں ہے ، موضوع کا علم نہ ہو سکا ۔
24۔ التقریر السنی فی تحریر طھارت المنی
عربی میں ہے ، طہارت کے ایک فقہی مسئلے سے متعلق ۔اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ شاہ محب اللہ راشدی میں موجود ہے ، تعدادِ صفحات 24۔
25۔ القول الانور فی حکم لبس الثوب الاحمر
یہ کتاب عربی میں ہے ۔ اس کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ اس پر کتاب کا نام “ جودة النظر فی حکم لبس الاحمر “ درج ہے ۔ تعداد صفحات 11، سن کتابت 1363ھ ۔
26۔ القول الاظھر فی جواز لبس الثوب الاصفر
یہ کتاب بھی عربی زبان میں تحریر فرمائی ہے ۔اس کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ اس پر کتاب کا نام “ رسالة حکم الاسفر فی حکم لبس ثوب الاصفر “ درج ہے ۔ تعداد صفحات 36، سن کتابت 1363ھ ۔
27۔ التقدیر علی جواز لبس المخلوط الغیر الخالص من الحریر
یہ کتاب بھی عربی میں ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ تعداد صفحات 60، سن کتابت 1363ھ ۔ ڈاکٹر صالح محمد بخاری نے اس کتاب کا نام “ الحکم المضبوط فی جواز الحریر المخلوط “تحریر کیا ہے (کلام رشد اللہ :27)۔
28۔ القول الامتن فی حکم التتن الانتن
یہ بھی عربی میں ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ شاہ محب اللہ راشدی میں موجود ہے ، تعدادِ صفحات 74۔
29۔ الخاتمة لفیض الوجود المسماة بالنقض المبنی علی الاجوبة العشرین
یہ کتاب فارسی میں ہے ۔ اس کا قلمی مخطوطہ اب نیشنل میوزیم کراچی کی ملکیت ہے ۔ سن کتابت 1339ھ درج ہے ۔
30۔ الاعلاء فی اجازة صاحب اللوائ
یہ کتاب عربی میں ہے ۔ اس کا قلمی مخطوطہ اب نیشنل میوزیم کراچی کی ملکیت ہے ۔ سن کتابت 1311 ھ درج ہے ۔
31۔ تفسیر پارہ عم
سندھی میں شاہ رشد اللہ نے پارہ عم کی تفسیر لکھی ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
32۔ فضائل ذکر
سندھی میں شاہ رشد اللہ کے ملفوظات ہیں ، جس میں ذکر و اذکار کی اہمیت بیان کی ہے ۔ 1332ھ کا تحریر کردہ اس کا ایک قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
33۔ الاعجوبة المرضیة فی تائید الاجوبة المرضیة
یہ کتاب عربی میں ہے ۔ اس کا ایک قلمی نسخہ نیشنل میوزیم لائبریری کراچی میں موجود ہے ۔
34۔ تنویر القلوب و صراط المطلوب
یہ کتاب سندھی میں ہے ۔ اس کا قلمی مخطوطہ اب نیشنل میوزیم کراچی کی ملکیت ہے ۔
35۔ بیعت نامہ
عربی میں ہے ، غالباً غیر مطبوع ، تعداد صفحات 38۔ قلمی نسخہ مخزونہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی ۔
36۔ العثور علیٰ تحقیق عدم تعیین مدة الصلوٰة علی القبور
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ تعداد صفحات 13۔
37۔ التقدیر المعلی فی ان حدیث افطر الحاجم و المحجوم منسوخ ام لا
اس کا قلمی  نسخہ کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی کی زینت ہے، تعدادِ صفحات 30، سن کتابت 1363ھ۔
38۔ دفع الضنک عن مسئلة الضحک
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 30، سن کتابت 1363ھ ۔
39۔ کشف الحقیقة عن احکام العقیقة
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 183، سن کتابت 1309 ھ، غالباً مولف محترم ہی کا تحریر کردہ ہے ۔
40۔ الحکم التام فی اثبات اسلام ابوی خیر الانام علیہ الصلوٰة و السلام
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ۔ موضوع نام سے ظاہر ہے ۔
41۔ فلق الصباح فی ان الشھادة مشروطة فی النکاح
نکاح کی شرائط سے متعلق ہے ۔ اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 30۔
42۔ رفع الشکوک عن حکم المتروک
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 16۔
43۔ الاجوبة المرضیة عن الاعتراضات الفرضیة
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 64۔
44۔ القریٰ لمن صلی الجمعة فی المدن و القریٰ
اس کا قلمی نسخہ  کتب خانہ پیر محب اللہ شاہ راشدی میں موجود ہے ، تعداد صفحات 168۔
یہ وہ تصانیف ہیں جو ہمارے احاطہ علم میں آسکیں ۔ سید رشد اللہ شاہ کے سندھی کلام کا ایک مجموعہ “کلام سید رشد اللہ شاہ پیر جھنڈے والے “ کے عنوان سے ڈاکٹر صالح محمد شاہ بخاری نے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب سندھی ادبی بورڈ سے 1994ء میں شائع ہوئی ہے ۔
اقلیم سندھ کے اس جلیل القدر محدث ، وسیع النظر محقق اور کثیر المطالعہ عالم نے 6 شعبان 1340 ھ / 23 اپریل 1923 ء کو وفات پائی ۔
سید ابو تراب رشد اللہ شاہ کے دو صاحبزادے تھے ، بڑے صاحبزادے سید ضیاء الدین شاہ 1304ھ میں پیدا ہو ئے انہوں نے علم کی تکمیل “ مدرسہ دار الرشاد “ میں کی، ان کے جلسہ فراغت میں کبار علماء شریک ہو ئے محدث یمن شیخ حسین بن محسن یمانی نے جلسے کی صدارت کی ۔
سید ابو تراب رشد اللہ کے چھوٹے صاحبزادے سید احسان اللہ شاہ المعروف بہ پیر صاحب سنت والے 27 رجب 1313ھ میں پیدا ہو ئے۔ علم کی تکمیل مدرسہ دارالرشاد میں کی ۔کتابوں کے شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے ۔ نادر قلمی کتابوں کے حصول میں ہر دم کوشاں رہتے ۔ محدث خطیب بغدای کی “تاریخ بغداد” خدیومصر کے  کتب خانہ سے بذریعہ فوٹو نقل کروائی تھی ، جس پر ایک سو پائونڈ خرچ ہو اتھا ۔(ملاحظہ ہو :  ہفت روزہ “اہل حدیث “ (امرتسر)  :16 مارچ 1928ء)
علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت زیادہ ساعی تھے ۔علم رجا ل پر خاص نظر تھی ۔ بر صغیر سے باہر کے اہل علم سے بھی کتابوں کے سلسلے میں خط و کتابت رہتی تھی ، سلطان ابن سعود سے بھی خاص تعلق تھا ۔ سید احسان اللہ نے صرف 45 بر س کی عمر میں 15 شعبان 1358ھ / 13 اکتوبر 1938ء کو وفات پائی ۔علامہ سید سلیمان ندوی موصوف سے متعلق اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :
“ علمی حلقوں میں یہ خبر غم و افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ پیر جھنڈا گوٹھ ضلع حیدر آباد سندھ کے مشہور عالم پیر احسان اللہ شاہ جو قلمی کتابوں کے بڑے عاشق تھے ۔ چوالیس 44 برس کی عمر میں 13 اکتوبر 1938ء کو اس دنیا سے چل بسے۔ مرحوم حدیث و رجال کے بڑے عالم تھے۔ ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ مشرق و مغرب ،مصر و شام ، عرب و قسطنطنیہ کے کتب خانوں ان کے کاتب و ناسخ نئی نئی قلمی کتابوں نقل پر مامور رہتے تھے ۔مرحوم ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں اورطریق سلف کے متبع اور علم وعمل دو نوں میں ممتاز تھے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم پر اپنے انوار رحمت کی بارش فر مائے ۔” (یاد رفتگاں : 186)
سید احسان اللہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو صاحبزادے عطا کیے ، یہ دو نوں ہی صاحبزادے اپنے وقت کے مشہور صاحب علم اور جلیل القدر محدث تھے ۔ بڑے صاحبزادے سید محب اللہ راشدی 29 محرم 1340ھ / 12 اکتوبر 1921ء میں پیدا ہو ئے ۔ اکابر اساتذہ میں مولانا عبید اللہ سندھی ، مو لانا ابو محمد عبدالحق بہاول پوری مہاجر مکی ، مولانا شرف الدین دہلوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور سید احسان اللہ شاہ شامل ہیں ۔ سید محب اللہ شاہ کو علم حدیث سے خصوصی لگائو تھا ۔ عربی ، اردو اور سندھی میں 60 سے زیادہ کتابیں تصنیف فر مائیں ۔  موصوف نے 19 شعبان 1415ھ/ 21 جنوری 1995ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ سیّد محب اللہ کے صاحبزادے سیّد محمد قاسم شاہ راشدی اس وقت اپنی خاندانی روایات کے امین موجود ہیں ۔
سید احسان اللہ کے چھوٹے صاحبزادے علامہ بدیع الدین شاہ راشدی 18 ذی الحجہ 1343ھ / 10 جولائی 1924ء کو پیدا ہوئے ۔ اساتذہ علم و عرفان میں مولانا عبد الحق بہاول پوری مہاجر مکی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، سید محب اللہ راشدی ، مو لانا حافظ عبداللہ روپڑی ، مولانا شرف الدین دہلوی ، مولانا عبیداللہ سندھی اور علامہ ابوالوفا ء ثناء اللہ امرتسری شامل ہیں ۔ شاہ بدیع الدین وسیع العلم اور کثیر الافادہ عالم دین تھے ۔ مکہ مکرمہ جیسے بابرکت مقام پر انہیں درس حدیث دینے کا شرف حاصل رہا ۔ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوئے اور مشرق و مغرب کے کئی ممالک کے کامیاب تبلیغی دورے کیے ۔سندھی زبان میں قرآن کریم کی مفصل تفسیر “ بدیع التفاسیر “ لکھی ۔تلامذہ کا ایک بہت بڑا حلقہ ان کے فیض علم سے مستفیض ہو ا ۔ شاہ بدیع الدین نے 8 جنوری 1996ء / 1418ھ کو کراچی میں وفات پائی اور اپنے گائوں نیو سعید آباد میں مدفون ہوئے ۔ اس وقت ان کے جانشین ان کے پوتے سیّد نصرت اللہ شاہ راشدی ہیں ، جو عادات و خصائل کے اعتبار سے اپنے اسلاف کے سچے امین ہیں ۔
حواشی
(1) ڈاکٹر وفا راشدی نے “ تذکرہ علمائے سندھ “ ( ص 97 ) میں پیر رشد اللہ راشدی کو صاحب العلم الثالث لکھا ہے جو کہ درست نہیں ۔
(2) ڈاکٹر وفا راشدی نے “ تذکرہ علمائے سندھ “ ( ص 98 ) میں پیر رشد اللہ راشدی کا سن ولادت 1280ھ بمطابق 1860ء لکھا ہے جو درست نہیں ۔ 1860ء کو ہجری تقویم کے لحاظ سے 1277ھ سن نکلتا ہے ۔
(3) مولانا ابو محمد نظیر حسین المعروف بہ زین العابدین آروی بلند پایہ عالم اور اپنے دور کے مشہور تاجر کتب تھے ۔ سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے شرف تلمذ تھا ۔ طب کی بھی تحصیل کی تھی ۔ چند کتابیں بھی تالیف کیں ۔ افسوس کہ موصوف کے سنین ولادت و وفات سے متعلق آگاہی نہ ہوسکی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے